Faiz Ahmed Faiz’s silence on Pakistan army’s atrocities in Bangladesh – by Hasan Mujtaba
Veteran journsalist Hasan Mujtaba has written an excellent piece on the Pakistanis honoured by the Government of Bangladesh led by Awami league for their support to the people of bangladesh against the state of Pakistan when they were suffering a genocide by the hands of Pakistan Army and its proxies like Al-Badr and Al-Shams, Jamat Islami backed terrorist outfits.
Hasan Mujtaba has provided encompassing details of the unfamiliar and less known people who have supported the people of Bangladesh. He has raised some serious questions as well. We are paraphrasing these questions and important points he has raised and providing the text of his Urdu article published in Daily Jang.
1. How Sindhi Nationalists were inspired by the Awami League slogans of succession from Pakistan and how treatment of Bangali people by the state has forced G M Syed to express his disappointment with politics in Pakistan.
2. He has pointed towards the apathy and consciencelessness of the Pakistani intelligensia and litterati over the brutalities and barbarism of Pakistan Army and its terrorist offshoots. It can be understandable today with the same behaviour towards Balochistan, Shia genocide and extermination of Pashtun populace and political class going on across the country.
3. He has very rightly questioned award to Pakistani Marxist poet Major (r) Faiz Ahmed Faiz, who has not uttered a single word in support of people of Bangladesh and against his mother institution Pakistan Army for committing crimes against humanity. The only thing we can find is a verse, “Khoon ke dhabbey dhulein ge kitni barsaton ke baad” which seems inadequate for naming him for a national award with other real heroes and stalwarts. Major Faiz was fully supporting Army action against the people of Bangladesh as he was angry with Soviet Union support to them and was willing to return the “Lenin Prize” awarded to him by the Soviet government.
4. Hasan has appreciated the brave sons from the soils of Punjab, Balochistan and Sindh who had supported the people of Bangladesh and faced state wrtah and outrage as a result.
5. At the end, he quoted Shiekh Mujeeb warning to Zulfiqar A Bhutto against the Generals, “Generals of ours and yours, both have been trained at the same Kakul academy, they won’t spare both of us”
And now the Urdu text with courtesy of Daily Jang
بنگلہ دیش کے پاکستانی ہیرو…حسن مجتبیٰ
یہ1969ء کی بات ہے جب سندھ کے قوم پرست رہنما جی ایم سید نے اس وقت کی عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کے مغربی پاکستان کے دورے کے دوران ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک نہایت پرتکلف دعوت کی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن عوامی نیشنل پارٹی کے سندھ کے اس وقت کے رہنما محمود الحق عثمانی کے گھر پر مہمان تھے جہاں سندھ کے ہاریوں کے رہنما حیدر بخش جتوئی جب شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات کے بعد باہرنکلے تو انہیں پولیس نے گرفتار کرلیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن نے حیدر بخش جتوئی کی گرفتاری کے متعلق جب سنا تو وہ باہر نکل آئے اور انہوں نے حیدر بخش جتوئی کو گرفتار کرنے والے پولیس افسروں سے کہا تھا کہ وہ یحییٰ خانی آمریت کے غیر قانونی احکامات ماننے سے باز آ جائیں وہ ان کو ٹھیک کرنے کو جلد ہی ملک کے وزیراعظم منتخب ہوکر آنے ہی والے ہیں۔ کس نے جانا تھا تاریخ خونی پلٹا کھائے گی اور شیخ مجیب الرحمن اور ان کی پارٹی کے اکثریتی مینڈیٹ کو ماننے کے بجائے ان پر ٹینک چڑھا دیئے جائیں گے۔
