Hamid Khan: Downfall of the godfather of the Insaf Business Association

Hamid Khan advocate: Godfather of the Insaf Business Association


The notorious role of Hamid Khan Advocate (a vice president of Imran Khan’s Pakistan Tehreek-e-Insaf) in the anti-Asma Jahangir campaign in recent SCBA elections has remained largely ignored in the mainstream media. This is not much different to Hamid Khan’s blackmailing tactics to have his personal loyalists nominated as judges in the Lahore High Court a few months ago which remained ignored by the mainstream media. Because of his mafia style tactics and influence, journalists are usually scared of the ‘godfather’ of the lawyer community.

Hamid Khan is a former President of the Supreme Court Bar Association of Pakistan (2001–2003) and one of the founding partners of Cornelius, Lane and Mufti, a law firm in Pakistan notorious for its dirty business minded approach.

Khan was a junior lawyer in Aitzaz Ahsan’s team to defend the Chief Justice of Pakistan, Mr. Justice Iftikhar Muhammad Chaudhry, when General Pervez Musharraf put forward a reference against the Chief Justice and Chaudhary decided to defend his case in the court.

Hamid Khan along with his political party Pakistan Tehreek-i-Insaf and a group of lawyers known as the Professional Group considerably benefited from the Lawyers’ Movement by exploiting people’s and lawyers’ emotions in the name of justice.

Not unlike his mentor Imran Khan, Hamid Khan is notorious for his links with the establishment including the ISI. Therefore, he nominated Ahmed Awais, a relative of General Hamid Gul, as a candidate for the SCBA President against Asma Jahangir.

Therefore, Asma Jahangir, after her victory in the SCBA elections said that her victory was a loss for yellow journalists of Jang and The News, and a loss for those who are doing a business in the name of insaf (justice), i.e. PTI and Hamid Khan’s professional group.

In the following op-ed, Nazir Naji has discussed the downfall of Hamid Khan without naming him:

تحریک ابھی جاری ہے
سویرے سویرے…نذیر ناجی

خوف کی وہ دبیز تہہ‘ جس کی طرف دیکھنے کی ہمت کسی نے نہیں کی‘ اسے ایک خاتون نے تارتار کر کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا۔

چار سال سے ایک مخصوص گروہ نے ملک کے سب سے زیادہ باشعور اور تعلیم یافتہ طبقے کو یرغمالی بنا رکھا تھا۔ عدلیہ کا خوف اور احترام دونوں ہی لازم ہوتے ہیں۔ لیکن جب مفادات غالب آ جائیں‘ تو اس مقدس ادارے کا نام بھی استعمال ہونے لگتا ہے۔ وکلا چار سال تک اس کا مشاہدہ کرتے رہے۔ آپ کو یاد ہوگا‘ جب ججوں کی بحالی کی تحریک شروع ہوئی‘ تو اس وقت وکلا اور عوام میں ایک سچا جذبہ تھا۔ آمریت کے خلاف عوامی جذبات بھرپور انداز میں سامنے آ گئے تھے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک سفیدپوش طبقہ میدان میں اترا اور عوامی طاقت کو متحرک کر کے‘ آمریت کے بت کو پاش پاش کر دیا۔

مگر اسی تحریک کے دوران چند ایسے افراد جو گروہ بندی میں ماہر تھے‘ اس مخلصانہ تحریک کے فوائد سمیٹنے لگے اور وکلا برادری کی اکثریت محسوس کرنے لگی کہ اس کی تحریک‘ جو عدلیہ کی بحالی اور آزادی کے لئے شروع کی گئی تھی‘ اسے ہائی جیک کر لیا گیااور یہ تصور پیدا ہو گیا کہ نیک نیتی سے شروع کی گئی‘ اس تحریک کے نتائج کو چند افراد نے اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔ وہ مخلص اور کھرے لوگ‘ جنہوں نے اس تحریک میں جان ڈالی تھی‘ ایک ایک کر کے کنارہ کش ہونے لگے۔ علی احمد کرد‘ چودھری اعتزاز احسن‘ منیر ملک‘ جسٹس (ر) طارق محمود‘ اطہر من اللہ غرض وہ تمام وکلا جو اپنے پیشے کی عظمت کے امین تھے‘ بوجھل دل کے ساتھ اپنی تحریک کو مفادات کے حق میں اغوا ہوتے ہوئے دیکھتے رہے۔

