ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب! لال مسجد کی وہ کون تھیں اور کہاں چلی گئیں؟ – از زالان
لال مسجد کمیشن کی رپورٹ کے مطابق آپریشن کے دوران وہاں کوئی لڑکیاں نہیں مریں، شاہد مسعود جو ایک دیوبندی طالبان پرست ٹی وی اینکر ہیں لال مسجد کے آپریشن کے بعد انکا ایک جذباتی اور دل دہلا دینے والا کالم جنگ اخبار کون تھیں؟ کہاں چلی گئیں؟ کے نام سے شایع ہوا جسنے جہادیوں اور طالبان کے حمایتیوں کے جذبات کو مزید ہوا دی ، اس کالم میں جناب شاہد مسعود صاحب نے بتایا کہ لال مسجد میں جان بحق ہونے والی دو لڑکیوں نے مرنے سے پہلے ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا اور پھر ایک بہن نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو بتایا کہ ایک بہن لال مسجد آپریشن میں ماری جا چکی اور پھر دوسری بہت بھی آپریشن میں لا پتہ ہو گئیں .
شاہد مسعود کی اس کہانی نے کافی شہرت پائی مگر نجانے کیوں لال کمیشن رپورٹ نے شاہد مسعود سے پوجھ گچھ نہیں کی حالانکہ شاہد مسعود کے پاس انکے بقول ان لڑکیوں کے نام اور فون نمبر بھی تھے اس حوالے سے ڈاکٹر شاہد مسعود ایک اہم گواہ بھی ہو سکتے ہیں
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کا یہ کالم ایک فرضی کہانی تھی جو انہیں آئی ایس آئی کے جہادی گروپ نے لکھ کر دی یا ان سے لکھوائی گئی ، بلکل اسی طرز کی کہانی طالبان اور جہادیوں کی سائٹ ” القلم آن لائن ” میں نوید مسود ہاشمی کے نام سے بھی لکھی گئی اور دونوں کہانیوں اور الفاظ میں کافی مماثلت بھی تھی
اسی طرح کی طالبان سپاہ صحابہ پرست کہانیاں انگریزی زبان میں نجم سیٹھی کے اخبار جمعہ (دی فرائیڈے ٹائمز) میں بھی شائع ہوئ ہیں جس کے مدیر جناح انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر رضا رومی ہیں
اگر ڈاکٹر شاہد مسعود کا کالم سچ تھا تو پھر لال مسجد کمیشن ،عدالت اور پولیس کو شاہد مسعود سے ثبوت حاصل کرنے چاہیے ہیں کیونکہ لال مسجد کمیشن رپورٹ کے مطابق وہاں کوئی لڑکی جاں بحق نہیں ہوئی جبکہ ڈاکٹر صاحب اس کے گواہ ہیں کہ وہاں پر لڑکیاں ماری گئیں اور دو لڑکیوں کے نام بھی ڈاکٹر صاحب کے پاس ہیں جو انکے مطابق وہاں پر ہلاک ہوئیں
اگر شاہد مسعود کا یہ کالم جھوٹ ، زرد صحافت اور سستی شرت حاصل کرنے کے لیہ تھا تو پھر میڈیا ، صحافیوں اور عوام کو ایسے گھٹیا اینکرز کالم نویسوں اور مدیروں کا محاسبہ کرنا چاہیے جو تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کے مکروہ نظریات کی ترویج اور تشہیر کرتے ہیں
اس بات کی بھی تحقیق کرنی چاہیے کہ لال مسجد کا اشو کھڑا کرنے والے آئی ایس آئی کے جہادی گروپ ، لال مسجد اور شاہد مسعود کا آپس میں کیا تعلق تھا اور یہ کن مقاصد کے لیہ کیا گیا
اگر یہ کالم جھوٹا ہے تو یہ ایک انتہائی خطرناک قسم کی صحافت ہے جو ایک سنگین جرم ہے جس کی قانونی چارہ جوئی بھی کی جانی چاہیے
بلکہ ایسے تمام کالم نویسوں اور مدیروں کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہیے جو تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کے مکروہ نظریات کی ترویج اور تشہیر کرتے ہیں
زالان
zalaan1 @ twitter
Comments
Latest Comments
’’ آزاد عدلیہ کا امتحان ‘‘
جامعہ حفصہ کی نقاب پوش خواتین نےاسلام آباد کی اخلاقی صفائی کی ابتدا کرتے ہوئے جب لال مسجد کے طالبان ساتھیوں کےساتھ مل کر آنٹی شمیم کےگھرسے ’’ گند‘‘ اُٹھائی تھی تو اس میں آنٹی شمیم کے ساتھ اس کی بیٹی اور بہوکے علاوہ ایک چھ سال کی لڑکی بھی شامل تھی؛
