‘The dog snatched your ear’: Judgement of our judges – by Khalid Wasti

Chief Justice Iftikhar Chaudhry is notorious for his impressionable personality and decisions.

=============
افواہ کس نے اڑائی ؟
=============
ٹی وی پروگرام ” پالیسی میٹرز ” پر تبصرہ
15  اکتوبر کو ایک ویب سائٹ پر پوسٹ کیا گیا

سپریم کورٹ نے ایک کاروائی کرنی تھی ، اس مقصد کے لیئے میڈیا کے ذریعے ایک افواہ اڑائی گئی اور ایک بار پھر آدھی رات کو عدالت لگا کر فیصلہ سنا دیا گیا – آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کا ہوّا دکھانا قتل کرنے کی دھمکی دینے کے مترادف ہے –
=========
خانہ خراب ہے
=========
ٹی وی پروگرام ” فرنٹ لائن ” پر تبصرہ
17اکتوبر کو ایک ویب سائٹ پر پوسٹ کیا گیا
پاکستان ایک ملک کے طور پرعالمی برادری میں عزت و وقار کھو چکا ہے –
پاکستانیوں کا ایک قوم کے طور پر عالمی برادری کی نظر میں کوئی عزت و احترام باقی نہیں –
دروغ گوئی اور منافقت انفرادی اور اجتماعی شناخت ہے –
کوئی طبقہ قباحتوں سے مکمل طور پر بچا ہوا نہیں ہے –
اکرم شیخ جیسے وکیلوں کو دیکھ اور سن کر اکبر الہ آبادی کا یہ شعر یاد آجاتا ہے :
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج میں بھی صاحب ِ اولاد ہو گیا –
صدر
وزیر ِ اعظم
چیف جسٹس
کیا تبصرہ کیا جائے ؟
کُتا آپ کا کان لے گیا ہے – کان چیک نہیں کرنا ، کُتے کے پیچھے دوڑ پڑنا ہے –
کبھی جو محاورے ہوا کرتے تھے آج حقیقتوں کے روپ میں سامنے آچکے ہیں –
“ہمیں معلوم ہے خبر کہاں سے آئی ہے “
حکومت کہتی ہے : جناب ! ایسی کوئی خبر موجود ہی نہیں ہے –
عزت مآب کہتے ہیں کہ حکومت انکوائری کرے خبر کہاں سے آئی –
جناب ! خبر ہے ہی کوئی نہیں محض افواہ تھی –
جب خبر تھی ہی نہیں تو ہم کیسے انکوائری کریں کہ یہ کہاں سے آئی تھی ؟
ہمیں معلوم ہے خبر کہاں سے آئی ہے –

آپ بتائیں ورنہ ہم بتائیں گے کہ خبر کہاں سے آئی ہے –
جناب ! جب آپ کو معلوم ہے کہ خبر کہاں سے آئی تو آپ  خود کیوں نہیں بتا  دیتے اور ان لوگوں کوجو کہتے ہیں کہ ایسی کوئی خبر نہیں تھی ، توہین ِ عدالت میں سزا دے کر فارغ کیوں نہیں کرتے ؟
اگر آپ کو معلوم ہے تو انکوائری شروع کر کے آپ کو شامل ِ تفتیش کیوں نہ کیا جائے ؟
اب صدر کے استثنی اور حضرت عمرکے حوالے کہاں گئے ؟
اب مساوی انسانی حقوق کہاں چلےگئے جن کا آپ اور آپ کے ہمنوا ڈھول پیٹتے رہے  کہ قانون اور انصاف کی نظر میں ہر شخص برابر ہے ؟

جناب ! ہم نے تو یہ سنا ہے کہ چوری کا مال جس سے بر آمد ہو اسے چور کا ساتھی سمجھا جائے گا –
کیا آپ ایک عام آدمی کی طرح تھانہ نیو سول لائنز کے ایس ایچ او کو اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے کہ آپ نے یہ خبر کہاں سے سنی ؟ تاکہ تفتیش کے مراحل کو آگے بڑھایا جاسکے ؟
===============
ہمارے ججوں کی ججمینٹ
===============
ججوں کی بحالی کا نوٹیفکیشن واپس لینے کا کیس سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بینچ نے غیر معینہ مدت
کے لیئے ملتوی کر دیا ہے – پاکستان میں کسی کیس کا غیر معینہ مدت کے لیئے ملتوی کرنا عملاً اسےداخل دفتر کرنے یا   ” کُھو کھاتے ”   ڈالنے کے مترادف ہے – اگر ایسا نہ بھی ہو تو کون ذی ہوش اس حقیقت سے اختلاف کرے گا کہ کم از کم سپریم کورٹ کے نزدیک   یہ کیس اس قدر توجہ کے لائق نہیں کہ مستقبل قریب میں اس کی سماعت کی جائے –
دو روز پہلے پوری کی پوری سپریم کورٹ اس کیس کو آئین کی پامالی کے مترادف اور ملک کی سالمیت و بقا کے لیئے فوری خطرہ سمجھتے ہوئے روایات کے برعکس آدھی رات کو کچہری لگاتی ہے – اور مدعا علیہان کو سزائے موت کی وعید سناتی ہے –

دو دن پہلے ایک انتہا تھی اور دو دن بعد دوسری انتہا – ان دو انتہاؤں  پر نظر رکھنے والوں کو پریشان نہیں ہونا چاہیئے –  یہ محض ایک ہلکا سا  ایرر آف ججمینٹ ہے –  ہماری سپریم کورٹ عدل وانصاف ، آئین و قانون اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیئے شاندار فیصلے کر چکی ہے اور ہمیں اس کے تابناک ماضی پر فخر ہے – اس شاندار تاریخ کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں معمولی معمولی ایررز آف ججمینٹ بھی نظر آتے ہیں  جن سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔ !! جیسا کہ یہی حالیہ کیس’ بھٹو کی پھانسی ، ضیاءالحق کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار دینے اور مولوی تمیز الدین کیس وغیرہ وغیرہ –
ایک معاشرہ جو مجموعی طور پر ذلّت ، زوال اور انحطاط کا شکار ہوچکا ہو ، بین الاقوامی برادری میں اس کی کوئی عزت و توقیر باقی نہ رہی ہو، جس ملک کا آئینی سربراہ کرپشن چارجز کو فیس کر رہا ہو ، جس ملک کی پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کے عزت مآب ججوں کے ریمارکس کے مطابق جعلساز ، چور اور اچکے بیٹھے ہوں  اس ملک کی سپریم کورٹ کے جج گناہوں سے پاک فرشتے تو ہو نہیں سکتے کہ یہ آسمان سے براہ ِ راست اترے ہوئے نہیں بلکہ انہی گلی محلوں کی جم پل ہیں جہاں سے عوامی نمائیندے پارلیمینٹ میں پہنچتے ہیں –
بلا شبہ سپریم کورٹ کے ججز ہمارے معاشرے کی کریم ہیں لیکن یاد رکھیئے ، جیسا دودھ ہوگا ویسی ہی بالائی ہوگی

Comments

comments

Latest Comments
  1. Admin
    -
  2. Abdul Nishapuri
    -