ججوں کا وقار اور دبدبہ وکلا برادری کے اعتقاد کا حصہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ عدلیہ کی طاقت ججوں کے احترام اور تقدس میں مضمر ہے۔ اگر جج حضرات کو عام انسانی سطح سے اوپر جا کر احترام نہ دیا جائے‘ تو انصاف کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ جج حضرات کو انتظامیہ کی تمام حیثیتوں سے برتر حیثیت دے کر ہی انصاف کا بول بالا کیا جا سکتا ہے۔

میں نے ہمیشہ لکھا ہے کہ جج دنیاداری سے بے خبر ہوتے ہیں۔ وہ سیاست کے داؤ پیچ بھی نہیں جانتے۔ ان کی دنیا صرف انصاف اور قانون تک محدود ہوتی ہے۔ انصاف کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی اسی حقیقت کی آئینہ دار ہے۔

بدنصیبی سے ایک آمر کے ناعاقبت اندیشی پر مبنی اقدام کی وجہ سے ججوں کی ملازمت اور رتبے کی بحالی کے لئے ایک تحریک چلانا پڑی اور جب وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی تو وکلا برادری ایک ایسا کھیل دیکھنے پر مجبور ہو گئی‘ جو تحریک چلاتے وقت‘ اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔ علی احمد کرد جیسے درویش منش انسان کو بھی کہنا پڑا کہ ”عدالتوں میں فرعون بیٹھے ہیں۔“

عام وکلا عدلیہ کے روایتی تقدس کو برقرار رکھنے کی خاطر لب کشائی سے گریز کرتے رہے لیکن دبی زبان میں ہر کوئی ایک ہی بات کہہ رہا تھا کہ ہم نے عدلیہ کی بحالی کے لئے جو تحریک چلائی تھی‘ اس کی منزل یہ تو نہیں تھی کہ چند افراد کو ان کے پیشے میں اجارہ داری حاصل ہو جائے۔ ججوں کی تقرری کا مرحلہ آیا‘ تو دیکھنے والے حیرت میں ڈوب گئے۔ کسی کو امید ہی نہیں تھی کہ عدلیہ میں اس طرح بھی ہو سکتا ہے۔

کئی ایک چیمبرز کے نام نمایاں ہو کر سامنے آئے ‘ جہاں کام کرنے والوں کے وارے نیارے ہو گئے۔ ایک گروپ کا سربراہ تو نظام انصاف کا گاڈفادر بن کر ابھرا۔ وکلا اس کے نام سے ڈرنے لگے۔ مقدمے لڑنے والوں میں یہ تاثر عام ہو گیا کہ اگر وکالت کے لئے گاڈفادر کی خدمات حاصل نہ کی گئیں‘ تو کامیابی مشکل ہے۔ گاڈفادر کے بارے میں یہ تاثر عام ہو گیا کہ وکلا کی کسی بھی تنظیم کا انتخابی عہدہ حاصل کرنے کے لئے گاڈفادر کی حمایت ناگزیر ہے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ‘ مہذب اور باشعور طبقے میں خوف کی ایسی فضا بہت کم دیکھنے میں آتی ہے‘ جس سے وکلا برادری کو چار سال تک واسطہ رہا۔ یہ لوگ اپنے پیشے کے وقار کی خاطر کچھ کہنے سے گریزاں تھے۔ مگر کہنا ضرور چاہتے تھے۔

اس کاموقع سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات نے فراہم کر دیا اور پاکستان کی سب سے زیادہ اعزازیافتہ خاتون عاصمہ جہانگیر‘ حوصلے اور جرات کی مثال بن کر سامنے آئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے خوف کی چادر کو تارتار کر دیا اور وکلا برادری نئی توانائیوں کے ساتھ متحرک ہو گئی۔ یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وکالت کے پیشے میں چند ایک ممتاز ہستیوں کو چھوڑ کر بیشتر کی نظر ایک ہی عہدے پر ہوتی ہے اور وہ ہے جج بننا اور دوسری جس چیز کی تمام وکلا خواہش کرتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ انصاف کسی آلودگی کے بغیر ملتا رہے۔

مگر جس طرح گزشتہ کچھ دنوں سے جج بنائے گئے اور انصاف دیا جاتا رہا‘ اس کے بارے میں لوگ لب کشائی سے نہ رک سکے۔ الیکشن سے پہلے کئی وکلا کو اس طرح کے جملے بھی سننا پڑے کہ ”آپ کے سوٹ پر شکنیں نہیں ہونا چاہئیں۔ آپ کو جج بننا ہے۔“ معلوم نہیں کتنے لوگوں نے جج بننے کی خاطر اپنے ووٹ کا استعمال کیا؟ اور اکثر وکلا اپنے لئے اسی طرح کا پیشہ وارانہ ماحول چاہتے تھے‘ جو گاڈفادر کے چیمبر سے وابستہ وکلا کو دستیاب ہے۔ ایسی صورتحال میں عاصمہ جہانگیر جیسی خاتون کا امیدوار بننا بڑے حوصلے کا کام تھا۔

