اس کے نام جس کا کوئی وکیل نہیں – سلمان تاثیر، شہباز بھٹی اور جنید حفیظ کی کہانی

sal

Related post: Islamofascists of Jamat Islami initiate blasphemy case against a university teacher in Multan

ایران کے ایک جلاوطن دانشور فلسفی عبدالکریم سروش ہیں وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے میں حریت فکر کی پیمائش کا پیمانہ اس معاشرے کی جامعات ہواکرتی ہیں اور اگر جامعات ہی میں حریت فکر کا راستہ مسدود ہوجائے تو پھر پورا سماج ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے-اس فلسفی کا کہنا ہے کہ ایرانی سماج میں ملائیت حریت فکر کو جامعات میں طلاق مغلظہ دے چکی ہے اس لیے ایرانی سماج آج طوطوں کا سماج بن چکا ہے اور اس سماج میں شہد کی مکھیوں کا اجتماع نایاب ہوچکا ہے-سروش کی ان باتوں کا مغرب کے سامراج ادارے اپنا مفہوم اخذ کرتے ہیں اور ان کو اپنی تعبیروں کے ساتھ بیان کرتے ہیں جن سے میں اتفاق نہیں کرتا-لیکن سروش کی اس بات کا مصداق ایران کی جامعات سے کہیں زیادہ پاکستان کی جامعات ہیں-جہاں فکر کی آزادی کو سلب کرنے میں ایک اہم کردار نصاب کا ہے تو دوسری طرف ایسے اساتذہ اور طلباء کا ہے جو فکری آزادی سے نفرت کرتے ہیں اور ان کو عقل انسانی کی جولانی سے ہر وقت خوف لاحق رہتا ہے-

>ان عقل کے دشمنوں کی چیرہ دستیوں کا تازہ نشانہ جنید حفیظ نام کا ایک وزیٹنگ لیکچرر بنا ہے-جو بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں تدریس کرتا تھا اور یہ لیکچرر روشن خیالی اور عقلیت کا علمبردار تھا اور وہ بےجان طریقے سے تدریس پر یقین نہیں رکھتا تھا-وہ اپنے شاگردوں کو طوطے اور طوطی نہیں بنانا چاہتا تھا بلکہ ان کو شہد کی مکھیوں کی طرح باشعور اور دانا بنانے کا خواہاں تھا-توھم پرستی اور تاریک خیالی کی دلدل سے نکالنے کی وہ کوشش کررہا تھا-اس پر جماعت اسلامی پاکستان کے طلباء ونگ اسلامی جمعیت طلباء پاکستان سے تعلق رکھنے والے لڑکے اور لڑکیوں نے الزام لگایا ہے کہ وہ توھین رسالت کا مرتکب ہوا ہے-اس کے خلاف یہ سازش تیار کرنے والے وہی لوگ ہیں جن کا کردار ہمیشہ یہ رہا ہے کہ جب وہ دلائل کے میدان میں مقابلہ نہ کرپائیں اور سیاسی میدان میں شکست کھارہے ہوں تو وہ اپنے مدمقابل کے خلاف توھین مذھب کا الزام لگانے میں دیر نہیں لگاتے-

مجھے یاد آرہا ہے کہ پی پی پی اور نیشنل عوامی پارٹی نے 70ء میں انتخابی مہم شروع کی اور عوام نے جب ان کو والہانہ محبت سے نوازنا شروع کیا اور جماعت کے پروپیگنڈے کو رد کردیا تو اس کے لاہور کے زمہ داران نے ایک گھناؤنی سازش کی اور اپنے دفتر میں آگ لگائی اور اس میں خود ہی قران مجید کو آگ لگادی اور الزام پی پی پی پر لگاڈالا-اور عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش کی لیکن جلد ہی اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگیا اور اصل لوگ پکڑے گئے-آئی ایس آئی کے سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر شجاعت ترمذی نے اپنی کتاب”پروفائل آف انٹیلی جنس “میں لکھا ہے کہ جماعت اسلامی کے لوگوں نے اپنے لوگوں سے پی این ایے کے مساجد میں ہونے والے جلسوں پر حملے کیے اور خود ہی بم دھماکے بھی کروائے-

جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت نے یہ ہی نہیں کہ لبرل اور سیکولر لوگوں پر کفر اور گستاخی کے الزامات لگائے بلکہ 70ء میں جب مفتی محمود والد مولانا فضل الرحمان ،عبداللہ درخواستی اور غلام غوث ہزاروی نے پی پی پی اور نیپ کے خلاف فتوے دینے سے انکار کیا اور سماجی انصاف کو عین اسلام قرار دے دیا تو ایک دم ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ یہ علماء قرآن اور سنت سے فتاوے نہیں دیتے بلکہ یہ تو کارل مارکس اور لینن کی کتابوں سے فتوے دیتے ہیں-

یہ جماعت اسلامی کے غنڈے تھے جنہوں ایک مبینہ گستاخانہ ای میل کی فرنٹیر پوسٹ پشاور میں اشاعت پر اس اخبار کی ساری بلڈنگ کو آگ لگا دی تھی-ہم سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی کے معاملے میں بھی اس جماعت کا رویہ دیکھ چکے ہیں-پنجاب یونیورسٹی میں اس جماعت کی غنڈہ گردی اور فسطائیت کا نشانہ صرف روشن خیال طلباء گروپ ہی نہیں بنے بلکہ اس کا نشانہ امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور انجمن طلباء اسلام کے طلباء بھی بنے-جب ڈاکٹر طاہر القادری نے لاء کالج میں انتخاب جیتا تو جماعت کے اس طلباء ونگ نے اس جیت کو لادین عناصر کی جیت قرار دے ڈالا تھا-70ء تک جماعت اسلامی اپنے مخالفوں کے خلاف صرف پروپیگنڈے سے کام چلاتی رہی –لیکن اس کے مرشد اکبر ضیاء الحق نے جب توھین رسالت ایکٹ بنایا اور اس کی شقیں 295 اے،بی ،سی سامنے آئیں تو اس نے پروپیگنڈے پر اکتفا کرنا بند کردیا اور اساتذہ و طلباء پر اس ایکٹ کے تحت مقدمے قائم کرانے کی بدعت کا آغاز کیا-اسی بدعت کا نشانہ جنید حفیظ بنا ہے-

اصل کہانی یہ ہے یونیورسٹی کے اندر خواجہ علقمہ وائس چانسلر بنے ہیں اور وہ جماعت کے اس ونگ کی شرارتوں سےبہت پہلے سے واقف ہیں-انہوں نے اہم انتظامی عہدوں اور یونیورسٹی کے شعبہ جات میں عرصہ دراز سے چیرمین اور ڈین کے عہدوں پر قابض چلے آنے والے مذھبی محتسبوں کو فارغ کردیا ہے اور ان کی جگہ حریت فکر کے داعیوں کو آگے کیا ہے-وزیٹنگ لیکچررز کے انتخاب میں بھی ایسے لوگوں کو سامنے لایا گیا ہے جو قابل استاد ہیں اور طوطے نہیں ہیں جن کی روشن خیالی ان کی نااہلی بنی ہوئی تھی-جنید حفیظ بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھا جس کے خلاف گھناؤنک سازش کامیاب ہوگئی ہے-

کس قدر ستم کی بات ہے کہ جس پر توھین رسالت کا الزام لگ جاتا ہے وہ بےچارہ ایک دم اپنے سارے حمائیتوں سے محروم ہوجاتا ہے-اور اس کے دوستوں کو بھی اس کو پھول ہی سہی مارنا ضرور پڑتا ہے-جنید حفیظ کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے-اس کو لانے والے خواجہ علقمہ وی سی اس کی مذمت کرنے پر مجبور ہوئے-اوروہ جنید کے لیے شبلی ثابت ہوئے ہیں-اور یونیورسٹی کے اندر روشن خیالی کے سارے مرشد ایک دم سے جنید بغدادی بن گئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ جنید کو کیا ضرورت تھی اس قدر آگے جانے کی-

آپ کو یاد نہ ہو تو میں آپ کو یاد دلادوں کہ منصور حلاج نے جن خیالات کا اظہار عام کیا تو وہ عام کرنے سے پہلے وہ خیالات اپنے دوست شبلی اور اپنے مرشد خواجہ جنید بغدادی کے سامنے کرچکا تھا اور ان سب نے ان کی تائید کی تھی لیکن جب اس نے ان کا پرچار کیا اور اس پر زندیق ہونے کا الزام لگا تو یہ دوست اور مرشد سب آنکھیں پھیر گئے –

ایسا ہی ایک اور منظر ہم نے اورنگ زیب کے دور میں دارشکوہ اور سرمد کے ساتھ ہوتے دیکھا تھا-یہ دونوں کے دونوں زندیق اور ملحد قرار دیکر شہید کردئے گئے تھے-

