پسند اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا

1

کہتے ہیں کہ جب پیٹ بھرا ہو تو ہری ہری  سوجھتی ہے، اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ ہر تہذیب نے اوج تب ہی حاصل کیا جب خود کفالت کی منزل تک آ  پنہچی اور اس کے بعد اوج سے موج تک پنہنچتے وقت نہ لگا ، چاہے وہ سمیری ہوں چاہے  عکادی ، چاہے انکا ہوں یا مایا، ہندوستانی ہوں یا چینی ، یونانی ہوں یا رومی، جب عروج سے زوال کی طرف بڑھے تو عجب عجب فرسودہ خیالات ، رسومات، اور رواجات نے اپنی جگہ بنا لی، صلاحیتوں کی جگہ محض غرور اور تکبر ہی سے کام چلنے لگا، اور آگے بڑھنے کے بجاۓ لوگوں نے پیچھے دوڑنا شروع  کر دیا. ہمارے ہاں بھی خوشحال خود کفیل طبقات کا حال کچھ ایسا ہی ہے کہ جہاں جہاں تک فکر کے گھوڑے دوڑ سکتے ہیں دوڑتے ہیں .ہندوستانی موسیقی اور ڈرامے کی تکفیر کے دوران آج ایک صاحب باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ شاہ رخ اور سلمان کی فلمیں دیکھنا حلال ہے کیونکہ وہ مسلمان ہیں، ہم نے کہا اس حساب سے تو سنجے دت محض مکروہ ہوا. اور اگر شاہ رخ اور کترینہ ایک ساتھ ہوں تو ایسی فلم بھی مباح ہی سمجھئے، اگر تبو ناچ رہی ہو تو برداشت مگر مادھوری اس وقت تک حرام جب تک کسی مولوی کے عقد میں نہ آ جاۓ.

ایسے ہی ایک مولوی صاحب  نے ارشاد فرمایا کہ موسیقی پھیلنے سے زنا پھیلتا ہے اور زنا پھیلنے سے قتل و غارت میں اضافہ ہوتا ہے، ہمارا تو سادہ سا مشوره یہ ہے کہ قبلہ کچھ عرصے تک پکّے گانے سنیں پھر فرمائیں کہ ایسی موسیقی سے کیا پھیل سکتا ہے. جو یہ جبر برداشت کر لے وہ کہاں اس قابل رہتا ہوگا کہ مائل بہ جبر ہو سکے.

ہم جہاں کے رہنے والے ہیں وہاں کا پاگل خانہ بڑا  مشہور ہے، اس کی بڑی بڑی دیواریں بچپن سے ہی ہم کو فسینیٹ کرتی رہی ہیں، ہم ایک زمانے تک یہی سوچا کرتے تھے کہ پاگل نہ ہو سکے تو پاگلوں کے ڈاکٹر ہی بن جائیں گے، کسی طرح تو ان دیواروں کے اندر جانے کا موقع ملے گا. حالات بدل گئے، ہمارے دوست مجید کا کہنا ہے کہ اب تو یہ بھی نہیں سمجھ آتا کہ پاگل خانہ ان دیواروں کے اندر ہے کہ باہر. خیر تو ایک صاحب پڑوس میں رہتے تھے کہ جن کو موسیقی سے بڑا لگاؤ تھا، راگ راگنی سے بڑی اچھی واقفیت تھی، گاتے تھے اور ہم ایسے فلمی موسیقی سننے والوں کا ذرا منہ نہ لگاتے تھے، ان  کو پاگل خانے والے  کبھی کبھی بلاتے کہ پاگل بھی موسیقی سے متاثر ہوتے اور اکثر کسی مائل بہ تشدد مریض کے رویے میں تبدیلی آ جاتی، ہمارے پڑوسی اپنے قدر دانوں کے بڑے قائل تھے، کہتے تھے کہ علم اور اہلیت کی داد پانی ہو تو پاگل خانے جاؤ. یہ فائدہ  بھی تھا کہ اگر کسی مریض میں ذرا بھی صحت یابی کے آثار ہوتے تو فورا پتہ چل جاتا ، ان کا کام تھا کہ پکے راگ  الاپیں اور جب تک الاپے جائیں کہ اگر سننے  والے میں ذرا سا بھی ہوش باقی ہے تو چیخ پڑے کہ بھائی میں بالکل صحیح ہوں، مجھے نکالو کہ  اس سے تو اچھا باہر ہی رہوں گا.

