اصحاب رسول سے دشمنی اور ان کی توہین کا آغاز معاویہ بن ابو سفیان نے کیا
Source: Jihadi Samina Farooqi جہادی ثمینہ فاروقی
آج پاکستانی قوم اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا المیہ ہے کہ ہمیں تاریخ مسخ شدہ صورت پڑھائی جاتی ہے نسیم حجازی، اوریا مقبول جان، جاوید چودھری ، صفدر محمود، تقی عثمانی دیوبندی اور اس قماش کے دوسرے درباری مورخوں نے محمود غزنوی جیسے ڈاکو اور محمد بن قاسم جیسے لٹیروں کو قوم کا ہیرو بنا کر پیش کیا جیسا کہ آج کے دور میں کچھ لوگ سپاہ صحابہ کے تکفیری دہشت گردوں احمد لدھیانوی دیوبندی اور طاہر اشرفی دیوبندی کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں
اولین تاریخ اسلام میں ایک ایسا کردار ملتا ہے جس کے کارناموں کے بارے میں عام لوگ اسی طرح بے خبر ہیں جس طرح ان کو محمود غزنوی، مجدد الف ثانی اور احمد لدھیانوی دیوبندی وغیرہ کی حقیقت معلوم نہیں اس کردار کا نام ہے ابو یزید معاویہ بن ابو سفیان ، لخت جگر ہندہ
سپاہ صحابہ کے تکفیری دیوبندی اور دوسرے ناصبی حضرات شیعہ مسلمانوں کو اس لیے قتل کرتے ہیں اور کافر قرار دیتے ہیں کیونکہ بقول ان کے شیعہ صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں
اگر کفر کا معیار واقعی کسی صحابی پر تنقید کرنا ہی ہے تو پھر سب سے بڑے کافر بنی امیہ ہوئے جو عرصہ دراز تک صحابی علی ابن ابی طالب اور اہلبیت پر گالیوں کی بوچھاڑ کرتے رہے۔ مگر منافقانہ روش دیکھیں کہ بجائے بنی امیہ پر کفر کے فتوے لگانے کے انہوں نے بنی امیہ کو “رضی اللہ عنہ” اور “امیر المومنین” بنا رکھا ہے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:-میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی اور جس نے مجھے گالی دی اس نے اﷲ کو گالی دی.مسند أحمد بن حنبل ( ج18 / 314 ) الحديث رقم :ح26627الحاکم فيالمستدرک، 3 / 121، الحديث رقم : 4616،الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 130 : رجاله رجال الصحيح،ابن عساکر في تاريخه، 42 / 533
. 42 / 266، 266، 267. 268، 533
https://sphotos-a.xx.fbcdn.net/hphotos-ash4/375440_230509013688126_448298459_n.jpg
سوال: مروان بن حکم اور امیر معاویہ کافر کیوں نہیں بنے جبکہ وہ صحابہ حضرت علی ابن ابی طالب، حسن و حسین کو گالیاں دیتے تھے؟
امام الذھبی تاریخ الاسلام، جلد دوم، صفحہ 288 پر یہی بات لکھ رہے ہیں:مروان بن الحکم ہر جمعے کے خطبے کے بعد حضرت علی ابن ابی طالب پر سب(گالی) کیا کرتا تھادیوبند کے امام محمد انور شاہ کشمیری صحیح بخاری کی شرح ‘فیض الباری شرح صحیح بخاری’ میں لکھتے ہیں:ثم إن من السُّنة تقديمَ الصلاةِ على الخُطبة. وإنما قَدَّمها مراونُ على الصلاةِ لأنه كان يَسُبُّ عليًا رضي الله عنهسنت نبوی یہ ہے کہ نماز کو خطبے سے پہلے ادا کیا جائے، لیکن مروان بن الحکم نے خطبے کو نماز پر پہلے جاری کر دیا کیونکہ وہ خطبے میں علی (رض) کو برا بھلا کہتے تھے۔ فیض الباری شرح صحیح بخاری، جلد 1، صفھہ 722، روایت: 954، کتاب العیدین امام الذھبی تاریخ الاسلام، جلد دوم، صفحہ 288 پر یہی بات لکھ رہے ہیں:مروان بن الحکم ہر جمعے کے خطبے کے بعد علی ابن ابی طالب پر سب(گالی) کیا کرتا تھا
اہل ِسنت کی احادیث کی چھ معتبر ترین کتابوں میں سے ایک یعنی سنن ابن ماجہ، جلد اول
حج پر جاتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کی ملاقات امیرمعاویہ سے ہوئی اور جب کچھ لوگوں نے علی کا ذکر کیا تو اس پر معاویہ نے علی کی بدگوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص غضب ناک ہو گئے اور کہا کہ تم علی کے متعلق ایسی بات کیوں کہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ (ص) کو کہتے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا، اور یہ کہ اے علی آپکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون (ع) کو موسی (ع) سے تھی سوائے ایک چیز کہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور میں نے [رسول اللہ ص] سے یہ بھی سنا ہے کہ کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول(ص) سے محبت کرتا ہے۔یہ بالکل صحیح الاسناد روایت ہے اور سلفیوں / وہابیوں کے امام ناصرالدین البانی نے اسے کتاب ‘سلسلہ الاحاديث الصحيحہ’ ج 1 ص 26 میں ذکر کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے۔سلسلہ الاحاديث الصحيحہ ، ج 1 ص 26
https://sphotos-b.xx.fbcdn.net/hphotos-ash3/p206x206/533704_404820566256969_2012093942_n.jpg
صحیح مسلم کی روایت ملاحظہ ہو: أبدااور ابی یعلی نے سعد سے ایک اور ایسے حوالے [سند] سے نقل کیا ہے کہ جس میں کوئی نقص نہیں کہ سعد نے [معاویہ ابن ابی سفیان سے کہا]: اگر تم میری گردن پر آرہ [لکڑی یا لوہا کاٹنے والا آرہ] بھی رکھ دو کہ میں علی [ابن ابی طالب] پر سب کروں [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] تو تب بھی میں کبھی علی پر سب نہیں کروں گا۔
حوالہ جات:صحیح مسلم جلد۷ ، کتاب فضائل الصحا بة،باب” فضائل علی کرم اللہ وجہہ “ حدیث۲۴۰۴۔ ۲۴۰۵ ۔ ۲۴۰۶۔ ۲۴۰۷۔
فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج 7 ،ص 74
https://sphotos-a.xx.fbcdn.net/hphotos-ash3/559226_404820702923622_744113911_n.jpg
اسی روایت کے ذیل میں لفظ سب کے متعلق شاہ عبدالعزیز کا ایک جواب فتاوی عزیزیہ، مترجم [شائع کردہ سعید کمپنی، کراچی] صفحہ 413 پر موجود ہے، جس میں شاہ صاحب فرماتے ہیں:بہتر یہی ہے کہ اس لفظ [سب] سے اسکا ظاہری معنی سمجھا جائے۔ مطلب اسکا یہی ہو گا کہ ارتکاب اس فعل قبیح کا یعنی سب یا حکم سب حضرت معاویہ سے صادر ہونا لازم آئے گا۔ تو یہ کوئی اول امر قبیح نہیں ہے جو اسلام میں ہوا ہے، اس واسطے کہ درجہ سب کا قتل و قتال سے بہت کم ہے۔ چنانچہ حدیث صحیح میں وارد ہے کہ “سباب المومن فسوق و قتالہ کفر” یعنی برا کہنا مومن کو فسق ہے اور اسکے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔”