یہی کچھ جنید حفیظ کے ساتھ ہوا ہے-اس کے سارے اپنے بیگانے ہوگئے ہیں-اور سب اس کی مذمت کررہے ہیں-

جنید جو کل تک طلباء و طالبات کے اندر اپنے علم وفضل اور تدریس کے لحاظ سے مقبول استاد تھا آج سب سے زیادہ قابل نفرین آدمی بنا ہوا ہے-اس کو 295 سی کے تحت گرفتار کیا جاچکا ہے-اس کا فیس بک اکاؤنٹ بلاک کردیا گیا ہے-اور اسلامی جمیعت طلباء اور جمعیت طلبہ عربیہ اس کے خلاف ایک بھرپور مہم چلارہی ہے اور اس مہم میں جنید حفیظ کا اصل گرو وی سی ملتان یونیورسٹی کو قرار دینے کی کوشش ہے-اس دوران اور دائیں بازو کی مذھبی تنظیمیں بھی میدان میں آگئی ہیں-ایسے ظاہر کیا جارہا ہے کہ جنید حفیظ کو جناب رسالت مآب کی عزت و حرمت کا کوئی پاس نہیں تھا اور وہ کائنات کے رب کی مجبوب شخصیت کے خلاف زبان طعن دراز کرنے میں بہت بےباک تھا-ظاہر یہ الزام ایسا ہے جس پر لگے اس کے خلاف نفرت کا طوفان بہت تیزی سے اٹھتا ہے اور اصل حقیقت سے پردہ اٹھنے سے پہلے ملزم کی زندگی یا تو ختم ہوجاتی ہے یا وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا جاتا ہے-پولیس کے افسر اس کو بے گناہ لکھنے کا رسک نہیں لیتے اور سیشن جج یہاں تک کہ ہائی کورٹ کے جج اس کو بری کرنے کی ہمت نہیں کرتے اور وہ سپریم کورٹ سے اگر بری بھی ہوتو اس کو بیرون ملک پناہ لینے کی ضرورت پیش آجاتی ہے-اور اس دوران جیل کے اندر پتہ نہیں چلتا کہ کب کسی مجرم کو اپنے گناہوں کی تلافی کا خیال ستائے اور وہ اس راندہ درگاہ کے خون سے اپنے گناہوں کی تلافی کرنے اور اپنے رب کو رازی کرنے کی کوشش کربیٹھے-اس دوران اس کو عدالت تک لیجانے والے قانون کے محافظوں میں سے بھی کسی کا ضمیر جاگ سکتا ہے اور وہ بھی اس کو انجام سے پہلے انجام تک پہنچا سکتا ہے-

جنید حفیظ ایسے تمام خطرات کا شکار ہے-پولیس افسران کی ایک ٹیم اس کو گستاخی کا مرتکب قرار دے چکی ہے-اور اس غریب کا کوئی حامی نہیں ہے-

مجھے لگتا ہے کہ مذھبی احتساب کے جنون میں مبتلا معاشرہ مغرب کے اندر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ طیبین طاہرین کی ذات مقدس پر ہونے والے رکیک حملوں کے زمہ داران کو تو کچھ نہیں کہہ پائے لیکن یہاں ان کے جنون کا پردہ چاک کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنانے کی کوشش کررہے ہیں-اور اس میں ان کو کامیابی ہورہی ہے-

سب لوگ احتساب کے جنونیوں کے ہاتھوں آذیت سے بچنے کے لیے خود کو ستم رسیدہ لوگوں سے لاتعلق کرنے میں عافیت خیال کرتے ہیں-لیکن کیا وہ عافیت میں رہ پائیں گے؟ہرگز نہیں-معاشرے میں فسطائیت کے زھر کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لاتعلقی کا رویہ ترک کرنا ہوگا-

Comments

comments

Latest Comments
  1. dtruth
    -
  2. Muhammad Ali
    -
  3. Abdullah AlFaisal
    -
  4. Omar Khattab
    -
  5. AbdusSalam
    -
  6. yousuf khan
    -
  7. Farrukh nazir
    -
  8. Kamran
    -
  9. Sapna Sahil
    -
  10. Sapna Sahil
    -
  11. Sadia
    -
  12. Sapna Sahil
    -
  13. comeout
    -
  14. comeout
    -
  15. comeout
    -
  16. comeout
    -
  17. comeout
    -
  18. Sapna Sahil
    -
  19. comeout
    -
  20. comeout
    -
  21. comeout
    -
  22. comeout
    -
  23. realistic man
    -
  24. Rashid Rehman
    -