Hamid Khan: Downfall of the godfather of the Insaf Business Association
The notorious role of Hamid Khan Advocate (a vice president of Imran Khan’s Pakistan Tehreek-e-Insaf) in the anti-Asma Jahangir campaign in recent SCBA elections has remained largely ignored in the mainstream media. This is not much different to Hamid Khan’s blackmailing tactics to have his personal loyalists nominated as judges in the Lahore High Court a few months ago which remained ignored by the mainstream media. Because of his mafia style tactics and influence, journalists are usually scared of the ‘godfather’ of the lawyer community.
Hamid Khan is a former President of the Supreme Court Bar Association of Pakistan (2001–2003) and one of the founding partners of Cornelius, Lane and Mufti, a law firm in Pakistan notorious for its dirty business minded approach.
Khan was a junior lawyer in Aitzaz Ahsan’s team to defend the Chief Justice of Pakistan, Mr. Justice Iftikhar Muhammad Chaudhry, when General Pervez Musharraf put forward a reference against the Chief Justice and Chaudhary decided to defend his case in the court.
Hamid Khan along with his political party Pakistan Tehreek-i-Insaf and a group of lawyers known as the Professional Group considerably benefited from the Lawyers’ Movement by exploiting people’s and lawyers’ emotions in the name of justice.
Not unlike his mentor Imran Khan, Hamid Khan is notorious for his links with the establishment including the ISI. Therefore, he nominated Ahmed Awais, a relative of General Hamid Gul, as a candidate for the SCBA President against Asma Jahangir.
Therefore, Asma Jahangir, after her victory in the SCBA elections said that her victory was a loss for yellow journalists of Jang and The News, and a loss for those who are doing a business in the name of insaf (justice), i.e. PTI and Hamid Khan’s professional group.
In the following op-ed, Nazir Naji has discussed the downfall of Hamid Khan without naming him:
تحریک ابھی جاری ہے
سویرے سویرے…نذیر ناجی
خوف کی وہ دبیز تہہ‘ جس کی طرف دیکھنے کی ہمت کسی نے نہیں کی‘ اسے ایک خاتون نے تارتار کر کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا۔
چار سال سے ایک مخصوص گروہ نے ملک کے سب سے زیادہ باشعور اور تعلیم یافتہ طبقے کو یرغمالی بنا رکھا تھا۔ عدلیہ کا خوف اور احترام دونوں ہی لازم ہوتے ہیں۔ لیکن جب مفادات غالب آ جائیں‘ تو اس مقدس ادارے کا نام بھی استعمال ہونے لگتا ہے۔ وکلا چار سال تک اس کا مشاہدہ کرتے رہے۔ آپ کو یاد ہوگا‘ جب ججوں کی بحالی کی تحریک شروع ہوئی‘ تو اس وقت وکلا اور عوام میں ایک سچا جذبہ تھا۔ آمریت کے خلاف عوامی جذبات بھرپور انداز میں سامنے آ گئے تھے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک سفیدپوش طبقہ میدان میں اترا اور عوامی طاقت کو متحرک کر کے‘ آمریت کے بت کو پاش پاش کر دیا۔
