ینگ ڈاکٹرز ،گوجرانوالہ تشدد کیس اور اصل حقائق — لیل و نہار /عامر حسینی
ہم نے تین روز قبل ٹی وی چینلز پر ایک فوٹیج چلتے دیکھا-اس فوٹیج میں گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں ایم ایس کے کمرے کا ایک منظر تھا اور اس دوران ینگ ڈاکٹرز کی تنظیم وائی ڈی اے کے صدر اور چند اور رہنماء بہت اشتعال میں نظر آرہے تھے اور انھوں نے ایم ایس کو گریباں سے پکڑا اور اس کو کرسی سے اٹھاکر نیچے پھینک دیا-پھر اس ہنگامہ میں اور شدت آئی اور ہسپتال انتظامیہ اور ینگ ڈاکٹرز کی لڑائی میں میڈیا کے کیمرہ میں اور رپورٹرز بھی لیپٹ میں آگئے–اس فوٹیج سے تو سارا الزام ینگ ڈاکٹرز پر آتا دکھائی دیا-اور صوبائی حکومت اور محکمہ صحت بھی فوری طور پر متحرک ہوا-دو ینگ ڈاکٹرز کو نوکری سے برخواست اور چھے کو معطل کردیا گیا-آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو سبھی اخبارات میں صوبائی سیکٹری صحت عارف ندیم کی طرف سے ایک نوٹس جاری کیا گیا ہے جس میں ینگ ڈاکٹرز کو ڈیوٹی سے غیر حاضر ہونے پر نوکری سے برخواست کرنے کی دھمکی بھی دی گئی ہے-
صوبائی حکومت ،محکمۂ صحت اور پولیس کی تیزی دیکھتے ہوئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ گوجرانوالہ میں جو بھی ہوا وہ ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا-میرے اس شک کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے میڈیا پر اس فوٹیج سے قبل گوجرانوالہ میں کئی روز سے جاری ینگ ڈاکٹرز اور ایم ایس کے درمیان چتقلش کا کوئی تذکرہ دیکھنے کو نہیں ملا-نہ ہی میڈیا میں یہ بات سامنے آئی کہ گوجرانوالہ کے محکمۂ صحت نے کی روز سے ینگ ڈاکٹرز کو معطل کرنے اور کئی ینگ ڈاکٹرز کو نوکری سے فارغ کرنے کا عمل شروع کیا تھا-وہ اس سلسلے کو پورے پنجاب تک لیجانا چاہتے تھے-اسی دوران بیس سے زائد ینگ ڈاکٹرز گوجرانوالہ میں تشدد کا نشانہ بھی بنے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو فریکچر بھی آئے مگر ان کی درخواست پر نہ تو پولیس نے کوئی مقدمہ درج کیا اور نہ ہی ایم ایس کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا-پھر موجودہ ایم ایس جو ہے اس کے بارے میں خود سپیشل برانچ اور آئی بی کی رپورٹس موجود ہیں کہ وہ ایک کرپٹ آدمی ہے اور ہمیشہ ہر حکومت کا یس میں رہا ہے-وہ جھوٹے پرچوں کے لئے جھوٹا میڈیکل بنانے میں بھی بہت بدنام ہے-اس کو ایک منصوبہ بندی کے تحت یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ ینگ ڈاکٹرز کو مشتعل کرے تاکہ ان کے خلاف پنجاب حکومت بھرپور کاروائی کرسکے-اس کام میں ایم ایس کامیاب ہوا اور اس نے بہت مہارت کے ساتھ میڈیا اور ڈاکٹرز کو بھی آمنے سامنے کھڑا کردیا-
سوال یہ جنم لیتا ہے کہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے خلاف یہ سازشیں کیوں کی جارہی ہیں؟اور ان کے خلاف اس سارے ڈرامے کا مقصد کیا ہے؟وجہ سمجھ میں آنے والی ہے-ینگ ڈاکٹرز نے اپنی جدوجہد کے ساتھ بیسک سروسز سٹرکچر کو حاصل کرنے کی طرف جو قدم اٹھایا اور انھوں نے صوبائی حکومت کے جبر کو برداشت کرتے ہوئے جس طرح سے اپنے حق کے لئے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور حکومت نے ایک تحریری معاہدے کے ذریعہ سے یہ وعدہ کیا کہ وہ بیسک سروسز سٹرکچر کو لاگو کرے گی اس کو حکومت نے ریاست کی شکست سمجھا ہے-وہ اس معاہدے سے ہر صورت فرار چاہتی ہے-کیونکہ اس سے ایک طرف تو پنجاب حکومت کی مالی مشکلات اس اعتبار سے بڑھ جائیں گی کہ اس کو سول سروس کی نوکر شاہی کی مراعات پر کٹ لگانا پڑے گا اور اس کو ڈی ایم جی گروپ کبھی بھی برداشت نہیں کرے گا-
