ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر تکفیری دیوبندیوں کا حملہ اور پاکستانی فوج کا شرمناک کردار
Related post: Taliban’s attack on D.I.Khan prison was not possible without Pakistan army’s connivance
ڈیرہ اسماعیل خان جیل حملہ اور افواج کا کردار: کتیا چوروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے
ایک ایسی جیل جو کہ پولیس لائنز سے 500 میٹر کے فاصلے پر ہے جس میں سینکڑوں مسلحہ پولیس اہلکار اور ایلیٹ فورس کے دستے ہمہ وقت تعینات رہتے ہیں، مزید یہ کہ ڈیرہ اسماعیل خان کینٹ کہ جس سے جیل کے مرکزی گیٹ کا فاصلہ 10 منٹ کی پیدل مسافت کا ہے میں بھی سینکروں آرمی اہلکار جدید اور بھاری اسلحہ سے لیس اور فضایی سپورٹ کے ساتھ تعینات ہیں، جیل کے ارد گرد جا بجاہ پولیس کی چوکیاں اور ناکے ہیں،
اس جیل پہ صرف 100 کے قریب تکفیری دیوبندی دہشتگردوں نے حملہ کیا، حملے کے 30 سے 40 منٹ کے بعد آرمی اور پولیس بھی موقع پر پہنچ گی لیکن جیل کی عمارت سے دور کھڑیں تماشا دیکھتی رہیں، تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے لئے جیل کا مرکزی اندرونی دروازہ اندر کی طرف سے کھولا گیا، حملہ آور اندر داخل ہووے اور میگا فون سے نام لے لے کر اپنے ساتھیوں کو بلانا شروع کیا، 30 کے قریب سزا یافتہ خطرناک مجرم کے جن میں کچھ تحریک طالبان کے کارکن تھے اور بڑی تعداد سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے ان ماسٹر مائنڈس کی تھی جو شیعہ مسلمانو اور محرم اور یوم علی جیسے موقوں پر حملوں میں ملوث تھے(جس سے بات واضح ہے کے حملہ بنیادی طور پر ان کو آزاد کروانے کے لئے تھا) کو آزاد کروایا گیا، . اور ان کو کور مہیا کرنے کے لئے 200 مزید عام قیدیوں کو بھی آزاد کروا کے اپنے ساتھ نکالا، جاتے جاتے حملہ آوروں نے مقامی دہشتگردوں کی مدد سے ڈھونڈ کر اور شناخت کر کے جیل میں 6 شیعہ قیدیوں کو شہید کیا جن میں ایک کو ذبح کیا گیا. اور جاتے ہوے قریبی شیعہ آبادی پر جو جیل سے کافی دور ہے پر 3 میزایل فائر کے جس میں سے 2 پھٹ نہ سکے اور ایک خالی جگا پر گرا.
یہ سب 2 گھنٹوں تک ہوتا رہا، حملہ آور کھلے عام گنجان ترین شہری علاقے میں کشادہ سڑکوں پر اسلح کے ساتھ گھومتے رہے اور آرمی اور پولیس وہاں مسلسل موجود رہیں لیکن کسی قسم کی جوابی کاروایی یا مزاحمت نہ کی اور دہشت گرد سواے 2 خودکش حملہ آوروں کے کسی قسم کا نقصان اٹھاے بنا بڑے آرام اور آزادی سے شہر کے بیچ میں سے ایسی گاڑیوں پر سینکڑوں کی تعداد میں سوار ہو کر نکل گئے جن پر تحریک طالبان کے بڑے بڑے جھنڈے نمایاں تھے.
( تمام تفصیلات عینی شاہدین کے بیانات کے مطابق ہیں)
اس سارے ڈرامے میں ایک بھی تکفیری دیوبندی دہشتگرد یا فوجی قتل نہیں ہوا نہ ہی تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کو لے جانے والی گاڑیوں پر فوج نے کوئی راکٹ فائر کیا
ہوبہو یہی واقعہ بنوں جیل پر حملے میں دہرایا گیا تھا اور کوئٹہ کینٹ کے جس میں پرندہ بھی آرمی کی اجازت کے بنا پر نہیں مارتا کے اندر واقعہ جیل سے لشکر جھنگوی کے بلوچستان کے امیر اور نائب امیر کے “تالہ توڑے بغیر” فرار کی کہانی تو بلوچستان کا بچہ بچہ جانتا ہے جنہوں نے پھر بعد میں جا کر بلوچستان میں شیعہ مسلمانوں پر پچھلے 2 سال سے جاری حملوں کا سلسلہ شروع کیا.