مگر اسی تحریک کے دوران چند ایسے افراد جو گروہ بندی میں ماہر تھے‘ اس مخلصانہ تحریک کے فوائد سمیٹنے لگے اور وکلا برادری کی اکثریت محسوس کرنے لگی کہ اس کی تحریک‘ جو عدلیہ کی بحالی اور آزادی کے لئے شروع کی گئی تھی‘ اسے ہائی جیک کر لیا گیااور یہ تصور پیدا ہو گیا کہ نیک نیتی سے شروع کی گئی‘ اس تحریک کے نتائج کو چند افراد نے اپنے دامن میں سمیٹ لیا ہے۔ وہ مخلص اور کھرے لوگ‘ جنہوں نے اس تحریک میں جان ڈالی تھی‘ ایک ایک کر کے کنارہ کش ہونے لگے۔ علی احمد کرد‘ چودھری اعتزاز احسن‘ منیر ملک‘ جسٹس (ر) طارق محمود‘ اطہر من اللہ غرض وہ تمام وکلا جو اپنے پیشے کی عظمت کے امین تھے‘ بوجھل دل کے ساتھ اپنی تحریک کو مفادات کے حق میں اغوا ہوتے ہوئے دیکھتے رہے۔
ججوں کا وقار اور دبدبہ وکلا برادری کے اعتقاد کا حصہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ عدلیہ کی طاقت ججوں کے احترام اور تقدس میں مضمر ہے۔ اگر جج حضرات کو عام انسانی سطح سے اوپر جا کر احترام نہ دیا جائے‘ تو انصاف کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔ جج حضرات کو انتظامیہ کی تمام حیثیتوں سے برتر حیثیت دے کر ہی انصاف کا بول بالا کیا جا سکتا ہے۔
میں نے ہمیشہ لکھا ہے کہ جج دنیاداری سے بے خبر ہوتے ہیں۔ وہ سیاست کے داؤ پیچ بھی نہیں جانتے۔ ان کی دنیا صرف انصاف اور قانون تک محدود ہوتی ہے۔ انصاف کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی اسی حقیقت کی آئینہ دار ہے۔
بدنصیبی سے ایک آمر کے ناعاقبت اندیشی پر مبنی اقدام کی وجہ سے ججوں کی ملازمت اور رتبے کی بحالی کے لئے ایک تحریک چلانا پڑی اور جب وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی تو وکلا برادری ایک ایسا کھیل دیکھنے پر مجبور ہو گئی‘ جو تحریک چلاتے وقت‘ اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔ علی احمد کرد جیسے درویش منش انسان کو بھی کہنا پڑا کہ ”عدالتوں میں فرعون بیٹھے ہیں۔“
عام وکلا عدلیہ کے روایتی تقدس کو برقرار رکھنے کی خاطر لب کشائی سے گریز کرتے رہے لیکن دبی زبان میں ہر کوئی ایک ہی بات کہہ رہا تھا کہ ہم نے عدلیہ کی بحالی کے لئے جو تحریک چلائی تھی‘ اس کی منزل یہ تو نہیں تھی کہ چند افراد کو ان کے پیشے میں اجارہ داری حاصل ہو جائے۔ ججوں کی تقرری کا مرحلہ آیا‘ تو دیکھنے والے حیرت میں ڈوب گئے۔ کسی کو امید ہی نہیں تھی کہ عدلیہ میں اس طرح بھی ہو سکتا ہے۔
کئی ایک چیمبرز کے نام نمایاں ہو کر سامنے آئے ‘ جہاں کام کرنے والوں کے وارے نیارے ہو گئے۔ ایک گروپ کا سربراہ تو نظام انصاف کا گاڈفادر بن کر ابھرا۔ وکلا اس کے نام سے ڈرنے لگے۔ مقدمے لڑنے والوں میں یہ تاثر عام ہو گیا کہ اگر وکالت کے لئے گاڈفادر کی خدمات حاصل نہ کی گئیں‘ تو کامیابی مشکل ہے۔ گاڈفادر کے بارے میں یہ تاثر عام ہو گیا کہ وکلا کی کسی بھی تنظیم کا انتخابی عہدہ حاصل کرنے کے لئے گاڈفادر کی حمایت ناگزیر ہے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ‘ مہذب اور باشعور طبقے میں خوف کی ایسی فضا بہت کم دیکھنے میں آتی ہے‘ جس سے وکلا برادری کو چار سال تک واسطہ رہا۔ یہ لوگ اپنے پیشے کے وقار کی خاطر کچھ کہنے سے گریزاں تھے۔ مگر کہنا ضرور چاہتے تھے۔
اس کاموقع سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات نے فراہم کر دیا اور پاکستان کی سب سے زیادہ اعزازیافتہ خاتون عاصمہ جہانگیر‘ حوصلے اور جرات کی مثال بن کر سامنے آئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے خوف کی چادر کو تارتار کر دیا اور وکلا برادری نئی توانائیوں کے ساتھ متحرک ہو گئی۔ یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وکالت کے پیشے میں چند ایک ممتاز ہستیوں کو چھوڑ کر بیشتر کی نظر ایک ہی عہدے پر ہوتی ہے اور وہ ہے جج بننا اور دوسری جس چیز کی تمام وکلا خواہش کرتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ انصاف کسی آلودگی کے بغیر ملتا رہے۔
