چمچے، خوشامدی اور انتخابات کا موسم

fed_758675

تحریر: وجاہت مسعود

لاہور کی مال روڈ سے درخت کٹے تو ناصر کاظمی بہت دِن اْداس رہا۔ اورینٹل کالج میں عبادت بریلوی سے ملاقات ہوتی یا ٹی ہاوٴس میں انتظار صاحب سے مکالمہ، یہی قصہ چلتا رہتا۔ سڑک تو چوڑی ہو جائے گی مگر سو، ڈیڑھ سو برس پرانے درخت کہاں سے لاوٴں گا جن کی چھاوٴں میں چہل قدمی کرتے ہوئے سیکڑوں جوڑوں نے محبت کرنا سیکھی تھی۔ ناصر آج زندہ ہوتا تو اْسے کٹ جانے والے درختوں پر رشک آتا کہ جو درخت کٹنے سے بچ گئے تھے وہ سوکھنے سے نہیں بچیں گے کیونکہ اْن سے خوشامد میں لتھڑے بینر باندھے جاتے ہیں۔ خوشامد کی لْو درختوں کو لگے تو وہ سوکھ جاتے ہیں۔ خوشامد کے تھپیڑے شہروں میں چلنے لگیں تو بھرے پْرے شہر اْجڑ جاتے ہیں۔ اِسے قحط الرجال کہتے ہیں۔

لاہور میں غیر ملکی رہنماوٴں کی آمد پر خوش آمدید کے سرکاری بینر ٹانگنے کی روایت کو 1974 کی اسلامی کانفرنس سے فروغ ملا تھا۔ بعد کے برسوں میں خوشامد کے مایوس مریضوں نے اِسے یوں اپنا لیا کہ آج پنجاب اسمبلی سے لے کر جم خانہ تک مال روڈ کا ہر چوک گویا صاحب ِاقتدار اور صاحب غرض افراد کی ڈائریکٹری بن کر رہ گیا ہے۔ فتح انگلش کی ہوتی ہے، قدم جرمن کے بڑھتے ہیں۔

پاکستان میں خوشامد کا فن نیا نہیں لیکن اسے پوشیدہ خارش کی طرح ملفوف رکھا جاتا تھا۔ اب اس کی زخمِ جگر کے طور پر نمائش کی جاتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد میونسپل کمیٹی راولپنڈی کے چئیرمین مسعود صادق ون یونٹ سے ہوتے ہوئے فیلڈ مارشل ایوب کے درِ دولت تک پہنچے تو اس فن میں منجھ چکے تھے۔ سردار صادق اور زمرد ملک جیسے بذلہ سنج ایک معروف ریستوران میں ویٹر سے چمچہ مانگنے کی بجائے حْسن طلب کا اظہار یوں کرتے تھے ’بھائی، ایک مسعود صادق تو لانا‘۔ بدایوں کے ماجد میاں مرحوم کی وزیرِ خزانہ شعیب پر پھبتی تو ہماری تاریخ کا حصہ بن چکی۔ ’حضور، لوگ کٹلری کے بارے میں کچھ کہہ رہے ہیں۔

ایوب خاں نے اس فن میں کیسا کیسا جوہرِ قابل دریافت کیا۔ قدرت اللہ شہاب اور اشفاق احمد اْنہیں بادشاہ کہتے تھے تو پیر علی محمد راشدی خط لکھ کر نیلی آنکھوں اور چوڑے شانوں والے فرزندِ ریحانہ سے بادشاہت کے باقاعدہ اعلان کا مطالبہ کرتے تھے۔ نظریہ پاکستان کے بستہ برداروں کو شاید یاد ہو کہ قائد اعظم کی سوانح ’مائی لیڈر‘ لکھنے والے زیڈ اے سلہری نے دسمبر1964 میں ’سیاستدان اور ایوب‘ کے نام سے ایک کتاب فاطمہ جناح کے خلاف بھی لکھی تھی۔ قائد اعظم کے دوسرے سوانح نگار جی الانہ محترمہ فاطمہ جناح کے انتخاب میں شریک ہونے کا اعلان سنتے ہی اْن کی کتاب ’میرا بھائی‘ کی تدوین سے دست بردار ہوگئے تھے۔ یہ بھی کچھ ایسی یاد رکھنے والی بات نہیں کہ چوہدری ظہور الٰہی اس انتخابی معرکے میں ایوب خاں کے دست راست تھے اور یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو ایوب خاں کی انتخابی مہم کے مہتمم تھے۔ انتخابات کی آمد آمد ہے۔ موسم آن پہنچا کہ عشروں سے خوشامد کے فن لطیف کی آبیاری کرنے والے اپنی اپنی دف کی مدح میں سلوک کی نئے منزلیں طے کریں گے۔

