تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کا ڈیرہ اسمعیل خان جیل پر حملہ، 250 خطرناک دہشت گرد فرار، 14 پولیس والے اور 6 شیعہ قیدی شہید
ڈی آئی خان جیل پر دیوبندی دہشت گردوں طالبان اور سپاہ صحابہ کے حملے میں ، 250 خطرناک دہشت گرد فرار – تکفیری دیوبندی دہشت گردوں نے شیعہ قیدی اختر عباس بلوچ کو ذبح کر کے شہید کر دیا
اختر عباس بلوچ کو ایک جھوٹے مقدمے میں سزا ہوئی تھی تاہم خصوصی عدالت کے اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا اور یہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا۔
ذرائع کے مطابق دیوبندی دہشت گردوں نے جیل کی دیواروں کو توڑ کر 300 کے قریب اپنے ساتھیوں کو فرار کرا کے ساتھ لے گئے۔ جس میں شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کرنے والا مجرم ولید دیوبندی بھی شامل تھا۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گردوں کے سنٹرل جیل پر حملے کے بعد5 شیعہ قیدیوں کو چن چن کر شہید کیا گیا۔
شہید ہونے والے شیعہ قیدیوں میں1۔ اختر عباس ڈیرہ اسماعیل خان 2۔ ساجد حسین ملتان 3۔ محمد اسلم ڈی آئی خان جو جیل میں ہی سُنی سے شیعہ میں تبدیل ہو ا تھا اور اختر عباس کے قریبی ساتھیوں میں سے تھا۔ 4۔جمعہ خان ملتان 5۔ ذوالقرنین جو ٹانک کے رہائشی ہیں 6- رجب علی آف پاراچنار ۔ کی میتیں ڈسٹرکٹ ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان میں موجود ہیں۔اس کے علاوہ پاراچنار کے شیعہ قیدیوں کو اغوا کر کے ساتھ لے گئے ہیں۔جبکہ پولیس فورس کے 14 اہلکار بھی جاں بحق ہوئے ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق دہشت گردوں نے بھاری قسم کے ہتھیار استعمال کیے تھے۔دہشتگردوں نے موبائل گاڑیوں کو دستی بموں سے نشانہ بنایا تھا۔ اور اطلاعات کے مطابق سنٹرل جیل کے باہر کئ خودکش گاڑیاں موجود تھیں۔پولیس انتظامیہ کے مطابق سنٹرل جیل میں 5000 قیدی موجود تھے۔ جس میں 250 سے زائد دہشت گرد تنظیم طالبان سے تعلق رکھتے تھے۔حملے کے دوران 60 دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں
اسلام ٹائمز۔ گذشتہ شب ڈی آئی خان جیل پر 200سے زائد طالبان دہشتگردوں کے حملے میں اسیر امامیہ اختر عباس بلوچ بھی شہید ہو گئے۔ اختر عباس بلوچ پر سزا کا حکم تھا، تاہم خصوصی عدالت کے اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا اور یہ کیس سپریم کورٹ میں زیرسماعت تھا۔ سماعت کے دوران اخترعباس بلوچ کے بھائی غضنفر عباس بلوچ پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا۔ پرعزم اور باہمت 27سالہ اخترعباس بلوچ پچپن سے ہی دینی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کا حصہ لیتا تھا۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل کے اندر ایک شیعہ قیدی کا گلا کاٹ کر شہید کیا گیا ہے، صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ جس قیدی کا گلا کاٹا گیا ہے وہ اختر بلوچ ہی تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اختر بلوچ جیل میں نمایاں شیعہ قیدی تھا جو اپنے عقیدے کی وجہ سے معروف تھا، گذشتہ روز حملے میں دہشتگردوں نے جہاں اپنے درجنوں کارندے آزاد کرائے وہیں اس شیعہ قیدی کو بھی شہید کر دیا گیا۔
دیوبندی شدت پسند تنظم تحریک طالبان پاکستان نے سینٹرل جیل پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں دو سو کے قریب ساتھیوں کو رہا کرا لیا ہے تاہم سرکاری طور پر اس دعویٰ کی تصدیق نہیں ہو سکی لیکن سرکاری ذرائع ابلاغ نے سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ دو سو کے قریب قیدیوں کے فرار ہونے کا خدشہ ہے۔
صوبے کے آئی جی جیل خانہ جات خالد عباس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جیل میں تقریباً پانچ سو کے قریب قیدی ہیں جن میں قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے کئی شدت پسند بھی شامل ہیں۔