اب اس سب سے بندہ کیا مطلب لے سکتا ہے؟ اس حقیقت کے ہوتے ہوے کہ تکفیری دیوبندی سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کا خالق ضیاء الحق تھا. کیا اب بھی گالی صرف افتخار چوہدری کو پڑے گی کہ وہ تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کو سزایں نہی دیتا؟… حقیقت یہی ہے کہ جس سے لوگ نظریں چراتے ہیں پوری دنیا میں سعودی حمایت یافتہ تکفیری وہابی اور تکفیری دیوبندی بے گناہ سنی صوفی، شیعہ، احمدی، مسیحی، ہندو اور دیگر فرقوں و مذاہب کا قتل کر رہے ہیں پاکستان میں ان انتہا پسند وہابی اور دیوبندی جماعتوں کو پاکستانی فوج افغانستان اور بھارت میں اپنے جہادی گماشتوں کے طور پر استعمال کرتی ہے اور اس پہ بات کرنے والے کو غدار کہتے ہیں کہ پوری اسلامی دنیا سمیت پاکستان وہابی اور تکفیری دیوبندی دہشت گردی کا شکار ہے اور اس میں ہمارے وسایل اور اعتبار کا ناجایز فایدہ اٹھا کر بعض ادارے اور اشخاص اپنے گھناونے مقاصد پورے کر رہے ہیں اور اس طرح سے پاکستان کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں اور جس میں ہمارے سائبر مجاہدین ان کے شانہ بشانہ ہیں جن کے خیال میں ان کا مذہبی عالم ، انکی آرمی سب فرشتے ہیں اور ان سے “نعوزباللہ” غلطی اور گناہ ممکن ہی نہیں ہے.
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے وزیرِ مال علی امین نے کہا ہے کہ سینٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان پر ہونے والا حملہ پہلے سے طے شدہ تھا اور جیل میں موجود لوگوں کو پتہ تھا کہ حملہ آور آنے والے ہیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2013/07/130731_ali_amin_iv_rh.shtml
Summary: Attack on D.I.Khan jail by Deobandi militants of Taliban and Sipah Sahaba. More than 250 terrorists managed to escape in full presence of Army and Police. The main gate of D.I.Khan prison is on 10 minutes walk from the main Gate of Pakistan army cantoment. There were at least 250 cons of Sipah Sahaba (ASWJ-LeJ) and TTP in this jail. All of them were called out by announcing their names on Mega Phones by the Deobandi attackers, identified and taken out with no dificulty.
——-
Faisal Awam Ka: Asma Shirazi – This video shows everyone in DI Khan knew Taliban were doing a jail break. Army, police and govt silently stood by for four hours while Taliban-ASWJ terrorists successfully secured their friends from D.I. Khan jail.