عاصمہ جہانگیر کا واحد اثاثہ ان کی وہ شہرت ہے‘ جس کی وجہ سے انہیں پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ وہ کسی مصلحت‘ خوف یا مفاد کے اثر میں نہیں آتیں۔ عاصمہ وہیں ہوتی ہیں‘ جہاں سچ ہو۔ جیلیں‘ تشدد‘ دہشت‘ لالچ اور دھمکیاں اس خاتون کے سامنے ہیچ ہیں۔ وہ ایسی ایسی باتیں کہہ دیتی ہیں‘ جنہیں کچھ لوگ سوچنے سے بھی ڈرتے ہیں۔

شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی تحریکوں میں حصہ لینے والا کوئی پاکستانی عاصمہ جہانگیرکی خوبیوں سے بے خبر نہیں۔ مگر مثالی کردار کی حامل اس خاتون کو بھی گھٹیا الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مذہبی عقائد کونشانہ بنایا گیا۔ان کے خلاف سب سے بڑی تہمت یہ تھی کہ وہ حکومتی امیدوار ہیں۔ جبکہ حقیقت صرف یہ تھی کہ حکومت کے پاس اپنا کوئی امیدوار تھا ہی نہیں۔ وہ صرف وکلا برادری کے گاڈفادر کونیچا دکھانے کی خاطر عاصمہ جہانگیر کی طرف جھکاؤ دکھانے پر مجبور تھی۔

اصل میں حکومت نے ایک طاقتور امیدوار کی حمایت کا تاثر دے کر سیاسی داؤ کھیلا‘ ورنہ کہاں عاصمہ اور کہاں حکومت؟ آپ دیکھ لیں گے کہ آنے والے دنوں میں جہاں سچائی اور انصاف کا سوال اٹھا‘ عاصمہ سب سے پہلے حکومت کے سامنے کھڑی نظر آئیں گی۔ اس خاتون کے خمیر میں مفادپرستی اور سمجھوتے بازی ہے ہی نہیں۔ یہی خوبیاں عاصمہ کی کامیابی کی وجہ بنیں۔ ورنہ جن لوگوں کو علی احمد کرد جیسے درویش نے فرعون کہا تھا‘ ان کے سامنے کھڑے ہونا مشکل تھا۔

عاصمہ کی کامیابی میں وکلا برادری نے مفادپرستی کے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کر دی ہے‘ جو بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا اور قاضی انور اور گاڈفادر کا اتنا دبدبہ تھا کہ لاہور میں کچھ مردے بھی ووٹ ڈال گئے۔عاصمہ کے یہ الفاظ ان کے عزم و ارادے کی ترجمانی کرتے ہیں‘ جو انہوں نے کامیابی کے بعد کہے کہ ”میں نے ان عناصر کو شکست دی ہے‘ جو قانون کی حکمرانی کے نام پر اپنے مفادات حاصل کر رہے تھے۔ “

آنے والے سال میں عاصمہ جہانگیر کا مقابلہ انہی عناصر کے ساتھ رہے گا۔ پاکستان کے نظام انصاف میں گزشتہ چار سال کے دوران یہ عناصر اپنے مفادات کی جڑیں بہت گہری کر چکے ہیں۔ مگر حالیہ انتخابی نتائج سے ظاہر ہو گیا کہ وکلا اپنے پیشے کے وقار اور تقدس کو بحال کرنے کے لئے اسی طرح مخلص اور سرگرم ہیں‘ جیسے وہ عدلیہ کی بحالی کے لئے تھے۔ نیک نیت وکلا کی تحریک آج بھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی‘ جب تک عدلیہ مکمل وقار‘ غیرجانبداری اور ہرطرح کی آزادی کی منزل تک پہنچ کر‘ شخصی اثرات سے آزاد نہیں ہوتی۔

Source: Jang, 30 Oct 2010

Comments

comments

Latest Comments
  1. Sarah Khan
    -
  2. Sarah Khan
    -
  3. Sarah Khan
    -
  4. Sarah Khan
    -
  5. Sarah Khan
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.