مشرف ، آرمی لمیٹڈ اور کاغذی شیر – از امام بخش

M_Id_376841_Pervez_Musharraf

یار لوگوں نے جنرل مشرف کے بارے میں ایک قصہ مشہور کر رکھا ہے جسے لطیفہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ عنان اقتدار سنبھالنے کے چند دنوں بعد جنرل پرویز مشرف صحرائے تَھر میں آرمی کی طرف سےکُھدوائے جانے والےایک کنویں کے افتتاح کےلیے گیا۔ افتتاح کرنےکےبعدمشرف جیسے ہی کنويں کی دیوار پرکھڑے ہو کرمعائنہ کرنے کے لیے کنویں میں جھانکنے لگا تو اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور وہ دھڑام سےکنویں میں جا گرا۔

کراچی کا کورکمانڈر جو اس کے پیچھے ہی کھڑاتھا اس نے فوجی جوانوں کو حکم دیا کہ فوراً کہیں سے جاکرایک رَسا لے آئیں جس کی مدد سے چیف صاحب کو کنویں میں سے باہر نکالا جائے۔ جوانوں نے ایک مضبوط اورلمبا رَسا لانے کے بعد جنرل مشرف کی طرف کنویں کے اندر پھینکا، اور رسا تھامے جنرل مشرف کو جوان کنویں کے باہر کی طرف کھینچنے لگے ۔ جونہی جنرل مشرف کھنچتا کھنچتا کنویں کے کنارے پر بمشکل پہنچ ہی پاتا کہ جوان رسے کو چھوڑ کراپنے بوٹوں کی ایڑیوں کو پورے زور سے زمین پر مارتے ہوئے اپنے چیف صا حب کو سیلوٹ کرنے لگتے۔ اور یوں جنرل مشرف کنویں کی دیواروں سےٹکراتا، چوٹیں کھاتا اور چیختاچلاتا ہواپھر ایک بار کنویں کے اندرجاگرتا۔

جنرل پرویز مشرف ایک عجیب سی صورتحال میں پھنس گیا۔ جب نیچے گرتا تو وطن عزیز کے بطلِ جلیل کے کسرتی بدن پر کنویں کے شرارتی مینڈک اُچھل کُود کے ساتھ اپنی زبان میں گفتگو شروع کردیتے۔ جب مینڈک ٹریں ٹریں کی آواز یں نکالتے تو چیف ایگزیکٹو کو ایسے لگتا کہ جیسے یہ غلیظ کمینے اس کی بے بسی کا مذاق اُڑا رہے ہیں اور اسے گندی گندی جگتیں لگارہے ہیں۔

جنرل مشرف جب رسے کے ساتھ کھنچتے کھنچتے تیسری بار کنویں کے کنارے تک پہنچا، تو فوجی جوانوں پرچیخااور انھیں حکم دیا کہ  ڈھونڈ کرلاؤکچھ بلڈی سویلینز  جو بجائے مجھے سیلوٹ کرنے کے کنویں سے باہر نکالنے کی کوشش کریں ‘۔ حکم کی فوراً تعمیل میں جوان دوتین سویلینز کو ڈھونڈ لائے۔ جنھوں نے چیف صاحب کو کنویں سے باہر نکالا۔

جب جنرل مشرف کنویں سے باہر نکلا تو چوٹوں کے درد،سردی اور غصے کی شدت کی وجہ سے کانپتے ہوئے فوجی جوانوں پر دھاڑا کہ اگر آج سویلینز نہ ملتے تو آپ اخروٹ مغز وں نے مجھے مروا دیا تھا۔

بعد ازاں فرسٹ ایڈ لینے کے بعد جب جنرل پرویز مشرف کمبل میں دبکا ہوا تھا تو دیر تک ٹھنڈے دماغ کے ساتھ سویلینز کی افادیت کے بارے میں سوچتا رہا ۔ المختصر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اپنے پیٹی بندبھائیوں کے علاوہ سویلینز بھی لازم ہیں۔ یہ بات اس نے پلے سے باندھ لی جو آج تک مضبوطی سے بندھی ہوئی ہے۔

جنرل پرویز مشرف نے صحرائے تھر سے واپس آتے ہی معزز ججوں سے پی سی او کے تحت حلف اُٹھوانے کا اہتمام کیا۔ سوائے چند کےسب انصاف کے میناروں، بشمول جسٹس افتخار چودھری، نے اسےاپنے لیے اعزاز سمجھا۔ یہ حلف اتنا آئینی، اخلاقی اور حتمی تھا کہ آج تک اپنی پوری شادابی کے ساتھ نیا نکور اور بھرپورطریقے سے قائم ہے۔

