اصحاب رسول سے دشمنی اور ان کی توہین کا آغاز معاویہ بن ابو سفیان نے کیا

Source: Jihadi Samina Farooqi جہادی ثمینہ فاروقی

آج پاکستانی قوم اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا المیہ ہے کہ ہمیں تاریخ مسخ شدہ صورت پڑھائی جاتی ہے نسیم حجازی، اوریا مقبول جان، جاوید چودھری ، صفدر محمود، تقی عثمانی دیوبندی اور اس قماش کے دوسرے درباری مورخوں نے محمود غزنوی جیسے ڈاکو اور محمد بن قاسم جیسے لٹیروں کو قوم کا ہیرو بنا کر پیش کیا جیسا کہ آج کے دور میں کچھ لوگ سپاہ صحابہ کے تکفیری دہشت گردوں احمد لدھیانوی دیوبندی اور طاہر اشرفی دیوبندی کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں

اولین تاریخ اسلام میں ایک ایسا کردار ملتا ہے جس کے کارناموں کے بارے میں عام لوگ اسی طرح بے خبر ہیں جس طرح ان کو محمود غزنوی، مجدد الف ثانی اور احمد لدھیانوی دیوبندی وغیرہ کی حقیقت معلوم نہیں اس کردار کا نام ہے ابو یزید معاویہ بن ابو سفیان ، لخت جگر ہندہ

سپاہ صحابہ کے تکفیری دیوبندی اور دوسرے ناصبی حضرات شیعہ مسلمانوں کو اس لیے قتل کرتے ہیں اور کافر قرار دیتے ہیں کیونکہ بقول ان کے شیعہ صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں

اگر کفر کا معیار واقعی کسی صحابی پر تنقید کرنا ہی ہے تو پھر سب سے بڑے کافر بنی امیہ ہوئے جو عرصہ دراز تک صحابی علی ابن ابی طالب اور اہلبیت پر گالیوں کی بوچھاڑ کرتے رہے۔ مگر منافقانہ روش دیکھیں کہ بجائے بنی امیہ پر کفر کے فتوے لگانے کے انہوں نے بنی امیہ کو “رضی اللہ عنہ” اور “امیر المومنین” بنا رکھا ہے۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:-میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی اور جس نے مجھے گالی دی اس نے اﷲ کو گالی دی.مسند أحمد بن حنبل ( ج18 / 314 ) الحديث رقم :ح26627الحاکم فيالمستدرک، 3 / 121، الحديث رقم : 4616،الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 130 : رجاله رجال الصحيح،ابن عساکر في تاريخه، 42 / 533
. 42 / 266، 266، 267. 268، 533

https://sphotos-a.xx.fbcdn.net/hphotos-ash4/375440_230509013688126_448298459_n.jpg

سوال: مروان بن حکم اور امیر معاویہ کافر کیوں نہیں بنے جبکہ وہ صحابہ حضرت علی ابن ابی طالب، حسن و حسین کو گالیاں دیتے تھے؟

امام الذھبی تاریخ الاسلام، جلد دوم، صفحہ 288 پر یہی بات لکھ رہے ہیں:مروان بن الحکم ہر جمعے کے خطبے کے بعد حضرت علی ابن ابی طالب پر سب(گالی) کیا کرتا تھادیوبند کے امام محمد انور شاہ کشمیری صحیح بخاری کی شرح ‘فیض الباری شرح صحیح بخاری’ میں لکھتے ہیں:ثم إن من السُّنة تقديمَ الصلاةِ على الخُطبة. وإنما قَدَّمها مراونُ على الصلاةِ لأنه كان يَسُبُّ عليًا رضي الله عنهسنت نبوی یہ ہے کہ نماز کو خطبے سے پہلے ادا کیا جائے، لیکن مروان بن الحکم نے خطبے کو نماز پر پہلے جاری کر دیا کیونکہ وہ خطبے میں علی (رض) کو برا بھلا کہتے تھے۔ فیض الباری شرح صحیح بخاری، جلد 1، صفھہ 722، روایت: 954، کتاب العیدین امام الذھبی تاریخ الاسلام، جلد دوم، صفحہ 288 پر یہی بات لکھ رہے ہیں:مروان بن الحکم ہر جمعے کے خطبے کے بعد علی ابن ابی طالب پر سب(گالی) کیا کرتا تھا