Faisla Awam Ka – 30th July 2013 by zemvideos
Nazir Naji:
http://www.dunya.com.pk/index.php/author/nazeer-naji/2013-08-06/3863/22493131
’حملہ آور آرام سے داخل ہوئے اور پہلے روح افزا پیا‘
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
آخری وقت اشاعت: بدھ 31 جولائ
2013 , 14:45 GMT
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے وزیرِ مال علی امین نے کہا ہے کہ سینٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان پر ہونے والا حملہ پہلے سے طے شدہ تھا اور جیل میں موجود لوگوں کو پتہ تھا کہ حملہ آور آنے والے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جیسے ہی پہلا فائر ہوا جیل میں موجود قیدیوں نے اپنی تیاری شروع کر دی۔
علی امین کے مطابق ’حملہ آور بہت آرام سے جیل میں گھسے، انھوں نے پہلے روح افزا پیا۔ اس کے بعد انھوں نے کچھ لوگوں کو چن چن کر مارا۔‘
وزیرِ مال علی امین نے بدھ کو ڈیرہ اسماعیل خان کے سینٹرل جیل کا دورہ کیا۔
انہوں نے بتایا ’حملہ آوروں کے پاس سپیکر بھی تھے اور وہ سپیکر پر اعلان کر رہے تھے کہ فلاں فلاں باہر آ جائے اور جب ان کے بندے باہر آتے تو حملہ آور انھیں اسلحہ دیتے اور وہ ان کے ساتھ مل جاتے اور یہ کارروائی تین گھنٹوں تک جاری رہی۔‘
علی امین کے مطابق جیل والوں نے شروع میں تھوڑی بہت مزاحمت کی۔ ’لیکن جیل والوں نے بزدلی دکھائی، انھوں نے حملہ آوروں کے خلاف لڑائی نہیں کی بلکہ یہ لوگ ڈر کر چھپ گئے جس کا ثبوت یہ ہے دہشت گردوں نے شروع میں فائرنگ کر کے پولیس کے پانچ افراد کو ہلاک کر دیا۔‘
ان کا کہنا تھا پولیس کا سپاہی، کوئی تھانے کا ایس ایچ او، ڈیس ایس پی سارے کے سارے کہاں تھے کیونکہ دہشت گرد تین گھنٹوں تک جیل میں گھسے رہے اور پھر وہاں سے چلے گئے۔
علی امین نے کہا صوبائی حکومت واقعے کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دے گی کیونکہ یہ سب کے سب سفارش پر بھرتی ہوئے ہیں اور ان کی بھرتی ایم این اے اور ایم پی اے کے کوٹے کے تحت عمل میں آئی اور اسی وجہ سے یہ کام نہیں کر رہے۔ ’یہ لوگ پولیس کی وردی پہنتے ہیں اور عوام کے ٹیکس پر نتخواہ اور مراعات لیتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ جیل والوں نے دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کیا بلکہ یہ لوگ حملے کے وقت نالوں میں گھس گئے اور جوابی فائر بھی نہیں کر رہے تھے۔
ایک سوال کہ انٹیلیجنس اداروں نے جیل انتظامیہ کو اس حملے کی پہلے سے باخبر کر دیا تھا کہ اس طرح کا حملہ ہو سکتا ہے کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ انٹیلیجنس اداروں نے جب یہ خبر دی تو کمشنر نے ایک اجلاس طلب کیا جس میں تمام کمانڈرز موجود تھے۔ ’اس اجلاس کے بعد انھوں نے اگلے دن جیل کو چیک کیا لیکن یہ پتہ نہیں کہ انھوں نے کیا چیک کیا اور کیا اقدامات جاری کیے۔ مگر اس کے باوجود پورا ڈیرہ اسماعیل خان دھماکوں سے گونج رہا تھا۔ ’جیل میں تین گھنٹوں تک دہشت گردوں کی کارروائی جاری رہی۔‘
انھوں نے کہا اس سے پہلے جب بنوں جیل میں حملہ ہوا تو ان کو برطرف کرنے کی بجائے ڈیرہ اسماعیل خان جیل بھیج دیا گیا جس کے بعد انھوں نے یہ کارنامہ انجام دیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/07/130731_dik_ali_amin_interview_rwa.shtml
Audio interview: پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے وزیرِ مال علی امین نے کہا ہے کہ سینٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان پر ہونے والا حملہ پہلے سے طے شدہ تھا اور جیل میں موجود لوگوں کو پتہ تھا کہ حملہ آور آنے والے ہیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2013/07/130731_ali_amin_iv_rh.shtml
I love this comment in article.. Kuttia choroon say mili huey hy…. it says every thing.
propaganda against pakistan
allow talibans also to give their view point. Only then it will give correct analysis and understanding. you have the mike of media and state machinery they have the only option of voilence left to them. You will end nowhere like this.