سپریم کورٹ پہلے ہی جنرل مشرف کے فوجی اقتدار کو نظریہ ضرورت کی بنیاد پر جائز قرار دے چکی تھی۔اس کے بعد عدالت عظٰمی ٰنے بخوشی وردی پہنے جنرل مشرف کو بن مانگے تین سال شراکت بلاغیرے پاکستان پر حکمرانی کرنے کے ساتھ ساتھ آئینِ کو کہیں سے بھی تبدیل کرنے کی اجازت فرمائی۔

اِسی دوران دَرشنی شیر اٹک قلعے میں گریہ و زاری اور ترلے کرتے کرتے جنرل پرویز مشر ف سے خفیہ معاہدہ کرکے راتوں رات اپنے خاندان، ملازمین ، پسندیدہ باورچیوں، قیمتی غالیچوں اور سامان سے بھرے چالیس صندوقوں سمیت چکلالہ ائرپورٹ سے سرورپیلس کے لیے اڑان بھر کے اپنے مخلص ساتھیوں کوبتائے بغیر اور ان سب کوہوا میں معلق چھوڑ کر چلتے بنے ۔

اس دوران ایک قیدی جیل کی اونچی دیواروں کے پیچھے پابند و سلاسل تھا جسے ہماری تذویراتی دُنیا ” کرپٹ زرداری” کے نام سے جانتی ہے۔ صادق و امین عدالتیں اور حکومتیں تھک چکیں ، حتی المقدور کوششوں کے باوجودکوئی کیس ثابت نہ ہوا۔ نظریاتی مخالفین بھی “مرد ِحُر” کا خطاب دے چکے۔ ببر شیر خود معافی مانگ چکا، مان چکا کہ ہم نے یہ سب کیس جھوٹے بنائے تھے۔ مگر ظلم کی انتہا دیکھئے کہ تقریباً بارہ سال جیل کاٹنے کے بعد بھی وہ کرپٹ کے نام سے جانا جاتا ہے اور آج بھی اس کا نام سنتے ہی ہذیان اور سنگباری شروع ہو جاتی ہے۔

اس کے بعد جنرل مشرف نے سویلینز قافیے، پَیٹریاٹیےاور حلوہ مانڈیئے جمع کیےاورایک نئی بریگیڈ بنادی۔ پھر چل سو چل۔۔۔۔۔

اسمبلیوں میں قراردادیں منظور کی گئیں جس میں صدر جنرل پرویز مشرف سے درخواست کی گئی کہ وردی نہ اتاریں اور صدر اور آرمی چیف کے عہدے اپنے پاس رکھیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستا ن نے 2002ء میں ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے لیگل فریم آرڈر (ایل –ایف-او) کے خلاف دائر کی گئی پٹیشن کو خارج کیا۔ یاد رہے کہ اس بنچ میں معزز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی شامل تھے۔ اور یہ ایل –ایف-او اسلام کی ٹھیکیدار جماعتوں کی مدد سے اسمبلیوں سے پاس کرایا گیا تھا۔

ء2000 کے ریفرنڈم میں آج کے انقلابی اور تبدیلی کے نشان سونامی خان نے ڈکٹیٹر مشرف کا کھل کر ساتھ دیا تھاجو آج کل فرماتے ہیں کہ میں نے قوم سے معافی مانگ لی ہے۔ اگر یہی پیمانہ ہے تو پرویز مشرف بھی قوم سے معافی مانگ چکا ہے۔

اپریل 2005ء میں پاکستان سپریم کورٹ نے اُن تمام آئینی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا جن میں پرویز مشرف کے دو عہدے (صدر اور چیف آف آرمی سٹاف) رکھنے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ عدالت نے حکم صادر فرمایا کہ ‘باوردی صدر ٹھیک ہے’۔ فیصلہ دینے والے اس عدالتی بنچ میں بھی معزز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدی شامل تھے۔

جنرل پرویز مشرف نو سال تک دن رات پوری قوم کی تضحیک کرتا رہا۔ ملکی سلامتی کو ہمیشہ داؤ پرلگائےرکھا۔ پاکستان کو ذاتی جاگیر کی طرح چلایا۔جس کی طرف نگاہِ التفات اٹھا ئی اس کی مانگ ستاروں سے بھرگئی اور جس سے وہ ناراض ہو اوہ پل بھر میں راندہ درگاہ ہو گیا اور خزاں رُتیں اس کے آنگن میں بسیرا کرگئیں۔ وطن عزیز کے شہریوں کو گاجر مولی کی طرح کٹواتا رہا۔ پاکستان کے بیٹے بیٹیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ڈالروں کے عوض بیچتا رہا۔ پاک فوج کا سوا ستیاناس ماردیا۔ جنرل پرویز مشرف ڈیمانڈ سے بڑھ کر امریکہ کی مانگیں پوری کرتارہا اور اپنی ’ریفیولنگ‘ کرواتارہااورپاکستان امریکہ کی ایک معمولی سی کالونی بن کر رہ گیا۔