ڈیرہ اسمعیل خان جیل پر حملے سے خیبر پختونخواہ صوبے میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی حکومت کی کمزوری اور نا اہلی کھل کر وازہ ہو گئی ہے پشاور، کوہاٹ، سوات، پاراچنار اور اب ڈیرہ میں تکفیری دیوبندی دہشت گردی اپنی مرضی سے تخریب کاری کر رہے ہیں لیکن ان کا ہاتھ تھامنے والا اور ان کو سزا دینے والا کوئی نہیں – فوج اور اس کے خفیہ اداروں کی نا اہلی اور بد دیانتی بھی واضح ہے –
گزشتہ سال اپریل میں خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کی سینٹرل جیل پر طالبان نے حملہ کر کے تین سو چوراسی قیدیوں کو رہا کروا لیاتھا، فرار ہونے والے قیدیوں میں زیادہ تر دیوبندی دہشت گرد تھے۔
ڈی آئی خان سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے اسلام ٹائمز کو رابطہ کرنے پر بتایا کہ عجیب صورتحال ہے کہ شہر کے وسط میں واقعہ جیل سے دہشتگرد اپنے تمام ساتھی آزاد کر کے چلتے بنے لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی گرفتار نہ ہوسکا۔ انہوں نے بتایا کہ ستم کی بات تو یہ ہے کہ دہشتگر لاوڈ اسپیکر پر اپنے قیدیوں کے نام لیکر پکارتے رہے کہ رمضان تم باہر آجاو، عمر تم بھی آزاد ہو، ہم تمہاری مدد کو پہنچ چکے ہیں۔ لیکن سیکیورٹی کے ذمہ دار ادارے خواب خرگوش میں سوتے رہے، شب بھر قوم کو بتایا جاتا رہا کہ پاک فوج کے تازہ دم دستے دہشتگردوں کو نکیل ڈالنے کیلئے پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عجب صورتحال ہے کہ دہشتگرد بھاگ گئے لیکن شہر میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کے کمشنر مشتاق جدون نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ’شدت پسندوں کے حملوں کے باعث کُل 243 قیدی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے
کمشنر مشتاق جدون نے بتایا کہ حملے کے باعث جیل سے فرار ہونے والوں قیدیوں میں سے تیس قیدی انتہائی خطرناک قیدی تھے۔ انہوں نے کہا ان تیس قیدیوں میں سے کوئی بھی قیدی دوبارہ گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔
دریں اثناء کالعدم شدت پسند تنظم تحریک طالبان پاکستان نے سینٹرل جیل پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں دو سو کے قریب ساتھیوں کو رہا کرا لیا ہے۔
اس سے قبل سرکاری میڈیا پی ٹی وی کے مطابق ڈی آئی خان کے سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ جیل میں کُل 483 قیدی تھے جن میں سے 243 قیدی فرار ہو گئے ہیں۔
کمشنر مشتاق جدون کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے لاؤڈ سپیکرز پر اپنے ساتھیوں کے نام پکارے۔ مقامی افراد کے مطابق طالبان لاؤڈ سپیکرز پر ’اللہ اکبر‘ اور ’طالبان زندہ باد‘ کے نعرے لگاتے آئے تھے۔ صوبے کے آئی جی جیل خانہ جات خالد عباس نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا جیل میں چالیس انتہائی خطرناک مجرم بھی قید تھے
یاد رہے کہ گذشتہ سال بنوں جیل پر دیوبندی دہشت گردوں طالبان نے حملہ کیا تھا اور اپنے تمام لوگ آزاد کرا گئے تھے لیکن سیکیورٹی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر ایک زخم تک نہیں آیا تھا۔ یہی وجہ بنی دہشتگردوں نے ایک بار پھر خیبرپختونخوا حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے اپنے تمام لوگ آزاد کرا لیے ہیں، لیکن پاک فوج کے جوان ان دہشتگردوں کیخلاف کئی گھنٹے سے جاری آپریشن میں کچھ نہ کر سکے۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں نے ان دعوؤں پر سوال اٹھانا شروع کردیا ہے کہ ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں کیسے ہے؟