اہل ِسنت کی احادیث کی چھ معتبر ترین کتابوں میں سے ایک یعنی سنن ابن ماجہ، جلد اول

حج پر جاتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کی ملاقات امیرمعاویہ سے ہوئی اور جب کچھ لوگوں نے علی کا ذکر کیا تو اس پر معاویہ نے علی کی بدگوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص غضب ناک ہو گئے اور کہا کہ تم علی کے متعلق ایسی بات کیوں کہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ (ص) کو کہتے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا، اور یہ کہ اے علی آپکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون (ع) کو موسی (ع) سے تھی سوائے ایک چیز کہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور میں نے [رسول اللہ ص] سے یہ بھی سنا ہے کہ کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول(ص) سے محبت کرتا ہے۔یہ بالکل صحیح الاسناد روایت ہے اور سلفیوں / وہابیوں کے امام ناصرالدین البانی نے اسے کتاب ‘سلسلہ الاحاديث الصحيحہ’ ج 1 ص 26 میں ذکر کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے۔سلسلہ الاحاديث الصحيحہ ، ج 1 ص 26

https://sphotos-b.xx.fbcdn.net/hphotos-ash3/p206x206/533704_404820566256969_2012093942_n.jpg

صحیح مسلم کی روایت ملاحظہ ہو: أبدااور ابی یعلی نے سعد سے ایک اور ایسے حوالے [سند] سے نقل کیا ہے کہ جس میں کوئی نقص نہیں کہ سعد نے [معاویہ ابن ابی سفیان سے کہا]: اگر تم میری گردن پر آرہ [لکڑی یا لوہا کاٹنے والا آرہ] بھی رکھ دو کہ میں علی [ابن ابی طالب] پر سب کروں [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] تو تب بھی میں کبھی علی پر سب نہیں کروں گا۔

حوالہ جات:صحیح مسلم جلد۷ ، کتاب فضائل الصحا بة،باب” فضائل علی کرم اللہ وجہہ “ حدیث۲۴۰۴۔ ۲۴۰۵ ۔ ۲۴۰۶۔ ۲۴۰۷۔
فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج 7 ،ص 74

https://sphotos-a.xx.fbcdn.net/hphotos-ash3/559226_404820702923622_744113911_n.jpg

اسی روایت کے ذیل میں لفظ سب کے متعلق شاہ عبدالعزیز کا ایک جواب فتاوی عزیزیہ، مترجم [شائع کردہ سعید کمپنی، کراچی] صفحہ 413 پر موجود ہے، جس میں شاہ صاحب فرماتے ہیں:بہتر یہی ہے کہ اس لفظ [سب] سے اسکا ظاہری معنی سمجھا جائے۔ مطلب اسکا یہی ہو گا کہ ارتکاب اس فعل قبیح کا یعنی سب یا حکم سب حضرت معاویہ سے صادر ہونا لازم آئے گا۔ تو یہ کوئی اول امر قبیح نہیں ہے جو اسلام میں ہوا ہے، اس واسطے کہ درجہ سب کا قتل و قتال سے بہت کم ہے۔ چنانچہ حدیث صحیح میں وارد ہے کہ “سباب المومن فسوق و قتالہ کفر” یعنی برا کہنا مومن کو فسق ہے اور اسکے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔”

اب یہ بتائیں کہ کیا حضرت علی ابن ابی طالب صحابی نہ تھے؟ کیا حضرت حسن و حسین صحابی رسول نہ تھے؟ کیا دختر رسول، سیدۃ نساء العالمین، بتول و زہراء ، جگر گوشہ رسول صحابیہ نہ تھیں کہ انہیں معاذ اللہ معاذ اللہ یہ مروان بن حکم اور معاویہ
اس طرح گالیاں دے؟

جس طرح بنی امیہ کے منافقین اہلبیت رسول پر بھونکتے تھے آج بالکل اسی طرح سپاہ شیطان خٓارجی ٹولہ بھی اولاد رسول پر بھونک کر اپنا حسب نسب بتا رہی ہے کہ یہ بھی یزید کی باقیات میں سے ہیں

https://sphotos-a.xx.fbcdn.net/hphotos-ash3/601712_343631205709239_1177721057_n.jpg

ام المومنین حضرت عایشہ (رض)کا معاویہ کو فرعون سے تشبیہ دینا

حضرت اسود ابن یزید کا بیان ہے کہ میں نےام المومنین حضرت عایشہ سے کہا: تمہارے لئے تعجب کی بات نہیں ہے کہ فتح مکہ ایک آزاد شدہ آدمی خلافت کے بارے میں اصحاب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مخالفت کر رہا ہے؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے! یہ اللہ کی قدرت حاکمہ ہے جسے وہ نیک و بد سبھی کو عطا کرتا ہے،اور تاریخ میں اس طرح کے اتفاقات پیش آئے ہیں،جیسے فرعون نے چارسوں سال تک مصر کے لوگوں پر حکومت کی، اور اسی طرح فرعون کے علاوہ دوسرے کافروں نے بھی اور یہی معاویہ ابن ابوسفیان کی مثال ہے

