امتحان حال سے براہ راست – از شاہد شاہ

Cheating-in-Exams

گریجویشن کے امتحانات سے ابھی فارغ ہی ہوا تھا،سوچا چند دن آرام ہی کرلوں،مگر میرے انتہائی قریبی دوست سے میرا چین برداشت نہ ہوا اور آ پہنچا ایک اور امتحان لے کر ،اس بار کا امتحان پہلے سے بہت مختلف تھا،مجھے تیاری کے لیئے ساری ساری رات دیر تک پڑھنے کی زحمت نہیں کرنی ھوتی تھی،نہ ہی وہ تذبذب کا شکار ہونا کہ آخری لمحوں میں سمجھ تو کچھ آ نہیں رہا پھر رٹا ہی مار لوں اور کیا؟۔۔

اور ایک بار پھر اگلے امتحان میں شروع سے پڑھنے کا عہد نما دلاسہ دینے کی تکلیف بھی نہیں کرنی تھی۔ خیر یہ امتحان اتنا آسان بھی نہ تھا،در حقیقت میرا موصوف دوست ریاضی میں کمزور سے بھی کمزور ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ جناب ابھی تک ایف۔ایس۔سی کے امتحآن میں ہی اٹکے ہوئے ہیں اور مجھے کل کے میتھس کے پیپر کے لیئے تیار رہنے کو کہہ دیا،ایک لمحے کو تو گھبرا گیا کہ تمھارا پیپرمیں بھلا کیسے دے سکتا ہوں پکڑے گئے تو؟ دوست،سیانی ہنسی ہنس کر بتاتا ہے کہ اس کا بندوبست بھی ہوچکا ہے،پرنسپل صاحب ابو کے اچھے دوست ہیں اور انویجیلیٹر تو اپنا ہی کلاس فیلو تھا،یاد نہیں وہ چوہدری صاحب کا بیٹا،فرخ۔

فرخ کا یاد آتے ہی میں حیران رہے گیا کہ وہ آخرکالج کا لیکچرار کس اہلیت پر بن گیا ،نالائق کو نام تک تو لکھنا آتا نہیں تھا پھر کیسے ٹیسٹ پاس کیئے اور انٹرویو بھی کلیئر کر گیا۔کمال ہے۔ لیکن جب چوہدری صاحب کے اثرورسوخ کے قصے یاد آگئے اور میں اس موضوع پر سوچ کر خود کو پریشان کرنے کے بجائے دوست کو ٹالتے ہوئے کہا کہ جناب کافی سال پہلے پڑھا ہوا سبجیکٹ کا پیپر میں نہیں دے سکتا اور تیاری کے لئے زیادہ وقت بھی تو نہیں،موصوف نے بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بیان کر دیا کہ اسکی تیاری بھی وہ کر چکا ہے، بس مجھے جلدی سونا ہے تا کہ فجر کے وقت اٹھ سکوں۔ میں نے واضع کردیا جناب دوستی اپنی جگہ مگر میرا شعورمیرا ضمیراسکی اجازت نہیں دے سکتا،یہ غلط ہےاورقانونا جرم بھی۔ قانونا جرم ۔

،ارے میاں تم کس قانون کی بات کرتے ہو۔۔۔۔۔۔دوست کےابو مولوی حیدر ہماری باتیں سن کر کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہتے ہیں،یہ نظام ہی کفر کا ہے۔۔۔لاحولا ولاللہ قوت۔ بیٹا مجبوری میں کسی کے کام آنا بھی تو نیکی ہے اور ہمارا دین اس معاملے میں بہت آسان ہے۔ خیر میں بھی دوستی کے امتحان میں پاس ہونے کے لیئے چل پڑا قا نونا جرم کرنے اور صبح سویرے ہی دوست کے والد محترم کےساتھ انکی گا ڑی میں جا بیٹھا، راستہ اتنا لمبا اور سنسان کہ دور دور تک آبادی کا نام ونشان تک نہ تھااور اوپر سے مولوی صاحب کا عمل سے خالی واعظ میرے لیئے دوہرا عذاب ۔!!!