۔پولیس وردیوں میں درجنوں دہشت گرد کس طرح جیل تک پہنچے ؟جیل کے اندر سے انہیں کس کس کی مدد حاصل تھی؟آئی جی جیل خانہ جات اس واقعہ کو پہلے دو گھنٹے اتنا آسان کیوں لیتے رہے؟250 سے زائد قیدیوں کو جیل سے فرار ہو کے بھاگنے کے لئے گاڑیاں کہاں سے آئیں ؟ وزیر جیل خانہ جات،اور بات بات پر گڈ گورنسس کا شور مچانے والے وزیراعلیٰ کیوں خاموش ہیں ؟
http://islamtimes.org/vdch66nik23n6v4..l12td4j1cz239.html
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/07/130729_dera_ismail_jail_attack_zz.shtml
http://ur.smnetwork.com.pk/?p=7625
’حملہ آوروں کو ڈی آئی خان، ٹانک میں مدد حاصل ہوگی‘
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی فورسز نے سینٹرل جیل پر حملہ کرنے والے شدت پسندوں کے خلاف کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی کارروائی کے بعد جیل کا کنٹرول دوبارہ سنبھال لیا ہے اور سرچ آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی سے ہماری ساتھی شمائلہ خان سے بات کی
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2013/07/130730_dikhan_attack_rahimullah_rh.shtml
پیر کی رات سوا گیارہ بجے کے قریب سنٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان کونشانہ بنا کرساتھیوں کو چھڑانے والے طالبان کا طریقۂ کار تقریباً وہی تھا جوگذشتہ سال پندرہ اپریل کی رات انہوں نے سینٹرل جیل بنوں پرحملے کے لیے استعمال کیا تھا۔
گذشتہ سال بنوں جیل پر ہونے والا یہ حملہ پاکستان کی تاریخ میں جیل توڑنے کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔
بنوں جیل حملے میں حملہ آوروں نے اپنے ساتھیوں سمیت بہت سارے لوگوں کو رہائی دلوائی تھی
یاد رہے کہ بنوں جیل حملے میں کوئی پولیس اہلکار ہلاک نہیں ہوا تھا تاہم چار اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے حملے میں چھ پولیس اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جبکہ تیرہ افراد زخمی ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ تیرہ زخمی افراد میں سے کتنے پولیس اہلکار ہیں
ذرائع کے مطابق طالبان نے اس حملے میں جن قیدیوں کو رہا کرایا ہے ان میں عبدالحکیم اور حاجی الیاس نامی طالبان کے اہم کمانڈرز کے علاوہ ولید اکبر نامی شدت پسند بھی شامل ہیں۔
ولید اکبر گزشتہ سال ڈیرہ اسماعیل خان میں محرم کے جلوس میں حملے کے مرکزی ملزم تھے اور اس کے علاوہ بھی بہت سارے واقعات میں سزا کاٹ رہے تھے۔
ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ باجوڑ سے تعلق رکھنے والے طالبان کے چند اہم کمانڈر بھی فرار ہونے والوں میں شامل ہیں لیکن تاحال ان کے نام معلوم نہیں ہوسکے ہیں۔
جیل میں جعلی ڈگری کے الزام میں قید کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنما خلیفہ عبدالقیوم کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ تاحال جیل میں موجود ہیں۔
بم ڈسپوزل سکواڈ
بم ڈسپوزل سکواڈ کے انچارچ عنایت ٹائیگر نے بتایا کہ اس حملے میں 30 سے زائد مختلف نوعیت کے دھماکے کیے گئے جس میں چھوٹے اور بڑے آئی عی ڈیز سمیت جی ایل گرینیڈ اور ہینڈ گرینیڈ کے دھماکے بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ پچاس کے قریب آئی عی ڈیز کو ناکارہ بنایا گیا ہے جبکہ پندرہ راکٹ کے گولوں سمیت ایک خود کش جیکٹ بھی ملی ہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/07/130730_bannu_dikhan_jails_rh.shtml
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/07/130730_dikhan_jail_attack_rh.shtml
Deobandi Taliban militants storm Pakistan prison in D.I.Khan, freeing hundreds of ‘dangerous terrorists’
Source: Independent
Deobandi militants of Taliban and Sipah-e-Sahaba (currently operating as Ahle Sunnat Wal Jamaat ASWJ) disguised as police have stormed a prison in Pakistan armed with guns, grenades and bombs, freeing about 250 prisoners.