It is quite incredible that though we are in our late-ish sixties, both our country and its people are still casting about looking for bogeymen and scapegoats and men in black trench-coats out to do the country harm: foreign agents, spies, Mata Haris, you name it.
Just so long as we can deflect attention away from ourselves, the real perpetrators of all that is wrong with us, we are fine, no matter that in the next day or two all our home-spun tales come back to haunt us, making us look like utter fools.
Whether it was the shame and the embarrassment of the attack on GHQ itself; attacks on our ISI’s buses and offices in three (now four, cities); the Parade Lane Mosque massacre; the OBL raid deep into Pakistan; the Mehran Naval Base attack; or the Kamra airbase attack, we always have someone else to blame. We never look within ourselves: no one gets fired, even disciplined.
Take the DI Khan jailbreak about which the K-P government was duly informed a full 24 hours before it happened. The response from the government was zero as could be expected from a stultified bureaucracy, but which has defended itself well by referring to the PTI government not making up its mind whether the TTP is friend or foe.
I must here add that it was astonishing to read the remarks of a minister of the K-P government, Ali Amin Gandapur, actually calling K-P police officers and constables ‘cowards’ who ‘hid in sewers’ as the attack progressed. Could it be that the PTI government’s own policy of making appeasing noises about the terrorists took away whatever remained of the K-P police’s spine?
Kamran Shafi
http://tribune.com.pk/story/585158/we-must-face-our-demons/
Zahida Hina (Express):
31 جولائی کو اس خبر نے ہلا کر رکھ دیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر جدید ترین اسلحے سے مسلح اور نائٹ گاگلز سے لیس دہشت گردوں نے دھاوا بولا اور اپنے ساتھ 248 قیدیوں کو چھڑا کر لے گئے جن میں سے درجنوں نہایت خطرناک تھے۔ بہت کچھ برا بھلا ملک کی خفیہ ایجنسیوں کو کہا گیا جنھوں نے اس حملے کی پیشگی اطلاع خیبرپختونخوا حکومت کو نہیں دی۔ پھر صوبے کے وزیر اعلیٰ کا وہ بیان نظر سے گزرا جس میں انھوں نے ڈیرہ جیل واقعے میں بہت بڑا ہاتھ ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا اور اسے انٹیلی جنس کی کمزوری سے تعبیر کیا۔ انھوں نے کہا کہ جگہ جگہ ناکے لگے ہوئے ہیں تو پھر اتنے لوگ وہاں کیسے پہنچے جو دو سو سے زائد قیدیوں کو چھڑا کر لے گئے۔ انھوں نے کہا کہ اگر محکمہ جیل خانہ جات کو دھمکیوں کا کوئی خط موصول ہوا تھا تو اسے ان کے نوٹس میں لانا چاہیے تھا۔ انھوں نے شکایت کی کہ وفاقی حکومت نے تا حال اس ایشو پر بات کرنے کے لیے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
ان ابتدائی خبروں کے بعد کچھ اور خبریں سامنے آنے لگیں لیکن ان کے تذکرے سے پہلے یہ جان لیجیے کہ 1857کے بعد جب ہندوستان پر ملکہ وکٹوریہ کا راج ہوا تو برطانوی افسروں نے اپنی عملداری کو مستحکم کرنے کے لیے جہاں بہت سے تعمیراتی کام کیے، وہاں دریائے سندھ کے کنارے پر آباد ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک جیل تعمیر کی اور اس میں پتھریلی چٹانوں سے تراش کر بنایا ہوا ایک پیل پیکر دروازہ نصب کرایا۔ دروغ بر گردن راوی، اس کی مضبوطی کے امتحان کے لیے اس پر ایک توپ سے گولے بھی داغے گئے لیکن بارود کی یہ بارش اس سنگی دروازے کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔
اس جیل خانے کا شمار پاکستان کی اہم جیلوں میں ہوتا ہے اور جب سے ملک پر دہشت گردی کا آسیب مسلط ہوا ہے ملک کی دوسری جیلوں کی طرح یہاں بھی درجنوں اہم دہشت گرد قید کیے گئے ہیں۔ بنوں اور سکھرجیل کے واقعات کے بعد 27 جولائی 2013 کو ملکی خفیہ ایجنسی کی طرف سے علاقے کے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ڈی آئی جی پولیس، ڈی پی او اور ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل کے ایس پی کے نام خفیہ خطوط بھیجے گئے جن پر ’’انتہائی اہم‘‘ اور ’’فوری کارروائی کے لیے‘‘ تحریر تھا۔ اس خط میں لکھا گیا تھا کہ ’’ہمیں ذمے دار ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مستقبل قریب میں ڈی آئی خان سینٹرل جیل پر اسی انداز سے حملہ ہونے والا ہے جس طرح بنوں جیل پر ہوا تھا۔ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ان شرپسندوں کے پاس جیل کا نقشہ موجود ہے اور وہ حملے کے لیے علاقے میں پہنچ چکے ہیں۔‘‘
اس خط میں عسکریت پسندوں کے اس گروہ کی بھی نشاندہی کر دی گئی تھی جو یہ کارروائی کرنے والا تھا۔ خفیہ ایجنسی نے یہ بات یقینی بنانے کے لیے کہ یہ اہم ترین خط تمام متعلقہ افسران تک بروقت پہنچ جائے، ان خطوط کو وصول کرنے والے افسران کے دستخط بھی لیے تھے۔ اس کے فوراً بعد نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل اسلام آباد جو کہ وزارت داخلہ کے تحت کام کرتا ہے، اس کی طرف سے 28 جولائی کو ایک خط بھیجا گیا جس پر ’’خفیہ‘‘ ’’اہم ترین‘‘ اور ’’انتباہ نمبر 699‘‘ تحریر تھا۔ اس میں بھی عسکریت پسندوں کے اس گروہ کے نام کی نشان دہی کی گئی تھی جو ڈیرہ جیل پر حملہ کرنے والا تھا اور یہ بھی تحریر تھا کہ یہ گروہ ڈی آئی خان میں داخل ہو چکا ہے۔ عسکریت پسندوں کے متوقع حملے سے آگاہ کرنے والا یہ اہم ترین خط خیبر پختونخوا کے ہوم سیکریٹری پشاور، صوبائی پولیس افسر، ایڈیشنل چیف سیکریٹری فاٹا، آئی جی فرنٹیئر کور، آئی جی جیل خانہ جات کے پی اور کمانڈنٹ فرنٹیئر کانسٹیبلری، کے پی پشاور کو بھیجا گیا۔
اس کے بعد خفیہ ایجنسی کی طرف سے تمام متعلقہ محکموں اور ان میں ذمے دار افراد کے نام ایس ایم ایس بھیجا گیا جس کے بعد سول اور فوجی افسران نے جیل کا دورہ کیا۔ ان لوگوں کو اس بات سے بھی آگاہ کیا گیا کہ یہ حملہ تین اطراف سے کیا جائے گا اس دوران علاقے کی بجلی بھی کاٹ دی جائے گی اور اندھیرے میں کارروائی کرنے کی غرض سے یہ لوگ رات میں دیکھنے والے گاگلز سے لیس ہوں گے۔ ان تمام معلومات سے آگاہ ہونے کے بعد کمشنر اور متعلقہ افسران نے ایک میٹنگ کی، ایک دوسرے کو یہ بتایا کہ انھوں نے جیل کا دورہ کیا ہے اور وہاں تعینات اہلکار اس قسم کے کسی بھی حملے سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔ مشین گنوں سے لیس گاڑیاں اور ایلیٹ پولیس فورس کی گاڑیاں گشت پر ہیں اور جیل کی چھتوں پر گارڈ تعینات کر دیے گئے ہیں۔
تمام ذمے دار افسران مطمئن ہوکر گھروں کو گئے اور خفیہ ایجنسی کی طرف سے بھیجے گئے خطوط کے مطابق حملہ آور ساڑھے گیارہ بجے رات کو بجلی کا ٹاور اڑا کر ڈی آئی خان جیل کے دروازے پر پہنچے تو ہر طرف اندھیرا تھا۔ حملہ آوروں کی آنکھوں پر نائٹ گاگلز تھیں، ہاتھوں میں جدید ترین اسلحہ اور کچھ میگا فون لیے ہوئے تھے۔ درجنوں سے زیادہ موٹر سائیکلوں اور ایک درجن سے زیادہ بڑی گاڑیوں میں سوار عسکریت پسندوں کو زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ ہلکی مشین گنوں سے آراستہ پولیس گاڑیوں اور ایلیٹ فورس کی موبائلوں کو جانے زمین نگل گئی تھی یا سامری جادو گر نے انھیں پھونک مار کر مکھی بنا دیا تھا۔ چند محافظوں نے اپنی خستہ حال بندوقوں سے اس سونامی کو روکنے کی کوشش کی تو وہ قتل ہوئے اور ان میں سے چند کے سر بھی تراش لیے گئے۔
