Contrary to Pakistan Army’s claims, Pakistani Taliban (TTP) are not USA’s puppets – by Saleem Safi
Pakistan Army generals and their affiliates and proxies in right-wing (e.g., PML-N, PTI, JUD, JI, ASWJ-LeJ etc) and pseudo-liberals (e.g. Rehman Malik, Ejaz Haider, Sherry Rehman, Mosharraf Zaidi etc) want us to believe that Tehreek-e-Tailban Pakistan (TTP) and Afghan Taliban are two different entities, suggesting that TTP are mischievous agents of the USA (CIA) while Afghan Taliban are noble, pious souls. In a previous post, LUBP exposed the reality of piety and nobility being attributed to Afghan Taliban by listing their crimes against humanity, Islam and innocent Afghan citizens, in this post, we are cross-posting a few articles and reports which suggest that Contrary to Pakistan Army’s claims, Pakistani Taliban (TTP) are not USA’s puppets. Two columns by Saleem Safi (Urdu) and Amir Mir (English) are worth reading.
طالبان، وزیرستان اور کنفیوژنستان
سلیم صافی
بلاشبہ شمالی وزیرستان طالبان کا گڑھ ہے لیکن مسئلے کی جڑ ہر گز نہیں ۔ مسئلہ کی جڑ ہماری کنیفیوزڈ خارجہ اور سیکورٹی پالیسیاں ہیں ۔ جن میں دشمن اور دوست یا پھر اثاثہ اور عفریت کی تقسیم واضح نہیں ۔ امریکہ دوست بھی ہے اور دشمن بھی ۔ افغانستان حلیف بھی ہے اور حریف بھی ہے ۔ سرحد کے ایک پار طالب کی کامیابی ہماری آرزو ہے اور دوسری طرف اسے زیرکرنا ہمارا ہدف ۔ یہ کنفیوژن دور ہو تو بغیر کسی آپریشن کے بھی پاکستان میں امن آسکتا ہے لیکن وہ برقرار رہے تو وزیرستان نہیں ‘ پاکستان کے ہر گھر میں آپریشن کرلیجئے‘ امن تب بھی نہیں آسکتا۔
پشاور کے گردونواح میں پچھلے چار سالوں سے آپریشن جاری ہیں ۔ درہ آدم خیل میں ہوا‘ خیبرایجنسی کے باڑہ تحصیل میں پچھلے چار سالوں سے جاری ہے اور گزشتہ روز بھی جیٹ جہازوں سے وہاں بمباری کی گئی ۔ مہمند ایجنسی میں آپریشن ہوئے جبکہ اورکرزئی ایجنسی جیسی چھوٹی ایجنسی میں تین سالوں سے آپریشن جاری ہے اور فضائیہ کا بھی استعمال کیا جارہا ہے (وہ الگ بات ہے کہ میڈیا کی اس طرف توجہ نہیں) لیکن پشاور پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ ہوگیا ہے ۔ اندازہ اس بات سے لگالیجئے کہ گزشتہ روز سینکڑوں طالبان بڑے اطمینان سے آئے ۔ پشاور کی حدود میں واقع اس تھانے پر حملہ کیا جس میں چوبیس گھنٹے ریڈالرٹ کی پوزیشن رہتی ہے ۔ ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں کو یرغمال بنایا۔ ان سے وائرلیس سیٹ چھین لئے ۔ خود ہی ایس پی کو بلایا اور ان کاسرکاٹ کر لے گئے ۔
آپریشن تو کیا اپنا تو مطالبہ سراسر الٹ ہے ۔ طالبان کے دردردہ حلیفوں کا مطالبہ ہے کہ فوج کو فوراً سوات اور قبائلی علاقوں سے نکال کر صرف اور صرف افغان بارڈر پر تعینات کیا جائے ۔ پچھلے دس سال سے ہم نے صرف خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کے عوام کو نہیں بلکہ اپنی فوج کو بھی شدید آزمائش سے دوچار کردیاہے ۔ متاثرہ علاقوں میں فوج قربانی بھی دے رہی ہے اور اسے تحسین بھی نہیں مل رہی ۔ الٹا فوج سے متعلق طرح طرح کی باتیں پھیل رہی ہیں ۔ان علاقوں میں انتظامیہ‘ سیاسی قیادت ‘ فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درمیان ایک گندی چپقلش جاری ہے ۔ ہر کوئی اختیار اور وسائل کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے ۔ ذمہ داری کوئی بھی ادارہ نہیں لیتا اور ہر خرابی دوسرے کے گلے ڈالنا چاہتا ہے ۔ اس صورت حال کا ریاست مخالف عناصر کو فائدہ ہورہا ہے جبکہ عوام نقصان اٹھا کر ہر ریاستی ادارے سے مزید متنفرہورہے ہیں ۔