دوگھنٹوں پر محیط سفر کر کے منزل پر پہنچ ہی گئے ،ویران جگہ پر بھی شاندار کالج کی بلڈنگ دیکھ کر رہا نہ گیا اور وزارعت تعلیم کی بہتر کارکردگی کی واضح مثال کا اظہار کیا ،جس پر دوست کے والد نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ارے میاں تم بھی کتنے بھولے ہو،یہ کالج ہی صاحب استطاعت لوگوں کی اولادوں کو مارکس میں معاونت کے لیئے بنایا گیا ہے۔ یہاں بورڈ کی ٹیم کیسے آتی ہوگی۔۔۔ میرامعصومانہ سوال تھا۔ ارے میاں ہمارا ملک سعودی پاک تو ہے نہیں جو یہاں تیل سستا ہو۔بس خدا نے ان بچوں کا نصیب اچھا لکھا ہے کہ سرکار کے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ بورڈ کی ٹیم کو دے کہ وہ یہاں پہنچ سکیں۔

شاندار گاڑیوں کی لمبی قطاروں میں، دوست اپنی گاڑی پارک کر کے تھوڑی دیر میں میرے ساتھ ایک سیٹ پر آ بیٹھا، اتنے میں چوہدری فرخ سے بھی ملاقات ہوتی ہے ،چونکہ انوجیلیٹر تھا اس لیئے تھوڑا منہ بھی بنا رہا تھا۔ ہوسکتا ہے کاپی نہ ہو دوست سے سرگوشی میں نے کہا ۔ ارے وہمی انسان لے پکڑ اینسر شیٹ لکھ اس پر میرا رول نمبر ۔ میں نے لکھنا شروع ہی کیا تھا اتنے میں بیک وقت آوزیں آتی ہیں۔سر رول نمبر کہاں لکھیں اور یہ میڈیم میں کیا لکھیں۔۔فرخ رول نمبر کی نشان دہی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہاں لکھا جائے، جبکہ میڈیم فل الحال چھوڑ دیں وہ سر مجیب آکر بتائیں گے کیونکہ یہ انھیں بھی نہیں معلوم۔۔۔۔۔ یہ تمام مناظر میرے لئے انتہائی تکلیف دہ تھے ،اپنے دل پر پتھر رکھ کر اور نیم سوئے ضمیر کو مذید سوتا چھوڑ کر میں نے اینسر شیٹ پر لکھنا شروع کردیا اور حسب روایت سگنیچر بھی میں ہی کر رہا تھا۔

اتنے میں دوست نے ہاتھ روکا اوریاد دلایا کہ یہ پیپر ان جناب کا ہے لہذا کم از کم سائن تو وہ خود ہی کر سکتے ہیں۔ سامنے بیٹھے ہوئے ایک اور صاحب یہ پوچھتے ہیں کہ کیا موبائل رکھنے کی اجازت ہے،جس پر میں نے عرض کیا کہ اجازت تو نقل کی بھی نہیں،جواب سنتے ہی حضرت نے فرمایا کہ پھر ٹھیک ہے رکھ لیتا ہوں۔ کچھ ہی دیرمیں قسچن پیپر تقسیم ہوتے ہیں اور سر مجیب یہ بھی اناونسمینٹ کرتے ہیں کہ سیکشن ون ایم۔سی۔قیوزحل نہ کیا جائے کیونکہ آپکی سہولت کے لیئے برابر والی کلاس میں سر راشد حل کر کے ہمیں پہنچا دیں گے۔

اف یہ امتحان ہے یا مذاق۔میں سرگوشی میں دوست سے۔ارے بھائی تم تجزیئے بند کرو اور میرا پیپر حل کرو،میرے دوست کا جواب ،سوالیہ پیپر سے چند سوالات چونکہ آسان تھے لہذا جلد ہی کر بیٹھا جب کہ کافی سوالات پریکٹس نہ ہونے کے باحث حل کرنے سے قاصرتھا،اس دوران امتحان حال ،میں گہماگہمی بھی زوروں پر تھی میرا دوست نہ جانے کہاں کہاں سے حل شدہ سوالات کی زیروکس مجھے دیئے جارہا تھا،میں لکھائی کے نقص تو نکالنے سے رہا البتہ جوابات میں سنگین غلطیوں کی نشاندہی کر ہی رہا تھا جس پر فرخ سمیت دوست اس طرح دیکھ رہے تھے کہ میں مزید نقص نکالنے کے گناہ کا سرزد نہ ہوں۔ دوست مشورہ دیتا ہے۔ زیادہ ایفیشنسی مت جھاڑو جو ملا اس پر شکر کرو اور چھاپنا شروع کر دو۔

