عربی جاہل بدو اور علامہ اقبال کی زہانت – شہزاد عرفان
ایک دفعہ مکہ کےایک “بدو” نے مجھے یہ بتا کر حیران کردیا کہ وہ نہ صرف علامہ اقبال کی تحریریں جوعربی زبان میں چھپ چکی ہیں کو پڑھ چکا ہے بلکہ تنقید بھی رکھتا ہے- اس نے مجھ سے کہا کہ” آپکا قومی شاعر، قومی ہیروعلامہ اقبال ایک انتہائ بیوقوف شخص تھا جس نے اپنی قوم کوشاھین اور عقاب جیسے پرندہ سے تشبیہ دی ہے”
میں ایک عربی بدو سے کم ازکم اس بات کی توقع نہں کرسکتا تھا کہ وہ برصغیر پاک و ھند کی اتنی بڑی شخصیت کے بارے میں اس طرح کی رائے رکھے- میں نے پوچھا وہ کیسے ؟ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ” ھم بدولوگ بچپن سے ہی شاھین پرندہ کو پالنا شروع کرتے ہیں اس لئے ہم یہ جانتے ہیں کہ اس پرندہ سے زیادہ پیوقوف اور غلامی پسند پرندہ شاید ہی کوئ اور پرندہ یا جانور ہوگا جو آزاد کردئے جانے کے بعد بھی اپنے مالک کی ایک گندی باسی گوشت کی بوٹی یا ٹکڑے کی خاطرواپس آکر اپنی غلامی کی زنجیر پہنتا ہے جبکہ اگر آپ ایک بزدل چڑیا کو یا طوطے کو جو آپکی زبان تک سیکھجاتا ہے، جنہیں آپ سونے کے پنجروں میں بھی رکھیں، جتنا بھی
اچھا کھانا دیں مگر جس دن جس وقت بھی موقع ملے وہ اڑ جاتے ہیں اور کبھی دوبارہ لوٹ کرواپس نہیں آتے کیوں کہ وہ آزادی پسند ہیں۔ میں حیران ہوں کہ آپ اس جیسے بیوقوف شخص کو اپنا قومی ھیرو قومی فلاسفرکہتے ہیں جس نے اپنی قوم کو غلامانہ زھنیت کی علامت ثابت کیا ہے”۔
ایک بدو کی یہ گفتگو سننے کے بعد میرا شک یقین میں بدل گیا کہ علامہ اقبال کا فلسفہ خودی اور ملت اسلامی کا سارا مواد نطشے، ہٹلراور نازی ازم کی دین ہے۔ آج جب ایک عام پاکستانی شہری سے لیکر ریاست پاکستان تک اسلامی جہادی جنگجوآنہ مزاج رویہ اورسرمایہ دار،طاقتور سامراجی ممالک کی غلامی کا جیتا جاگتا ثبوت ہوتو اس جاہل عربی بدوکی صحرآئ زہانت کو داد دینی پڑے گی جس نے حیوانی جبلت کو دیکھ کر ہمارے سرکاری قومی فلسفہ اور سرکاری قومی ہیرو کو ننگا کردیا- مگر خوشی اور امید ابھی باقی ہے کیونکہ علامہ اقبال ڈے کی سرکاری چھٹی، سرکاری تقریبات کے باوجود عوام صرف گھر پر ٹی وی کے ڈرامہ دیکھ کرچھٹی مناتے ہیں جبکہ صوفی کے مزاروں پرجہاں کبھی کوئ سرکاری اعلان یا چھٹی اور منادی نہ ہونے کے باوجود بھی لوگ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں پتہ نہیں کہاں سے اگ آتے ہیں
یہاں تک کہ چولستان صحرا کے بیچ چنڑپیرکا میلہ جہاں شاید کسی پیر فقیرکی کوئ قبر بھی نہیں ہے مگرلوگوں کو صوفی کادیا ہوا پیار کا سبق ضرور یاد ہے جسکو منانے کیلئے ۹ ہفتوں سے بھی زیادہ دن تک صحرا کی گرمی پیاس کے باوجود ناچتے گاتے جھومر تاڑی کھیلتے کہیں زمین سے اگ آتے ہیں۔
بس یہی ایک امید جو مجھ جیسے سیاسی کارکن کو زندہ رکھنے کے لیئے کافی ہے
Allama Iqbal ki kabliat or falsafy ko tum is article k zariy kat’an ghalat sabit ni kar sakty.
Agar kisi shaheen ko bachpan sy pala jay to wo apny malik k wafadar hojata hy na k bewafa. Apny Aqa ki wafadari to achi cheez hy.