جنرل مشرف اقتدار کے مزے کشیدکرتا رہااور راوی چین ہی چین لکھتا رہا تاوقتیکہ دانشمندی سے پھیلائے ہوئے این- آر-او کےجال میں اس کا سر نہیں پھنسا۔

جنرل پرویز مشرف نے جب قوم کی جان چھوڑی تو خبریں تھیں کہ طالبان مرگلہ کی پہاڑیوں کے پیچھے پہنچ چکے ہیں اور وہ اِسلام آباد کو فتح کرنے ہی والے ہیں۔

جنرل مشرف کے والی وارث پاکستان میں سب سے زیادہ معتبر اور طاقتورجانے جاتے ہیں اس لیے صدارت چھوڑنے کے بعد بھی مشرف خوب مزے میں رہا۔ جہاں دل کیا قیام کیا ، چاہے وہ آرمی ہاؤس ہی کیوں نا ہو۔ جہاں جی چاہا، وہاں گیا۔ کسی مائی کے لال کو ناک بھوں چڑھانے کی جُرْأَت تک نہیں ہوئی۔۔۔۔۔

نؤمبر2008ء میں جنرل مشرف اپنے والی وارثوں سے گارڈ آف آنر لینے کے بعد بیرونِ ملک چلا گیا تووطن عزیز میں کچھ ہیجان خیز اور جنون آمیز بڑھک بازوں کا مقابلہ شروع ہو گیا۔پورے تین سال تک ہماری معزز عدالتوں کے درودیوار بھی ان بڑھکوں سے گونجتے رہے۔

جنرل پرویز مشرف کے پہلے عبوری آئینی حکمنامے کے تحت حلف اٹھانے والے صادق و امین ججوں نے مشرف کے دوسرے عبوری آئینی حکمنامے کے تحت حلف اُٹھانے والے ججوں کو فارغ کردیا اوریہ بھی فرمایا کہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھانا ایسے ہی ہے جیسے گندے پانی سے وضو کرنا۔ سبحان اللہ!

اس کے بعد ہرسال 12اکتوبر کو مسلم لیگ نون یوم سیاہ مناتی رہی بلکہ اس جماعت نے پنجاب اسمبلی میں ایک قرارداد بھی پاس کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت ’آئین کی پامالی اور غداری کے مرتکب آمر‘ پرویز مشرف کو انٹر پول کے ذریعے فوری طور پر وطن واپس لائے اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔

میڈیا کے لاتعداد خود پسند اور تذبذب و خلجان کے مارے خود ساختہ دانشور اینکر اور کالمسٹ سینہ ٹھونک کر سامنے آئے۔ جو پرویز مشرف کو بھگانے کے فرداً فرداً دعوٰے دار تھے۔

کالے کوٹوں والے اپنے چیف کے ‘جاں نثار، بے شمار’ مستقلاً غبارہ نما حالت میں رہنے کے ساتھ ساتھ سول ججوں کی خوب دُھنائی کرتے رہے۔

سیوموٹو کا دیو چنگھاڑتا رہا۔

شیر دھاڑتے رہےکہ آئین توڑنے والوں کو آرٹیکل چھ کے تحت پوری پوری سزا دی جائے گی۔

ہر طرف بڑھک باز ہیروز کی بہتات تھی۔

اکتوبر 2010ء میں مسلم لیگ نون نے جنرل پرویزمشرف کے خلاف چارج شیٹ بھی جاری کی جو سترہ مختلف نوعیت کے الزامات اور سات مطالبات پر مشتمل ہے۔ چارج شیٹ کے ساتھ مطالبہ کیا گیا کہ حکومت جنرل پرویز مشرف کو بیرون ملک سے واپس لائے اور ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ یعنی غداری کے جرم میں مقدمہ چلایا جائے۔مسلم لیگ نون نے چارج شیٹ میں یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ جنرل مشرف کے استعفے کو ان کی برطرفی میں تبدیل کیا جائے۔

معزز عدالتوں نے جنرل پرویز مشرف کی گرفتاری کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ جاری کیے۔

بڑھک بازو ں کی خام خیالی تھی کہ جنرل مشرف اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔۔۔۔۔ جتنا دل چاہے، خالی پیلی دھاک بٹھاؤ۔۔۔۔۔