مگر جس طرح گزشتہ کچھ دنوں سے جج بنائے گئے اور انصاف دیا جاتا رہا‘ اس کے بارے میں لوگ لب کشائی سے نہ رک سکے۔ الیکشن سے پہلے کئی وکلا کو اس طرح کے جملے بھی سننا پڑے کہ ”آپ کے سوٹ پر شکنیں نہیں ہونا چاہئیں۔ آپ کو جج بننا ہے۔“ معلوم نہیں کتنے لوگوں نے جج بننے کی خاطر اپنے ووٹ کا استعمال کیا؟ اور اکثر وکلا اپنے لئے اسی طرح کا پیشہ وارانہ ماحول چاہتے تھے‘ جو گاڈفادر کے چیمبر سے وابستہ وکلا کو دستیاب ہے۔ ایسی صورتحال میں عاصمہ جہانگیر جیسی خاتون کا امیدوار بننا بڑے حوصلے کا کام تھا۔
عاصمہ جہانگیر کا واحد اثاثہ ان کی وہ شہرت ہے‘ جس کی وجہ سے انہیں پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ وہ کسی مصلحت‘ خوف یا مفاد کے اثر میں نہیں آتیں۔ عاصمہ وہیں ہوتی ہیں‘ جہاں سچ ہو۔ جیلیں‘ تشدد‘ دہشت‘ لالچ اور دھمکیاں اس خاتون کے سامنے ہیچ ہیں۔ وہ ایسی ایسی باتیں کہہ دیتی ہیں‘ جنہیں کچھ لوگ سوچنے سے بھی ڈرتے ہیں۔
شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی تحریکوں میں حصہ لینے والا کوئی پاکستانی عاصمہ جہانگیرکی خوبیوں سے بے خبر نہیں۔ مگر مثالی کردار کی حامل اس خاتون کو بھی گھٹیا الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مذہبی عقائد کونشانہ بنایا گیا۔ان کے خلاف سب سے بڑی تہمت یہ تھی کہ وہ حکومتی امیدوار ہیں۔ جبکہ حقیقت صرف یہ تھی کہ حکومت کے پاس اپنا کوئی امیدوار تھا ہی نہیں۔ وہ صرف وکلا برادری کے گاڈفادر کونیچا دکھانے کی خاطر عاصمہ جہانگیر کی طرف جھکاؤ دکھانے پر مجبور تھی۔
اصل میں حکومت نے ایک طاقتور امیدوار کی حمایت کا تاثر دے کر سیاسی داؤ کھیلا‘ ورنہ کہاں عاصمہ اور کہاں حکومت؟ آپ دیکھ لیں گے کہ آنے والے دنوں میں جہاں سچائی اور انصاف کا سوال اٹھا‘ عاصمہ سب سے پہلے حکومت کے سامنے کھڑی نظر آئیں گی۔ اس خاتون کے خمیر میں مفادپرستی اور سمجھوتے بازی ہے ہی نہیں۔ یہی خوبیاں عاصمہ کی کامیابی کی وجہ بنیں۔ ورنہ جن لوگوں کو علی احمد کرد جیسے درویش نے فرعون کہا تھا‘ ان کے سامنے کھڑے ہونا مشکل تھا۔
عاصمہ کی کامیابی میں وکلا برادری نے مفادپرستی کے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کر دی ہے‘ جو بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا اور قاضی انور اور گاڈفادر کا اتنا دبدبہ تھا کہ لاہور میں کچھ مردے بھی ووٹ ڈال گئے۔عاصمہ کے یہ الفاظ ان کے عزم و ارادے کی ترجمانی کرتے ہیں‘ جو انہوں نے کامیابی کے بعد کہے کہ ”میں نے ان عناصر کو شکست دی ہے‘ جو قانون کی حکمرانی کے نام پر اپنے مفادات حاصل کر رہے تھے۔ “
آنے والے سال میں عاصمہ جہانگیر کا مقابلہ انہی عناصر کے ساتھ رہے گا۔ پاکستان کے نظام انصاف میں گزشتہ چار سال کے دوران یہ عناصر اپنے مفادات کی جڑیں بہت گہری کر چکے ہیں۔ مگر حالیہ انتخابی نتائج سے ظاہر ہو گیا کہ وکلا اپنے پیشے کے وقار اور تقدس کو بحال کرنے کے لئے اسی طرح مخلص اور سرگرم ہیں‘ جیسے وہ عدلیہ کی بحالی کے لئے تھے۔ نیک نیت وکلا کی تحریک آج بھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی‘ جب تک عدلیہ مکمل وقار‘ غیرجانبداری اور ہرطرح کی آزادی کی منزل تک پہنچ کر‘ شخصی اثرات سے آزاد نہیں ہوتی۔
Source: Jang, 30 Oct 2010
اگر نواز شریف ملک میں موجود نہ ہوتے، عام انتخابات کا انعقاد نہ ہوتا، پنجاب میں ن لیگ کو انتخابی کامیابی نہ ملتی اور قومی اسمبلی میں ن لیگ کے منتخب ایم این ایز کی بڑی تعداد موجود نہ ہوتی تب نہ لاہور سے کوئی لانگ مارچ شروع ہوتا ، نہ ہی آرمی چیف کو معاملات سلجھانے کیلئے مداخلت کرنا پڑتی۔