Rahi bat ghulami ki to kisi azaad shaheen ko tum na to apna wafadar bana sakty ho or na hi wo khud tumhari ghulami may ay ga.
Choti soch rakhny wala khud sy ghar kar likhny wala apni is kahani k zariy gumrah krny ki nakam koshish kr k apna or dosron k wakt zaya kia hy. Aisa artical likh kar Lubp walon ny na sirf ye sabit kia hy k wo islam k khilaf hain balky Pakistan or nazariay Pakistan k bi khilaf hain. In k khilaf kanooni karwai honi chahiy.
Iqbal k nazaria, us ki khudi hmaisha zinda rahy gi….
Iqbal is a copy/paste hero of Punjabi establishment just like Dr Qadeer is.
Don’t implement your thoughts to us. I know you are component of this website. You always jealous from heroes as you are villen
apni awaz ko Pakistan ki na kaho . tumhari to Pakistan k khilaf hy. Copy paste kar k kia dikha rahy ho ? budho lgty ho aisa lgta hy k dosron ko b banana chahty ho…
A looser article from a looser!
Please change the name of this blog. It should not mention Pakistan. Peoples Party can be used if you got their consent in this regard. But spare Pakistan please.
اقبال کی شاعری میں شاہین کا تصورتیس کی دھائی میں آیا۔۔اس سے پہلے جو شاہین کی بات کی گئی ہے وہ ضمنی ہے اسے بطورِ علامت استعمال نہیں کیا گیا۔جو مثالیں دی گئی ہیں وہ غیر متعلقہ ہیں۔
I agree with you Rehan. This website is against Pakistan ideology. Enhancing the wrong news for sake of unstable the Pakistan . Anti muslim propaganda they are doing
Dear writer. I have read many anti Iqbal thesis and somhow agree with them i.e. Iqbal was probably not as great as we have made him. But your article is astonishing. I don’t know if the qualities of Shaheen you’ve described are true but I surely see these qualities in us Pakistanis. Someone has said being wafadar of their Master is a good trait which itself is a contradictory. A free man doesn’t have a master. In national perspective, a nation’s master is only the law of the land and its constitution. But in Pakistan we’ve becme slaves of fake historians, Mullahs, Generals and to some extent fake politicians which can easily be called political actors. If those are the qualities of a Shaheen as described in ur article then I must say yes we all are Iqbal’s Shaheen… Wafadars or Ghulams of our Masters!
I will say a man mo*emin never be a free. He is the slave of Allah. His wishes are as orders of Allah. This is what the word mo*emin means. You can say any thing what you think, is your perspective
جناب، آپ نے جس طرح علامہ اقبال کے بارے میں ھرزہ سرائی کی ھے، اور وہ بھی ایک عرب بدّو کی کہی بے سروپا بات پر۔ یہ انتہائی شرمناک ھے۔ ان عربی بدوئوں کی بات آپ نے مانی جو اپنی ماں اور باپ سے بھی پیار نہیں رکھتے، جن کو سمجھانے کیلئے ہزارھا پیغمبر أئے تاکہ انہیں ھدایت ملے لیکن وہ پھر بھی نہیں سمجھے، نہ سدھرے، نہ ھی اخلاق کا کوئی سبق حاصل کیا۔ وہ آج کا بدو تھا اور آج کے بدو کے یہی خصائل ھیں۔ جو حرام کو فتوی کے باجود حلال سمجھتے ھیں، وہ بدو جنہوں نے برطانیہ سے لاکھوں پائونڈز صرف اسی لئے لئے تھے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں یعنی ترکوں کا قتل عام کریں اور انہیں سعودی عرب سے مار بھگائیں، اور آج وہ اس بات پر شرم کرنے کی بجائے یوم آزادی مناتے ھیں۔ یہ قافلے لوٹنے والے بدو آج عزت مند بن گئے ھیں، لیکن نہ ان میں غیرت نام کی ھی کوئی چیز ھے اور نہ انہیں پتہ ھے کہ لیڈر یا رھنما کہتے کسے ھیں۔ انہیں صرف ایک ھی بات آتی ھے ’’انا سعودی‘‘ اور آپ ان میں سے ایک بدو کی بات کو یہاں حوالہ کے طور پر دے کر اپنے قائد کے بارے میں بکواسات کررھے ھیں۔ شرم آنی چاھئے آپ کو اپنے پاکستانی کہلانے پر، اور اس پاکستان میں رھنے پر جس کے بنانے میں اسی قائد کی کاوشیں شامل ھیں۔ یہ آٹھ آٹھ دس دس شادیاں کرنے والے بدو جنہیں صرف اتنا پتا ھے کہ عورت ایک مشین ھے بچے پیدا کرنے کی۔ جو اپنی گھر کی خواتین کے حقوق پورے نہ کر سکیں ،وہ کیا جانیں کسی شاھین کے خصائل کو۔
اور محترمی، آپ بھی ایک بات یاد رکھئے، پالا ھوا شاھین ھو یا شیر، وہ پالا اور سدھایا ھوتا ھے، لیکن وہ نام کا تو شاھین اور شیر ھوتا ھے، لیکن اس میں ان جیسا کچھ بھی نہیں ھوتا۔ اصل شاھین دیکھنا ھے تو آزاد فضائوں میں پرواز کرتے شاھین کو دیکھیں اور اصل شیر کو دیکھنا ھے تو آزادی سے جنگل میں گھومتا دیکھیں۔
کسی بدو کی بات سے یہ تو آپ نے اخذ کر لیا کہ شاھین ایسا ھوتا ھے لیکن یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی، کہ پالا ھوا یا سدھایا ھوا شاھین صرف نام کا شاھین ھوتا ھے۔ اصل شاھین وہ ھے جو ’’پلٹنا، جھپٹنا‘‘ جانتا ھے۔
Apna father sa nahi apni mother sa poch tara father kon ha (shahzad)
میں سعودی عرب میں رہتا ہوں اور سعودیوں کو اچهی طرح جانتا .اقبال کے بارے میں ایسا نظریہ لازما کسی وهابی کا ہو سکتا ہے.جو آج بهی زنا کے معاملے میں اپنی سگی ……
آپ کا مقصد کیا ہے اس ویب کے ذریعہ آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، شاید آپ کو بھی شہرت حاصل کرنا ہے جو آج کل کے مکاروں کا شیوہ ہے
The author of this whole bullshit is certainly a biased,narrow minded,less educated and ignorant individual for which I can just quote a verse from Allama Iqbal’s poetry,
میں نے توکیا پردہ اسرار کو بھی چاک
دیرینہ ہے تیرا مرضِ کور نگاہی
چاند پہ تھوکنے والے ہمیشہ ہی…اپنا تھوک اپنے ہی منہ پر…کی رسوائی سے دوچار رہتے ہیں…اور چاند کی رعنائی،تابانی،رونق اور رفعت بدستور رہتی ہے،قلندر ہند،دانائے راز اور شاعر مشرق کے بارے میں یہ یاوہ گوئی اور ہرزہ سرائی تحریر کنندہ کے خبث باطن کا منہ بولا ثبوت ہے،
حکیم الامت کا کلام ہر آنے والے دن کے ساتھ پراثر ہوتا جارہا ہے،مشرق میں جو الاؤ انھوں نے روشن کیا ہے اس نے کئی قوموں کو خواب گراں سے جگا دیا ہے اور یہ مغرب کے کاسہ لیس گھٹیا پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں،
اقبال شاعر مشرق ہے ، اقبال فلسفی شاعر ہے ، اقبال شاعر قرآن ہے ، اقبال مفکر پاکستان ہے ،یہ وہ خطابات ہیں جو اقبال کے چاہنے والوں نے ان کو دئیے ہیں۔ کسی نے اقبال کی شاعری میں فلسفے کو پایا تو اُس نے فلسفی شاعر کا خطاب دیا۔ کسی نے آ پ کے اشعار میں قرآن عظیم الشان کے آیات کی تفسیر پائی تو اُس نے اقبال کو شاعر قرآن کے عظیم خطاب سے نوازا۔ کسی اور کو آپ کے خطبات میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ ریاست کا تصور نظر آیا تو اُس نے آپ کو مفکر پاکستان کہا۔ علامہ کو خود ہی اپنی اہمیت کا اور اپنی شاعری کا تا ابد زندہ رہنے کا احساس تھا۔ آپ جانتے تھے کہ اگر نطشے ، گوئٹے ، ملٹن اور شیکسپیئر مغرب کے نمائندہ شعراءتھے اور ان کو مغرب میں ایک بلند مقام حاصل تھا تو وہی رتبہ علامہ اقبالؒ کو مشرق میں ملا تھا۔ اگر مغرب میں کوئی نطشے اور شیکسپیئر کو پرستش کی حد تک چاہتا تھا تو مشرق میں ایسے لوگ تھے اور ہیں جو اقبال کا پوجا کی حد تک احترام کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اقبال نے اپنے آپ کو”شاعرِ مشرق“ گردانا:
تہذیبِ نوی کارگہ شیشہ گراں ہے !
آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھا دو