دھشت گرد بھیڑیوں کے آگے معصوم پاکستانیوں کی بلی کب تک چڑھے گی؟ – از ندیم رضوی

images

بم دھماکے پاکستان کا روز مرہ کے معامولات کا ایک حصّہ سا بن چُکے ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ کہیں کوئی بم دھماکہ نہ ہوتا ہو۔ بمدھماکہکرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ وہی دھشتگرد ہیں کہ جن کو پاکستانی افواج نے اپنے احمقانہ توسیع پسندانہ عظائم کے تحت گزشتہ تین دھائیوں میں اس قدر مظبوط اور مربوط کردیا کہ اب وہ بوتل میں بند نہیں بلکہ خود کو پروان چڑھانے والے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والا جن بن چُکے ہیں۔

ایک جن ہو تو بھی شاید کو ئی اچھائی کی امید کی جا سکے ، یہاں تو کئی گروہ ہیں اور اب ان گروہوں کے تانے بانے پاکستان کی افواج کے ھاتوں میں ہوں نہ ہوں بگر ان کے روابط دنیا کے تمام پاکستان دوست و دشمن سے استوارہوتے ہوئے صاف نظر آرہے ہیں۔

ضرورت تو اس امر کی تھی کہ پاکستان دوست تمام سیاسی جماعتیں قطعہ نظر اسلامی ہوں یا غیر اسلامی ، ایک جان ہو کر ان درندہ صفت عفریت نما مگر پیچھے اور چھپ کر وار کرنے والے بزدل بھیڑیوں کا مقابلہ کرتیں۔ اسلام کے نام پر خارجیت اور ہزیدیت کے پیروکاروں کو صفحہ حستی سے مٹانے کیلیے یک جان ہو کر میدان عمل میں آتیں مگر افسوس کہ آج بھی پاکستان کی سیاسی جماعتیں معامولی فائدے کیلیے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے پر مصروف ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے نا تجربہ کارراھنماء جناب عمرآن خان صاحب ان دھشت گردوں کی مزمت کی بجائے ان سے انتخابات کے اختتام تک کی بھیک ماننگ رہے ہیں۔ نواز شریف تو جیسے طالبان سے براہ راست ہدایت یافتہ ہیں کہ ان کو اس سے کیا فرق کہ کون اس ملک میں مارا گیا اور کہاں کتنے بم دھماکے ہوئے۔ پنجاب اگر محفوظ ہے تو نہ نواز شریف کو کوئی اثر پڑتا ہے اور نہ ہی عمرآن خان کو۔

مگر سوال یہ ہے کہ آخر طالبان کو ان سے کیا ھمدردی یا یہ کہ ان سیاسی جماعتوں نے طالبان سے ایسے کیا عہد و پیمان کیے ہیں کہ ان کو بخشش حاصل جبکہ ایم کیو ایم، اے این پی اور پی پی پی نے ایسے کیا گُناہ سر زد کیے کہ ان پر مشیتِ طالبان قہربار۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم نے تو اپنے پورے دور میں ایک بھی ایسی کوشش نہیں کی تھی کہ جس سے طالبان کے مفاد کو کوئی ٹھیس پہنچے۔

taliban-afghanista_1202045c

اے این پی نے تو ماضی قریب میں طالبان سے مزاکرآت اور معاملات کے لیے جرگہ تک بلا لیا تھا۔ اور ھم اب بھی نہیں بھولے کہ جب سال بھر قبل ایم کو ایم کرآچی میں طالبان کی آمد کا واویلہ کر رہی تھی تو یہی اے ان پی اس کی مخالفت میں پیش پیش اور طالبان کے حق میں مدعی تھی۔

پی پی پی کے جناب فیصل رضا عابدی روز ٹی وی اسکرین پر جلوہ نما ہو کر زور خطابت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ھم جیسوں کا دل جیت تو لیتے ہیں مگر یہ وضاحت وہ بھی آج تک نہ کر پائے کہ بھائی اپ کی پارٹی پاکستان کے تمام معاملات کی کل مختار تھی تو گزشتہ پانچ سال میں آپ نے کوئی ایسا کام کیوں نہیں کیا کہ ان درندوں کے راستے مسدود ہوسکتے۔ آپ کے وزیرِ داخلہ روز نئے چٹکلے سنایا کرتے تھے، صدر بنکر بند ہو گئے مگر عوام کو آپ ان درندوں سے بچانے کے لیے کوئی اقدام نہ کر سکے۔ کیوں؟

بہت آسان یے فیصل رضا عابدی کے لیے کہ وہ تمام معاملات کی زمہ داری مُنصف اعلیٰ جناب ابوالارسلان چودھری پھٹکار پر ڈال دیں مگر جناب آپ کو یہ زمہ داری اپنی حکومت پر بھی ڈالنی پڑے گی کہ جو زیادہ تر وقت ملکی دولت کی بندر بانٹ میں مصروف رہی۔ آج تک قوم کو نہیں معلوم کہ آسامہ بن لادن کس طرح حکومت کی نظروں سے اُوجھل ھماری پیاری فوج کی ناک کے نیچے چین کی نیند سو رہا تھا۔

 

pb-121229-bus-cannon-1-photoblog900

اس واقع کے بعد سب سے پہلے آپ کے صدر ہی تھے جو ناپاک فوج کے دفاع کیلیے آگے آئے۔ یہی فوج کہ جو سقوط ڈھاکہ کی زمہ دار، یہی فوج جو کلاشنکوف کلچر کی فروغ دار۔ افغانستان کی حماقتوں کی علم بردار، کشمیر کے نام پر جہالت کی پروردگار، ہر دھشتگردی کی بالاخر اھم ترین اور عین زمہ دار ہے۔

پاکستان کو اگر دھشت گردی سے آزاد کروانا ہے تو سب سے پہلے پاکی فوج سے ناپاکیت کا خاتمہ کیا جائے۔ جبتک یہ فوج اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا بے مقصد گُمان کرتی رہے گی تب تک دھشت گردی کو اپنا ہر اوّل دستہ سمجھتے ہوئے پاکستانی قوم سے خون کی طلبگار رہے گی۔

پاکستانی فوج وہ مقدس گائے ہے کہ یا تو اس کا زبیحہ کرکے بامقصد استعمال میں لایا جائے یا پھر اس کی حُرمت پر روزانہ دھشتگرد بھیڑیوں کے سامنے معصوم پاکستانیوں کی بلی چڑھائی جائے۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Asli Kafir
    -