بحالی کے گھمنڈ میں یہ عوامل فراموش کر دیئے گئے اور نئی تاویلیں پیش کی جانے لگیں جس میں جمہوریت اور سیاسی عمل کے علاوہ ہر ایرے غیرے کو عدلیہ کی بحالی کا کریڈٹ دیا گیا ۔یہ فرضی پیمانے کئی غیر ضروری سرگرمیوں کی وجہ بن گئے، معمول کی عدالتی سرگرمیاں نظر انداز کرکے ملک کی اصلاح اور سیاسی حلقوں کی صفائی جیسے فرضی مقاصد طے کر لئے گئے۔ایک کے بعد دوسری نئی تمہید، اخبارات کی شہ سرخیاں سیاہ، سیاسی کلاس مکمل بے بس مگر ان سے کچھ خاص حاصل نہ ہوا کیونکہ کئی مشکلات اور اپنی تاریخی نااہلی کی وجہ سے تنہائی کی شکار حکومت اپنی طرف آنے والے ہر پتھر کو واپس دھکیلتی رہی ۔
لارڈ شپ کا بڑھتی گھن گرج کے پیش نظر حکومت نے اپنے قانون دان شاہین بابر اعوان کو ایک نئی ذمہ داری دی۔جب یہ ڈرامہ چل رہا تھا، سپریم کورٹ بار کے صدر قاضی انور نے سیاسی کلاس کو طعن تشنیع کا نشانہ بناتے ہوئے سپریم کورٹ کی مکمل حمایت کر دی۔ سادہ الفاظ میں حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کے درمیان مخاصمت میں وکلاء کا اعلیٰ ترین فورم ایک پارٹی بن گیا۔
اس دوران وکلاء گردی کے بڑھتے واقعات نئی قسم کی پریشان کن صورتحال کا باعث بننے لگے۔ وکلاء کا نچلا طبقہ اپنی نئی مراعات سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہ تھا۔اس صورتحال پراعلیٰ عدلیہ بے بس دکھائی دی کیونکہ جو عناصر بہادری کا مظاہرہ کرنے میں پیش پیش تھے، انہی عناصر کے احسانوں کا بوجھ اعلیٰ عدلیہ کو اپنے کندھوں پر محسوس ہو رہا تھا۔
ان مختلف نوعیت کے واقعات کے پس منظر میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات ہوئے۔ اس انتخاب میں ایک طرف حامد خان کی قیادت میں پروفیشنل گروپ تھا جسے وکلاء برادری میں پاور بروکر کا درجہ حاصل ہے۔ اسی گروپ کو عدلیہ سے قریبی روابط کا اعزاز حاصل ہے۔ مقابلے میں عاصمہ جہانگیر بھی تھیں جو متنازع امور یا سخت مقابلے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹتیں۔ ان کے خلاف منفی مہم بھی چلائی گئی مگر کچھ حاصل نہ ہوا۔
عاصمہ جہانگیر کے حق میں ووٹ دے کر وکلاء نے دراصل اپنے اوپر احسان کیا کہ ان حالات میں عاصمہ جہانگیر کو ووٹ دینے کا مطلب معقولیت، اعتدال پسندی اور ایک مقصد کی حمایت کرنا ہے۔
عدلیہ کی بحالی درحقیقت قانون کی بالادستی کی کامیابی تھی جس کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ یکطرفہ احتساب اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر عدلیہ کو ایک غیرجانبدار ادارے کے طور پر مستحکم بنایا جائے۔
کیا عدلیہ آج اپنے فرائض بہتر انداز میں سرانجام دے رہی ہے؟ کیا ماتحت عدلیہ کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے؟ کیا مقدمات پر جلد فیصلے ہو رہے ہیں؟ کیا عدالتیں کرپشن سے پاک ہو چکی ہیں؟یہ سوالات ہیں جن کے جواب ہر کوئی مانگ رہا ہے۔
اگر اعلیٰ سطحی احتساب کی بات کی جائے تب یہ عمل اپنے گھر سے شروع ہونا چاہئے ۔بحیثیت قوم ہم منافقت کی حد تک خودساختہ سچائی پسند اور دوسروں کی غلطیاں معاف کرنے کے بالکل قائل نہیں جبکہ اپنی خطائیں فراموش کرنے میں سخت انتہا پسند ہیں۔ تھوڑی بہت نرمی اور اعتدال کا مظاہرہ کرکے ہم بہت کچھ بہتر بنا سکتے ہیں۔
ہمیں امید بلکہ یقین ہے کہ عاصمہ جہانگیر بطور صدر سپریم کورٹ بار مثبت روایات قائم کریں گی۔
Ayaz Amir,
Jang 30 Oct 2010