اب یہ بتائیں کہ کیا حضرت علی ابن ابی طالب صحابی نہ تھے؟ کیا حضرت حسن و حسین صحابی رسول نہ تھے؟ کیا دختر رسول، سیدۃ نساء العالمین، بتول و زہراء ، جگر گوشہ رسول صحابیہ نہ تھیں کہ انہیں معاذ اللہ معاذ اللہ یہ مروان بن حکم اور معاویہ
اس طرح گالیاں دے؟
جس طرح بنی امیہ کے منافقین اہلبیت رسول پر بھونکتے تھے آج بالکل اسی طرح سپاہ شیطان خٓارجی ٹولہ بھی اولاد رسول پر بھونک کر اپنا حسب نسب بتا رہی ہے کہ یہ بھی یزید کی باقیات میں سے ہیں
https://sphotos-a.xx.fbcdn.net/hphotos-ash3/601712_343631205709239_1177721057_n.jpg
ام المومنین حضرت عایشہ (رض)کا معاویہ کو فرعون سے تشبیہ دینا
حضرت اسود ابن یزید کا بیان ہے کہ میں نےام المومنین حضرت عایشہ سے کہا: تمہارے لئے تعجب کی بات نہیں ہے کہ فتح مکہ ایک آزاد شدہ آدمی خلافت کے بارے میں اصحاب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مخالفت کر رہا ہے؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے! یہ اللہ کی قدرت حاکمہ ہے جسے وہ نیک و بد سبھی کو عطا کرتا ہے،اور تاریخ میں اس طرح کے اتفاقات پیش آئے ہیں،جیسے فرعون نے چارسوں سال تک مصر کے لوگوں پر حکومت کی، اور اسی طرح فرعون کے علاوہ دوسرے کافروں نے بھی اور یہی معاویہ ابن ابوسفیان کی مثال ہے
حوالاجات اہلسنت:
البدایۃ و النھایۃ ابن کثیر ج۸ ص ۱۳۱ ،ابو داود طیالسی اور ابن عساکر سے نقل کے ساتھ۔
صحابی رسول حضرت ابن عباس (رض)کی نظر میں معاویہ
صحابی رسول حضرت ابن عباس (رض)صفین کے بارے میں اپنے ایک بیان میں اس طرح فرماتے ہیں: جگر خوار عورت کے بیٹے(معاویہ) نے علی ابن ابی طالب(رض) کے مقابل جنگ میں بعض کمینوں اور شام کے اراذل افراد کو اپنا مددگار بنایا۔ رسول اللہ کے چچازاد بھائی اور داماد جس نے سب سے پہلی بار رسول اللہ کے ساتھ نماز ادا کی،اور اھل بدر (بدری)میں سےتھے، جو کہ تمام جنگوں میں صاحبان فخر اور فضیلت تھے اور ہمیشہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ ساتھ رہتے تھے،جبکہ معاویہ اور ابوسفیان دونوں اس وقت مشرک اور بت پرست تھے۔یاد رکھو اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں تمام ھستی ہے،اور اس کو ظہور میں لانا والا ہے، اور ہر ھستی وجود پر حکومت اور سلطنت کے لئے سزاوار ہے، علی بن ابی طالب رسول اللہ کے ہم رکاب جنگ کرتے تھے، اور علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: خدا اور اس کا رسول جو بھی کہتے ہیں سچ کہتے ہیں۔ لیکن اس کے مقابل معاویہ اور ابوسفیان کہتے تھے: خدا اور اس کا رسول جھوٹا ہے۔ لیکن اس کے باوجود معاویہ جس موقعیت کا آج حامل ہے ماضی کی موقعیت سے ہر گز بہتر، یا زیادہ پرہیزگار ، اور ہدایت یافتہ نہیں ہے۔
حوالاجات اہلسنت: کتاب صفین، ص ۳۶۰ا، شرح ابن ابی الحدید ج۱ ص ۵۰۴۔
صحابی حضرت عمار یاسر(رض) کی نگاہ میں معاویہ:
یہ بات صحیح ہے کہ حضرت عمار یاسر(رض)نے جنگ صفین کے دوران فرمایا:اے مسلمانو! کیا تم ایسے شخص کو دیکھنا چاہتے ہو کہ جس نے خدا اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کی،رسول کی مخالفت میں جد و جہد کی،مسلمانوں پر مسلح ہو کر تجاوز کیا، مشرکوں کی حمایت کی،اور جب خدا نے چاہا کہ وہ اپنے دین کی حمایت کرے اور اس کو نمایاں کرے اور اپنے رسول کی مدد کرے، تو وہ شخص پیغمبر کے پاس آتا ہے اور مسلمان ہو جانے کا اظہار کرتا ہے۔ جبکہ خدا کی قسم! اس نے اسلام کو ہرگز دل سے قبول نہیں کیا، بلکہ ڈر اور خوف کے سبب اس نے اظہار اسلام کیا، جب پیغمبر دنیا سے گئے تو خدا کی قسم ہم جانتے تھے کہ وہ مسلمانوں کا دشمن اور تباہ کاروں کا دوست ہے ؟ ہاں! وہ شخص معاویہ ہی ہے، لھذا تم اس پر لعنت بھیجو، اور اس کے ساتھ جنگ کرو، اس لئے کہ یہ وہ شخص ہے جو دین کی مشعل کو خاموش اور خدا کے دشمنوںکی مدد کر رہا ہے۔
حوالاجات: تاریخ طبری ج۶، ص۷، کتاب صفین ص ۲۴۰، الکامل لابن الاثیر ج۳ ص ۱۳۶۔
اسناد صحیح حدیث مسلم شریف سے معاویہ کے بارے میں جس میں رسول اللہ نے بدعا دی معاویہ کو رسول اللہ کے حکم کی جب معاویہ نے نافرمانی کی اور اسی حدیث کی تشریح بھی دیکھو امام نوی نے امام اہلسنت امام نسائی کا قول بھی نقل کیا ہے کہ ’’معاویہ کے بارے میں کوئی بھی حدیث صحیح نہیں سوائے اس ایک بدعا والی حدیث کے
خارجیو اس وقت بھی امام نسائی کو اس بات پر خارجیوں نے مارا اور آج بھی معاویہ کے پیروکار خارجی ہی ہیں
https://sphotos-b.xx.fbcdn.net/hphotos-prn1/558948_404820512923641_1751751987_n.jpg
معاویہ کے پوتے کی نظراپنے دادا کے بارے
کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ جب معاویہ بن یزید بن معاویہ (یعنی معاویہ کا پوتا) تخت حکومت تک پہنچا تو منبر پر جانے کے بعد اس طرح کہتا ہے:
یہ خلافت اللہ کی ایک رسی ہے (اللہ سے رابطہ ہے) اور میرے جد معاویہ نے اس کو اس شخص سے جو اس کا اھل تھا اور خلافت کے لئے موزوں تھا چھین لیا(یعنی علی بن ابی طالب سے ) اور تم کو وہ کام کرنے پر مجبورکیا جنہیں تم اچھی طرح جانتے ہو،یہاں تک کہ اس کا وقت آگیا، اور قبر میں اس کے گناہوں کے بند کھل گئے، اس وقت میرے باپ(یزید) نے حکومت کو اپنے قبضے میں لے لیا جبکہ وہ اس کے کا اھل نہیں تھا، اور پیغمبر کی بیٹی کے فرزند کی مخالفت اور دشمنی پر اتر آیا،اسی وجہ سے وہ جوانی میں ھلاک ہو گیا، اور ابتر اور لاوارث مر گیا،اور اپنی قبر میں گناہوں کے سبب گرفتار ہوگیا (صواعق محرقہ ابن حجرص ۱۳۴)
معاویہ کی حضرت محمد رسول اللہ(ص)کے ساتھ جنگ کا ثبوت
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے متعدد بار فرمایا: علی کی جنگ میری جنگ ہے
کیا وہ لوگ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ساتھ جنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جس نے بھی جنگ کی اس نے رسول اللہ سے جنگ کی ۔۔۔ کیوں امیر المومنین خلیفہ حق حضرت علی کے مقابلہ میں اعلان جنگ کیا اور لشکر کشی فرمائی؟ کیا رسول اللہ سے جنگ کرنے والے کو آپ صحابی مانتے ہیں؟ پھر یہود نصارا کے عقیدے میں اور سپاہ صحابہ کے عقیدہ میں کیا فرق ہے؟
حوالاجات:
امیر المومنین علی ابن ابی طالب کے ساتھ جنگ در حقیقت رسول اللہ کے ساتھ جنگ ہے۔!