آنٹی شمیم، اس کی بیٹی اور بہو کی خیرہے، فکر اس ’’ چھ سال کی لڑکی‘‘ کی ہےجس کا آج تک کوئی پتہ نہیں چلا ہے۔
یقین کامل ہے کی ’’چھ سال‘‘ کی لڑکی لازماً کسی مولوی کے ہتھے چڑھ گئی ہوگی کیونکہ ’’سنّت رسول‘‘ پر عمل کا اتنا نادر موقع کوئی ’’مسلمان‘‘ ضائع نہیں کرسکتا تھا۔
کیا آج ’’عدالتِ عالیہ‘‘ لال مسجد کیس کا جائزہ لیتے ہوئے اس لڑکی کو برآمدکرائے گی یا اپنی ’’مقعدِ عالیہ‘‘ کو طالبان سے بچائے گی؟
جامعہ حفصہ کی نقاب پوش خواتین نےاسلام آباد کی اخلاقی صفائی کی کرتے ہوئے لال مسجد کے طالبان ساتھیوں کےساتھ مل کر آنٹی شمیم، اس کی بیٹی، بہو اور چھ سال کی لڑکی کو ہی اغوا نہیں کیا تھا بلکہ اس سے پیشتر میڈم طاہرہ پر بھی ہاتھ صاف کیا تھا لیکن شوکت عزیز کابینہ اور علماء کی ’’باہمی‘‘ مداخلت پر یہ لوگ میڈم طاہرہ کو آزاد کرنے پر مجبور ہوگئے تھےکیونکہ اس نے اپنی ڈائری ( ’’کلائنٹ لسٹ‘‘ ) کو کتابی صورت میں شائع کرانے کی دھمکی دی تھی اور وہ اپنی ڈائری کی کاپی پہلے ہی ایک معروف اور با اثر پبلشر کو دے چکی تھی۔
واضح رہے کہ اس کی ’’کلائنٹ لسٹ‘‘ میں مولانا سمیع الحق (المعروف ’’maulana sammy sandwich‘‘ ) کے علاوہ معزز وزرا، سرفروش افسران اورعزت مآب جج صاحبان کے نام شامل تھے ۔
معاملات میں نازک موڑ اس وقت آیا تھا جب ان لوگوں نے اپنے اصل سرپرستوں کے کہنے پر اسلام آباد میں ’’ مصروفِ عمل‘‘ فلپائینی اور تھائی عورتوں کو نظر انداز کرکے چینی عورتوں کو اغوا کیاتھا اور چینی حکومت کے احتجاج کی وجہ سے چند ’’مجاہدین‘‘ کو گرفتار کرناپڑا تھا، جواباً ’’مجاہدین‘‘ نے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک فرد کو ہلاک کرکے چار کو یرغمال بناکر اپنے ساتھیوں کو رہا کرایا تھا۔
Dr. Masood Kazzab, I know you are a master of concocted stories but didn’t know that you can stoop so low…Your claims can be verified from your mobile phone records, why don’t you contact the authorities and present these facts?
As for Laal Masjid hoors and the mominins who were taking ‘care’ of this ‘halal’ brothel, they were terrorizing the whole neighborhood (unlike you, I live in this neighbourhood), my younger sister who has to drive to work(she is a teacher) was stopped several times and warned that she has to ask some male member of her family to drive her to work because according to their twisted version of Islam, women are not suppose to drive or come out the house without accompanying a male mehram. Shopkeepers in the neighbourhood were beaten and their “non sharia compliant” merchandize was burned to ashes…according to Laal Masjid commission report no woman was killed in this action only the 92 terrorists were sent to hell and 11 security personnel lost their precious lives(which confirms General Pervez Musharraf’s stance on this issue) …so please leave the bullshit aside and for once in your life for your own sake stands for what is right.
Randi
Shahid masood zindabad baqi tum randi k buche ho
Dr shahid masood is a brave journalist. Zinda baad
Coordinates of terrorist have been posted World Counter Terrorism agencies.