Oct 28: The Pakistan Bar Council nominated on Thursday Dr Khalid Ranjha, a former law minister and PML-Q Senator, as member of the Judicial Commission. The JC is expected to meet for the first time on Saturday. Dr Ranjha’s name was recommended by the PBC after holding a ballot in which he defeated renowned jurist, Fakhruddin G. Ebrahim, by four votes. Eighteen members of the PBC’s executive committee took part in the poll. Dr Ranjha bagged 11 votes and Mr Ebrahim seven. With the nomination of Dr Ranjha the composition of the seven-member JC has been completed. After an interim short order by the Supreme Court on challenges to the 18th Amendment, Chief Justice Iftikhar Mohammad Chaudhry has formed the JC under Article 175-A of the Constitution. It has replaced the old system of appointment of superior court judges.
Dr Ranjha’s name was proposed by Yasin Azad and seconded by Aziz Akbar Beg at a meeting presided over by PBC vice-chairman Kazim Khan.
The name of Mr Ebrahim was proposed by Rasheed A. Razvi, president of the Sindh High Court Bar Association, and seconded by Hamid Khan.
This is the second defeat for the powerful Hamid Khan group in two days. On Wednesday, Asma Jahangir defeated the group’s candidate, Ahmad Awais, in a hotly-contested election to the presidency of the Supreme Court Bar Association. “Mr Ebrahim called me from Karachi soon after the election results were announced to lament why his name was proposed without seeking his consent first,” claimed Tariq Mehmood while talking to Dawn. It was really an embarrassing situation for a towering personality like Mr Ebrahim, he said. Hamid Khan expressed reservations over the nomination of Dr Ranjha.
Bar council elects Khalid Ranjha as JC member By Nasir Iqbal Friday, 29 Oct, 2010 http://news.dawn.com/wps/wcm/connect/dawn-content-library/dawn/the-newspaper/front-page/bar-council-elects-khalid-ranjha-as-jc-member-900
http://criticalppp.com/archives/5867
………
Does anyone know about Hamid Khan’s somersaults regarding the seniority issues. A few years ago, he was a vehement supporter of the seniority principle; and now an opponent. SO much for the insaf of tehreek-e-insaf? Here is a relevant excerpt from Khalid Jawed Khan’s article:
,,,,,,,,,,,,,
As the matter of the non-appointment of a large number of judges in the high courts lay pending before the Supreme Court (SC), the government issued notifications appointing Chief Justice Khawaja Mohammad Sharif of the Lahore High Court (LHC) as a judge of the SC and the LHC’s senior-most judge after him, Justice Mian Saqib Nisar, as acting chief justice of the LHC.
If Chief Justice Khawaja Sharif did not accept this appointment, he would be deemed to have retired from office by virtue of Article 206(2) of the constitution. These appointments were contrary to the recommendations of the chief justice of Pakistan, Iftikhar Chaudhry. The recommendations were conveyed to the government during the consultative process envisaged in Article 177.