المستدرک – الحاکم النیسابوری – ج 3 – ص 149 (و مسند احمد – الإمام احمد بن حنبل – ج 2 – ص 442 و المعجم الکبیر – الطبرانی – ج 3 – ص 40 و کنز العمال – المتقی الهندی – ج 12 – ص 97، ح 34164 )
؎
متن حدیث اسناد حسن
( أخبرنا ) أحمد بن جعفر القطیعی ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل حدثنی أبی ثنا تلید بن سلیمان ثنا أبو الجحاف عن أبی حازم عن أبی هریرة رضی الله عنه قال نظر النبی صلى الله علیه وآله إلى علی وفاطمة والحسن والحسین فقال انا حرب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم * هذا حدیث حسن من حدیث أبی عبد الله أحمد بن حنبل عن تلید بن سلیمان فانى لم أجد له روایة غیرها *
المعجم الأوسط – الطبرانی – ج 3 – ص 179( و المعجم الصغیر – الطبرانی – ج 2 – ص 3 و أسد الغابة – ابن الأثیر – ج 3 – ص 11)
حدثنا إبراهیم قال حدثنا محمد بن الاستثناء قال حدثنی حسین بن الحسن الأشقر عن عبید الله بن موسى عن أبی مضاء وکان رجل صدق عن إبراهیم بن عبد الرحمن بن صبیح مولى أم سلمة عن جده ( 161 أ ) صبیح قال ( کنت بباب رسول الله صلى الله علیه وسلم فجاء علی وفاطمة والحسن والحسین فجلسوا ناحیة فخرج رسول الله صلى الله علیه وسلم إلینا فقال إنکم على خیر خیر وعلیه کساء خیبری فجللهم به وقال’’ أنا حرب لمن حاربکم سلم لمن سالمکم‘‘ )
تاریخ مدینة دمشق – ابن عساکر – ج 14 – ص 157:
وأخبرنا أبو محمد بن طاوس أنا أبو الغنائم بن أبی عثمان أنا عبد الله بن عبید الله بن یحیى قالا أنا أبو عبد الله المحاملی نا عبد الأعلى بن واصل نا الحسین بن الحسن الأنصاری یعرف بالقری نا علی بن هاشم عن أبیه عن أبی الجحاف عن مسلم بن صبیح عن زید بن أرقم قال حنا رسول الله ( صلى الله علیه وسلم ) فی مرضه الذی قبض فیه على علی وفاطمة وحسن وحسین فقال’’ أنا حرب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم‘‘
آج عالم اسلام کی بدنامی کا ایک سبب یہ بھی ہے لمحہ فکریہ – مفتی اعظم محمداسحاق مدنی
Comments
Tags: General & Islamic History, Maulana Muhammad Ishaq, Muawiyah, Sipah-e-Sahaba Pakistan (SSP) & Lashkar-e-Jhangvi (LeJ) & Ahle Sunnat Wal Jamaat (ASWJ)
Latest Comments
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیعوں کی طرف سے اکثر اوقات یہ بات کہی جاتی ہے کہ حضرت معاویہ رضہ نے اپنے گورنروں کو حکم دے رکہا تھا کہ ہر خطبہ مین امیر المومنین علی رضہ کو گالیاں دیں اور انہیں برا بھلا کہیں ۔ اس کام کو وہ خود بھی کرتے تھے اپنے ہر خطبہ میں سیدنا علی رضہ کو برا بھلا کہتے تھے۔ ہم اس آرٹیکل میں انشاء اللہ اس کا رد کریں گے
کیوں کہ حضرت معاویہ رضہ سے ایسی کوئی بات مروی نہیں ہے بس چند روایات ہیں جن کا مقصد توڑ موڑ کر بیان کیاجاتا ہے جن کو ہم یہاں نقل کریں گے ۔اس سے پہلے ہم عربی کے لفظ سب کی مختلف معنی اور استعما ل پر ایک نظر ڈالتے ہیں
عربی لفظ سب کی معنی
عربی لفظ سب کی بہت دی معنی ہی٘ں جس کو مختلف شکلوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس لٖفظ معنی گالی دینا بھی ہے ، کسی کو غلط کہنا بھی ہے ، کسی کو کسی بات پر ٹوکنا بھی ہے ۔ کسی کو آڑے ہاتھوں لینا اور تنقید کرنے کو بھی سب ہی کہتے ہیں ۔
چناچہ یہ لفظ صرف گالی دینے یا برا بھلا کہنے کے لئے استعمال نہیں ہوتا اس کی اور بھی بہت معنی ہیں ہم یہاں ثبوت کے طور پر کچھ روایات پیش کر رہیں ہیں
صحیح مسلم (کتاب الفضائل ، باب معجزات النبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی ایک حدیث ہے
فسبهما النبي صلى الله عليه وسلم وقال لهما ما شاء الله أن يقول قال ثم غرفوا بأيديهم
یہ واقعہ تبوک کے متعلق ہے ، یہا ں صحابہ نے کچھ غلطی کردی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سرزنش کی اور زیادہ سے زیادہ سخت سست کہا ہوگا۔ پر گالیاں نہیں دیں ہونگی اور نہ ہی معاذ اللہ برا بھلا کہا ہوگا کیوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس سے پاک ہے
سب معنی تنقید حافظ ابن جریر طبری اپنی تاریخ میں لکہتے ہیں
قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ” لتنتھین عن سبک او لنھجون ربک ” یعنی
آپ ہمارے معبودوں کو سَبّ (یہاں قریش کا مطلب یہ تھا کہ آپ ہمارے معبودوں کا تزکرہ ایسے انداز میں نہ کریں کہ ان کی شان میں کمی ہو) کرنے سے باز رہیں ، نہیں تو ہم تھمارے رب کی ہجو شروع کردیں گے۔ تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 164۔
اور جناب ابو طالب نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ کیا کہتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ: ان کو کہیں کہ میں انہیں ایسی دعوت دیتا ہوں جو ان کی بت پرستی سے بہتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی لا اللہ الا للہ
اب کوئی عقلمند یہ نہیں کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گالیاں دیں ہونگی۔ حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے کہ یہ بے زبان ہیں نہ کوئی نفع پہنچاتے ہیں نہ نقصان ، کتنے بے عقل ہو کہ خود ہی انہیں بناتے ہو اور خود ہی پوجتے ہو۔ یعنی دوسرے الفاظ میں آپ علیہ السلام جھوٹے معبودوں پر تنقید کرتے تھے اسے وہ ” سَبّ ” کہتے تھے۔
ان سب روایات سے اور خاص کر طبری کی روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تنقید کرنے کو بھی عربی میں سب ہی کہتے ہیں کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب واقعات میں تنقید ہی کی تھی ۔ اب اگر شیعوں کی یہ بات ماں لیں کہ سب کی معنی صرف گالی اور برا بھلا کہنا ہے تو پھر معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو گالیو ں سے پاک ہیں۔
اسی طرح یہ دیگر معانی میں بھی استمعال ہوتا ہے ، جیسے نکتہ چینی کرنا ، دوسرے کی رائے کو بلا کسی سبب غلط کہنا۔ چنانچہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پہلے تو کبھی حضرت علی کو ” سَبّ ” کیا ہی نہیں ، آپ کو یہ بھی کہیں نہیں ملے گا کہ انہوں نے خود کبھی ” سَبّ ” کیا ہو
لفظ ” سَبّ ” کی معنی برائی
اب اگر اس لفظ سے مراد برائی کرنا ہی لیا جائے تو بہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ یا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ، فحش الفاظ استعمال نہیں کرتے ہونگے (معاذ اللہ جیسے شیعہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ برائی کرنا مطلب گندے الفاظ استمعال کرنا اور پھر جب ہمارے سنی بھائی حدیث کی معنی دیکھتے ہیں تو وہ اس پروپگینڈا میں آجاتے ہیں اور وہ برائی کرنا کا مطلب محض فحش الفاظ ہی سمجھتے ہیں ، کم سے کم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں)۔
چونکہ نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ ہی آپ کے اصحاب بشمول حضرت معاویہ رضوان اللہ عنہم ، معاذ اللہ فحش گو تھے اور نہ ہی برے الفاظ استمعال کرتے تھے۔ مثال کے طور پر کسی بھائی کو میں یہ کہہ دوں کہ تہمارے بال صحیح نہیں ، یا یہ کہ میں کسی کو ٹوک دوں ، یا کسی کے کسی کے کئے ہوئے کام کو بنا سبب غلط کہہ دوں ، تو یہ بھی برائی کے دائرے میں آتا ہے۔ہمیں صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ کبھی بھی گمان نہیں کرنا چاہئے کہ وہ معاذ اللہ فحش گو تھے
کیا حضرت معاویہ رضہ، حضرت علی رضہ کی برائی کرتے تھے۔
کہیں پر بھی کوئی بھی ایسی روایت نہیں ملتی جہاں پر حضرت معاویہ رضہ کے کسی بیان میں حضرت علی کی برائی پائی جاتی ہو یا پھر ایسے الفاظ جو کہ حضرت علی کے شان میں سخت ہوں ۔ کہیں پر بھی حضرت معاویہ کے کسی بھی خطبہ میں ایسے الفاظ نہیں ہیں بس صرف ایسی روایت ملتی ہیں جس میں یہ لکہا ہوتا ہے کہ انہوں علی رضہ سعد رضہ سے پوچھا کہ آپ علی رضہ کو سب کیوں نہیں کرتے (یعنی قتل عثمان کے مسئلے میں ان پر تنقید کیوں نہین کرتے ) یا پھر ان کے سامنے سب کیا وغیرہ ارے بھائی جنہوں نے سب کی روایات کی ہے انہوں نے پھر حضرت معاویہ کے گالیوں یا پھر برائی کے الفاظ کیوں بیان نہیں کئے جبکہ حضرت معاویہ رضہ کا چھوٹہ بڑے کام کو توڑ موڑ کر پھلانہ کچھ محدیثین خاص طور پر شیعوں کا تو مشغلہ رہا ہے پھر کیوں وہ اسیے گستاخانہ الفاظ روایت نہیں کر پائے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ سیدنا معاویہ حضرت علی رضہ کو قصاص عثمان رضہ کے مسئلے پر غلط سمجھتے تھے پھر جب ان کی خلافت میں اس کا تزکرہ چلتا تھا تو وہ حضرت علی کے اجتہاد کو غلط کہتے تھے اور ان پر تنقید کرتے تھے اسی کو روایت میں سب کہا گیا ہے ۔یہ نا سمجھ میں آنے والی بات ہے نہ کہ حضرت معاویہ رضہ کی ہر بات ، ہرفعل غالی راویوں نے مرچ مصالعہ ملا کہ لکھ دئے ہیں آخر وہ حضرت معاویہ کی گالیاں اور لعنتیں (نعوذ بااللہ) وہ بھی حضرت علی رضہ کو ، کیسے رہ گئیں تاریخ میں۔