جناب پھر تو میں نے بھی شالیمار ایکسپریس کی رفتار پکڑی ،ریاضی چونکہ میرا پسندیدہ سبجیکٹ رہاہے لہذا کافی غلطیوں کی درستگی کے ساتھ ۴۰منٹ قبل ہی بڑی بے شرمی سےچھپائی مکمل کر کے فرخ کو سبمٹ کراتا ہوں جسے وہ بڑی بے دردی کے ساتھ میرے ہی سامنے اپنے ایک عزیز طالب علم کو سہولت کے طور پر دے دیتے ہیں۔اور مجھے جانے کا اشارہ کر دیتے ہیں،میں جا ہی رہا تھا کہ اسی طالب علم نے ایک اور فرمائش صادر کر دی کہ انکی انگلیاں درد کر رہی ہیں اور وہ نقل لکھ لکھ کر بور ہونے کے ساتھ ساتھ تھک گئے ہیں لہذا تھوڑا پیپر میں حل کردوں تا کہ وہ باہر سے تازہ دم ہوتے ہوئے تھوڑا ٹہل آئیں۔

امتحان ہال کے یہ تمام مناظردیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ملک کا کچھ ہو نہ ہو،مگر تعلیمی ادارے خصوصا سندہ میں کاپی کی صنعت اور ترقی کریگی عین ممکن ہے کہ یہ ترقی یہاں تک جا پہنچے کہ تعلیمی بورڈ ازخود ہی طالب علموں کے سوالیہ پیپر پر یہ درج کر دے کہ، : مندرجہ بالا سوالات میں سے کسی پانچ سوال کے جوابات گائیڈ سے پھاڑ کراسٹیپل کردیئے جائیں اور امتحان ہال میں آنے کا شکریہ اورتکلیف کے لئے معذرت چاہتے ہیں۔ ،، بس حقیقت یہ ھے کہ ہم جس سماج اور نظام کا حصہ ہیں وہ انتہا درجے کا کرپٹ ترین ہوچکا ہے۔

اس نظام میں اکثریت ایسی ہے جو اپنے چھوٹے مفاد کی خاطر آئین اخلاق کو روند کررکھ دیتے ہیں،ہمارے معاشرے میں مولوی حیدر جیسی شخصیات بھی بے پناہ طاقتور موجود ہیں جو مذہب کا خوب استعمال جانتے ہیں۔فرخ سمیت تعلیمی بورڈ اور وزارعت تعلیم کے اعلی و بالا افسران اس کرپٹ نظام کے پرزے ہیں ،جبکہ میں بھی اپنے ذا تی مفاد کی غرض سے اسی نظام کا حصہ بن جاتا ہوں ،جس نظام سے میرا شعور میرا ضمیرمجھے نفرت سکھاتا ہے۔

بس یہ کہہ دینا کہ سب کرتے ہیں میں نے کر دیا تو کیا قصور ،یہ جملہ آنے والی نسلوں کے کیلئے تباھی کو اپنانے کا جواز فراہم کرنا ہے جس کا ذمے دار مجھ سمیت اس سماج کی اکثریت ھے۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اپنے انفرادی فعل سے مثالی فعل تک کا سفر طے کریں اور اس کرپٹ نظام کے پرزوں کی درستگی کے لئے اس میں انوالو لوگوں کوآمادہ کریں، تاکہ آنے والی نسلوں کے سامنے گنہگار کم سے کم ٹھیریں ۔ مگر یہ سب اس سماجی نظام میں انھونی بھی ھے۔ لیکن اپنا حصہ ڈالنا بھی ضروری ھے، ورنہ تباھی تو آنکھوں کے سامنے ھے۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Shoban Ali ChaChar
    -