In the overnight attack on Dera Ismail Khan’s central jail, the Deobandi militants killed six policemen, six Shi’ite inmates and two civilians during the attack late last night, according to the town’s commissioner Mushtaq Jadoon.
Names of Shia Muslims prisoners killed by Deobandi terrorists are as follower: Akhtar Abbas Baloch, Sajid Hussain, ZUlqarnain, Muhammad Aslam, Jummah khan, another (name not known).
One of the Sh’iites was reportedly beheaded in the raid, which has raised serious questions about the Pakistani government’s ability to maintain security.
Deobandi is a semi-Wahhabi cult found in Pakistan, Afghanistan and India, funded heavily by Saudi government and is also used by Pakistan army for Jihadist proxy operations in Afghanistan. Taliban and Sipah Sahaba are Deobandi militant groups.
The Deobandi militants broke open the cells and freed 253 prisoners, including 25 “dangerous terrorists,” he added.
Months after promising peace talks with the insurgents, the prime minister, Nawaz Sharif appears to be accepting that the use of military force may be unavoidable.
Officials said the attack began at around 11.30pm when 70 militants arrived by car and motorcycle, and that the siege lasted four and a half hours until most of the fighters had escaped.
A witness said the raid began with an explosion that rocked nearby houses, as the gunmen blew up an electricity substation to cut power to the prison before militants detonated dozens of smaller bombs at different points along its walls, causing them to collapse.
At least eight attackers disguised in police uniforms entered the prison on motorcycles with Taliban flags as others fired rocket-propelled grenades and threw hand grenades at the building, calling the names of Taliban prisoners through a megaphone.
As the battle continued, gunmen took over a nearby house and hospital, holding the residents hostage as they shot at police from the roof.
A spokesman for the Pakistani Taliban, Shahidullah Shahid Deobandi claimed responsibility for the attack, saying 150 militants took part and around 300 prisoners were freed. Eight of the attackers wore suicide vests, and two detonated their explosives.
The escaped prisoners are thought to have gone to the tribal areas of South and North Waziristan, which are not under the control of Islamabad.
Authorities captured nine prisoners who escaped and were searching for the others, as well as the militants, said Jadoon. Army soldiers were called in as reinforcements.
A curfew has been imposed in Dera Ismail Khan and the nearby town of Tank while the search goes on, said Amir Khattak, Dera Ismail Khan’s deputy commissioner. The town is located near Pakistan’s semiautonomous tribal region, where most Islamist fighters are based.
A senior Taliban official claimed the attack on the prison had been masterminded by Adnan Rashid Deobandi, a Taliban commander who was freed when his prison in the northern town of Bannu was attacked by militants last year. Rashid notoriously wrote a rambling, semi-coherent letter to the schoolgirl Malala Yousafzai, trying to justify the Taliban’s attempted assassination of her.
This is the second major prison break (after Bannu prison break) in Pakistan in last few years. There are increasing questions about Pakistan army and ISI’s clandestine support to Deobandi terrorist of ASWJ and Taliban.
——-
Faisal Awam Ka: Asma Shirazi – This video shows everyone in DI Khan knew Taliban were doing a jail break. Army, police and govt silently stood by for four hours while Taliban-ASWJ terrorists successfully secured their friends from D.I. Khan jail.