مولانا تقی عثمانی اپنی کتاب حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق میں مولانا مودودی کی پیش کردہ تاریخی روایات پر تبصرہ کرتے ہو ئے فرماتے ہیں ”
“مولانا مودودی صاحب نے حضرت معاویہ رضہ کی طرف یہ مکروہ بدعت غلط منصوب کی ہے کہ وہ خطبہ میں حضرت علی رضہ پر سب و ستم کی بوچھاڑ کرتے تھے اس کا ثبوت نہ مولانا مودودی کے دئے ہوئے تاریخی حوالوں میں موجود ہے اور نہ ہی کسی تاریخ اور حدیث کی معتبر کتاب میں””
مولانا کی اس کا بات کا اقرار جناب غلام علی صاحب(یہ وہی ہیں جنہوں نے مولانا مودودی کو صحیح ثابت کرنے کے جوش میں حضرت عائشہ رضہ پر کذب کا الزام لگایا تھا ) انہوں نے بھی تسلیم کرتے ہوئے لکہا کہ مجہے عثمانی صاحب کی یہ شکایت اس حد تسلیم ہے کہ مولانا مودودی کے دئے ہوئے حوالات میں صراحت سے مزکور نہیں کہ حضرت معاویہ رضہ خود سب و ستم کرتے تھے (ترجمان القرآن جولاء 1969 ص 24-25)
حضرت معاویہ کی طرف سے سب و شتم کی روایات
یہ سب و شتم کی روایت اکثر حضرت سعد بن ابی وقاص سے کی جاتی ہے جو کہ مختلف کتب میں پائی جاتی ہے ہم یہاں صحیح مسلم کتاب فضائل باب فضائل امیر المومنین علی رضہ عنہ سے حوالہ پیش کریں گے۔
عن عامر بن سعد بن أبي وقاص ، عن أبيه ، قال أمر معاوية بن أبي سفيان سعدا فقال ما منعك أن تسب أبا التراب فقال أما ما ذكرت ثلاثا قالهن له رسول الله صلى الله عليه وسلم فلن أسبه لأن تكون لي واحدة منهن
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کو کون سی چیز مانع کرتی ہے کہ آپ ابو تراب (حضرت علی رضی اللہ عنہ) پر سَبّ کریں؟ حضرت سعد نے اس کا سبب بتایا اور حضرت علی کے متعلق ۳ باتوں کا ذکر کیا جو بطور فضائل رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائے تھے۔۔۔۔
یہاں میں نے حدیث کا وہ حصہ نقل کیا ہے جس پر اعتراض کیا جاتا ہے۔
(1) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقصد تھا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کیوں نہیں کرتے (یاد رہے ہم اوپر ہم نے طبری کی روایت سے ثابت کیا تھا کہ سب کی معنی تنقید بھی ہے اور یقینن حضرت معاویہ حضرت علی پر تنقید ہی کرتے تھے ) قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں ، یعنی اُن کا اجتہاد ٹھیک نہیں۔ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل بتائے ان میں یہ بھی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں ہارون علیہ السلام کی جگہ دی ، جس کا مطلب ہے وہ بلند پائے کے عالم تھے ، وہ اجتہاد میں غلط نہیں ہو سکتے۔
(2) اہل شام قصاص نہ لینے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خائف تھے ، یہ ہو سکتا ہے ان کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل سنانا مقصود تھے ، تبھی ایسا سوال کیا کیوں کہ سیدھا کہتے تو اھل شام کے شور کا اندیشہ تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کبھی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید نہیں کریں گے ، تبھی ایسا سوال کیا۔
حدیث میں اُن پر تنقید کرنے کو نہیں کہا گیا بلکہ سبب دریافت کیا گیا ہے۔
علامہ ابن کثیر نے اس سے ملتا جلتا واقعہ نقل کیا ہے ، میں واقعہ پیش کئے دیتا ہوں:۔
عبد اللہ بن بدیل نے بیان کیا ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو کہا کہ آپ ہمارے ساتھ مل کر نہیں لڑے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تاریک آندھی میرے پاس سے گزرے اور میں اخ اخ کروں تو میں اونٹنی بٹھا دیتا ہوں۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کتاب اللہ میں اخ اخ نہیں بلکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ” اگر مومنین کی ۲ جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیاں صلح کرا دو اور اگر ایک جماعت دوسری پر زیادتی کرے تو اس کے ساتھ جنگ کرو حتی کہ امر اللہ ہی کی طرف واپس آجائے ” خدا کی قسم آپ نہ عادل جماعت کے مقابلہ میں باغی جماعت کے ساتھ ہیں نہ ہی باغی کے مقابلہ میں عادل کے ساتھ ہیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس شخص سے لڑنے کا نہیں جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کہا تھا کہ تو میرے لئے ایسے ہے جیسے ہارون علیہ السلام موسی علیہ السلام کے لئے تھے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں ائے گا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا آپ کے علاوہ اور کس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا فلاں فلاں اورام سلمہ رضی اللہ عنہ نے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں نے آپ سے یہ بات پہلے سنی ہوتی تو میں ان سے جنگ نہیں کرتا۔ (تاریخ ابن کثیر جلد ۸ زکر وفات سعد رضی اللہ عنہ)۔
اس میں کہیں بھی سَبّ کا لفظ نہیں بلکہ بہت جگہوں پر یہ واقعہ مختلف لفظوں کے ساتھ مذکور ہے۔ بعض روایات میں ” فزکرو علیا فنال منہ معاویہ ” تو کہیں ” فذکرو علیا فقال سعد لہ ثلاث خصال ” جس سے اس واقعہ کی صداقت میں شبہ ہوتا ہے اور کہیں پر جگہ مکہ ہے تو کہیں پر شام ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔
یہاں سبب دریافت کر ریے ہیں کہ کیا چیز مانع ہے یا یہ کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے اجتہادی کو غلط کیوں نہیں کہہ رہے۔ یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد کے متعلق ایک بزرگ صحابی سے رائے لے رہے ہیں۔
ابن ماجہ کی روایت
حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعد وقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله
ینعی حضرت معاویہ سعد رضہ کے پاس آئے اور ان سے حضرت علی کی شکایت کرنے لگے جس پر حضرت سعد غصہ ہوگئے اور فرمایا کہ اس آدمی کی بات کرتے ہو جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا انہوں نے کہا کہ جس میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے اور یہ بھی سنا تھا کہ تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہاروں کو موسی علیہ االسلام سے تھی لیکن میری بعد کوئی نبی نہیں آئے گا یہ بھی سنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ کل میں جھنڈا اسے عطا کرون گا جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ہے۔
اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے تبھی بھی یہاں گالیاں مراد نہیں لے سکتے ، کیوں کہ حضرت سعد کا غضبناک ہونے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت معاویہ حضرت امیر المومنین رضہ کی شکایت کرنے لگے (یہاں نال کی معنی شکایت کرنا ہے ناکہ گالیاں دینا) اس بات پر حضرت سعد غصہ ہوئے اور حضرت امیر المومنین رضہ کے فضائل بیان کئے ۔ حضرت سعد غصہ ہونا اسی وجہ سے تھا کیوں کہ حضرت امیر المومنین رضہ ، حضرت ابی بکر و عمر کی جماعت سے بلکہ ان کے فضائل سب سے زیادہ ہیں بہت سے علماء اہل سنت ان کو افضل مانتے تھے ۔ ایسے شخص کی اگر حضرت معاویہ خود سے موازنہ کرںن اور تو اور ان کے اجتہاد کو غلط کہیں تو حضرت سعد کا غصہ میں آنا فطری بات ہے کیوں کہ ہوسکتا ہے حضرت معاویہ بار بار یہ کہتے رہے ہوں جس سے سعد رضہ غصہ ہوئے ہون ۔
اور پھر یہ روایت منقتع ہے ابن سابط نے سعد رضہ سے حدیث نہیں سنی اور ابو معاویہ پر بھی کلام ہے
ابن ماجہ کی اس روایت کے دو راویوں کے بارے میں کلام ہے
عبدالرحمن بن سابط
تہذیب الکمال میں المزی لکہتے ہیں
عبد الرحمان (2) بن سابط، ويقال:عبد الرحمان بن عبد الله بن سابط، ويقال: عبد الرحمان بن عبد الله بن عبد الرحمان بن سابط بن أبي حميضة بن عمرو ن أهيب بن حذافة بن جمح القرشي الجمحي المكي.
