ڈالروں اور ریالوں کے عوض تکفیری دیوبندی دہشتگرد ناحق خون بہا رہے ہیں – مفتی گلزار نعیمی
posted by Shahram Ali | April 30, 2013 | In Blogs Cross posted, Newspaper Articles, Urdu Articlesاز اسلام ٹائمز
پاکستان میں جاری دہشتگردی میں ایک ہی مسلک کے لوگ ملوث ہیں، مفتی گلزار نعیمی
اسلام ٹائمز: جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کے سرپرست کا “اسلام ٹائمز” کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اس ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ اس کی بنیاد تو اسلامی نظام کا حصول تھی اور ایک ایسی مملکت کا حصول تھا کہ جہاں پر اسلامی اصولوں کو آزمایا جاسکے، لیکن اس کو جمہوریت کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ جمہوریت ہم مسلمانوں کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں جب تک کوئی ایسی لیڈر شپ پیدا نہیں ہوتی جو کہ اسلام کے پرامن نظام کی بات کرے، اس وقت تک ہمارے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ ہمارے حکمران انسانیت کے درجے سے بھی نیچے گرچکے ہیں۔ |
شیخ الحدیث مفتی گلزار احمد نعیمی پنجاب کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ آپ مفتی اعظم پاکستان مفتی حسن نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے شاگر خاص ہیں۔ آپ نے جامع نعیمیہ لاہور میں تعلیم کے دوران درس نظامی مکمل کیا، علاوہ ازیں مفتی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کیا۔ مفتی گلزار احمد نعیمی صاحب نے شہید سرفراز احمد نعیمی کے حکم پر 2002ء میں اسلام آباد میں جامع نعیمیہ کی بنیاد رکھی۔ اب تک آپ ہزاروں طلباء کو قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ کرچکے ہیں۔ مفتی صاحب اتحاد بین المسلین کے حوالے سے اپنے نظریات کے لیے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ آپ نے متعدد ممالک کے علمی دورہ جات کیے جن میں ایران اور اردن قابل ذکر ہیں۔ مفتی صاحب ملک کے معروف ٹی وی چینلز پر کئی ایک علمی مذاکروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ آپ بریلوی اہلسنت و الجماعت کی ملک گیر تنظیم کے مرکزی عہدہ دار بھی ہیں۔
اسلام ٹائمز: مفتی صاحب، اس وقت ملک میں ایک بار پھر دہشتگردوں نے معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے، کیا وجہ ہے کہ یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔؟
مفتی گلزار نعیمی: جی! دہشت گردی کے حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ بڑا اہم سوال یہ ہے کہ ہم اس کو کس کے ساتھ جوڑیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا دہشت گردی مذہبی مسئلہ ہے یا پھر سیاسی مسئلہ ہے، یا پھر انتظامی مسئلہ ہے۔ سیکولر ذہن رکھنے والے لوگ مذہب کو بدنام کرنے کے لئے دہشت گردی کو بلاواسطہ یا بالواسطہ مذہب کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ درحقیقت تمام طبقات کے لوگ اس دہشت گردی کا شکار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کی ابتداء افغان جنگ سے ہوئی۔ ایک خاص گروہ یعنی دیوبندی کے لوگ ہی مختلف وارداتوں میں پکڑے گئے اور دہشت گردی میں بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ جب کوئی دہشت گرد پکڑا جاتا ہے تو اس کا کسی خاص مدرسے یا کسی خاص فرقے یعنی دیوبندی سے تعلق ہوتا ہے۔ وہ لوگ یقیناً استعمال ہوئے ہیں اور اب بھی مسلسل دہشت گردی میں استعمال ہو رہے ہیں لیکن اس ملک میں صرف دیوبندی مکتب فکر تو زندگی بسر نہیں کر رہا ہے بلکہ دیگر مسالک کے لوگ بھی یہاں پر بستے ہیں۔ جن میں اہل سنت والجماعت (بریلوی حضرات) کی اکثریت اس ملک میں آباد ہے۔ اس مسلک کا ایک بندہ بھی دہشت گردی میں ملوث نہیں پایا گیا۔