یہ تو متاثرہ علاقوں کی سطح پر کنفیوژن کی ایک جھلک ہے لیکن قومی سطح پر تو کنفیوژن اس سے بھی بڑھ کر ہے ۔ یہاں عدلیہ‘ مقننہ ‘ انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشمکش جاری ہے ۔ ہر ادارہ ذمہ داری دوسرے کے سرتھوپ رہا ہے ۔ عسکری حلقے کہتے ہیں کہ پالیسی بنانا اور حکم دینا حکومت کا کام ہے اور ہم عمل کے لئے تیار ہیں جبکہ سیاسی قیادت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہے اور خلوتوں میں یہ دہائی دیتی رہتی ہے کہ افغانستان‘ ہندوستان اور وار آن ٹیرر سے تو ہمارا کوئی سروکار نہیں ۔پولیس اور فوج رونا رورہی ہیں کہ عدالتیں ڈرتی ہیں اور گرفتار لوگوں کو رہا کردیتی ہیں جبکہ عدلیہ عذر پیش کرتی ہے کہ قانون اور پراسیکیوشن میں سقم ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ اپنی جنگ ہے تو کوئی کہتا ہے کہ پرائی جنگ ہے ۔ کوئی کہتا ہے شمالی وزیرستان میں آپریشن نہ کیا تو ملک تباہ ہوجائے گاتو کوئی کہتا ہے آپریشن کیا تو تباہ ہوجائے گا۔
گزشتہ دس سالوں کے دوران افغانستان کے اندر جس کارروائی میں امریکیوں کو شدید نقصان پہنچا تو وہ خوست میں سی آئی اے سنٹر پر خودکش حملہ تھا۔ جس میں نصف درجن سے زائد امریکی سی آئی اے کے افسر خوست صوبے میں مارے گئے ‘ اس کے لئے اردن کے ابودجانہ کو حکیم اللہ محسود نے تیار اور روانہ کیا ( ویڈیو میں نے خود دیکھی ہے ) اور ہمیں ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ حکیم اللہ محسود امریکی ایجنٹ ہیں ۔ نیک محمد طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کے اندر کارغہ کیمپ کے انچارج تھے ۔ سوات کے طالبان میں بیشتر وہی ہیں جنہیں نائن الیون کے بعد مولانا صوفی محمد طالبان کے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے افغانستان لے گئے تھے ۔بیت اللہ محسود ‘ تحریک طالبان کا امیر بننے سے قبل افغان طالبان کے لیڈر ملاداداللہ کے معاون تھے ۔پاکستانی طالبان کے ایک اور لیڈر عبداللہ محسود طالبان کے ہمراہ لڑتے ہوئے افغانستان میں گرفتار ہوئے اور گونتاناموبے کی قید کاٹ کر پاکستان لوٹے تھے لیکن ہمارے پالیسی ساز تو کیا چوہدری نثار علی خان بھی ہمیں پٹی پڑھارہے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے طالبان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔
دنیا کے سامنے ہماری ریاست دعویٰ کررہی ہے کہ افغانستان میں پاکستان سے کوئی مداخلت نہیں ہورہی لیکن محترم عمران خان صاحب نے جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں پوری دنیا کے سامنے اعلان کردیا کہ ان کے نمل یونیورسٹی کا پاکستانی طالب علم یہاں سے جاکر غزنی صوبہ میں خودکش حملہ کرچکا ہے ۔
اپنی تو رائے یہ ہے کہ ”پاک“ کا یہ پاک لفظ مزید بدنام کرنے کی بجائے پاکستان کا نام تبدیل کرکے دہشتستان رکھ دینا چاہئیے ۔ دہشتستان یہ اسلئے بنا ہوا ہے کہ یہ کنفیوژنستان ہے اور کنفیوژنستان اسلئے بنا ہے کہ یہ منافقتستان ہے ۔ افغانستان اور طالبان سے متعلق کم وبیش ہر ایک کا موقف خلوت میں الگ اور جلوت میں الگ ہے اور کچھ بھی نہ کریں بس ہمارے لیڈران کرام ان ایشوز سے متعلق خلوت اور جلوت کا موقف ایک کردیں تو آدھا مسئلہ اسی دن حل ہوجائے گا۔ ویسے مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہم لوگ طالبان سے اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہیں ۔ ہم پاکستانی تو سب کے سب طالبان ہیں اور کم وبیش ہر پاکستانی کے اندر ایک طالب بیٹھا ہوا ہے ۔
Source: Jang
Hakimullah Mehsud evades US drones, again
By Amir MirISLAMABAD – The al-Qaeda-linked Tehrik-e-Taliban Pakistan’s (TTP’s) most wanted fugitive, Hakimullah Mehsud, has apparently survived an American drone attack in the North Waziristan tribal agency of Pakistan’s Federally Administered Tribal Areas (FATA).
