President Zardari, Is Kurram Agency a part of Pakistan?

Shias in Kurram Agency remain stranded by the ISI

کرم ایجنسی تنازعہ اور حکومتی ساکھ

رفعت اللہ اورکزئی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور

کرم ایجنسی میں حکومت کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے

پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں تقریباً تین ہفتوں سے جاری جھڑپیں اگرچہ ظاہری طورپر پانی اور راستے کے تنازعات پر شروع ہوئی لیکن بدقسمتی سے یہاں جب لڑائی ہوتی ہے تو اس کے تانے بانے کسی نہ کسی طریقے سے فرقہ واریت سے مل ہی جاتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو موجودہ لڑائی کی وجہ بھی دو ہزار سات میں دو تین مرتبہ ہونے والی فرقہ وارانہ فسادات سے کسی نہ کسی حد تک جڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ تین سال پہلے ہونے والی خون ریز جھڑپوں نے ایجنسی پر وہ بھیانک اور انمٹ نقوش چھوڑے ہے جو اس سے پہلے علاقے میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملے تھے۔

کرم ایجنسی کی پچھلے پچاس سالہ فرقہ وارانہ جنگی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ حالات ’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘ کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں اور جس کا اثر یہ ہورہا ہے کہ ایجنسی کا نقشہ بھی تیزی سے تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

دو ہزار سات میں جب ایک سال کے دوران دو تین لڑائیاں ہوئیں تو فریقین نے ایک دوسرے کے دیہات پر حملے کرکے ان کو نذرآتش کردیا اور ایک دوسرے کے علاقوں پر قابض ہوگئے۔ اس لڑائی کے دوران صدر مقام پارہ چنار اور اطراف کے علاقوں سے تقریباً پانچ سو سے لیکر سات کے قریب خاندانوں کو علاقہ بدر کیا گیا۔

اس میں مزید شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب فریقین نے ایک دوسرے کے علاقوں سے اپنے مخالفین کو نکالنا شروع کردیا۔ یعنی جن جن علاقوں میں دونوں فریق اکھٹے رہا کرتے تھے وہاں جو فریق طاقت ور تھا اس نے اقلیت میں رہنے والے فریق کو کمزور سمجھ کر ان وہاں سے زبردستی نکال دیا اور ان کے مکانات اور جائیدادوں پر قبضہ کرلیا۔ اس قسم کے واقعات دونوں فرقوں کے علاقوں میں ہوچکے ہیں۔

یہ بے گھر افراد پچھلے تین سالوں سے دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں چاہے ان کا تعلق ایک فرقے سے ہو یا دوسرے فرقے سے۔ ان کو جائیدادیں واپس کی گئی ہے اور نہ ان کو اپنے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت دی جارہی ہے۔

کرم ایجنسی میں لوگوں کو علاقہ بدر کئے جانے کے واقعات پہلی دفعہ نہیں ہورہے بلکہ اس سے قبل اسی کی دہائی میں پہلی مرتبہ یہ واقعات لوئر کرم کے علاقے صدہ سب ڈویژن میں پیش آئے تھے جب چند گھرانوں کو بے دخل کرکے ان کے جائیدادوں پر قبضہ کیا گیا۔ صدہ کے یہ خاندان چھبیس سال گزرنے کے باوجود بھی اپنے علاقوں کو واپس نہیں جاسکے ہیں بلکہ ابھی دوسرے علاقوں میں مقیم ہیں۔ ان میں کئی کے جائیدادوں پر دوسرے افراد قابض ہوچکے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ’جس کا مکان جلادیا گیا ہو، اسے علاقے سے بے دخل کیا گیا ہو ، اس کے جائیداد پر دوسرے لوگ قابض ہوں، اس کا بھائی یا بیٹا اس کے سامنے ہلاک کیا جا چکا ہو، کیا وہ اپنا انتقام لینا بھول جائے گا۔‘ انہوں نے کہا کہ اس بدلے کی آگ کو بجھانا ہوگا ورنہ یہ مسئلہ ساری زندگی حل نہیں ہوسکتا۔ ان کے مطابق اگر حکومت واقعی اس مسئلے کو حل کرانے میں سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے علاقہ بدر خاندانوں کو اپنے اپنے علاقوں میں واپس بھیجاجائے اور جن کے نقصانات ہوچکے ہیں ان کو معاوضہ ادا کیا جائے۔

لوگوں کی بے دخلی کے ان واقعات سے جڑا ہوا دوسرا بڑا مسئلہ سڑکوں کی بندش ہے جسے علاقے میں جاری کشیدگی کی ایک بڑی وجہ بھی بتائی جارہی ہے۔ حالیہ جھڑپیں بھی اسی وجہ سے شروع ہوئی کیونکہ ایک فریق نے سڑک بند کیا ہوا ہے جبکہ اس کے مخالف فریق نے پانی دینے سے انکار کردیا ہے۔