جیل کا ہر دروازہ کھلتا چلا گیا۔ حملہ آور عسکریت پسند جیل میں گشت کرتے رہے۔ میگا فون پر اپنے ساتھیوں کے نام پکارتے رہے اور انھیں اپنی گاڑیوں میں بٹھاتے رہے۔ اور ہاں یہ بات بھی لکھنے کی ہے کہ قیدیوں میں یہ بات دو یا تین دن سے گشت کر رہی تھی کہ ان کے ساتھ قید عسکریت پسندوں کے ساتھی انھیں رہا کرانے کے لیے بس پہنچنے ہی والے ہیں۔ یہ خبریں بھی چھپی نہ رہ سکیں کہ آنے والوں کا استقبال شربت سے کیا گیا اور ان کے لیے جوش و خروش سے نعرے لگائے گئے۔ آنے والے تین گھنٹے تک جیل کے اندر موجود رہے، انھیں کسی طرف سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہو رہا تھا، اس لیے وہ سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو لے کر محفوظ ٹھکانوں کی طرف چلے گئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ان کا مقابلہ کرنے والی فورس 4 گھنٹے بعد وہاں پہنچی۔
کیا خیبر پختوخوا کی شہری اور فوجی انتظامیہ میں دہشت گردوں کی اتنی حمایت موجود ہے کہ جیل کے دروازے آپ سے آپ کھلتے چلے جاتے ہیں، پولیس اور ایلیٹ فورس کی موبائلیں حملے کے آغاز کے ساتھ ہی سلیمانی ٹوپیاں اوڑھ لیتی ہیں اور وہ حملہ جس کی اطلاع تین دن پہلے دی جا چکی تھی اور جس پر اعلیٰ افسران کی آپس میں مشاورت بھی ہو چکی تھی، وہ ہو جاتا ہے اور اس صوبے کے وزیر اعلیٰ ساری ذمے داری وفاقی حکومت اور خفیہ ایجنسیوں کے سر ڈال کر اپنے پیر و مرشد کے حضور پیش ہو جاتے ہیں جو اپنی ناکامیوں کو اعلیٰ ظرفی سے تسلیم کرنے کی بجائے سارا ملبہ ملک کے ایک شریف ترین شخص جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم اور ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے سر ڈالنے کی ریہرسل میں مصروف ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں جو کچھ ہوا اس کے بارے میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک انٹرویو میں کیا غلط کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف وزیر ستان کی طرف سے ایک ہی راستہ آتا ہے جہاں پر قانون نافذ کرنے والوں کی متعدد چوکیاں قائم ہیں۔ عام شہریوں کو وہاں تلاشی کے لیے گھنٹوں روکا جاتا ہے تو پھر نہ جانے یہ حملہ آورکہاں سے جیل تک پہنچ گئے۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر حملے کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جیل پر حملہ روکنے کی ریہرسل بھی کی پھر بھی حملہ آور کامیابی سے اپنی کارروائی کر کے چلے گئے۔
http://www.express.pk/story/157857/
Pakistan Taliban commander uncovers DI Khan jail assault plan
By Tahir KhanPublished: August 4, 2013
Share this articlePrint this page Email
Some 47 senior Taliban commanders freed; 125 TTP men took part in operation. PHOTO: REUTERS/FILE
ISLAMABAD:
A senior Tehreek-e-Taliban Pakistan (TTP) commander on Saturday revealed the details of the brazen attack on Dera Ismail Khan jail earlier this week. Some 254 prisoners escaped from the prison on July 29 when it was attacked by heavily armed Taliban fighters.