دوسری طرف ینگ ڈاکٹرز کی کمیاں جدوجہد سے ورکنگ کلاس کی اور پرتیں اور گروہ جن میں نرسیں،اساتذہ ،پروفیسرز،لیکچررز ،کلرک،کچے مزدور شامل ہیں جو پہلے بھی احتجاج تو کر رہے ہیں مگر ینگ ڈاکٹرز کی کامیابی ان کو بھی اور زیادہ متحرک کرے گی اور ان میں بھی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے کا جذبہ تیز تر ہوگا-اس لئے ینگ ڈاکٹرز کو سماج کی دوسری مظلوم اور استحصال کا شکار پرتوں کے لئے عبرت کا نشان بنانا بہت ضروری ہے-اس مقصد کے لئے ریاست ہر طرح کے جبر کے ہتھکنڈے استعمال کرنے اور ورکنگ کلاس کی پرتوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے-ایک طرف تو صوبائی حکومت اور محکمہ صحت عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھی آمدنی ا بہت بڑا حصہ ینگ ڈاکٹرز کو بدنام کرنے کی اشتہاری مہم پر خرچ کر رہی ہے-دوسری طرف ینگ ڈاکٹرز کی کردار کشی اور ان کو غنڈا بناکر دکھائے جانے کا عمل بھی شروع کر رکھا ہے-یہ ایک طرح سے لڑاؤ اور تقسیم کرو کی پالیسی ہے-
ہم سب جانتے ہیں کہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں سب کی سب صحت اور تعلیم پر سب سے کم خرچ کر رہی ہیں-جبکہ جو فنڈز مختص کئے جاتے ہیں وہ بھی نوکر شاہی اور ایم ایس ٹائپ لوگ کھاجاتے ہیں-جن کا کوئی احتساب نہیں کیا جاتا-ینگ ڈاکٹرز اس معاشرے میں کام کرنے والے دیگر لوگوں کی طرح کام کے حالات کو بہتر بنانے اور ان کو بہتر سہولتوں کی فرہامی کوے لئے جدوجہد کر رہے ہیں-ان کی طرف سے اپنے حقوق کی مانگ کو ایک ناقابل معافی جرم قرار دیا جارہا ہے-نجب حکومت ہو یا وفاقی حکومت یا دیگر صوبائی حکومتیں انھوں نے حقوق کی مانگ کرنے والے ینگ ڈاکٹرز ،نرسیں،لیکچررز،پرائمری کے استادوں ،کلرکوں اور دیگر ملازمیں کے احتجاج کو پولیس فورس کے ذریعہ جبر کے ساتھ اور انسداد دہشت گردی کے مقدمات کے ساتھ ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہیں-
میڈیا میں پیسے کے بل بوتے پر کردار کشی بھی اسی مہم کا ایک حصہ ہے-اپنے فسطائی اور جابرانہ چہرے کو چھپانے کے لئے کردار کشی کی مہم چلائی جاتی ہے-مجھے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی مرکزی کیمٹی کے رکن ڈاکٹر یاسر ارشاد نے ایک میل ارسال کی ہے جس میں انھوں نے بہت سارے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے-اور اپنے سورسز سے بھی ان کی تصدیق ہوتی ہے-
مجھے حیرانی ہے چیف منسٹر شہباز شریف پر جو میرٹ اور دیانت داری کے بہت سے سبق نوجوان نسل کو لیپ ٹاپ بانٹتے ہوئے دیتے ہیں اور “زر بابا ،چالیس چوروں”کا خوب تذکرہ کرتے ہیں لیکن پنجاب کے اندر “زر بابوب اور چالیس چوروں “کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں ہوتی ہے-اس سے مجھے یہ اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ہے کہ دوسروں کے زربابا اور چالیس چوروں کا احتساب ہی ان کے نزدیک جہاد ہے اور اپنے زربابوں کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ جو چاہئیں کرتے پھریں-میں معاشرے کی تمام ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والی پرتوں کو کہتا ہوں کہ وہ ریاست اور حکومت کی جانب سے اپنے اوپر ہونے والے حملوں کی نوعیت کو سمجھیں-حکمران طبقات ایک ایک کرکے سب کی مراعات اور بنیادی حقوق کو غصب کرنے کے راستے پر گامزن ہیں-اور وہ ورکنگ کلاس کو متحد اور منظم ہوتا دیکھنے کو برداشت بھی نہیں کرسکتے-