افغانستان کے سرحدی علاقوں سے لے کر تحصیل ٹل تک تقریباً اسی نوے کلومیٹر کا یہ مرکزی سڑک پچھلے تین سالوں سے ہر قسم کی ٹریفک کےلیے بند ہے۔ ٹل پارہ چنار سڑک کے نام سے مشہور یہ اہم شاہراہ جھڑپوں کے نتیجے میں پہلے بھی بند ہوتی رہی ہے لیکن حالات معمول پر آنے کے بعد یہ اکثر اوقات کھول جاتی تھی اور پھر سے اس پر ٹریفک رواں دواں رہتی تھی۔ لیکن دوہزار سات سے سڑک کچھ اس انداز سے بند ہوئی ہے کہ اس کا کھولنا اب ایک پیچیدہ مسئلہ بنتا جارہا ہے۔

اس سڑک کے دونوں جانب افغان سرحد سے لیکر صوبہ خیبر پختون خواہ کی حدود تحصیل ٹل تک مختلف مقامات پر متحارب قبائل آباد ہیں۔ اس سڑک پر کسی ایک قبیلے کی اجاراداری نہیں بلکہ اگر ایک علاقے پر ایک قبیلے کی اکثریت ہے تو اس سے اگلے پر مخالف قبیلے کی اکثریت ہے۔ پھر اس سے اگلے پر پھر پہلے والے قبیلے کی اکثریت ہے اور اس طرح چار پانچ بڑے مقامات پر یہی صورتحال ہے۔

کچھ ایسے اطلاعات بھی ہیں کہ جن خاندانوں کو اپنے اپنےعلاقوں سے بے دخل کیا گیا ہے وہی لوگ دوسرے علاقوں میں بیٹھ کر سڑکوں کے کھولنے میں بڑی روکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ حکومت نے کئی مرتبہ سکیورٹی فورسز کی حفاظت میں لوگوں کو قافلوں کی شکل میں پارہ چنار سے ٹل اور ٹل سے پارہ چنار لے جانے کی کوشش بھی کی تاہم متعدد بار قافلوں پر حملے کئے گئے جس سے بظاہر یہ تجربہ بھی ناکام رہا ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قافلوں پر حملوں میں شدت پسند تنظمیں ملوث ہیں تاہم ابھی تک کسی تنظیم نے اس کا کھولے عام اظہار نہیں کیا ہے۔

مقامی باشندے بتاتے ہیں کہ فریقین کے مابین لڑائیاں تو اپنی جگہ لیکن اس میں حکومت کا کردار بھی انتہائی مجرمانہ غفلت کا رہا ہے۔ بالخصوص سڑکیں کھولنے کے معاملے پر تو حکومت نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی۔

کرم ایجنسی میں حکومت کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف صدرمقام پارہ چنار کی حد تک حکومت کی عمل داری تو نظر آتی ہے لیکن دیگر علاقوں میں متحارب قبائل اور گروہوں کی حکمرانی ہے۔

قبائلی علاقوں میں انگریزوں کے دور سے سڑک وہ جگہ تصور کیا جاتا تھا جہاں سب کو تحفظ حاصل ہوتا تھا۔ یعنی سڑک کی حفاظت براہ راست حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے جبکہ اس سے ہٹ کر اگر کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو اس کی ذمہ داری قبائل پر عائد ہوتی ہے۔

لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ سکیورٹی فورسز کی حفاظت میں بھی کوئی سڑک سے گزر نہیں سکتا ہے۔ اس سے حکومت کی کمزوری کا اور کیا اندازہ کیا لگایا جاسکتا ہے۔ کرم ایجنسی میں چار پانچ سالوں کے دوران یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومت اس وقت جاگتی ہے جب پانی سے سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ حالیہ لڑائی میں بھی سکیورٹی فورسز اس وقت منظر عام پر آئے جب لڑائی نے سو سے زائد افراد کی جان لے لی۔

ایجنسی میں ہر بڑی لڑائی کے بعد امن معاہدے طے پاتے رہے ہیں لیکن ان پر عمل درامد کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔علاقے میں آخری معاہدہ دو ہزار اٹھ میں مری کے مقام پر طے پایا جسے ’مری معاہدے‘ کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے میں شامل ہے کہ تمام بند سڑکیں کھول دی جائیگی اور علاقہ بدر افراد کو اپنے اپنے علاقوں میں واپس بھیج دیا جائے گا لیکن اس پر ابھی تک کوئی عمل درامد نہیں کیا جاسکا ہے

Source: BBC Urdu

Comments

comments

Latest Comments
  1. Abdul Nishapuri
    -
  2. Aamir Mughal
    -
  3. Aamir Mughal
    -
  4. aliarqam
    -
  5. Aamir Mughal
    -
  6. Aamir Mughal
    -
  7. sfezxhnleh
    -
  8. buy wow gold
    -
WordPress › Error

There has been a critical error on this website.

Learn more about troubleshooting WordPress.