“We managed to free 47 senior Taliban leaders,” said the TTP commander, who claimed he was part of attack’s planning phase. They included Abdul Hakeem, Waleed Akbar, Haji Riaz (the TTP president for Dera Ismail Khan), Mansoor and Ahmed Bajauri, and a senior TTP leader from Pishta Kharra area in Peshawar, he added.
“A total of 125 men took part in the operation,” the commander revealed on condition of anonymity.
“The fighters were divided into separate groups, one of whom was reserved for back up… a ten-man group was assigned the task of gathering intelligence, while a group of 25 men, including 18 equipped with night-vision, stormed the jail in the initial phase,” he revealed.
“Another 25 men were deployed outside the jail to guide the prisoners to vehicles and while 25 more were tasked with transporting them out of the city,” he added. A 25-man group was also deployed on the road to respond to any security forces movement and another 25 men were reserved for backup, the commander explained.
According to him, the operation was launched by three groups – the Punjabi Taliban, the Halqa-e-Mehsud and a group from the Mohmand tribal region. He said all three groups arranged the finances for the operation.
Meanwhile, the commander said all the freed TTP men were in safe locations and would resume their routine responsibilities.
Published in The Express Tribune, August 4th, 2013.
http://tribune.com.pk/story/586235/pakistan-taliban-commander-uncovers-di-khan-jail-assault-plan/
Escape from jail: K-P govt wants ‘rogue’ spies smoked out
By Azam KhanPublished: August 4, 2013
Share this articlePrint this page Email
As many as 248 prisoners escaped from the DI Khan jail after the TTP mounted an attack on July 31. PHOTO: REUTERS
ISLAMABAD:
The Khyber-Pakhtunkhwa government has started consultations to investigate possible ‘rogue’ elements who may have facilitated the escape of Tehreek-e-Taliban Pakistan (TTP) spokesman Adnan Rashid – the mastermind behind the recent attack on DI Khan prison – from Bannu jail last year.
Talking to The Express Tribune, a K-P minister said he found it astounding that Rashid was moved from Adiala jail to the comparatively vulnerable Bannu jail just days before the latter was attacked by over 200 TTP militants.
“We want to uncover why our intelligence and law enforcement agencies failed to respond when hundreds of gunmen attacked Bannu jail and freed several top militant commanders, such as Adnan Rashid,” he said.
“We cannot keep our eyes closed… we will have to screen out rogue elements within our intelligence network,” the minister asserted.
On the other hand, the director general of the Inter Services Public Relations, Asim Bajwa, said instead of shifting the blame of jail breaks on to other departments and agencies, the focus should be on improving the security of jails. However, he did not say why Rashid was moved to Bannu jail from Adiala jail.
According to the FIR of the Bannu jailbreak, 384 prisoners escaped from the prison after it was attacked. It stated some of them were ‘most wanted’ criminals. Police sources told The Express Tribune that 20 of the prisoners were on death row and were considered ‘very dangerous’.
K-P police believes the main objective of the attack on the prison was to release Adnan Rashid. Referring to the statements of police officials regarding the Bannu jail attack, the minister said the only question the militants asked upon entering the prison’s premises was “where is Adnan?”
In addition to his role as the TTP’s spokesman, Rashid is also the chief operation commander of its ‘Fidayeen’ unit, which is tasked with carrying out attacks on jails to free the banned outfit’s imprisoned members.
Rashid joined the Pakistan Air Force in 1997 and was subsequently arrested for attempting to assassinate then president Pervez Musharraf on December 14, 2003. Rashid was sentenced to death along with six other PAF officers. After being convicted, Adnan was confined at Adiala jail and briefly Haripur jail, before being transferred to the Bannu Central Jail. The reasons for this decision remains unknown.