تابعي، أرسل عن النبي صلى الله عليه وسلم (ت).روى عن: أنس بن مالك من وجه ضعيف،وسعد بن أبي وقاص وقيل: لم يسمع منه،(جلد ۱۷ فحہ127)
ینعی انہوں نے سعد رضہ سے روایت کی ہے لیکن ان سے سماع نہیں کیا
تاریخ کبیر میں امام بخاری نے انہیں مرسل کہا ہے (جلد 5 ص 294
دارلقطنی نے حدیث سعد کے اسانید میں ان جناب کا زکر نہیں کیا ملاحضہ ہو علل دارالقطنی
ابن حجر نے جو لکہا ہے وہ یہ ہے تہذیب التہذیب جلد 6 ص 164
عبد الرحمن بن سابط ويقال عبد الرحمن بن عبد الله بن سابط ويقال عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن سابط بن أبي حميضة ابن عمروابن أهيب بن حذافة بن جمح الجمحي المكي.تابعي أرسل عن النبي صلى الله عليه وسلم. وروى عن عمر وسعد بن أبي وقاص والعباس بن عبد المطلب وعباس بن أبي ربيعة ومعاذ بن جبل وأبي ثعلبة الخشني وقيل لم يدرك واحدامنهم . قيل ليحيى بن معين سمع عبد الرحمن بن سعد ابن أبي وقاص قال لا.
یعنی یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل روایت کرتے ہیں حضرت عمر ، سعد رضہ ، عباس رضہ ،عباس بن ابی ربیعہ اور معاذ بن جبل سے روایت کرتے ہیں لیکن ان میں کسی کو بھی انہوں نے نہیں دیکہا۔یحی بن معین سے پوچھا گیا کہ عبدالرحمن نے سعد رضہ سماع کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ نہیں
اسی طرح ابن حجر نے ال اصابہ جلد ۵ ص 176 پہ ان کا زکر کیا ہے
یہ نہ صرف صحابہ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی روایت کر تے ہیں ، اس کے علاوہ انہوں نے حضرت ابی بکر رضہ عمر رضہ اور عائشہ رضہ سے بھی روایات کی ہیں لیکن علماء نے ان روایات کو مراسیل کہا ہے اورابن حجر نے لکہا ہے ان میں کسی کو بھی نہیں ملے ۔ بھر حال یہ بات تو طئے ہے کہ یہ مرسل ہیں اور بہت علماء نے اس بات میں ابن معین کی بات کو ہی صحیح مانا ہے ۔
اس لئے علماء انہیں کثیر الارسال کہتے ہیں ۔اسی بنا پر ابن معین نے انہیں سعد رضہ کی روایات میں مرسل قرار دیا اور ان کی صحابہ سے حدیث کو مر سل کہا ہے ۔ یہ بات صحیح کہ ابن معین ان کی بارے میں منفرد ہیں لیکن علماء اہل سنت میں سے کسی نے ابن معین کی بات سے اختلاف نہیں کیا ابن حاتم کو اگر اختلاف تھا تو انہوں جابر رضہ کے مسئلے میں لکہ دیا کہ یہ متصل ہے لیکن سعد رضہ کے بارے میں انہوں نے بھی نہیں لکہا ، گو کہ وہ بھی ابن معین کی بات صحیح جانتے تھے۔اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہاں تمام علماء رجال ابن معین کا ساتھ دے رہے ہیں
راوی ابو معاویہ
علماء نے انہیں اعمش کے طریق سے تو پسندیدہ کہا ہے لیکن ان کی دوسری احادیث کو مضطرب کہا ہے مدلس بھی تھے اور وہ مرجئی مذہب کے تھے جن کا ماننا ہے کہ انسان ایک بار کلمہ پڑہ کر مسلمان ہو جائے تو پھر اسے جہنم سے نجات مل جاتی ہے دنیا مین پھر جو چاہے کرے۔
ان کا ترجمہ اس طرح ہے ان کا نام محمد بن خازم الاعمی تھا
ابن حجر طبقات مدلسین صفحہ 46 میں ان کا نام بھی زکر کیا ہے
ابن حبان نے اثقات میں ان کا زکر اس طرح کیا ہے
كان حافظا متقنا ولكنه كان مرجئا خبيثا
یہ حافظ تھے لیکن ساتھ میں مرجئی خبیث بھی تھے
امام ابی داود السجستانی کہتے ہیں کہ كان مرجئا، ومرة: كان رئيس المرجئة بالكوفة
امام احمد بن حنبل
أبو معاوية الضرير في غير حديث الأعمش مضطرب , لا يحفظها حفظا جيدا(تھذیب الکمال)
ینعی ابو معاویہ اعمش کے علاوہ دوسری احادیث میں مضطرب ہے اور ان کا حافظہ بھی کم تھا۔
الذهبي :الحافظ، ثبت في الأعمش، وكان مرجئا (تہذیب الکمال)
یعنی اعمش کے طریق سے صحیح ہیں اور مرجئے تھے
يحيى بن معين: أبو معاوية أثبت من جرير في الأعمش وروى أبو معاوية , عن عبيد الله بن عمر أحاديث مناكير(تہذیب الکمال)
وقال عبدارحمن ابن خراش صدوق، وهو في الأعمش ثقة، وفي غيره فيه اضطراب (اتھذیب الکمال)
قال ابن سعد كان ثقة كثير الحديث يدلس، وكان مرجئا (طبقات ابن سعد: ٦ / ٣٩٢
قال عبد الرحمان بن أبي حاتم:سمعت أبي يقول: أثبت الناس في الأعمش: الثوري، ثم أبو معاوية الضرير، ثم حفص بن غياث، وعبد الواحد بن زياد، وعبدة بن سليمان أحب إلى من أبي معاوية يعنى في غير حديث الأعمش. (الجرح والتعديل: ٧ / الترجمة 1360.
. وقال ابن حجر في التهذيب قال النسائي: ثقة في الأعمش وقال أبو داود: قلت لأحمد كيف حديث أبي معاوية عن هشام بن عروة؟ قال: فيها أحاديث مضطربة يرفع منها أحاديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم (اتہذیب 9 / 139).
