پنجرے کے پنچھی
طلعت حسین صاحب کا ایک کالم سوشل میڈیا پر بڑا رش لے رہا ہے جس میں انہوں نے خود کو ایک ایسا سورما قرار دیا ہے جس کے بس میں کچھ نہیں ہے. اس تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ غیر ملکی سازشیں عروج پر ہیں اور یہ محب وطن کچھ نہیں کر سکتے. آپ پاکستان کو ایسا کنواں بنوا دیں جس میں نہ کوئی اتر سکے نہ باہر آ سکے، پھر خوش رہئے گا، مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش ہرگز نہ ہو. ممبئی میں بہنے والے خوں ناحق کے دھبے ابھی خشک نہیں ہوئے، کشمیر سے آپ نہیں نکلے، افغانستان ابھی تک آپ کی استعماری سوچ کا ٹارگٹ ہے، دنیا میں جہاں کہیں کوئی تخریب کاری کی سازش پکڑی جاتی ہے، پاکستان کا نام قریب قریب لازمی آتا ہے، اور سازشیں صرف آپ کے خلاف ہو رہی ہیں ؟ اپنا ملک آپ نے انتہا پسندی کی نرسری میں تبدیل کر دیا ہے اور رو رہے ہیں شاہ رخ اور کترینہ کو ؟ ان کے دیکھنے والے تو اب کم ہوتے جا رہے ہیں، نفرت اور انتہا پسندی کے اسیر بڑھ رہے ہیں
.
ہمت ہے تو بولیں امیروں کی نا اہلی اورہوس پر، بات کریں غریب کی مایوس زندگی پر، ساتھ دیں اپنے محنت کشوں اور کسانوں کا. ہم کو بتائیں کہ ایسا کیا ہو رہا ہے کہ ٹھیکیدار امیر سے امیر ہوتے جا رہے ہیں، اور درمیانے تاجر کی زندگی اجیرن ہے ؟ صنعت کار کروڑوں کے نا دہندہ ہیں اور زمیندار کسی کھاتے میں نہیں، وہ ملک و قوم کو کیا واپس دیتے ہیں؟ زمین تو کسی کی نہیں ہے، سب کی ہے ، پھر سب زمین کےمالک کیوں نہیں؟ وہ جو دھرتی کا سینہ کے اناج اگاتے ہیں ان کی زندگیاں آگے کیوں نہیں بڑھتیں؟ جب کبھی بات اصلاحات کی آتی ہے تو ساری اسمبلیوں میں بیٹھنے والے ایک کیوں ہو جاتے ہیں؟ کیا یہ بھی ہندوستانی اور امریکی سازش ہے؟
اسلام آباد کے نائٹ کلبوں کی رونق بھی امریکی اور ہندوستانی بڑھاتے ہیں؟ رات گئے کال سینٹروں کی عمارتوں کے گرد پھیلی چرس کی بدبو بھی دہلی اور واشنگٹن سے آتی ہے؟ ایک طرف وہ ہیں جن کے پہننے کو لباس نہیں، بھوک کے مارے، ناتواں کمزور، ایک ایک دن کے لئے محنت کرتے اور عزت نفس سے محروم نوجوان اور دوسری طرف وہ ہیں جو پاکستان میں رہتے هوئے غیر ملکی تعلیم حاصل کرتے ہیں، جو کروڑوں خرچ کر کے غیر ملکی اداروں سے پڑھ آتے ہیں اور اس محکوم نسل پر حاکم بن جاتے ہیں؟ یہ سب بھی امریکی سازش ہی ہے، ہندوستانی جو اپنی جامعات اور اداروں پر فخر کرتے نہیں تھکتے، وہ ہی تو ہمارے حکمرانوں کی امپورٹ ایکسپورٹ کرتے ہیں. ہمارا فرسودہ نصاب تعلیم بھی ہندوستانی اور امریکی بناتے ہیں، بلکہ وزیر تعلیم اور ان سے نیچے کے تمام اداروں اور عھدوں پر پچھلے پینسٹھ سال سے غیر ملکی ہی قابض ہیں، پاکستانی تو گگو گھوڑے ہیں
.
ہم نے آج تک مزدوروں کو ان کے حقوق نہیں دیے تو یہ بھی غیر ملکی سازش ہے،ہمارے محنت کشوں کی اکثریت آج تک قانونی طور پر محنت کش نہیں کہلاتی اور تمام حقوق سے محروم ہے تو یہ بھی یہودی، نصرانی اور ہندو سازش ہے ، شاہ رخ اور کترینہ یہی تو سکھاتے رہتے ہیں ہر فلم میں. ہمارےسرکاری ہسپتال عبرت کا نمونہ ہیں، یہ تو شاہ رخ کا پسندیدہ ٹارگٹ ہے، سلمان خان خود آ کر ہمارے محکمہ صحت کو ناکارگی کے چنیدہ اصول سکھاتا ہے، ان سب کا خون لوگوں کو ننگے آسمان تلے علاج کے لئے ترستے دیکھ کر بڑھتا ہے، مادھوری ڈیکسٹ یہی دیکھ دیکھ کر تو ناچتی ہے. مگر ہمارے ارباب اقتدار و اختیار تو معصوم ہیں، ان کو تو اپنی ڈائپر بدلنی بھی نہیں آتی، تبھی تو نئی نئی کمسن آیاؤں کی تلاش میں رہتے ہیں
.
ٹام کروز خود آ کر ہمارےہاں مرسڈیز، بی یم ڈبلیو اور پجارو تقسیم کرتا ہے، انجلینا جولی ہی نے تو ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنوائی ہیں، بحریہ ٹاؤں کا آئیڈیا تو کون بنے گا کروڑ پتی میں دیا گیا تھا، امیتابھ بچن اس کے ذمّہ دار ہیں . ہمارے حکمرانوں کے سارے ڈراموں کی ہدایت کاری اسٹیون سپیل برگ کرتا ہے، ہم تو معصوم ہیں. ہم تو بے بس سورما ہیں جن کی تنخواہ لاکھوں میں ہے تو کیا ہوا ؟ کم از کم اسی طرح غریبوں کی فہرست سے کچھ نام کم ہو رہے ہیں، ورنہ امریکیوں اور ہندوستانیوں کا کیا بھروسہ، وہ چاہیں تو ہمارے سارے اخبار اور ٹی وی چینل نئی دہلی منتقل ہو جائیں، ہم تو بے بس پنجرے کے پنچھی ہیں اور بس .
It’s very true, jee-oo BoHat Khoob