Faisla Awam Ka – 30th July 2013 by zemvideos
کسی بھی جیل کے باہر کیمرے اور موبائل جیمرز نہیں
شہزاد ملک
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
آخری وقت اشاعت: منگل 30 جولائ 2013 , 08:17 GMT 13:17 PST
پاکستان میں شدت پسندوں اور کالعدم تنظیموں کی جانب سے جیلوں پر ممکنہ حملوں کو روکنے کے لیے حکومت کی طرف سے دی گئی ہدایات پر پر ایک سال گزر جانے کے باوجود عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے اور ملک کی کسی بھی جیل کے باہر سکیورٹی کیمرے اور موبائل فون جیمرز نہیں لگائے گئے ہیں۔
اپریل سنہ دو ہزار بارہ میں خیبر پختون خوا کے علاقے بنوں کی جیل پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد اُس وقت کی وفاقی حکومت نے چاروں صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ جیل کے باہر سکیورٹی کیمرے لگانے کے علاوہ موبائل فون جیمرز لگائے جائیں تاکہ شدت پسندوں کے حملوں کو روکا جاسکے۔
اس وقت ملک بھر میں جیلوں کی تعداد نواسی ہے جس میں زیادہ تعداد صوبہ پنجاب میں ہے۔ ان جیلوں کے باہر کلوز سرکٹ کیمرے تو لگے ہوئے ہیں لیکن اُن میں سے زیادہ تر کیمرے مرکزی دروازے کے علاوہ قیدیوں سے ملاقات کرنے والے افراد کے علاوہ جیل کے اندر کام کرنے والے قیدیوں کو فوکس کرتے ہیں۔
جیلوں کے باہر لگے ہوئے کیمرے مرکزی دروازے سے ایک سو فٹ کے فاصلے پر ہونے والی کارروائی کو مانیٹر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق شدت پسندوں کے ممکنہ حملوں کے پیش نظر صوبہ خیبر پختون خوا میں میں شدت پسندوں کے خلاف جنگ کے دوران گرفتار ہونے والے شدت پسند اور کالعدم تنظیموں کے اہم رہنماؤں کو پنجاب کی تین جیلوں میں رکھا گیا ہے اور ان شدت پسندوں کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے۔
ان جیلوں میں راولپنڈی، بہاولپور اور فیصل آباد کی جیلیں شامل ہیں۔ ان جیلوں کے اندر اور باہر رینجرز اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی بڑی تعداد میں تعینات ہیں۔
پنجاب کی جیلوں میں
شدت پسندوں کے ممکنہ حملوں کے پیش نظر صوبہ خیبر پختون خوا میں میں شدت پسندوں کے خلاف جنگ کے دوران گرفتار ہونے والے شدت پسند اور کالعدم تنظیموں کے اہم رہنماؤں کو پنجاب کی تین جیلوں میں رکھا گیا ہے اور ان شدت پسندوں کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے۔
اس کے علاوہ ان جیلوں میں بم پروف بنکرز بنانے کے بارے میں بھی احکامات جاری کیے گئے تھے لیکن ابھی تک صرف چار جیلوں میں بنکرز بنائے گئے ہیں۔ ان جیلوں میں سے پنجاب کی دو اور سندھ اور ایک بلوچستان کی جیل شامل ہے۔
اس کے علاوہ شدت پسندوں کے حملوں کی صورت میں صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے جیل کے عملے کو کمانڈو تربیت دینے کا عمل بھی فی الحال سُست روی کا شکار ہے۔ ملک بھر کی مختلف جیلوں کے عملے کو منگلا میں فوجی کمانڈوز مرحلہ وار تربیت دے رہے ہی
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/07/130730_jails_security_rh.shtml
ڈی آئی خان سینٹرل جیل پر 100 سے زائد طالبان دہشتگردوں کا حملہ کئی گھنٹوں تک دہشتگرد لڑتے رہے اور اپنے انتہائی مطلوب دہشتگرد ساتھوں کو فرار کر کے لے گئے ، 5000 قیدیوں والی حساس ترین جیل کی سیکورٹی کے لئے کیا انتظامات تھے ، جبکہ ڈی آئی خان ٹانک اور وزیرستان جیسے علاقوں سے نزدیک ترین ہے جو جنگلیوں سے بھرا پڑا ہے ، اور ہمیشہ کی طرح طالبان دہشتگردوں نے بڑی فخر سے حملے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی ، طالبان دہشتگرد با آسانی وہاں سے اپنے ساتھیوں کو اپنے ہمرا فرار کر لے گئے ۔ اور جاتے جاتے متعدد شیعہ قیدیوں کو شہید اور اغوا کر گئے ،
پولیس وردیوں میں درجنوں دہشت گرد کس طرح جیل تک پہنچے ؟؟
جیل کے اندر سے انہیں کس کس کی مدد حاصل تھی؟؟؟
آئی جی جیل خانہ جات اس واقعہ کو پہلے دو گھنٹے اتنا آسان کیوں لیتے رہے؟
300 سے زائد قیدیوں کو جیل سے فرار ہو کے بھاگنے کے لئے گاڑیاں کہاں سے آئیں ؟؟؟
اس حملے کو سیکورٹی اداروں کی نااہلی سمجھا جائے یا پھر؟؟
https://www.facebook.com/shiakilling3
Dera Ismail Khan : Over 250 Militants Feared Released in ‘Assisted Escape’ Staged as an Attack.