اسی طرح ہم اہل تشیع حضرات کو دیکھتے ہیں، ان کا بھی کوئی شخص دہشت گردی کی کسی بھی واردات میں ملوث نہیں پایا گیا، بلکہ اہل تشیع اس کے برعکس خود دہشت گردی کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ جماعت الدعوۃ کے حوالے سے البتہ بات کی جاتی ہے کہ دہشت گردی میں ملوث ہے لیکن دہشت گردی کے حوالے سے آج تک ان کا کوئی بندہ نہیں پکڑا گیا۔ اہم سوال یہ ہے کہ اگر کالعدم لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے لوگ دہشتگردی کی کارروائیوں میں پکڑے جاتے ہیں تو ان کا کس مسلک سے تعلق ہے۔؟ یہ تمام وہ لوگ ہیں جو اس دہشت گردی میں استعمال ہو رہے ہیں اور ان کے استعمال ہونے کی وجہ سے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ملا دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ اصل وجہ یہ نہیں ہے، اگر ہم اس کا پس منظر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ عالمی طاقتیں کہ جنہوں نے بڑے استحکام کے ساتھ اس ملک میں اپنے قدم جما لیے ہیں، وہ قوتیں اس ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتیں ہیں۔ پس غیر ملکی طاقتیں پاکستان میں دہشت گردی کی اصل ذمہ دار ہیں اور اس دہشت گردی میں استعمال ایک خاص مکتب فکر دیوبندی ہو رہا ہے اور دہشت گردی کی کارروائیاں انتظامیہ کی نااہلی کہ وجہ سے ہو رہی ہیں۔ خون ہمارے معصوم بھائی بہنوں کا بہایا جا رہا ہے۔
اسلام ٹائمز: تو عوام کسے دوش دیں؟ انتظامیہ ناکام، ایجنسیاں ناکام، ریاست کے تمام ادارے اسے روکنے میں ناکام ہوگئے ہیں، ایسی صورتحال میں کس کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔؟
مفتی گلزار نعیمی: اس مسئلے کے لئے تمام لوگ پریشان ہیں لیکن ٹھوس قسم کا کوئی حل نہیں مل رہا۔ جب تک اس ملک میں کوئی ایسی حکومت نہیں آتی جو محب وطن افراد پر مشتمل ہو اور جس کا ایجنڈا وطن عزیز کی خدمت ہو، اس وقت تک ہمارا انتظامی مسئلہ جوں کا توں ہی رہے گا۔ آپ ملاحظہ فرمایئے کہ گذشتہ پی پی پی کی حکومت میں ہم انتظامی حوالے سے اتنا نیچے چلے گئے کہ حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی تھی۔ موجودہ نگران حکومت نے بھی صرف اتنا کہہ کر کہ ہمارا کام تو صرف الیکشن کرانا ہے ساری ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوگئی ہے۔
اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ اس دہشتگردی میں ایک خاص مکتب فکر ہی ملوث ہے تو اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔؟
مفتی گلزار نعیمی: جی اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ دیوبندی مکتب فکر مکمل طور پر ہی ملوث ہے بلکہ اس کی کچھ برانچیں ہیں جو یہ کارروائیاں کر رہی ہیں، لیکن ہمیں دیوبندی مکتب فکر کے ان لوگوں سے شکایت ہے کہ جو اس میں ملوث تو نہیں لیکن ان لوگوں سے برائت یا نفرت کا اظہار بھی نہیں کرتے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کالعدم تنظیم کے لوگ ہی متحدہ دینی محاذ میں شامل ہیں۔
اسلام ٹائمز: اس دہشتگردانہ اور تکفیری سوچ کا مقابلہ کیسے ممکن ہے۔؟
مفتی گلزار نعیمی: سب سے بڑا حل یہ ہے کہ علماء اور صوفیاء کی تعلیمات کو عام کیا جائے، ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا خانقاہی نظام خرابی کا شکار ہے اور اپنے ہی صوفیاء کی تعلیمات کو پھیلانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اگر اس سوچ کو کہ جو لوگوں کے درمیان پیار و محبت کو عام کرتی ہے، اگر علماء و صوفیاء کی ان تعلیمات کو فروغ دیا جاتا تو میں سمجھتا ہوں کہ تکفیریت اپنی موت خود مر جاتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو تکفیری سوچ کے مخالف ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ہر کسی کے اوپر کفر کے فتوے نہ لگائے جائیں اور ہر فرد کو اس ملک میں رہنے کے یکساں مواقع و سہولیات مہیاء کی جائیں تو پھر اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ جو لوگ یہ چاہتے ہیں اس ملک میں قرآن و سنت کی بنیاد پر نظام قائم کیا جائے، ان کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہوگا۔
اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کی دوبارہ عدم فعالیت کی وجہ کیا نظر آتی ہے، دوسرا ان مسائل میں یہ ادارہ کیوں اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کر پا رہا اور قاضی حسین احمد مرحوم کی رحلت کے بعد اب تک سربراہ کا انتخاب کیوں ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔؟
