عذاب
نوٹ:میں نے کبھی کہانی پلان کرکے نہیں لکھی ہے-کوئی واقعہ میرے تخیل کو مہمیز دیتا ہے اور کہانی مختلف ریشوں سے بنتی چلی جاتی ہے-یہ بھی ایک ایسی ہی کہانی ہے-جس کا سبب اس کے پڑھنے والوں سے چھپا نہیں رہے گا-
(ع۔ح)
ڈپلومیٹک انکلیو اسلام آباد کی طرف جانے والی شٹل سروسز کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں-جہاں سے شٹل چلتی تھیں وہاں پر مرد اور عورتوں کا ایک جم غفیر دیکھنے کو مل رہا تھا-ملک کے دیگر حصوں سے آنے والی بسیں اور گاڑیوں سے اترنے والے مسافروں کی منزل بھی یہی انکلیو تھا-سب یورپی یونین اور امریکہ کے سفارت خانوں تک جانے کی کوشش کررہے تھے-سب کے ہاتھ میں فائیلیں تھیں-اور سب کی کوشش تھی کہ کسی طرح سے وہ اپنی فائیلیں سفارت خانے میں جمع کراڈالیں-سب ڈرے ہوئے،سہمے ہوئے نظر آتے تھے-بہت سے لوگ تو ایسے تھے جن کے اثاثے اس قدر زیادہ تھے کہ ان کو تو مغربی سفارت خانوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا-اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنے پسند کے ملک میں جاکر ٹھہر گئے تھے-
اب تو جو بچے تھے اور اس انکلیو تک رسائی کے لیے کوشاں تھے ان میں شاعر،ادیب،وکیل،ڈاکٹر،استاد،ہنرمند اور چھوٹے موٹے کاروباری تھے-جن کے پاس بھاری بینک اسٹیٹمنٹ نہیں تھی-وہ ان سفارتوں خانوں تک جاکر “سیاسی پناہ گزین “کے لیے درخواست دینے پر مجبور تھے-
کینڈا ،سویڈن ،امریکہ اور برطانیہ کے سفارت خانوں کے سامنے ایک لمبی قطار سخت گرمی میں کھڑی تھی-پسینے سے شرابور مرد ،عورتیں جن کے ساتھ شیر خوار بچے بھی تھے-صبح سے لائن میں لگے ہوئے تھے-جولائی کی سخت گرمی اور سورج ایسے جیسے سوا نیزے پر آگیا ہو-
یہ سب نظارہ کرنے والا جو اس ساری داستان کا راوی بھی ہے کسی کام سے اسلام آباد آیا ہوا تھا-وہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے ڈپلومیٹک انکلیو کا رخ کرنے پر متجسس ہوکر یہاں تک چلا آیا تھا-وہ امریکی سفارت خانے کے سامنے بنی قطار تک جاتا ہے اور قریب ہونے پر اسے نظر آتا ہے کہ سارے چہرے ایسے مرجھائے ہوئے ہیں جیسے انہوں نے اچانک موت کو بھیانک ترین شکل میں دیکھ لیا ہو-سب اس قدر گبھرائے ہوئے لگتے ہیں اور اس قدر وحشت زدہ کہ ہمارے راوی کو ان سے کچھ پوچھنے کی ہمت ہی نہیں پڑتی-ہمارا راوی ایک صحافی رہا ہے وہ اپنی صحافت کے زمانے کی تربیت کو کام میں لاکر امریکی سفارت خانے کے پریس اتاشی تک رسائی حاصل کرتا ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لمبی قطار والے اصل میں پاکستان کی اس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں جن کو ان کے ملک میں بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹا جارہا ہے-اور ان کے لیے ملک کی سرزمین تنگ کردی گئی ہے-یہ سب اللہ کی وسیع زمین میں ہجرت کرنے کے خواہاں ہیں-ان کی نظریں مغرب کی طرف لگی ہیں-جہاں سے ان کو جینے کی مہلت مل جانے کا یقین ہے-
پورے ملک میں آگ اور خون بارش ہورہی تھی-امام بارگاہیں،مساجد،بازار ،اسکول ،کالج،یونیورسٹی ،بازار سب نشانہ بن رہے تھے-مرد،عورتیں،بچے کوئی ایسا ذی شعور نہ تھا جو بم کی زد میں نہ آیا ہو-گولیوں سے اس کا سواگت نہ ہوا ہو-
ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ ایک بازار میدان جنگ بنا تھا اور لوگ ایک دوسرے پر پل پڑے تھے-مارے جانے والوں کے لاشے بچ جانے والے حریفوں کے قبضے میں آئے تو ان حریفوں نے لاشوں کو چیڑ پھاڑ ڈالا اور ان کے کلیجے چبائے-اور تاریخ کے پرانے راکھششوں کے کاسٹیومز پہن کر پرانے المیوں کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی گئی-