ان دونوں راویون پر جرح کے بعد یہ روایت خود بخود ہی ضعیف ہوجاتی ہے پھر اس حدیث(یعنی ابن ماجہ کی حدیث) میں سب کا لفظ موجود نہیں ہے ۔
باقی جو بھی روایات ہیں وہ تقریبن اسی ہی مضمون کی ہیں اور ہم نے جیسا کہ اوپر لکہا کہ اس میں مقام کا بھی تعین نہیں ہے کہیں پر شام لکہا ہے کہیں پر مکہ تو کہیں پر مدینہ بھرحال ہمنے ان روایات کی مناسب تعویل پیش کی ہے اور پھر ابن ماجہ کی روایت تو صحیح نہیں ہونی چاہئے اگر صحیح ہے بھی تو اس میں صرف شکایت کرنے کا لکہا جس کا مطلب ہے وہ حضرت علی رضہ کا قصاص کے مسئلہ میں جو اجتہا د تھا یا انہوں نے قصاص نہیں لیا تھا تو ہو سکتا ہے وہ اس کی ہی
شکایت کرنے لگیں ہوں۔اس میں سب کا لفظ تک نہیں ہے باقی جن بھی کتب مین یہ روایات پائیں جاتی ہیں وہ ایسی ہی ہیں۔
حضرت معاویہ کی طرف سے حضرت علی کی تعریف
شیعہ تو سیدنا معاویہ کے ایسے الفاظ پیش کر نے سے قاصر ہیں جس میں انہوں نے سیدنا علی رضہ کو گالیاں دیں ہوں لیکن ہم یہاں ان کے ایسے الفاظ پیش کرتے ہیں جن میں علی رضہ کی تعریف کی گئی ہے۔
حضرت معاویہ رضہ حضرت علی کی تعریف سنتے تھے اور لوگوں کو فرمائش کرتے کہ آپ حضرت علی کی تعریف سنائیں اگر برائی کرتے تو لوگوں سے ان کی برائی کرنے کو کہتے لیکن ایسی کو ئی روایت نہیں جس میں انہوں نے کسی کو کہا کہ آپ حضرت علی کی برائی کریں ، بلکہ تعریف روایات ہیں اور بھت ہیں میں ایک شیعہ کی روایت نقل کر دیتا ہوں۔
ابن کثیر البدایہ و النہایہ جلد ۷ ص 129 پر حضرت معاویہ کا قول نقل کرتے ہیں
علی رضہ مجھ بہت بہتر تھے میں صرف ان مخالفت قصاص عثمان کے مسئلہ پر کرتا ہوں اگر وہ حضرت عثمان کا قصاص لیں تو شامیوں میں سے سب سے پہلے میں ان کی بیعت کرلوں گا
ضرار بن ضمرہ ایک دفعہ حضرت معاویہ کے پاس گیا تو آپ نے اس کہا حضرت علی کی خوبیاں بیاں کرو اس نے کہا جب آپ تبسم فرماتے تو گویا موتی جھڑتے تھے امیر معاویہ نے کہا کچھ اور بیان کرو ضرار بولا علی رضہ پر اللہ رحم فرمائے وہ کم سونے والے ذیادہ شب بیدار اور رات دن قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے تھے یہ سن کر امیر معاویہ رو پڑے اور فرمانے لگے بس کرو ضرار خدا کی قسم علی رضہ ایسے ہی تھے خدا ابوالحسن پر رحم فرمائے (املی شیخ صدوق ص 371 ، حلیۃ الابرار جلد 1 ص 338)
حافظ ابن کثیر اپنی تاریخ میں لکتے ہیں کہ
ابن جریر بیان کیا ہے کہ جب حضرت معاویہ رضہ کے پاس حضرت علی رضہ کے قتل کی خبر پہنچی تو آپ رونے لگے آپ کی بیوی نے کہا آپ اس پر روتے ہیں حالانکہ آپ نے ان سے جنگ کی ہے آپ نے فرمایا تو ہلاک ہو جائے تجھے معلوم نہیں کہ ہم نے کس قدر علم ، فقہ و فضل کو کھو دیا ہے ۔
ان روایات سے حضرت معاویہ کی طرف سے حضرت علی کی مدح ثابت ہوتی ہے ۔
حضرت معاویہ کے گورنر
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ
حدیث امام احمد
سند أحمد .. أول مسند الكوفيين .. حديث زيد بن أرقم رضي الله تعالى عنه
حدثنا محمد بن بشر حدثنا مسعر عن الحجاج مولى بني ثعلبة عن قطبة بن مالك عم زياد بن علاقة قال :نال المغيرة بن شعبة من علي فقال زيد بن أرقم قد علمت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينهى عن سب الموتى فلم تسب عليا وقد مات
تخریج حدیث امام احمد
اس روایت میں حجاج بن ایوب مولی بنی ثعلبہ ایک مجہوں حال راوی ہے لہذا یہ روایت کسی صحابی پر الزام بازی کے لئے ہر گز استمعال نہیں ہوسکتی۔پھر اس روای سے جو روایت ابن مبارک نے کی ہے وہی سند ہے لیکن وہاں مغیرہ رضی اللہ عنہ کا نام نہیں ہے اس کے علاوہ امام احمد کی حدیث میں نال کے الفاظ ہیں (جس کی معنی شکایت کرنے کی ہیں ) اور اسی سند سے حدیث ابن مبارک میں پھر سب امیر کا الفاظ ہیں چناچہ اسی ہی سند سے روایت کی گئی حدیث میں الفاظ بھی ایک جیسے نہیں ہین اس لئے یہ حدیث خود ہی اختلاف کا شکار ہے اور یہ اس کی ضعف پر دلالت ہے
حدیث مستدرک ، طبرانی وغیرہ
حدثنا أبو بكر محمد بن داود بن سليمان ثنا عبد الله بن محمد بن ناجية ثنا رجاء بن محمد العذري ثنا عمرو بن محمد بن أبي رزين ثنا شعبة عن مسعر عن زياد بن علاقة عن عمه أَنَّ المغيرة بن شعبة نَالَ : مِن عَلِيٌّ فَقَامَ إليه زيد بن أرقم فقال : يا مغيرةُ أَلمْ تَعلم أَن رسولَ اللَّه e : نهى عن سَبِّ الأَمْوَاتِ ؛ فَلِمَ تَسُبَّ عَلِيًّا وقد مَاتَ؟!”.
تخریج حدیث مستدرک وغیرہ
اس حدیث کی سند جو کہ شعبہ عن مسعر ہے اس میں اسی طرح اختلاف ہے
طبرانی حاکم وغیرہ نے اس حدیث تین مختلف سندوں سے بیاں کیا ہے جو یہ ہیں
فَرَوَاهُ عمرو بن محمد بن أَبي رَزِينٍ ، عن شعبة ، عن مِسعر ، عن زياد بن عِلاَقَة ، عن عَمِّهِ ،[أن] المغيرة بن شعبة
وَرَوَاهُ عمرو بن محمد بن أَبي رَزِينٍ مرةً ، عن شعبة ، عن مِسعر ، عن زيادٍ ، عن المغيرة
وَرَوَاهُ جَمْعٌ ، عن مِسعر ، عن مَولَى بني ثعلبة ، عن عَمِّ زياد بن عِلاقة (یعنی قطبہ بن مالک)
اس حدیث کے بارے میں دارالقطنی علل 7/126 #1249 میں فرماتے ہیں
حديث شعبة عن مسعر وهم ، والآخران محفوظان
یعنی حدیث شعبہ عن مسعر مین عیب پایا جاتا ہے
اس کے علاوہ سفیان اثوری سے روایت کی گئی حدیث میں سب کے الفاظ نہیں ہین جو کہ صحیح ہے اور اس تین سندوں میں بقول دارقطنی عیب ہے
اس کے علاوہ راوی عمرو بن محمد بن أَبي رَزِينٍ کے بارے میں تقریب 8/8مین حافظ ابن حجر لکہتے ہیں ذكره ابن حبان فى كتاب ” الثقات ” ، و قال : ربما أخط یعنی ابن حبان نے ان کو ثقہ کہا ہے لیکن یہ بہت غلطیان کرنے والا ہے
زیاد بن علاقہ کے بارے میں حافظ تقریب 3/381 میں لکہتے ہین
سىء المذهب ، كان منحرفا عن أهل بيت النبى صلى الله عليه وآله وسلم
ینعی یہ بدمذہب تھے اور اہل بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف تھے
اس حدیث کی جتنی سندیں مختلف اتنے ہی الفاظ بھی مختلف ہین چناچہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں روایوں کی خطا شامل ہے
حدیث ابن المبارك اپنی المسند میں نقل کرتے ہیں ان سے پھر طبرانی معجم کبیر 5/168 (4975 حاکم ابو نعیم وغیرہ نے ابن مبارک سے یہ روایت کی ہے 1/156(253) مستدرک میں
ابن المبارك، ووكيع، عن محمد بن بشرٍ، عن مِسعر عن الحجَّاج مولى بني ثعلبة ،عن قُطْبة بن مالكٍ،قال: سَبَّ أَمِيرٌ مِنَ الأُمَرَاءِ عَلِيًّا ، فَقَامَ إليه زيد بن أرقم فقال : أَمَا لقد عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ e نهى عن سَبِّ الْمَوْتَى فَلِمَ تَسُبُّ عَلِيًّا وقد مَاتَ
تخریج حدیث ابن مبارک
یہاں روایت شعبہ کے بغیر عن مسعر عن مولی بنی ثعلبہ (حجاج بن ایوب) ہے اس میں پھر مغیرہ رضہ کا نام نہیں ہے بلکہ امیر کا لفظ ہے جس یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ امیر مغیرہ تھے
اور پھر حدیث ابن مبارک کے اسناد بھی ضعیف ہیں کیوں کہ اس میں ایک مجھول راوی ہے یعنی مولی بنی ثعلبہ حجاج بن ایوب .