یہ بھی سمجھ نہیں آیا کہ قبلہ پر یہ انکشاف کیونکر ہوا، اگر ان کے دعوے کی صحت کے لئے اعداد و شمار ہیں تو کہاں ہیں ؟ ان کی اپنی دریافت ہے تو کیونکر ہے؟ ذاتی تجربات ہیں تو اب تک کتنی بار ان حالات سے گزرے  ہیں، لگے ہاتھوں جملہ وارداتوں سے بھی اگاہ کر دیتے، آگے پولیس دیکھ  لیتی. اگرقبلہ کا ذاتی تجربہ ہے تو خدا جانے وہ موسیقی سے لطف اندوز ہونے کہاں جاتے رہے ہیں، ہو سکتا ہے وہاں جاتے رہے ہوں جہاں کا قاعدہ ہے کہ جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا، مگر قتل و غارت کی منزل تو وہاں ہرگز نہیں آتی، بلکہ جتنا بھائی چارہ اس بازار میں دکھتا ہے شاید ہی کہیں اور ہو کہ جملہ محمود و ایاز ایک ہی تھالی میں کھانا کھاتے دیکھے جا سکتے ہیں.

اگر ہم قبلہ کا پیش کردہ مفروضہ درست مان لیں تو سب سے زیادہ متاثر تو موسیقاروں اور گلوکاروں کو ہونا چاہیے، تمام حضرات و خواتین جو اس بدنام صنف سے وابستہ ہیں سب کو چھٹا ہوا واردتیا ہونا چاہئے تھا، کوئی طبلہ سارنگی سلامت نا ہوتا کہ مائل بہ تشدد ہو کر سب ایک دوسرے کے سر انہی آلات سے پھوڑتے، قتل و غارت سے قبل کی جو منزل قبلہ نے بتائی ہے، وہاں تک تو ہمارا خیال بھی نہیں پنہچتا، کیونکہ جتنے موسیقاروں گلوکاروں سے ہم واقف ہیں سب ہی بال بچوں والے امن پسند معصوم شہری ہیں، ہم سوچ رہے ہیں کہ کیوں نہ کسی ایک کا انتخاب کر کے اس کی ٹوہ میں رہنا شروع کر دیں کہ پتہ تو چلے کہ غم روزگار کے دوران زنا کا وقت کہاں نکالتا ہے، اگر قبلہ سنجیدہ ہوں تو پرائیویٹ جاسوس قسم کی کسی چیز کا انتظام بھی کیا جا سکتا ہے.