DetailsIn another incident of national shame militants belonging to Tehreek-e-Taliban Pakistan and Lashkar-e-Jhangvi attacked the Central Jail in Dera Ismail Khan with rocket propelled grenades and heavy machine guns close to midnight on monday . The facility is the largest and oldest prison in the restive Khyber Pakhtunkhwah province and was housing nearly 250 militants belonging to LeJ and TTP .
All of them have escaped according to reports as such officially assisted attacks to free prisoners has been used in the past too on regular basis with the recent attack on Bannu jail being a glaring example where several hundred militants were freed in a similar fashion ,to please the global arrogance.
This method is much safer for global arrogance compared to getting the militants acquitted from courts which is a lengthier process on multiple counts .
In the first place ,quick release is secured and on the other hand it ‘lionises’ them by giving an exaggerated account of the capacity /capability of these rogue militias ,something which is the basic reason behind the psychological surrender of the law enforcement and policing.
Such hardened militants are then used as proxies in other projects of global arrogance internationally and locally . Only recently TTP had announced setting up a reconnaisance camp for collaborating with foreign backed insurgents in Syria and with global arrogance suffering intense humiliation ,it is likely that beloved land is again exploited to provide her with the badly needed human resource .
It has also been learnt that the militants also martyred five Shia inmates of the prison before escaping.
http://www.shaheedfoundation.org/foundationnews.asp?id=2137#.UfecUKO30wg.twitter
Shame of Pak Army, do they consider themselve to fight with India. They can’t even fight with Taliban within the country. Or it was a fixed match played by Pak law enforcements and blood thursty animals (talibans). It is just a tip of iceberg. Just wait for days pro-taliban Imran, Jamat-e-Un-Islami and N-League. On top they have female nature Cheif of Army Kyani and Cheif of Unjustice Iftikhar Choudhri. So please do not expect anything good, in few days, it would get worst. Saudi Riyals are in full circulation in the government palaces. May Allah curse on Taliban and them who are supporting them.
’حملہ آور آرام سے داخل ہوئے اور پہلے روح افزا پیا‘
عزیزاللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
آخری وقت اشاعت: بدھ 31 جولائ 2013 , 14:45 GMT 19:45 PST
جیسے ہی پہلا فائر ہوا جیل میں موجود قیدیوں نے اپنی تیاری شروع کر دی: علی امین
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے وزیرِ مال علی امین نے کہا ہے کہ سینٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان پر ہونے والا حملہ پہلے سے طے شدہ تھا اور جیل میں موجود لوگوں کو پتہ تھا کہ حملہ آور آنے والے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جیسے ہی پہلا فائر ہوا جیل میں موجود قیدیوں نے اپنی تیاری شروع کر دی۔
علی امین کے مطابق ’حملہ آور بہت آرام سے جیل میں گھسے، انھوں نے پہلے روح افزا پیا۔ اس کے بعد انھوں نے کچھ لوگوں کو چن چن کر مارا۔‘
وزیرِ مال علی امین نے بدھ کو ڈیرہ اسماعیل خان کے سینٹرل جیل کا دورہ کیا۔
