پاک ایران تعلقات اور نواز حکومت – از انور عباس
پاکستان کے انتخابی نتائج کو ہمارے ہمسایہ ممالک میں بڑی باریک بینی سے دیکھا جا رہا ہے۔خاص طور پر برادر اسلامی ملک ایران میں بڑی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ایران کی قیادت پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے اور اگلے سال افغانستان سے اتحادی افواج کی واپسی کے تناظر میں کی جانے والی منصوبہ بندی کوبڑی اہمیت دے رہی ہے۔ایرانی قیادت کا خیال ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی زرداری حکومت کو ایران کے خلاف منصوبوں میں رکاوٹ اور ایک پرو’’ شیعہ حکومت ‘‘سمجھتے تھے اس لیے انہوں نے ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت پاکستان کے لیے ایک’’ پرو سُنی‘‘ حکومت برسراقتدار لانے کی حکمت عملی تیار کی اور سعودی عرب کی آشیر باد اور یقین دہانیوں سے مو جودہ سیٹ اپ تشکیل دیا ہے۔
ایرانی حکومت کے ہم خیال اور تہران میں برسراقتدار حلقوں کے قریب سمجھے جانے والے سید جواد نقوی کا کہنا ہے کہ امریکی منصوبہ یہ ہے کہ جب ایران میں انتخابات منعقد ہو تو دھاندلی کے شور میں احتجاجی مظاہرے کرائے جائیں اور پاکستان میں ’’سٹور ‘‘ کیے ہوئے طالبان کو نکال کر ایران میں دھکیل دیا جائے اور کہا جائیگا کہ ایرانی عوام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنے ایرانی ایجنٹ علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔
گوکہ ایرانی بندوبست کے تحت ان کو صدارتی انتخابات کے لیے نا اہل قرار دیا جا چکا ہے۔لیکن انتخابات کے بعد دھاندلیوں کے نام پر کیے جانے والے مظاہروں میں یہ اپنا ’’کام‘‘ دکھائیں گے۔ سید جواد نقوی نے دعویٰ کیا ہے کہ شام میں ہونے والے بلوؤں اور مظاہروں میں شام کے عوام شامل نہیں ہیں بلکہ بعض عرب اور دیگر ممالک سے آئے جنگجو وہاں برسر پیکار ہیں۔ اگلے برس امریکی سامراج اور اسکے حواری(اتحادی)افغانستان سے جائیں گے تو طالبان کو افغانستان کی حکومت کے خلاف متحرک کر دیا جائے گا اور سارا الزام ایران کی حکومت پر دھرا جانے کا بھی منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔کہا جائیگا کہ افغانستان کی حکومت کے خلاف طالبان کو ایران کی حمایت حاصل ہے بلکہ یہاں تک کہا جائے گا کہ افغانستان میں ایرانی لوگ مصروف عمل ہیں۔
سیدجواد نقوی کے دلائل سن کر میں تو حیران رہ گیا ہوں۔ ہمارے حکمران اس حد تک بھی چلے جائیں گے؟ پاکستان کے انتخابات میں قائد ملت جعفریہ علامہ ساجد نقوی کی جانب سے پیپلز پارٹی کی حمایت کا نجی ٹیلی ویژن پراشتہار دیکھ کر مجھے بہت حیرانی ہوئی۔کیونکہ قائد ملت جعفریہ علامہ ساجد نقوی کا پیپلز پارٹی سے دور و نزدیک کا بھی کوئی تعلق اور واسطہ نہیں تھا۔علامہ ساجد نقوی تو 2002 سے متحدہ مجلس عمل کے ساتھ اتحاد کے بندھن میں بندھے چلے آ رہے ہیں اور وہ ملی یکجہتی کونسل میں بھی جماعت اسلامی کی قیادت میں تشریف فرما ہیں۔
انہیں جماعت اسلامی کی حمایت کرنی چاہئے تھی نہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا۔۔۔اب حالات کے تیور دیکھتے ہوئے مجھے ساری بات سمجھ آگئی ہے ۔اور اس راز سے بھی پردہ اٹھ گیا ہے کہ علامہ ساجد نقوی جیسے پرہیزگار انسان کی جانب سے پیپلز پارٹی جیسی بری ( ناقدین کی نظر میں) جماعت کی حمایت کیونکر کی گئی ۔ایک ذ مہ دار ذریعہ کے مطابق علامہ ساجد نقوی کی جانب سے پیپلز پارٹی کی حمایت کے فیصلے کے پس پردہ ایرانی حکومت کی یہ خواہش تھی کہ پاکستان میں موجودہ سیٹ اپ کو برقرار رہنا چاہئے۔