ایک اور شہر میں گلیوں اور محلوں میں موجود مساجد کے اندر غیض و غضب کا شکار مولویوں نے اپنے ایک بزرگ سن رسیدہ مفتی کے چہرے پر سیاہی ملی اور اس کو گدھے پر سوار کراکے سارا شہر گھمایا-بزرگ مفتی نے بس اتنا کہا تھا کہ ہسپتالوں،اسکولوں اور خواتین و بچوں پر بارود کا عذاب اتارنے والے مسلمان تو کیا انسان ہی نہیں درندے ہیں-بس پھر کیا تھا کہ لوگ اس مفتی پر پل پڑے اور اسقدر رسوائی کے بعد وہ مفتی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے-
ہمارا راوی کہتا ہے کہ اس نے ایک دیوانگی کی حالت میں پھرنے والے شخص کو دیکھا جو ایک جلے ہوئے ،کھنڈرات بنے شہر میں راکھ کے ایک ڈھیر پر بیٹھے دیکھا-عجب وحشت طاری تھی اس پر-لگتا تھا جیسے ابھی یہ شخص خود بارور بنکر پھٹ پڑے گا-ہمارا راوی اس شخص کے قریب ہوا تو اس کو کہتے ہوئے سنا کہ
بیٹا ہادی تم اور تمہارا بھائی تقی اپنے ناموں کی وجہ سے ہی نہیں مارے گئے بلکہ یہاں تو ابوبکر ،عمر اور عثمان بھی اپنے ناموں کی وجہ سے مارے گئے-میں گلی،گلی،قریہ قریہ کبھی عمر و عثمان کے پاس جاتا اور کبھی علی و حسین کے پاس جاتا تھا-ان سب کو سمجھاتا کہ یہ جو عرب کے پیٹرو ڈالر لیکر عبداللہ کا کاسٹیومز پہن کر بدو آتے ہیں ان کے چوغوں میں صہیونیوں اور انکل سام کے بت چھپے ہوئے ہیں-اور میں نے بہت کہا کہ دیکھو بغدار کے معتصم باللہ کے بیٹے کے ہاتھوں ہمارے کرخ کی تباہی کی سازش پھر سے ہورہی ہے-اور کوئی ابن علقمی پھر انتقام میں اندھا ہوکر ہماری تہذیب کے مرکز کو پھر سے راکھ کا ڈھیر بنانے پر تلا ہوا ہے-ہمیں اپنے دجلہ جیسے دریائے سندھ کو خون سے سرخ ہونے سے اور اپنے فرات جیسے راوی کو کتابوں کی راکھ سے سیاہ ہونے سے بچانے کی کوشش کرنا ہوگی-
میرے بیٹے ہادی تم جو اصغر جیسے بھائی کو بچاتے مارے گئے تو میں نے تمہاری آنکھوں میں جو کرب دیکھا تھا اس کے بعد مجھے مرجانا چاہئیے تھا-لیکن میں نے تو بہت سے معصوم اصغروں کے لاشے ٹکڑوں میں بٹے دیکھے تھے –اس لیے بس ہائے ،وائے کرکے رہ گیا-
میری نہ تو کرخ والوں نے سنی اور نہ ہی محلہ ابی حنیفہ والوں نے-گامے شاہ جانے والے بھی مری بات نہ سمجھے اور شاہ حسین کے دربار پر جانے والے بھی اپنی سماعتوں کو کہیں اور مرکوز کرتے رہے اور اب میں جلے شہر کی راکھ پر بیٹھا ماتم کرتا ہوں-
راوی کہتا ہے کہ اس کو وہ شخص اپنی گفتگو میں کہیں بھی دیوانہ نہیں لگا-
یہ عجب شہر تھے کہ یہاں بے سروسامانی کے عالم میں جو تھے وہ ایک دوسرے کا گلہ کاٹ رہے تھے-جن پر کچھ تا وہ مغربی سفارت خانوں کے سامنے پناہ گزینی کی درخواستیں لیے لائن میں لگے کھڑے تھے-اور جو مالدار تھے جنہوں نے کہیں پیٹرو ڈالرز سے لطف اٹھایا تھا تو کہیں بھاری مشاہرے پر مغرب کی جامعات میں بھاشن گیری کی تھی وہ امریکن ائیر لائنز سے کب کے اڑن چھو ہوگئے تھے-ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی-گلے کاٹے جارہے تھے-کلیجے چبائے جارہے تھے-اور مساجد کے مناروں میں آگ لگي ہوئی تھی-علم عباس گرادیا گیا تھا-کلیسا کے گھنٹے کی سوئی ٹوٹ چکی تھی گویا وقت تھم گیا تھا-مرکز احمدیہ میں ایک باریش آدمی کی لاش پر ایک ننھی لاش پڑی تھی جس کے نازک سے ہاتھ باریش آدمی کے سر پر ایسے رکھے تھے جیسے انگلیاں پھیرتے اچانک ساکت ہوگئے ہوں-قریب ایک اسکول کے باہر عین گیٹ کے سامنے ایک لڑکی کی لاش بنا سر کے پڑی تھی اور اس کے بدن سے لپٹا اس کا بستہ عجب کہانی سنارہا تھا-عین سڑک کے بیچ ایک عورت کی لاش پڑی تھی جس کے پاس ہی ٹفن کھلا پڑا تھا-سالن رس رس کے باہر نکل رہا تھا اور روٹیاں اور بوٹی بکھری ہوئی تھی جس کے قریب بلیاں آنے سے گریزاں تھیں اور دائرہ بناکر عورت کی لاش کے گرد بیٹھی تھیں-ان کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے-جہاں انسان ماتم کرنے اور گریہ کرنے سے گریزاں ہوں وہاں پھر یہ فریضہ جانور سنبھال لیتے ہيں-
Comments
Tags: Fiction
Latest Comments
Heartbreaking.