اسی طرح کا ایک فرمودہ مجید کی نظر سے بھی گزرا کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری بیوی گھر چھوڑ کر چلی جائے تو اس کو ڈرائیونگ سکھاؤ. مجید کے ایک دوست جو ٹنڈو باگو  میں رہتے ہیں اپنی بیوی سے بڑے بیزار ہیں، کہتے ہیں کہ ایسی عورت کو میں اپنے ساتھ بڑے شہر نہیں لے جا سکتا اور میرا زیادہ وقت تو وہیں گزرتا ہے،  مگر اس کے باپ اور بھائیوں سے خوفزدہ بھی رہتے ہیں کہ وہ اثر و رسوخ میں ان سے کہیں آگے ہیں. مجید نے یہ فارمولا ان کے گوش گزار کیا تو یہ سنجیدہ ہو گئے اور بیوی کو  ڈرائیونگ سکھانا شروع کر دی، اس نیک بخت نے بہت کہا کہ میں کیا کروں گی، تم کہاں مجھے ٹنڈو باگو سے باہر لے جاتے ہو اور یہاں کیا ضرورت ہے، مگر یہ نہ مانے اسے ڈرائیونگ سکھانا شروع کر دی، بڑی  بھد بنی، بہت باتیں بنیں، لوگوں نے مذاق اڑایا، تنقید کی، یہاں تک کہ بہت سے لوگوں نے تو ملنا جلنا بھی چھوڑ دیا، مگر انہوں نے جس کام کا بیڑا اٹھایا تھا کر کے ہی چھوڑا اور بیوی کو لائسنس دلوا دیا. پھر خاصے دن انتظار کرتے رہے کہ اب چھوڑ کر جائے تب چھوڑ کر جائے مگر وہ نیک بخت ذرّہ بھی نہ بدلی نہ گھر سے چھوڑ دینے کی نیت سے نکلی. ان کی مایوسی کا کیا پوچھنا، کہتے ہیں کہ اپنے محلّے کی مسجد میں وہ ان حضرات کا داخلہ بند کروا دیں گے جو اس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں. مجید کا کہنا ہے کہ اتنی ہی سنجیدگی سے اگر یہ بیوی کو پڑھا لکھا دیتے تو اصل تکلیف ہی دور ہو جاتی.

ابھی بات یہاں تک پنہچی تھی کہ مجید نے انہی صاحب کا ایک اور فرمودہ سنایا کہ  حور کے ساتھ ہم بستری کا دورانیہ ستر برس تک ہوگا، ہم کو یقین ہے کہ ایسی باتیں اگر حوروں کے کان تک پنہچیں تو یقینا بقول شاعر ایسے ہر شخص کے سجدے پر وہ کانپ کانپ جاتی ہونگی. یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ بات ترغیب کی ہو یا تخریب کی، جنس پر ہی جا کر کیوں ٹلتی ہے، جنس قدرت کا انتظام ہے کہ ہر نوع اپنی نسل کو بڑھا سکے.

مے سے غرض نشاط کس رو سیاہ کو ہے

مگر ساتھ ہی حقیقت یہ بھی ہے کہ ہر زی روح اپنی نشونما اور ارتقا کے لئے کسی نہ کسی بھوک کسی نہ کسی ضرورت کا غلام رکھا گیا ہے، اور بھوک اور ضرورتیں ہی ہیں جو ہم کو وہ سب جنگیں لڑنے پر مجبور کر دیتی ہیں جو ہماری اپنی نہیں کسی اور کی ہیں، بس کسی نہ کسی طرح ہم کو سمجھا لیا جائے، آمادہ کر لیا جائے، اور ہمارے مولوی صاحب  بھی اسی کوشش میں ہیں کہ کسی نہ کسی ضرورت کی آڑ میں کسی نہ کسی بہانے سے، ترغیب سے یا ڈراوے سے، اپنے حلقہ بگوشوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے . علامہ اقبال شکوہ کرتے رہے کہ بیچارے مسلماں سے فقط وعدہ حور، مگر سچائی تو یہ ہے کہ خدا تو بے نیاز ہے، اس کی رحمتیں سب کے لئے ہیں، وہ کہاں ہندو کو الگ دیتا ہے اور مسلمان کو الگ، کم از کم اس جہاں میں تو نہیں. آپ حور پہ  خوش ہیں تو حور سہی، جنت کے پیچھے ہیں اور دنیا میں بے عمل اور بے کار، تو یہی صحیح.  ایسے بھی ہیں جو چاند تک جا پنہچے، مریخ کی کھوج میں ہیں، ستاروں سے آگے جہاں کھوج رہے ہیں، بیماریوں کا علاج  ڈھونڈ رہے ہیں، علم میں اضافہ کر رہے ہیں، ان کو وہ سب مل رہا ہے، کبھی کسی بس کے پیچھے لکھا یہ مصرع پڑھا تھا

پسند اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا

حقیقت یہ ہے کہ جو پسند کیا جاتا ہے وہی نصیب بن جاتا ہے، جہاں تک فکر جاتی ہے وہی خیال ایک دن ممکن ہو جاتا ہے.

Comments

comments