ریاست ایک مجموعی بحران کا شکار ہے اور اس بحران کے ذمہ دار حکمران طبقات اس بحران سے نمٹنے کے سوال پر تقسیم بھی ہیں اور آنے والے وبال سے خوف زدہ بھی ہیں-ان کو معلوم ہے کہ اس ملک کے غریب اور مظلوم کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں اور ان کو حقوق کی مانگ سسٹم کو ڈی ریل کرنے کی سازش لگتی ہے تو کبھی جمہوریت کی بساط لیپٹنے کا ایجنڈا–لیکن حکمران طبقات کے خلاف محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد کو زیادہ دیر روکا نہیں جاسکتا ہے-
یہ بات بہت واضح ہے کہ جب جمہوریت حکمران طبقوں کے مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام ہوجائے تو حکمران طبقات پھر خود آمریت اور فسطائی ہتھکنڈوں کا سہارا لیتے ہیں اور فاشزم کو اپنے ہاتھوں سے ریاست میں نافذ کرڈالتے ہیں-حکمران طبقات کی ایک پرت اس راستے پر گامزن ہوچکی ہے اور وہ ریاستی میشنری کو اس کام کے لئے استعمال کرنے کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں-
میں اکثر کہتا ہوں کہ جہاں وبال تباہی اور بربادی کے امکانات لیکر آتے ہیں وہیں پر ان میں ورکنگ کلاس کو منظم اور متحرک کرنے کے امکانات بھی ہوا کرتے ہیں-جس وقت مصر میں عوامی جدوجہد کا آغاز ہوا تو اس کی شروعات مزدوروں کی ہڑتالوں سے ہوئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ جدوجہد ورکنگ کلاس کی پرتوں میں پھیل گئی تھی–اس وقت بھی حکمران طبقات کے درمیان تقسیم تھی اور حکمران طبقہ اپنی عوام کو خوفزدہ بھی کررہا تھا کہ اس وبال کے دوران القاعدہ اور دہشت گرد قابض ہوجائیں گے-ملک کی سلامتی کے خطرے میں ہونے کا پروپیگنڈا بھی خوب کیا گیا تھا-مگر مصر کا انقلاب ان سارے خدشات کو بے بنیاد ثابت کر گیا-ہنسی مبارک رخصت ہوا -اگرچہ وہاں اوم ابھی تک اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہی ہے-اس کو سامراج کی پٹھو جرنیل شاہی اور گماشتہ سرمایہ دار طبقے کی سازشوں کا سامنا ہے–
پاکستان میں بھی ینگ ڈاکٹرز ،نرسیں،اساتزہ ،مزدور،کلرک ،،پروفیسرز ،لیکچررز ،شہری اور دیہی غریب اور مظلوم کمیونٹیز مل کر جبر اور استحصال کے خلاف کامیاب جدوجہد کرسکتے ہیں اور وہ اس وبال کو انقلاب میں بدل سکتے ہیں-جو اس دوران طالبان ،لشکرز اور انتہا پسندوں کے آجانے کا خطرہ کا راگ الاپتے ہیں ان کے بارے میں بس یہ جان لینا کافی ہے کہ یہ اس وقت کے ظالمانہ اور استحصالی نظام کے سٹیک ہولڈرز ہیں-اور اس میں سے اپنا حصہ تواتر کے ساتھ وصول کررہے ہیں-ان کو اپنے اثاثے کھوجانے کا خوف لاحق ہے جو یہ بربادی کے قصے سناکر اوم کو انقلابی جدوجہد کا حصہ بننے سے روکتے ہیں-اور ان کے درمیان تقسیم پیدا کرنے لئے اپنی ساری طاقت اور اپنے سارے وسائل صرف کررہے ہیں-
مجھے یقین ہے کہ اگر ینگ ڈاکٹرز،صحافی ،نوجوان وکلاء ،طلبا ،نرسیں ،اساتزہ ،اور ورکنگ کلاس کی پرتوں سے اٹھ کر آنے والی نوجوان لیڈرشپ آپس میں کوارڈینیشن پیدا کر لے اور یہ سب ملکر حقوق کی جدوجہد میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو ظلم اور جبر کی کالی رات کو بہت جلدی انجام تک پہنچایا جاسکتا ہے-بہت سے نوجوان مرد اور عورتیں اس دوران ابھر کر سامنے آئے ہیں جن کا باہمی رابطہ بہت ضروری ہے-کم از کم پہلے مرحلے پر اگر ینگ ڈاکٹرز ،آل پاکستان نرسز ایسوسی ایشن ،فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ،ینگز لائرز اسوسیشن ،اور لیکچررز ایسوسیشن ملکر ایک کوآرڈینیشن باڈی بنا لیں اور جدوجہد کا آغاز ملکر کریں تو منزل آسان ہوجائے گی-