Published in The Express Tribune, August 4th, 2013.
http://tribune.com.pk/story/586237/escape-from-jail-k-p-govt-wants-rogue-spies-smoked-out/
ایک عجیب و غریب واقعہ جو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آچکا ہے جہاں پر 150 لوگ چار گھنٹے شہر کے اندر، جیل کے اردگرد باردوی سرنگیں بچھا کر، بڑے ہتھیار سے مسلح ہوکر حملہ آور ہوتے ہيں اور چار گھنٹے جیل کے اندر رہتے ہیں اور چن چن کر اپنے بندوں کو منتخب کرکے فرار کراتے ہیں اور صرف مسلک تشیع سے تعلق رکھنے والوں کو علیحدہ کرکے ذبح کرتے ہیں جن میں ممتاز حسین اور جمعہ خان ملتان کے، اختر حسین، اسلم حسین اور ذوالقرنین شاہ ڈی-آئی-خان کے اور رجب علی پاڑہ-چنار کے قیدی کو ذبح کیا گیا۔ ان چھ افراد کو صرف ان کے مسلک(شیعہ) کی وجہ سے ذبح کردیا گیا ان کا سر جسم سے جدا کردیا گیا اور پھر جیل میں موجود 6 خواتین قیدیوں کو بھی حملہ آور مجرمین اپنے ساتھ لے کر چلے گۓ۔
حیرت اس بات پر ہے کہ کہا جاتا ہے کہ حملہ آور وزیرستان سے آۓ تھے، ڈی آئی خان تا وزیرستان کم و بیش دو گھنٹے کا راستہ ہے اور راستے میں درجن بھر آرمی، ایف-سی، پولیس کے چیک پوائنٹس ہیں جہاں عام مسافر گھنٹوں زحمت برداشت کرتے ہيں لیکن یہ کیسے ہوا کہ رمضان المبارک میں جب لوگ راتوں میں بیدار رہتے ہيں، ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے کہ 150 لوگ اتنے بھاری ہتھیار ساتھ لاتے ہیں، اتنی بڑی کاروائی کرتے ہيں، 250 سے اوپر قیدیوں کو چھڑا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور چار گھنٹے تک کاروائی کرتے ہیں، 60 سے زائد دھماکے کرتے ہیں۔۔۔۔۔ میڈیا براہ راست دکھا رہا تھا کہ فوج اور ديگر اداروں نے گھیرے میں لے لیا تھا لیکن حیرت ہوئی کہ وہ فوج کہاں گئ کہ کسی فوجی، ایف-سی یا پولیس والے کو کوئی نقصان نہ پہنچا مگر 6 بندے ذبح ہوگۓ، اتنی بڑی تعداد میں حملہ آور آۓ اور اس سے بڑی تعداد میں بندوں کو چھڑا کر لے گۓ مگر کسی ایک کی کوئی شناخت وغیرہ کچھ نہیں ہوی اور فوری طور پر کرفیو کا اعلان کردیا گیا۔ بظاہر جو نظر آتا تھا کہ کرفیو کے اعلان کے بعد مجرموں کو پکڑنے میں مدد ملے گی لیکن ہم سمجھتے ہيں کہ کرفیو ان مجرموں کو بحفاظت بھاگنے کا ایک راستہ فراہم کرنا تھا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بڑے جیل میں جہاں تقریبا 5000 قیدی ہیں اور ایک ہفتے پہلے تمام اداروں کو اطلاع تھی بلکہ جزئیات تک کا پتہ تھا کہ حملے کے بعد اندر پہلے لڑائی وغیرہ ہوگی اور قیدی بھی شامل ہونگے اور قیدیوں کو بھی اس کا پتہ تھا، لیکن اب بلیم-گیم شروع ہوچکا ہے، دراصل یہ سب عوام کو بیوقوف بنایا جارہا ہے اور آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ ان اداروں کی جانب سے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹہرانے میں کوئی صداقت نہیں بلکہ یہ سب ملے ہوۓ تھے اور انہوں نے سوچ سمجھ کر یہ کاروائی کروائی ہے جو کہ کسی بڑے واقعے کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔
https://www.facebook.com/samfaroqi/posts/518737724865252