اس سب یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ روایت راویوں کی خطا ہے اس لئے جتنی اسانید ہیں اتنے اختلاف ہیں پھر بالفرض اس حدیث کو صحیح مان بھی لیں تو امام احمد کی حدیث کے الفاظ ہیں نال مغیرہ یعنی مغیرہ نے شکایت کی یا پھر دوسری حدیث کے الفاظ ہیں سب مغیرہ یعنی مغیرہ نے تنقید کی ۔ ہو سکتا ہے حضرت مغیرہ نے حضرت علی کی طرف سے عثمان رضہ کا قصاص نہ لینے یا پھر فتنہ میں شامل ہونے پر ان پر تنقید کی ہو اور زید بن ارقم رضہ نے انہیں یہ کہکر منع کیا کہ وہ وفات پا چکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ مرنے کے بعد کسی پر تنقید نہ کی جائے اس میں کوئی اسیی بات نہیں ہے کیوں کہ نہ تو اس سے سیدنا علی گستاخی ہوتی اور نہ ان ٘مغیرہ رضہ ان کو گالیاں دے رہے ہیں وہ ان سے اختلاف کر رہے ہیں اس سے وہ گنہگار نہین ہوتے اور پھر حضرت مغیرہ فتنہ کے دوران الگ رہے تھے انہوں نے نہ تو علی رضہ کو سپورٹ کیا تھا نہ ہی معاویہ رضہ کو سپورٹ کیا تھا اس لئے غالب گمان یہی ہے کہ وہ حضرت علی کے بارے میں خاموش ہی رہتے تھے جیسا کہ تاریخ کی کتب میں آتا ہے کہ کوفیون کی شرارتیں وہ برداشت کر لیتے تھے اور ان پر سختی نہیں کرتے تھے
حدیث سنن ابوداود ۔کتاب السنہ باب خلفاء
حدثنا أبو كامل حدثنا عبد الواحد بن زياد حدثنا صدقة بن المثنى النخعي حدثني جدي رياح بن الحارث قال كنت قاعدا عند فلان في مسجد الكوفة وعنده أهل الكوفة فجاء سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل فرحب به وحياه وأقعده عند رجله على السرير فجاء رجل من أهل الكوفة يقال له قيس بن علقمة فاستقبله فسب وسب فقال سعيد من يسب هذا الرجل قال يسب عليا قال ألا أرى أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يسبون عندك ثم لا تنكر ولا تغير
“ریاح بن حارث کھتے ہیں کہ ہم ایک شخص کے ساتھ کوفہ کی جامع مسجد میں بیٹھے تھے اتنے میں سعید بن زید رضہ آئے ان کا استقبال کرنے کے بعد ان کو بٹھایا گیا اس دوران اہل کوفہ میں سے ایک شخص جس کو قیس بن علقمہ کہتے ہیں برا بھلا کہنے لگا۔سعید بن زید رضہ کے معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ حضرت علی رضہ کو برا بھلا کہ رہا ہے راوی کہتا ہے کہ جس شخص کے ساتھ ہم بیٹھے تھے اس پر سعید بن زید نے ان کو زجروتوبیخ کی اور فرمایا کہ یہ سب آپ کے سامنے ہو رہا اور ان کو روکتے نہیں”
یہ ابی داود کی روایت ہے اس میں میزبان کا نام نہیں لیکن مسند امام احمد کے مطابق یہ حضرت مغیرہ ہیں۔
۱)اس روایت میں حضرت معاویہ کا دور تک زکر نہیں تو ان پر اس روایت کی وجہ سے الزام لگانا جہالت ہے
۲) ابی داود میں زکر نہیں کہ میزبا کون تھے تو حضرت مغیرہ پر بہی الزام نہیں لگتا وہ کو ئی اور بہی ہوسکتا ہے۔بلکہ گمان یہی ہے کیوں کہ حضرت مغیرہ گورنر تھے انہیں راوی جانتا ہوگا۔
۳) مسند امام احمد میں حضرت مغیرہ کا نام آیا ہے ۔ پر حضرت مغیرہ کے بارے میں یہ واضع لکھا ہے کہ وہ کوفہ میں لوگوں سے نرمی برتتے تھے۔یہ شخص جس نے برا بھلا کہا قیس بن علقمہ تھا اور یہ خوارج میں سے تھا ۔ جس طرح حضرت مغیرہ شیعان علی سے نرمی برتتے تھے بلکل ویسے دوسروں کے ساتھ بھی نرمی کرتے تھے
روایت تاریخ طبری کے ص ۱۸۷ سے ۱۸۸ تک جلد ۴
ابو مخنف کی روایت
“
حضرت معاویہ نے جب حضرت مغیرہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو دوسری باتوں کے ساتھ ان کو اس بات کی وصیت کی کہ حضرت علی اور ان کے اصحاب کو برا بھلا کہنا نہیں چھوڑنا اور حضرت عثمان اور ان کے اصحاب کی تعریٖف کرنا۔ آگے راوی کہتا ہے حضرت مغیرہ بہیت اچھے آدمی تھے( کیوں کہ شیعوں سے نرمی برتتے تھے اس لئی راوی نے کہا آدمی اچھے تھے) لیکن وہ حضرت علی کو برا بھلا کہنا نہیں چھوڑتے تھے۔”
اسی صفحہ پر اسی روایت کے آگے لکہا ہے کہ وہ کیا کہتے تھے
“حضرت مغیرہ کھڑے ہوئے حضرت علی اور حضرت عثمان کے بارے میں جو کہنا تھا کہا ان کے الفاظ یہ تھے ۔یا اللہ عثمان بن عفان پر رحم فرما اور ان سے درگزر فرما اور ان کے بہتر عمل کی انہیں جزا دے کیونکہ انہوں نے تیرے کتاب پر عمل کیا تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی اور ہماری بات ایک کی ہمارے خون کو بچایا اور مظلوم ہو کر قتل ہو گئے۔یا اللہ ان کےدوستوں ان کے قصاص کا مطالبہ کرنے والوں پر رحم فرما اور انکے قاتلوں کے لئے بد عا کرتے تھے۔”
اس میں نہ تو حضرت علی کو برا کہنے کی بات ہے اور نہی ان کے ساتھیوں کو۔ قاتلوں کو بد دعا کرتے تھے ۔ حضرت علی نعوذ باللہ حضرت عثمان کے قاتل تو نہیں تھے کہ یہ بد دعا ان کے لئے ہو لیکن ان لوگوں کے لئے تھی جو خود کو شیعہ علی کھتے تھے کیوں کی یہی لوگ حضرت عثمان کے قتل میں ملوث تھے اس لئے جب حضرت مغیرہ یہ الفاظ کہتے تو یہ لوگ بھڑک جاتے اور کہتے ” تم مجرموں کے لئے دعا کرتے ہو اور نیکوں کو بد دعا کرتے ہو۔ ” حضرت مغیرہ کے استمال کئے گئے الفاظ کا مطلب آپ خود جائزہ لیں کیا ان سے یہ تاثر ملتا ہے جو شیعہ راویوں نے لیا ہے۔
وضاحت:
” حضرت مغیرہ کھڑے ہوئے حضرت علی اور حضرت عثمان کے بارے میں جو کہنا تھا کہا”
اس کے الفاظ آگے راوی نے خود بتا دیئے یہ روی کا کہنا ہے کیوں کہ اکثر لوگ پھلے جملے کو پڑہ کر الزام تراشی کردیتے ہیں حالانکہ راوی نے خود ہی آگے الفاظ نقل کئے ہیں
، مطلب یہ کہ حضرت مغیرہ رضہ جب حضرت عثمان رضہ کی تعریف کرتے اور قاتلوں کے لئے بد دعا کرتے ، اسے راوی نے ” حضرت علی اور حضرت عثمان کے بارے میں جو کہنا تھا کہا” ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے ۔
اس روایت میں راوی شیعہ ہیں
ابو مخنف شیعہ خبیث ہے
دوسرا ھشام کلبی ہے جس کے بارے میں تمام علماء رجال کہتے ہیں یہ امامی شیعہ اور جہوٹا تھا ۔
فضیل بن خدیج
یہ اشتر کے غلام سے روایت کرتا ہے اور ابن حجر نے اسے مجہول کہا ہے۔
مروان بن الحکم