وہ پُورے کروفر کے ساتھ واپس پاکستان واپس لوٹ آیا ہے۔۔۔۔۔۔مگر بڑھک باز ہیروز گدھے کے سینگوں کی طرح غائب ہیں۔۔۔۔۔

 جنرل پرویز مشرف ، پاکستان آنے سے قبل سویلینز کے کردار اور اِفادیت کو قطعاً نہیں بھولا۔ اس لیے حِفظِ ماتقدَّم کے طور پر سارے انتظامات کرکےآیا ہے۔ میڈیا پرسنز ہوں، کالے کوٹوں والے ‘جاں نثار، بے شمار’ غبارے ہوں، سیوموٹووالا دیو ہو یا درشنی شیر ہوں۔ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ زبانیں تالو سے چپک گئیں ہیں۔ جنرل پرویز مشرف ان کے لیے ایک جادو کا چراغ بن گیا ہے جو ان میں سے کسی کو کو بالکل نظر نہیں آرہا۔

ڈکٹیٹر پرویز مشرف پر سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کو مطلوبہ حفاظت فراہم نہ کرنے، بلوچستان کے قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کے قتل کی سازش کرنے اور 3 نومبر2007ءکو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ساٹھ ججوں کو حبسِ بے جا میں رکھنے کے مقدمات ہیں۔ جن میں ضمانتوں پر آج کل توسیع پر توسیع دی جارہی ہے۔

ویسے کما ل کی بات ہے کہ 12 اکتوبر 1999ء سے لے کر 9 مارچ 2007ء تک (چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معطلی کے آخری لمحے تک) ڈکٹیٹر کے سارے کرتوت معاف۔۔۔۔۔۔ یعنی ڈکٹیٹر کے نو سالوں میں سے پہلے آٹھ سالوں پر قطعاً نہیں، صرف آخری سال پر اعتراض ہے۔۔۔۔۔۔کیوں؟؟؟ بہت زیادہ سوچنے یادماغ پر زور دینے کی ضرور ت نہیں کہ ڈکٹیٹر کے پہلے آٹھ سالوں میں اُس کے پارٹرز کون کون تھے؟؟؟

غاصب پرویز مشرف نے سترہ کروڑ عوام کے سامنے ناجائز طور پرپاکستان پر قبضہ کیا۔ یعنی پوری عوام چشم دید گواہ ہے۔ اس جرم پر فرد جرم لگانےکے لیےمزیدکون سے قانونی تقاضے پورے کرنے ضروری ہیں؟

مان گئے بھئی۔۔۔۔۔۔ اگر آج چانکیہ، میکیاولی، گوئبلز اور انیسویں صدی میں آسٹریا کے چانسلر میٹرنخ زندہ ہوتے تو ان بڑھک باز کے سامنے زانوئے تَلَمُذ تہ کرتے۔

یہ پیش گوئی کرنا کون سا مشکل ہے کہ یہ سب چند دنوں کی ٹال مٹول کہانی ہے پھر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سب کیس قصہ پارینہ بن جائیں گے۔ مشرف کی موج مستی جاری رہے گی اوروہ ساری عمر ہمارے سینے پر مونگ دلتا رہے گا۔

12 اکتوبر 1999ء سے لے کر آج تک راقم کبھی بھی غاصب جنرل پرویز مشرف کا حامی نہیں رہا مگر آج پہلی بار اپنی قوم کے ڈکٹیٹر یعنی وِلن کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنے کو دل چاہ رہا ہے کہ اس نے واپس آکر اپنے والی وارثوں، صادق وامین فرشتوں اور قوم کے درد میں ڈوبے ہوئے لیڈروں کو سرِعام ایکسپوزکردیاہے ۔۔۔۔۔۔۔

آخر میں جنرل پرویز مشرف کو بتاتا چلوں۔ آپ پاکستان سمیت دنیا بھر میں داد عیش دیں ،شامیں خمار آلود، راتیں مدہوش اور صُبحیں جام صبوحی سے لبریز رکھیں، اپنی غداری کے قصوں کو عام کرکےپوری قوم کا تمسخراُڑائیں۔ مگر ہم آپ کو سکیورٹی کے ساتھ ساتھ بھرپور پروٹوکول دیں گے۔ اور آپ کو زندگی بھر آپ کی کمپنی ’آرمی لمیٹڈ‘ کے ایگزیکٹوز، جنہوں نے آئین پاکستان کو ردی کاغذ سے زیادہ کبھی اہمیت نہیں دی، جیسی عزت دینگے کیونکہ ہم ’بلڈی سویلین‘ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔

 

بشکریہ  ٹاپ سٹوری آن لائن،  18 اپریل 2013

http://www.topstoryonline.com/imam-bakhsh-blog-130418

Comments

comments

Latest Comments
  1. Aussie
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.