On January 15, international media and several Pakistani newspapers and news channels reported that Hakimullah had been killed in a January 12 attack, citing intercepted radio communications between Pakistani Taliban militants.
The TTP strongly refuted these reports, saying Hakimullah was not in the area. Pakistani intelligence circles were also unsure of Hakimullah’s death, pointing to the absence of evidence and the fact that he’s been pronounced dead three times since he took charge in August, 2009. Hakimullah’s tenure started weeks after
the death of his predecessor and the founder of the TTP, Baitullah Mehsud, in a US drone strike.
“There is no truth in the reports about Hakimullah’s death, although he is a human being and can die any time. He is a mujahideen and we wish him martyrdom. Jihad is not linked with Hakimullah alone and wouldn’t stop even if he is killed. We will continue jihad whether Hakimullah Mehsud is alive or dead. There are so many lions in this jungle and one lion would replace another to continue this noble mission,” said TTP spokesman Ihsanullah Ihsan on January 15.
But international media kept insisting, now citing intelligence sources in Pakistan and the United States, that Hakimullah had been killed in the strike, which took place in the Dattakhel area, around 50 kilometers west of Miramshah, the administrative headquarters of North Waziristan agency.
Pakistani security officials were said to have intercepted conversations between Taliban militants in the tribal areas discussing Hakimullah’s possible demise in the January 12 attack, when two missiles were fired by the Predator hitting a double cabin pick-up vehicle and a car near Dogga village in Dattakhel Tehsil.
The pick-up immediately caught fire, killing four men on the spot. Their badly mutilated bodies were pulled out of the vehicle and buried shortly afterwards. One more person was killed in the car, which was targeted by another drone. His body was mutilated beyond recognition. There was no way to ascertain the identity of the slain people whose vehicles were targeted by the drones. However, it was believed that one of those killed was Hakimullah.
The Predator attack came just two days after a strike that ended an undeclared, 55-day halt in the US drone campaign prompted by the diplomatic fallout from the November 26 killing of 24 Pakistani soldiers in a North Atlantic Treaty Organization strike on the Pakistan-Afghanistan border.
It now transpires that while up to nine Turkmeni militants died in the January 12 strike, a senior al-Qaeda-linked figure was killed in the January 10 attack: Aslam Awan, alias Abdullah Khorasani, has been identified as a close associate of the external operations chief of al-Qaeda, the branch tasked with strikes on the United States, Europe and areas outside of South Asia.
Western media, citing US intelligence sources, claim Aslam Awan was a Pakistani national who hailed from Abbottabad in Khyber Pakhtunkhawa province, where al-Qaeda chief Osama bin Laden was found and killed last May by US forces.
Aslam Awan alias Abdullah Khorasani was a significant figure in what US officials described as the remaining core leadership of al-Qaeda based in Pakistan’s tribal areas. Aslam Awan’s boss, the external operations chief, has not been named, although he is reportedly known by the American Central Intelligence Agency (CIA).
Several previous chiefs of external operations for al-Qaeda have been caught or killed in US drone attacks or counter-terrorism operations, the most notorious being Khalid Sheikh Mohammed, alleged mastermind of the September 11, 2001, attacks on the US.
Khalid Sheikh was captured from Pakistan’s garrison town of Rawalpindi in March 2003 and is still being held by US authorities in the Guantanamo Bay detention facility in Cuba. External operations chiefs of al-Qaeda have proved more vulnerable to capture or death than the terror group’s most senior leaders, likely because their role involves interacting with militants in the field.
According to a January 22 news report by Reuters, the killing of Aslam Awan signaled that the Pakistan-US intelligence partnership was intact despite political tensions between the countries.
“The January 10, 2012 strike – and its follow-up two days later [on January 12] – were joint operations which were carried out by making use of Pakistani spotters on the ground and demonstrated a level of coordination that both sides have sought to downplay since tensions first erupted in January 2011 with the killing of two Pakistanis by a CIA contractor in Lahore,” wrote Reuters, quoting an unnamed Pakistani security source based in the tribal areas.