یہ حضرت عثمان کے عمزاد تھے ان کے والد الحکم حضرت عثمان کے حقیقی چچا تھے ۔ یہ حضرت عثمان کے کاتب تھے اور انہی کے قتل کے لئے باغیوں نے حضرت عثمان سے سے مطالبہ کیا تھا ۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جب حضرت معاویہ کے مدینہ میں گورنر تھے تو حضرت علی کو برا بھلا کہتے تھے اور آپ کو ابو تراب کہ کر پکارتے تھے حالانکہ بیچارے کو معلوم نہیں تھا کہ یہ لقب حضرت علی کو حضو علیہ السلام نے خود دیا ہے پھر راویون نے تو یہاں تک غلو کیا ہے کہ یہ اگر حسنین کو مسجد میں نہ دیکھتے تو ان کے گھر جا کر حضرت علی کو برا بھلا کہ آتے لیکن یہ سب صرف غلو ہے
صحیح بخاری میں باب مناقب علی میں ہے کہ
” ان رجل جاء الی سھل بن سعد فقال ھذا فلان لامیر المدینہ یدعو علیا عندالمنبر قال فیقول ماذا قال یقول لہ ابا تراب فضحک وقال واللہ مااسماء الانبی صلی اللہ علیہ وسلم وما کان لہ اسم احب الیہ منہ۔
ایک شخص حضرت سہل بن سعد کے پاس آیا اور کہا کہ امیر مدینہ حضرت علی کی منبر پر برائی کرتا ہے سہل رضہ نے پوچھا کہ کیا کہتا ہے اس نے کہا کہ انہیں ابو تراب کہتا ہے سہل رضہ ہنس پڑے کہا کہ یہ نام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا تھا ان کے لئے انہیں یہ سب سے پیارہ تھا۔”
یہ حدیث مختلف جگہوں پر مختلف طریق سے حضرت سہل سے روایت ہے لیکن مفہوم بلکل یہی ہے
اس میں کہیں بھی حضرت علی کو گالیاں دینے کا زکر نہیں ہاں حضرت سہل سے پو چھنے والے نے لفظ ابو تراب (یعنی مٹی کا باپ) کو بھی برا ہی سمجھا (یعنی سب سے تعبیر کیا) تبھی آپ کو اکہ شکایت کی کیوں کہ اس کو پتا نہیں تھا کہ یہ حضرت علی کا پیارہ نام جو رسول اللہ نے خود رکہا تھا یعنی یہ ان کی مناقبت میں سے ہے تبھی امام بخاری نے اس کو ٘مناقب علی میں زکر کیا ۔
اور سہل بن سعد رضہ ۸۸ یا ۹۰ ھجری میں وفات کر گئے ۔ (تاریخ ابن کثیر جلد ۸ زکر وفات سہل بن سعد ، التہزیب الکمال میں لکہا ہے کہ صحابہ میں یہ آخری وفات کرنے والے ہیں ) مطلب حضرت سہل بن سعد سے جو احادیث سب علی رضہ کے بارے میں ہیں وہ حضرت معاویہ نہیں بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بنی مروان کے دور کی ہوںوہ بھی حضرت علی رضہ کو ابا تراب کہتے تھے جسی ناواقف لوگ برائی (سب) سے تعبیر کرتے تھے۔
اس سے ایک بات واضع ہوتی ہے کہ راویوں نے جو اکثر بھر مار کی ہے حضرت علی کو برا بھلا کھنے کی وہ لفظ ابو تراب کی وجہ سے ہے۔ جس بعد کے لوگوں نے گالی سمجھ لیا۔
شیعوں کو چیلینج
ہم یہاں شیعوں کو چلینج کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ کے حضرت علی کے بارے میں کوئی بھی ایسے الفاظ یا خطبہ صحیح روایات سے پیش کریں جس میں سیدنا علی رضہ کو گالیاں ہو یا پھر آپ کی بیعزتی کی گئی ہو یا پھر آپ پر سیدنا معاویہ نے معاذاللہ لعنت کی ہو آپ کے کسی گورنر کا ایسا خطبہ جس میں سیدنا علی رضہ کو جی بھر کر برا بھلا کہا گیا ہو۔
اعتراض : چلو ہم مان لیتے ہیں کہ حضرت معاویہ تنقید کرتے تھے لیکن حضو ر علیہ اسلام نے تو فرمایا ہے کہ جس نے علی رضہ پر تنقید کی اس نے مجھ پر تنقید کی۔
روایت ایک
مستدرک حاکمج س 122 3
احمد بن كامل القاضى ثنا محمد بن سعد العوفي ثنا يحيى بن ابى بكير ثنا اسرائيل عن ابي اسحاق عن ابي عبد الله الجدلي قال دخلت على ام سلمة رضى الله عنها فقالت لى ايسب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فيكم فقلت معاذ الله أو سبحان الله أو كلمة نحوها فقالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول من سب عليا فقد سبني
یعنی ام سلمہ نے کہا کہ تمہارے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کیا جاتا ہے میں نے کہا معاذاللہ سبحان اللہ کیا کہتی ہیں آپ انہوں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا تھا کہ جس نے علی کو سب کیا اس نے مجھ کو سب کیا
اس روایت میں محمد بن سعد بن محمد بن الحسن بن عطية بن سعد بن جنادة العوفی جس کے بارے میں خطیب کہتے ہین کہ یہ ضعیف ہین حدیث مین ،
دوسرے راوی ابی اسحاق عمرو بن عبد الله بن عبيد ہیں جس کے ابن عینیہ کہتے ہیں یہ تشیع کی طرف ہیں اور مدلس ہیں ابن صلاح کہتے ہیں کہ یہ غلطیاں کرتے ہین ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ مدلس ہیں اور یہ یہاں پر ابی عبداللہ سے عن سے روایت کر رہے ہیں اس لئے تدلیس ممکن ہے یہاں پر ۔
تیسرے راوی ابی عبداللہ الجدلی ہین جس کے بارے مین ابن سعد کہتے ہیں کہ حدیث میں ضعیف ہیں اور ان میں شد ید شیعت پائی جاتی ہے امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ حاسد شیعہ ہے حافظ ابن حجر تہذیب میں کہتے ہیں کہ حدیث میں ضعیف ہیں اور شیعت میں سخت ہیں مختار کی پولیس کے رکن تھے۔
دوری روایت
أبو جعفر احمد بن عبيد الحافظ بهمدان ثنا احمد بن موسى بن اسحاق التميمي ثنا جندل بن والق ثنا بكير بن عثمان البجلى قال سمعت ابا اسحاق التميمي يقول سمعت ابا عبد الله الجدلي يقول حججت وانا غلام فمررت بالمدينة وإذا الناس عنق واحد فاتبعتهم فدخلوا على ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وآله فسمعتها تقول يا شبيب بن ربعى فأجابها رجل جلف جاف لبيك يا امتاه قالت يسب رسول الله صلى الله عليه وآله في ناديكم قال وانى ذلك قالت فعلي بن ابي طالب قال انالنقول اشياء نريد عرض الدنيا قالت فاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول من سب عليا فقد سبنى ومن سبنى فقد سب الله تعال
جندل بن والق
البذار کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں ہیں ، ابو زرعہ الرازی کہتے ہیں کہ حدیث کو بگاڑ دیتے ہیں ابن حجر کہتے ہیں کہ غلطیاں کرتے ہیں اور حدیث کو بگاڑ دیتے ہیں امام مسلم کہتے ہیں کہ متروک الحدیث (ترک کرنے کے لائق ہیں)
بکیر بن عثمان یہ راوی مجہوں الحال ہیں
ابو عبداللہ الجدلی کی بارے میں آپ پہلی روایت میں پڑھ آئے ہیں کہ اس کی حدیث حجت کیسے ہوسکتی ہے جو کہ شیعت میں شدید بھی ہو اور بغض رکہنے والا بھی ہو۔
پھر حضرت معاویہ کی طرف ایسی کوئی روایت ثابت نہیں جس میں انہون نے علی رضہ کو سب کیا ہو۔یہ روایت تقریبن ہر جگہ پر ابو عبداللہ الجدلی سے ہی روایت ہے جس کا حاسد شیعہ ہو نا سورج کی طرح صاف ہے۔
اپنی بات ثابت کرنے کے لیے تاریخی کتب کے حوالے -مولانا نے صحیح تاریخی حوالے نقل کیے ھیں اور یہ چیزیں احادیثکیکتب مین بہی ھیں لیکن اپکی تو مت ماری گئ ھے