ایرانی حکومت کو یقین کامل تھا کہ پاکستان کے انتخابات میں امریکہ اور سعودی عرب مل کر ایسی حکومت برسر اقتدار لانے کے لیے کام کر رہے ہیں جو ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں ان سے مکمل تعاون کرے۔ ایرانی قیادت کو خدشہ لا حق تھا اور ہے کہ پیپلز پارٹی کے علاوہ جس جماعت کی بھی حکومت قائم ہو وہ ایران کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنے گی۔ اس کی بڑی وجہ صدر آصف علی زرداری کی جانب سے ایران کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط سعودی عرب اور امریکہ کو قطعی طور پر پسند نہ تھے اور انہوں نے متعدد بار اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ایران کے ان خدشات کو تقویت اور موٗقف کی تصدیق اس وقت ہوگئی جب میاں نواز شریف کی جانب سے پاک ایران گیس پائپ لائین منصوبے کے معاہدے کااز سرنو جائزہ لینے کی خبریں میڈیا کی زینت بنیں۔
مسلم لیگ نواز کی قیادت کی جانب سے میڈیا کی زینت بننے والی ان خبروں پر ’’مسلم خاموشی‘‘ اوپر بیان کردہ واقعات اور خدشات کے درست ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں۔ایرانی موٗقف کو تقویت اس لیے بھی مل رہی ہے کہ مسلم لیگ نواز کی قیادت نے جس طرح بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے کے بارے میں اپنی پالیسی بیان کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے اورایران کے بارے مکمل خاموشی سے حالات دن بہ دن گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔مسلم لیگ کی قیادت کو اس بات کا خیال رکھنا لازمی ہوگا کہ بہرحال ہمسائے ہمسائے ہوتے ہیں۔بھارت کے ساتھ تو ہماری جنگیں ہو چکی ہیں لیکن ایران کے بارڈر سے ہمیں کبھی کسی بھی قسم کا مسلٗہ نہیں ہوا۔
رشتہ داریاں قائم ہونا الگ موضوع ہے ۔ہزاروں میل دور بسنے والے رشتہ داروں کی نسبت پڑوسی انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔رشتہ دار تو بعد میں آکر ہماری غمی خوشی میں شریک ہوتے ہیں مگر ہمسائے سب سے پہلے ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔
ایران پاکستان کا فطری اتحادی ہے اس لئے مسلم لیگ (نواز ) کو ایران جیسے فطری اتحادی اور ہر آزمائش میں پورا اُترنے والے دوست ملک کے خلاف کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔
مسلم لیگ نواز کی قیادت کو ایک بات ذہن میں بٹھا لینا ہوگی کہ ایران کے اندر خون اور آگ کا کھیل کھیلنے کے امریکی منصوبے میں شمولیت اختیار کرنے سے ایران میں لگنے والی آگ کی تپش سے ہم پاکستانی بھی محفوظ نہ رہ سکیں گے اور اس کے کچھ نہ کچھ اثرات پاکستان پر ضرور مرتب ہوں گے۔لٰہذا مسلم لیگ نواز خصوصا میاں نواز شریف کو ہر اس منصوبے سے دور رہ کر حق حکمرانی’’ انجوائے‘‘ کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی خدمت کرنی چاہئے ۔
انور عباس انور سینئر صحافی ہیں اور اپنے بے لاگ تبصروں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
Source :
http://www.topstoryonline.com/anwar-abbas-anwar-column-130601