Analysts believe the rising number of successful US drone attacks on top al-Qaeda and Taliban leaders in recent months has forced Hakimullah underground.
Hakimullah was first declared a most-wanted fugitive by the US Federal Bureau of Investigation after he was blamed for a 2009 suicide attack on a CIA base in Afghanistan that killed six senior CIA officials. In May 2010, Hakimullah also claimed credit for a foiled bombing in New York’s Times Square that month, and promised further attacks in the United States.
Giving broad hints that Hakimullah is still alive, Pakistani Interior Minister Rehman Malik has said Pakistan needs DNA evidence or confirmation from his own sources to verify if the TTP chief is alive or dead. He had earlier signaled that he believed the latter.
Sailab Mehsud, a Pakistani journalist from South Waziristan, says the majority of the people killed in the January 12 drone attack were Turkmeni and that Hakimullah was not among them.
The reports of Hakimullah’s death come almost exactly two years since international media last issued similar reports. On January 14, 2010, media said he had died in a US drone attack on compound in the Shaktoi area of North Waziristan.
The TTP released an audiotape a few days later confirming Hakimullah was alive, but rumors persisted until May, when Hakimullah was seen in the February 28, 2011, execution video of former Inter-Services Intelligence official Colonel Sultan Ameer Tarar, better known as Colonel Imam.
Although Hakimullah seems to have survived yet another US drone attack, he remains a prime target of the CIA-run drone campaign. The successful strike on Aslam Awan suggests that military intelligence continues to flow between Islamabad and Washington, and Hakimullah will need to keep a low profile to cheat death a fourth time.
Source: Asia Times
New Video: Faisal Shahzad With Hakimullah Mehsud
Sky News have put up on their website what they claim is new footage showing the failed Times Square bomber Faisal Shahzad meeting the leader of the Pakistani Taliban:
It shows Shahzad and Hakimullah Mehsud shaking hands and hugging sometime before the failed attack in New York in May.
During the video, Shahzad’s voice is also heard.
He says: “Today, along with the leader of Tehrik-e-Taliban Pakistan Hakimullah Mehsud and under the command of Amir al-Mumineen Mullah Mohammed Omar Mujahid (may Allah protect him), we are planning to wage an attack on your side, inshallah.”
Last month, in a statement read out in a US court, Shahzad admitted receiving training in Pakistan about how to “wage an attack” in America.
The 30-year-old defendant admitted: “How to make a bomb, how to detonate a bomb.
“I asked them (the Taliban) for some cash because I only had – my cash was like $4,500 that I had with me when I was leaving.
“And I asked for some more cash because I had to do the whole operation here.”
Read the full story at Sky News Source: Outlook India
Pakistani Taliban leader Hakimullah Mehsud is brutal mastermind behind thwarted Times Square bombing
BY JAMES GORDON MEEK AND DAVID SALTONSTALL
DAILY NEWS STAFF WRITERS
Monday, May 10, 2010Meet the new face of terror, Hakimullah Mehsud, the murderous mastermind the U.S. says is behind the attempted Times Square bombing.
Attorney General Eric Holder on Sunday pointed a finger at Mehsud’s Pakistani Taliban – Tehreek-e-Taliban Pakistan (TTP) – as the not-so-smart brains behind the botched Times Square bombing.
The car bomb never detonated, but whatever Mehsud’s technical failings may be, he makes up for with a caustic mix of brutality and perseverance, experts say.
“He will pull out a gun and kill his own people,” Pakistan’s interior minister, Rehman Malik, once said of the 30-year-old thug who has a $600,000 bounty on his head from his government. Source: NY Daily News
An operation in North Waziristan for eliminating the Haqqani network’s sanctuaries has been a longstanding demand of the US and is one of the major issues which have been weighing down the ties. However, Pakistani and American officials have agreed to eliminate Hakimullah and his hardline followers in the TTP before targeting the Haqqani network.
“The idea is not to go against Haqqani straight … we have suggested taking on Hakimullah and his group first and the Americans have endorsed the idea,” said a senior military official requesting anonymity.
On Monday, US Defence Secretary Leon Panetta told AP news agency that Pakistan had decided to launch a military operation against the Pakistani Taliban in North Waziristan but the campaign was not against the Haqqani network.