شیخ مجیب الرحمن کے مغربی پاکستان کو اس دورے کے دوران عوامی لیگ مغربی پاکستان کے نائب صدر قاضی فیض محمد کی دعوت پر نوابشاہ بھی گئے تھے جہاں کے ریلوے اسٹیشن پر سندھ کے نوجوانوں نے ان کا شاندار استقبال کیا تھا۔ شیخ مجیب کے حیدرآباد ریلوے اسٹیشن پر استقبال کے دوران ان کے بنگالی نوجوان حامیوں کی طرف سے لگائے جانے والے نعروں نے پہلی بار سندھی قوم پرست نوجوانوں کے کانوں کو بھی متوجہ کیا تھا اور وہ بنگالی میں نعرے تھے ”تمہار،ہمار نیتا شیخ مجیب شیخ مجیب‘ ہمار دیش تمار دیش بنگلہ دیش بنگلہ دیش“ (تیرا لیڈر میرا لیڈر شیخ مجیب شیخ مجیب، تیرا دیش میرا دیش بنگلہ دیش بنگلہ دیش) کسے خبر تھی کہ صرف چار سال بعد سندھی قوم پرست جی ایم سید کے پیروکار بھی اسی طرز کے نعرے بلند کریں گے۔ کئی سندھی قوم پرستوں کے بیٹوں کے نام مجیب الرحمن ہوں گے۔ ” تہنجورہبر مہنجورہبر جی ایم سید جی ایم سید، تہنجو دیش مہنجودیش ، سندھو دیش سندھو دیش“ جو آج تک انتخابات میں نہیں پاکستان سے علیحدگی پریقین رکھنے والے قوم پرستوں اور سید کے پیروکاروں کے نہایت ہی پرجوش نعرے بنے ہوئے ہیں۔جی ایم سید اس کے ایک سال کے اندر 1970ء کے انتخابات میں اپنے آبائی حلقے کوٹری دادو سے پی پی پی کے امیداوار اور علاقے کے طاقتور سردار ملک سکندر کے خلاف سندھ متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے انتخابات لڑے تھے، ٹیلیویژن پر باقی پارٹیوں کے رہنماؤں کی طرح اپنا پروگرام پیش کرنے وہ بھی آئے تھے لیکن ضمانت ضبط کراکر انتخابات ہار گئے۔ بہرحال 1970ء کے انتخابات میں اپنی ہار اور اس وقت کے مشرقی پاکستان میں باوجود سب سے بڑی اکثریتی پارٹی کی حیثیت میں جیت کر آنے کے باوجود جو کچھ شیخ مجیب الرحمن، ان کی پارٹی اور مشرقی بنگال کے ساتھ کیا گیا اس کو دیکھ کر ہی سید نے پاکستان کے وفاقی ڈھانچے میں سیاست سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے سندھو دیش کا نعرہ بلند کیا تھا۔
سید کے نعرے اور سیاست کا ذکر تو برسبیل تذکرہ ہوا لیکن شیخ مجیب الرحمن کااکثریتی مینڈیٹ ماننے کے بجائے جب اپنے سینہ چاکان مشرق بھائیوں بہنوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف مغربی پاکستان کے ضمیر کو سانپ سونگھ گیاتھا۔ اکثر طور کیا عوام، کیا خواص ان کی حمایت کیا کرتے الٹا ہی یحییٰ خان کے ساتھ ہو لئے تھے لیکن چند چاک گریبان دیوانے اس صحرا میں صدا رکھتے تھے۔ اصل میں ایسے کئی لوگ تھے معروف و گمنام۔ گزشتہ ہفتے ان دیوانوں اور اپنے پاکستانی دوستوں کو (جن میں سے اب کئی نہیں رہے) کے ورثا کی معرفت بنگلہ دیش کی حکومت نے ان کی جدوجہد و حمایت کے اعتراف میں اعزازات دیئے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ عظیم شاعر اور انسان فیض احمد فیض کو بھی یہ اعزاز کس وجہ سے دیا گیافیض صاحب نے تو اس تاریخ کے سب سے بڑے بغداد پر خاموشی اختیار کئیرکھی تھی اگر بولے بھی تو بنگلہ دیش کی جدوجہد کے خلاف ہی بولے تھے۔ وہ تو غلط یا برابر تب کے سوویت یونین کی طرف سے فوجی ایکشن کے خلاف عوامی لیگ کی مدد کرنے پر اپنا لینن پرائز بھی واپس کرنے لگے تھے۔ فیض صاحب زیادہ تر بقول شیخ ایاز ریڈیو پاکستان کی طرف سے منعقد ہونیوالے غالب کے دربارعام کے مشاعروں کی صدارت ہی فرماتے رہے تھے۔ ہوسکتا ہے ان کو یہ اعزاز ان کی اس نظم پر ملا ہو ” ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد“ جسکے ایک مصرعے میں فیض صاحب نے بنگلہ دیش کے قتل عام کو محض ”خون کے دھبوں“ سے تشبیہ دی ہے کہ ”خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد“ کئی برس ہوئے جب میں نے فیض صاحب کا یہ مصرعہ ایک بنگلہ دیشی صحافی کو سنایا تو اس نے کہا تھا ”حسن صاحب یہ دھبے کبھی نہیں دھلیں گے“ شاید ہمارے آنسوؤں سے دھل جائیں اک دن۔ آؤ کہ دیوار گریہ بنائیں۔ برطانیہ نے بھارت سے جلیانوالہ باغ کی معافی مانگ لی آپ بھی اپنے بھائیوں بہنوں سے سابق مشرقی پاکستان میں زیادتیوں پر معافی مانگ لیں۔