حوالاجات اہلسنت:
البدایۃ و النھایۃ ابن کثیر ج۸ ص ۱۳۱ ،ابو داود طیالسی اور ابن عساکر سے نقل کے ساتھ۔

صحابی رسول حضرت ابن عباس (رض)کی نظر میں معاویہ

صحابی رسول حضرت ابن عباس (رض)صفین کے بارے میں اپنے ایک بیان میں اس طرح فرماتے ہیں: جگر خوار عورت کے بیٹے(معاویہ) نے علی ابن ابی طالب(رض) کے مقابل جنگ میں بعض کمینوں اور شام کے اراذل افراد کو اپنا مددگار بنایا۔ رسول اللہ کے چچازاد بھائی اور داماد جس نے سب سے پہلی بار رسول اللہ کے ساتھ نماز ادا کی،اور اھل بدر (بدری)میں سےتھے، جو کہ تمام جنگوں میں صاحبان فخر اور فضیلت تھے اور ہمیشہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ ساتھ رہتے تھے،جبکہ معاویہ اور ابوسفیان دونوں اس وقت مشرک اور بت پرست تھے۔یاد رکھو اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں تمام ھستی ہے،اور اس کو ظہور میں لانا والا ہے، اور ہر ھستی وجود پر حکومت اور سلطنت کے لئے سزاوار ہے، علی بن ابی طالب رسول اللہ کے ہم رکاب جنگ کرتے تھے، اور علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: خدا اور اس کا رسول جو بھی کہتے ہیں سچ کہتے ہیں۔ لیکن اس کے مقابل معاویہ اور ابوسفیان کہتے تھے: خدا اور اس کا رسول جھوٹا ہے۔ لیکن اس کے باوجود معاویہ جس موقعیت کا آج حامل ہے ماضی کی موقعیت سے ہر گز بہتر، یا زیادہ پرہیزگار ، اور ہدایت یافتہ نہیں ہے۔

حوالاجات اہلسنت: کتاب صفین، ص ۳۶۰ا، شرح ابن ابی الحدید ج۱ ص ۵۰۴۔

صحابی حضرت عمار یاسر(رض) کی نگاہ میں معاویہ:
یہ بات صحیح ہے کہ حضرت عمار یاسر(رض)نے جنگ صفین کے دوران فرمایا:اے مسلمانو! کیا تم ایسے شخص کو دیکھنا چاہتے ہو کہ جس نے خدا اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کی،رسول کی مخالفت میں جد و جہد کی،مسلمانوں پر مسلح ہو کر تجاوز کیا، مشرکوں کی حمایت کی،اور جب خدا نے چاہا کہ وہ اپنے دین کی حمایت کرے اور اس کو نمایاں کرے اور اپنے رسول کی مدد کرے، تو وہ شخص پیغمبر کے پاس آتا ہے اور مسلمان ہو جانے کا اظہار کرتا ہے۔ جبکہ خدا کی قسم! اس نے اسلام کو ہرگز دل سے قبول نہیں کیا، بلکہ ڈر اور خوف کے سبب اس نے اظہار اسلام کیا، جب پیغمبر دنیا سے گئے تو خدا کی قسم ہم جانتے تھے کہ وہ مسلمانوں کا دشمن اور تباہ کاروں کا دوست ہے ؟ ہاں! وہ شخص معاویہ ہی ہے، لھذا تم اس پر لعنت بھیجو، اور اس کے ساتھ جنگ کرو، اس لئے کہ یہ وہ شخص ہے جو دین کی مشعل کو خاموش اور خدا کے دشمنوںکی مدد کر رہا ہے۔

حوالاجات: تاریخ طبری ج۶، ص۷، کتاب صفین ص ۲۴۰، الکامل لابن الاثیر ج۳ ص ۱۳۶۔

اسناد صحیح حدیث مسلم شریف سے معاویہ کے بارے میں جس میں رسول اللہ نے بدعا دی معاویہ کو رسول اللہ کے حکم کی جب معاویہ نے نافرمانی کی اور اسی حدیث کی تشریح بھی دیکھو امام نوی نے امام اہلسنت امام نسائی کا قول بھی نقل کیا ہے کہ ’’معاویہ کے بارے میں کوئی بھی حدیث صحیح نہیں سوائے اس ایک بدعا والی حدیث کے
خارجیو اس وقت بھی امام نسائی کو اس بات پر خارجیوں نے مارا اور آج بھی معاویہ کے پیروکار خارجی ہی ہیں

https://sphotos-b.xx.fbcdn.net/hphotos-prn1/558948_404820512923641_1751751987_n.jpg

معاویہ کے پوتے کی نظراپنے دادا کے بارے

کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ جب معاویہ بن یزید بن معاویہ (یعنی معاویہ کا پوتا) تخت حکومت تک پہنچا تو منبر پر جانے کے بعد اس طرح کہتا ہے:

یہ خلافت اللہ کی ایک رسی ہے (اللہ سے رابطہ ہے) اور میرے جد معاویہ نے اس کو اس شخص سے جو اس کا اھل تھا اور خلافت کے لئے موزوں تھا چھین لیا(یعنی علی بن ابی طالب سے ) اور تم کو وہ کام کرنے پر مجبورکیا جنہیں تم اچھی طرح جانتے ہو،یہاں تک کہ اس کا وقت آگیا، اور قبر میں اس کے گناہوں کے بند کھل گئے، اس وقت میرے باپ(یزید) نے حکومت کو اپنے قبضے میں لے لیا جبکہ وہ اس کے کا اھل نہیں تھا، اور پیغمبر کی بیٹی کے فرزند کی مخالفت اور دشمنی پر اتر آیا،اسی وجہ سے وہ جوانی میں ھلاک ہو گیا، اور ابتر اور لاوارث مر گیا،اور اپنی قبر میں گناہوں کے سبب گرفتار ہوگیا (صواعق محرقہ ابن حجرص ۱۳۴)

معاویہ کی حضرت محمد رسول اللہ(ص)کے ساتھ جنگ کا ثبوت

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے متعدد بار فرمایا: علی کی جنگ میری جنگ ہے

کیا وہ لوگ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ساتھ جنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جس نے بھی جنگ کی اس نے رسول اللہ سے جنگ کی ۔۔۔ کیوں امیر المومنین خلیفہ حق حضرت علی کے مقابلہ میں اعلان جنگ کیا اور لشکر کشی فرمائی؟ کیا رسول اللہ سے جنگ کرنے والے کو آپ صحابی مانتے ہیں؟ پھر یہود نصارا کے عقیدے میں اور سپاہ صحابہ کے عقیدہ میں کیا فرق ہے؟

حوالاجات:
امیر المومنین علی ابن ابی طالب کے ساتھ جنگ در حقیقت رسول اللہ کے ساتھ جنگ ہے۔!
المستدرک – الحاکم النیسابوری – ج 3 – ص 149 (و مسند احمد – الإمام احمد بن حنبل – ج 2 – ص 442 و المعجم الکبیر – الطبرانی – ج 3 – ص 40 و کنز العمال – المتقی الهندی – ج 12 – ص 97، ح 34164 )
؎
متن حدیث اسناد حسن
( أخبرنا ) أحمد بن جعفر القطیعی ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل حدثنی أبی ثنا تلید بن سلیمان ثنا أبو الجحاف عن أبی حازم عن أبی هریرة رضی الله عنه قال نظر النبی صلى الله علیه وآله إلى علی وفاطمة والحسن والحسین فقال انا حرب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم * هذا حدیث حسن من حدیث أبی عبد الله أحمد بن حنبل عن تلید بن سلیمان فانى لم أجد له روایة غیرها *

المعجم الأوسط – الطبرانی – ج 3 – ص 179( و المعجم الصغیر – الطبرانی – ج 2 – ص 3 و أسد الغابة – ابن الأثیر – ج 3 – ص 11)

حدثنا إبراهیم قال حدثنا محمد بن الاستثناء قال حدثنی حسین بن الحسن الأشقر عن عبید الله بن موسى عن أبی مضاء وکان رجل صدق عن إبراهیم بن عبد الرحمن بن صبیح مولى أم سلمة عن جده ( 161 أ ) صبیح قال ( کنت بباب رسول الله صلى الله علیه وسلم فجاء علی وفاطمة والحسن والحسین فجلسوا ناحیة فخرج رسول الله صلى الله علیه وسلم إلینا فقال إنکم على خیر خیر وعلیه کساء خیبری فجللهم به وقال’’ أنا حرب لمن حاربکم سلم لمن سالمکم‘‘ )

تاریخ مدینة دمشق – ابن عساکر – ج 14 – ص 157:

وأخبرنا أبو محمد بن طاوس أنا أبو الغنائم بن أبی عثمان أنا عبد الله بن عبید الله بن یحیى قالا أنا أبو عبد الله المحاملی نا عبد الأعلى بن واصل نا الحسین بن الحسن الأنصاری یعرف بالقری نا علی بن هاشم عن أبیه عن أبی الجحاف عن مسلم بن صبیح عن زید بن أرقم قال حنا رسول الله ( صلى الله علیه وسلم ) فی مرضه الذی قبض فیه على علی وفاطمة وحسن وحسین فقال’’ أنا حرب لمن حاربکم وسلم لمن سالمکم‘‘

آج عالم اسلام کی بدنامی کا ایک سبب یہ بھی ہے لمحہ فکریہ – مفتی اعظم محمداسحاق مدنی

Comments

comments

Latest Comments
  1. kakaji313
    -
  2. abuaatir
    -