مفتی گلزار نعیمی: جہاں تک قاضی حسین احمد مرحوم کی بات ہے تو اللہ تعالٰی ان کے درجات بلند فرمائے۔ مرحوم ایک ایسی شخصیت تھے کہ جو پاکستان میں موجود تمام مسالک کو باہم اکٹھا کر سکتے تھے اور اس کے لیے انہوں نے عملی جدوجہد بھی کی۔ جب قاضی حسین احمد مرحوم اپنی جماعت سے الگ ہوئے تو انہوں نے مزید اچھے انداز سے اس کام کو آگے بڑھایا۔ اتحاد بین المسلمین کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا۔ اس قسم کا لیڈر اب ملی یکجہتی کونسل کے لئے کوئی نظر نہیں آتا، جو اسی ڈگر پر چلے جس ڈگر پر مرحوم قاضی صاحب لے کر چلے تھے۔ ان کے بعد اب مسلکی سوچ رکھنے والے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ملی یکجہتی کونسل پر مثلاً دیوبندی کی چھاپ ہو یا جماعت اسلامی کی چھاپ ہو یا پھر کسی دوسرے مسلک کی چھاپ ہو۔ جبکہ ملی یکجہتی کونسل کے مقاصد یہ تھے کہ ایک ایسا پلیٹ فارم بنا دیا جائے، جہاں پر تمام مسالک کے لوگ اس میں نہ صرف شمولیت اختیار کریں بلکہ اس میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرسکیں اور ایک متفقہ پلیٹ فارم اس وطن عزیز کی عوام و الناس کو دے سکیں۔
اسلام ٹائمز: اس الیکشن کے بارے میں کیا کہیں گے، کیا کوئی تبدیلی نظر آرہی ہے۔؟
مفتی گلزار نعیمی: بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جو نظام حکومت رہا ہے وہ زیادہ عرصہ آمرانہ حکومت رہی ہے۔ آمروں نے اس ملک میں کوئی باصلاحیت لیڈر پیدا نہیں ہونے دیا۔ پھر جمہوریت کے بھی اپنے نقصانات ہیں، انہی نقصانات کی وجہ سے اس ملک میں کوئی لیڈرشپ پیدا نہیں ہوسکی۔ اس ملک کی بدقسمتی رہی ہے کہ اس کی بنیاد تو اسلامی نظام کا حصول تھی اور ایک ایسی مملکت کا حصول تھا کہ جہاں پر اسلامی اصولوں کو آزمایا جاسکے۔ اس کو جمہوریت کے ساتھ جوڑا گیا۔ جمہوریت ہم مسلمانوں کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں جب تک کوئی ایسی لیڈرشپ پیدا نہیں ہوتی جو کہ اسلام کے پرامن نظام کی بات کرے، اس وقت تک ہمارے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ ہمارے حکمران انسانیت کے درجے سے بھی نیچے گر چکے ہیں۔ ہمارا سیاسی رہنماء اس وقت ایسا درندہ بن چکا ہے جو پوری دنیا کی دولت کی ہوس اپنے دل میں لئے بیٹھا ہے۔ جبکہ رہنماء کی یہ سوچ نہیں ہوتی بلکہ رہنماء خود سادہ زندگی گزارتے ہیں اور اپنی عوام کو سہولیات میسر کرتے ہیں۔ سردست کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آتا جو اس ملک کے مسائل کو حل کرسکے۔
اسلام ٹائمز: شام کی موجودہ صورتحال کو کس طرح دیکھتے ہیں، امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل شام کو افغانستان بنانے پر تلے ہوئے ہیں جبکہ سعودی عرب سمیت عرب ریاستیں اس عمل کی پشتی بانی کر رہی ہیں، اس کے نتائج کیا برآمد ہونگے۔؟
مفتی گلزار نعیمی: دراصل یہ لوگ جہاں پر بھی گئے، وہیں پر انہوں نے حالات خراب ہی کیے ہیں۔ امریکہ عراق میں گیا تو وہاں پر بھی فرقہ وارانہ فسادات برپا کئے۔ اسی طرح اس لابی نے پاکستان و دیگر ممالک میں فساد و انتشار کو ہوا دی، یعنی امریکہ جہاں پر بھی گیا، وہیں مسائل کھڑے کئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ امت مسلمہ کے حکمران کو اسلام کے اصولوں کا خیال رکھنا چاہیے نہ کہ امریکہ کے مفادات کا تحفظ کریں۔ جب ایسا ماحول بن جائے گا کہ ہمارے مسلم ممالک کے حکمران امریکہ کے مفادات کو مطمعء نظر رکھیں گے تو دہشت گردی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ بلاوجہ شام کے لوگوں کو مارا جا رہا ہے۔ ایسا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے کہ امریکہ کا وہاں پر اثر و رسوخ بڑھتا چلا جائے۔ برما میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے تو وہاں پر امریکہ بالکل خاموش ہے جبکہ یہاں پر دہشت گردوں کو مارنے کے چکر میں پوری امت مسلمہ کو مارنے کے درپے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے تمام مسلم ممالک کو سوچنا چاہیے اور اپنے ممالک سے امریکہ کی جڑوں کو کاٹ باہر پھینکیں۔
Something only people who have courage to face terrorists can say. I have developed great respect for Mufti Gulzar’s bold stance on terrorists.
Bravo Mufti Sahab!
Mufti Sahib: Have guts to include Ahmadis, Chrisitans, and Hindus who have been on the receiving end of this wrath of defenders of Islam in Pakistan. By the way, it is a slippery slope; the nation stepped on it many years ago when a gross injustice was done to Ahmadis. The slipping has not stopped.
Appreciated Mufti Sahib.
@Intisar
Main hoon na bhai, fiqr karnay ki zarrorat nayheen.