رائے عامہ کا رخ بھانپ کر طویل مدت کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ ممکنہ حکمرانوں کا نام لے لے کر تہنیتی مضمون باندھے جائیں گے۔ پرانے سہروں میں نئے نام ٹانکے جائیں گے۔ اچھی حکمرانی کے تیر بہدف صدری نسخے ارزاں کیے جائیں گے اور پھر آواز بھرنے والے مشاعرہ سر پر اْٹھا لیں گے ’ اے فلاں ابن فلاں، قدم بڑھاوٴ۔ ‘ نواز شریف نے کچھ برس قبل لندن میں ایسے ہی کاملانِ فن کے بارے میں کہا تھا کہ میں نے قدم بڑھا دئیے اور پیچھے مْڑ کر دیکھا تو پْرزور اصرار کرنے والے اصحاب غائب تھے۔ معروف سیاسی دانشور امجد سلیم منہاس کو گلہ ہے کہ اس ملک میں خوشامدی بیانات کا مضمون بہت پامال ہو چکا۔ صاحب اقتدار کا نام بدل جاتا ہے۔ صاحب خوشامد کے مقام کی رعایت سے یک کالمی اور دوکالمی خبر کا تعین بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن نصف صدی سے وہی گنی چنی بحریں رگیدی جا رہی ہیں۔ پہلا مضمون تو یہ ہے کہ جو اقتدار میں ہے وہی بہترین ہے اور کون ہے جو ایسے کار ہائے نمایاں انجام دے سکے۔ بھلے اِذنِ اظہار نہ ہو مگر استفسار کا محل تو ہے کہ صاحب اقتدار کے نابغہ روزگار ہونے کا علم آپ کو اس کے مسند نشین ہونے کے بعد ہوا یا پہلے؟ سچ تو یہ ہے کہ صاحب اختیار سیاسی عمل کو موقع دے تو کسی اور کے امکان کی پنیری نمو پائے۔ چاپلوسی کا ایک ڈھنگ یہ ہے کہ اس نگینے کو چھوڑ کر باقی سب بدعنوان ہیں۔

گزشتہ سب تخت نشیں بْرے تھے۔ اس تشبیب سے گریز کے طور پر ایک استثنٰی محمد علی جناح کا رکھا جاتا ہے۔ کچھ مذہبی رجحان رکھنے والے چھلانگ لگا کر یہی رعایت عمر بن عبدالعزیز کو بخش دیتے ہیں۔ چڑھتے سورج کے خمار میں کسے یاد رہتا ہے کہ گزشتہ رات آپ انہی سابقہ بدعنوان لوگوں کے خوانِ نعمت پر جلوہ افروز تھے۔
غرض آلود خوش فہمی کا ایک زاویہ یہ ہے کہ ظلِ سبحانی کی نیت اچھی ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اجتماعی زندگی میں نتائج کا نیت سے کیا تعلق، انگریزی محاورہ تو کہتا ہے کہ جہنم کو جانے والے سب راستے اچھی نیت ہی سے عبارت ہوتے ہیں۔ یہ سوال تو بہر صورت وضعداری کے منافی ہے کہ صاحبِ حکم کی نیت سے یہ آشنائی آپ نے قربِ سلطانی کے کس آسن سے کشید کی ہے؟ بددیانت تعزز کی جھلک دیتے لب و لہجے کا ایک رنگ یہ ہے ’ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں کہ حکمراں ( نوٹ: موجودہ حکمراں) اچھا انسان ہے۔ ‘ گویا ان کا ذاتی علم کروڑوں عوام کی اجتماعی دانش پہ فوقیت رکھتا ہے۔

مادی ترقی کے بغیر نوالہ نہ توڑنے والے کچھ مغرب زدہ نالیوں، سڑکوں اور شفا خانوں جیسے معمول کے ترقیاتی کاموں کی دلیل پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حکمران سے اختلاف کرنے والے ملکی ترقی کے دشمن ہیں۔ اس کا مطلب شاید یہ ہے کہ ملکی ترقی اور جمہوری ثقافت شاید دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دوسری طرف تاریک خیالوں کے لئے ٹیپ کا مصرعہ کچھ برس پہلے تک یہ تھا کہ صاحب شراب نہیں پیتے۔ ’اب نہیں لیتے پری رو زلف لہرانے کا نام‘۔

عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے کچھ دردمندوں کا جو دراصل ملتان کے ادنٰی کارکن ہوتے ہیں، طرز کلام مختلف ہوتا ہے۔ ’ آئین اور جمہوریت تو وکیلوں کے چونچلے ہیں۔ عوام تو عزت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ‘ عوام کے سیاسی شعور پر شک کرنے والے ان بزرجمہروں کی خوش قسمتی سے عوام صبح و شام کلرکوں کے درِ حاجت روا سے لے کر تھانیداروں کے دروازے تک جھولیاں بھر بھر کر عزت کماتے ہیں۔ جنہیں پاسپورٹ پر دو چار غیر ملکی مہروں کا شرف مل جائے، وہ اپنی جہاں دانی کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ تخت نشیں مذکورہ نے ملک کی عزت بڑھائی ہے۔ کیا عرض کیا جائے کہ قوموں کی عزت بھاگ دوڑ سے بڑھانے کی چیز نہیں۔ اجتماعی وقار کے سوتے کسی کی ذاتِ معجزہ کار سے نہیں، قوموں کے مستحکم سیاسی درو بست، کارخانوں اور مدرسوں سے پھوٹتے ہیں۔ امجد سلیم منہاس کا شکوہ بجا ہے۔ خوشامد کے یہ مضمون پامال ہی نہیں ہو چکے، اب تو یہ زمین بھی کْھد چکی۔ لاہور کی مال روڈ پر لہراتے ذوق اور معنی سے عاری بینر تو فیض کا کلام بھی نہیں کہ حالات بدلیں نہ بدلیں، اچھے شعر کا لطف ہی اٹھایا جا سکے

بشکریہ: روزنامہ جنگ

Comments

comments

Latest Comments
  1. Khwaja Aftab Shah
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.