انہوں نے بتایا ’حملہ آوروں کے پاس سپیکر بھی تھے اور وہ سپیکر پر اعلان کر رہے تھے کہ فلاں فلاں باہر آ جائے اور جب ان کے بندے باہر آتے تو حملہ آور انھیں اسلحہ دیتے اور وہ ان کے ساتھ مل جاتے اور یہ کارروائی تین گھنٹوں تک جاری رہی۔‘
“صوبائی حکومت واقعے کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دے گی کیونکہ یہ سب کے سب سفارش پر بھرتی ہوئے ہیں اور ان کی بھرتی ایم این اے اور ایم پی اے کے کوٹے کے تحت عمل میں آئی اور اسی وجہ سے یہ کام نہیں کر رہے۔ ”
وزیرِ مال علی امین
علی امین کے مطابق جیل والوں نے شروع میں تھوڑی بہت مزاحمت کی۔ ’لیکن جیل والوں نے بزدلی دکھائی، انھوں نے حملہ آوروں کے خلاف لڑائی نہیں کی بلکہ یہ لوگ ڈر کر چھپ گئے جس کا ثبوت یہ ہے دہشت گردوں نے شروع میں فائرنگ کر کے پولیس کے پانچ افراد کو ہلاک کر دیا۔‘
ان کا کہنا تھا پولیس کا سپاہی، کوئی تھانے کا ایس ایچ او، ڈیس ایس پی سارے کے سارے کہاں تھے کیونکہ دہشت گرد تین گھنٹوں تک جیل میں گھسے رہے اور پھر وہاں سے چلے گئے۔
علی امین نے کہا صوبائی حکومت واقعے کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دے گی کیونکہ یہ سب کے سب سفارش پر بھرتی ہوئے ہیں اور ان کی بھرتی ایم این اے اور ایم پی اے کے کوٹے کے تحت عمل میں آئی اور اسی وجہ سے یہ کام نہیں کر رہے۔ ’یہ لوگ پولیس کی وردی پہنتے ہیں اور عوام کے ٹیکس پر نتخواہ اور مراعات لیتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ جیل والوں نے دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کیا بلکہ یہ لوگ حملے کے وقت نالوں میں گھس گئے اور جوابی فائر بھی نہیں کر رہے تھے۔
وزیرِ مال علی امین نے بدھ کو ڈیرہ اسماعیل خان کے سینٹرل جیل کا دورہ کیا
ایک سوال کہ انٹیلیجنس اداروں نے جیل انتظامیہ کو اس حملے کی پہلے سے باخبر کر دیا تھا کہ اس طرح کا حملہ ہو سکتا ہے کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ
انٹیلیجنس اداروں نے جب یہ خبر دی تو کمشنر نے ایک اجلاس طلب کیا جس میں تمام کمانڈرز موجود تھے۔
’اس اجلاس کے بعد انھوں نے اگلے دن جیل کو چیک کیا لیکن یہ پتہ نہیں کہ انھوں نے کیا چیک کیا اور کیا اقدامات جاری کیے۔ مگر اس کے باوجود پورا ڈیرہ اسماعیل خان دھماکوں سے گونج رہا تھا۔ ’جیل میں تین گھنٹوں تک دہشت گردوں کی کارروائی جاری رہی۔‘
انھوں نے کہا اس سے پہلے جب بنوں جیل میں حملہ ہوا تو ان کو برطرف کرنے کی بجائے ڈیرہ اسماعیل خان جیل بھیج دیا گیا جس کے بعد انھوں نے یہ کارنامہ انجام دیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/07/130731_dik_ali_amin_interview_rwa.shtml
Audio interview: پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے وزیرِ مال علی امین نے کہا ہے کہ سینٹرل جیل ڈیرہ اسماعیل خان پر ہونے والا حملہ پہلے سے طے شدہ تھا اور جیل میں موجود لوگوں کو پتہ تھا کہ حملہ آور آنے والے ہیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2013/07/130731_ali_amin_iv_rh.shtml
Names of 6 Shias killed by Deobandi terrorist in D.I.Khan Jail:
Sajjad Hussain – Multan,
Juma Khan – Multan,
Akhtar Hussain – D.I.Khan,
M.Aslam Hussain – D.I.Khan,
Zulqrnain Shah – D.I.Khan,
Rajab Ali -Parachinar
Sister Sarah Khan, thanks for your post, it is really heart felt incident. I am not a shia muslim, and it is not about Shia or Sunni it is about human being against animals. It was all pre-planned, Jamat-e-Islami is part of this big game. I.K Khan had so much love for tribles, there you have it. My heart goes out to the families of Shia Muslims who were being killed by these animals.