The government’s view has been that since the office of a judge was vacant due to the retirement of Justice Khalil Ramday, the senior-most judge of the LHC, i.e. its chief justice, should be elevated to the SC while the next in terms of seniority should be LHC chief justice. The government claims it is adhering to the principle of seniority.
As against this it appears that Justice Chaudhry had recommended the elevation of Justice Saqib Nisar to the SC and the appointment of Justice Khalil Ramday as ad hoc judge of that court. The government conveyed to the chief justice its disagreement with these views. The matter was then reportedly referred back to the government with the chief justice reaffirming his original opinion.
In the light of the SC judgments in the Al Jihad Trust PLD 1996 SC 324, the Supreme Court Bar Association PLD 2002 SC 939 and the Sindh High Court Bar Association PLD 2009 SC 879 cases, read together with Article 260 of the constitution, the legal position that emerges is that the consultative process envisaged for the appointment of judges between the government and the chief justice should be effective, meaningful, purposive and consensus-oriented, leaving no room for complaint of arbitrariness.
On the issue of appointment of the judges to the superior courts the Pakistani chief justice’s recommendation is entitled to be accepted in the absence of very sound reasons forwarded by the executive. The reasons recorded by the executive are justiciable while the opinion of the chief justice of Pakistan is not justiciable. These principles were reaffirmed by a 17-member bench of the Supreme Court in its recent pronouncement on July 31, 2009 reported in PLD 2009 SC 879.
The government’s contention appears to be that it was following the neutral and universally acclaimed principle of seniority and this being a sound and legitimate reason, it was entitled to deviate from the recommendation of the chief justice. Even in the Al Jihad Trust case the SC had observed that the senior-most judge of the high court had a legitimate expectancy to be considered for appointment as the chief justice of the high court.
The principle of seniority was also reaffirmed in the case of Malik Asad Ali PLD 1998 SC 161 where the SC held that in the absence of concrete and valid reasons, the senior-most judge has to be appointed chief justice. Following this principle former Chief Justice Sajjad Ali Shah was even removed from office.
While the SC’s observations in the Al Jihad Trust and Malik Asad cases and the principle of seniority do lend some weight to the government’s views, convention and the subsequent SC judgment in the Supreme Court Bar Association PLD 2002 SC 939 case negate the government’s views. In the Supreme Court Bar Association case, the SC had held that the principle of seniority and legitimate expectancy could not be extended to the appointment of judges of the Supreme Court.
http://www.dawn.com/wps/wcm/connect/dawn-content-library/dawn/the-newspaper/editorial/16-appointment-of-judges-hs-01
Charity begins at home, i.e., at the home of PML-N and PTI (Hamid Khan Group)
The Punjab governor had also informed the president that out of 28 persons, recommended by the LHC CJ, five advocates—Shahid Karim, Mamoon Rashid Sheikh, Waqar Hassan Mir, Ms Gulzar Butt and Mian Mahmood—were directly or indirectly affiliated with the Chamber of LHC CJ Khawaja Mohammad Sharif. Similarly, four advocates, Mian Shahid Iqbal, Mohammad Farrukh Irfan Khan, Shaukat Umar Peerzada and Anwer Bhour, are reported to be closely associated with the Hamid Khan group. Source: The News
http://thenews.com.pk/print3.asp?id=27255
06 جولائی 2010 48 : 14
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان نے کہا ہے لاہور ہائیکورٹ کہ چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا تو وکلاءان کے ساتھ سڑکوں پر نہیں ہوں گے اور انہیں اس ریفرنس کا خود ہی مقابلہ کرنا پڑے گا۔ سماءنیوز سے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کا منصب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کوئی سیاسی بیان جاری کریں۔ چیف جسٹس خواجہ شریف نے پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی بیان جاری کیا اور اقرار کیا ہے کہ ان کے پنجاب کی حکمران جماعت کے سربراہان سے 40 سال سے ذاتی تعلقات ہیں ۔ خواجہ شریف نے ایسا بیان جاری کر کے عدلیہ کی خدمت نہیں بلکہ عدلیہ کو بدنام کیا ہے
http://www.dailypak.com/index.php?pag=detail&id=5694