یہ کہنا ایک اور زیادتی ہے کہ پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں تھا اگر میڈیا آزاد ہوتا تو بنگلہ دیش میں اتنی زیادتیاں نہیں ہوتیں۔ بلوچستان میں کئی زیادتیاں بلوچوں کے ساتھ،بنگالیوں کی ساتھ ہونے والی زیادتیوں جیسی ہی ہیں تو آزاد میڈیا نے کرنے والوں کا کیا کر لیا ہے۔ اس وقت اگرچہ میڈیا آزاد نہیں تھا تب بھی مظہر علی خان اور اختر حمید جیسے لوگوں نے بنگالیوں پر ہونے والی زیادتیوں پر اپنے اخبارات میں لکھا تھا، اختر حمید تو جیل بھی گئے تھے۔
شاید پنجاب سے پہلی دو گرفتاریاں مشرقی فوجی ایکشن کے خلاف احمد سلیم اور حبیب جالب کی ہوئی تھیں۔ کسے خبر ہے کہ نہیں پنجابی ادب اور زبان کو دنیا بھر میں متعارف کرانے والے یہ خاموش خدمت گار اور ہم عصر سیاسی و ادبی تحریکوں کی یہ جیتی جاگتی تاریخ احمد سلیم آج کل زندگی اور موت کے کشمکش جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہیں مگر وہ قوم جو پہلا ظلم اپنی ماں بولی پر ہی کرتی ہو اس کو اتنا وقت کہاں۔ یہ خود دار گمنام سپاہی حکومتوں سے اپنی زندگی کا دان مانگا کرے۔
مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کی مخالفت کرنے والے دیگر لوگ سید آصف شاہکار، شاید منظور اعجاز، باسط میر بھی تھے، طاہرہ مظہر علی خان ، ملک جیلانی، ماسٹر خان گل، لائلپور کے بھٹہ صاحب بھی تھے۔ سندھ کے جیکب آباد شہر سے تب سترہ سالہ نوجوان زاہد مخدوم، غالب لطیف، لطیف مہر ،فتاح عابد لاشاری، کنہیا لال بھی تھے جنہوں نے ہاتھ سے پمفلٹ لکھ کر سابقہ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کے خلاف بانٹے تھے۔ یہ لوگ دھر لئے گئیاور انہیں فوجی عدالت سے سزائیں ہوئیں۔
سندھی کے سب سے بڑے شاعر شیخ ایاز جو سینئروکیل تھے سکھر بار ایسوسی ایشن سے مشرقی بنگال میں فوجی ایکشن کے خلاف قرارداد منظور کرانے کی کوشش پر گرفتار کئے گئے۔ آج کے سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل فتاح ملک جو کہ سندھی کے معروف شاعر بھی ہیں، رشید بھٹی اور تنویر عباسی بھی فوجی ایکشن کی مخالفت میں تھے۔ بائیں بازو کے اس وقت کے طالب علم رہنما جام ساقی نے اپنی سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن یا سندھ این ایس ایف کے نوجوانوں اور مزدوروں کے ساتھ حیدرآباد سے ایک احتجاجی جلوس نکلوایا تھا۔ بلوچ قومی شاعر میر گل خان نصیر اور بابائے استمان کہلانے والے میر غوث بخش بزنجو بھی فوجی ایکشن کی مخالفت پر صعوبتیں برداشت کرنے والوں میں سے تھے۔سندھی شاعر اور صحافی انور پیرزادو جو اس وقت پاکستان فضائیہ میں پائلٹ افسر تھے اپنے ایک پرانے ساتھی لیکچرر کو سندھ یونیورسٹی میں خط لکھا تھا جس میں مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن میں بنگالیوں کیساتھ ہونے والی زیادتیوں کی مذمت کی تھی۔ وہ خط سنسر ہوکر پکڑا گیا، انور پیرزادو کا کورٹ مارشل ہوا، انہیں سات سال سزا ہوئی۔اب انور پیرزادو، پروفیسر وارث میر، احمد سلیم، حبیب جالب، فیض احمد فیض، غوث بخش بزنجو ، ملک جیلانی اور قاضی فیض محمد کو ان کی مظلوم بنگالیوں کی حمایت کے اعتراف کے طور پر بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے ہاتھوں اعزازات دیئے گئے جو ان کی اولادوں نے وصول کئے ہیں۔ قاضی فیض محمد بنگلہ دیش بننے کے بعد دلبرداشتہ ہو گئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے آنے پر وہ جب عمرہ کرنے اپنی اہلیہ کے ہمراہ جہاز پر سوار ہورہے تھے تو انہیں جہاز سے اتار دیا گیا تھا، بعد میں وہ سرحد پار کر کر بھارت پھر لندن اور بنگلہ دیش پہنچے تھے۔ جب وہ جلاوطنی سے واپس آئے تو انہیں نظربند کیا گیا۔ ایک مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں اپنا ایلچی بنا کر شیخ مجیب الرحمن کے پاس بھیجا تھا۔ قاضی فیض محمدبتایا کرتے تھے کہ شیخ مجیب الرحمن نے ان سے کہا تھا ”قاضی صاحب!بھٹو صاحب سے جاکر کہنا کہ تمہارے اور میرے جنرل دونوں کاکول کے تربیت یافتہ ہیں وہ نہ تمہیں چھوڑیں گے نہ مجھے“۔