However, Hakimullah Mehsud and his followers will provide an equally daunting challenge for both the US mission in Afghanistan and Pakistan. He was the mastermind behind a deadly suicide attack on a forward operating base of the US Central Intelligence Agency at Chapman in Khost province of Afghanistan on Dec 30, 2009. As many as seven CIA operatives were killed in that attack.
TTP and its Punjabi affiliates were also behind some of the most audacious attacks against military installations in Pakistan, including a commando-style raid on the army’s General Headquarters (GHQ) in 2009.
According to military officials and TTP associates, Mehsud has been in deep hiding in Shawal Valley — a rugged forest region sprawling across North and South Waziristan— and might have lost control over his group. Mehsud is labelled as target number one in drone strikes being carried out by the CIA in the tribal regions.
There have been reports over the past year that his deputy, Waliur Rehman Mehsud, was forthcoming in peace talks with the Pakistani military.
http://tribune.com.pk/story/423258/mattis-kayani-to-discuss-north-waziristan-operation/
ہمارے مبہم تصورات… ایازا میر
طالبان کے اس بیان․․․” شریعت کہتی ہے کہ اگر کوئی بچہ بھی اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ کرے تو اُسے قتل کیا جا سکتا ہے․․․“ کے بعد بہت لوگوں کا ابتدائی ”ابہام “دور ہو گیا ہے (کیا کسی نے سوچا ہے کہ کون سا اسلام یا شریعت کسی معصوم کی جان لینے کی اجازت دے سکتا ہے؟)۔ مذہبی رہنماؤں کا کیا کوئی علاج ہے؟
یہ تضادات کی جیتی جاگتی تصویریں جس نہج پر ڈھل چکی ہیں اُس میں تبدیلی ممکن ہی نہیں ہے۔ آندھی آئے یا بارش، ان کی سوچ کا زاویہ نہیں بدلتا۔ ان کی اپنی من پسند دنیا، ان کی اپنی من پسند جنت
اس لیے ان کو جانے دیں، مگر بظاہر روشن خیال (اور ان کی کمی بھی نہیں ہے) اور تعلیم یافتہ افراد کو کیا ہو گیا کہ وہ بھی طالبان سے مذاکرات کی بات کر رہے ہیں؟عمران خان ، جو کہ طالبان کی ”مملکت “ میں نصف ساعت نہیں گزار سکتے، رات دن ان سے بات چیت کرکے مسئلے کا حل تجویز کرتے رہتے ہیں۔
ملالہ پر حملہ بھی طالبان کے خلاف رائے عامہ ہموار نہیں کر سکا ہے۔ اس سے اس خیال کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہم ایک منتشر قوم ہیں۔ ہمارے افکار میں یک سوئی کا فقدان ہے، چنانچہ ہم منزل کے حصول کے لیے مربوط کوشش کرنے سے عاری ہیں۔
جہاں تک عوام کی اکثریت کا تعلق ہے تو وہ مذہبی رہنماؤں اور سیاسی قیادت سے زیادہ فہم رکھتے ہیں۔ اب ان قائدین کی وجہ سے ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ جو بھی مسئلہ ہو، چاہے ایک لڑکی پر حملے کی مذمت ہی کیوں نہ کرنی ہو، ہم اسے امریکہ، افغانستان، ڈرون اور جہاد سے نتھی کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
اس کے علاوہ دیکھا جا سکتا ہے کہ جن اداروں نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے یا نہ کرنے کی ذمہ داری اٹھانی ہے، اُنہوں نے اس کنفیوژن کو دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ اس آپریشن کا حتمی فیصلہ دفاعی اداروں، نہ کہ سیاسی قیادت، نے ہی کرنا ہے۔ یہ فیصلہ جذبات نہیں بلکہ ٹھنڈے دل سے تمام حقائق ،اعدادو شمار،اس کے مضمرات اور نتائج کو جانچتے ہوئے کرنا ہے کیونکہ جذباتی فیصلہ کرنا ایک پیشہ ورفوج کو زیب نہیں دیتا ہے۔
اس بحث کے بعد کہ کیا اب یہ مناسب وقت نہیں کہ ہم اپنی ذہنی الجھن کو دور کرلیں کہ چاہے امریکہ افغانستان میں رہے یا جائے ، طالبان کا تشریح کردہ اسلام ہم سب کے لیے ایک خطرہ ہے۔ ان کے نظریات ، جن کے مطابق ایک چودہ سالہ لڑکی کو گولی مارنا جائز ہے، بانیانِ پاکستان مسٹر جناح اور علامہ اقبال کے نظریات سے لگا نہیں کھاتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ کیا ”اقبال اور القائدہ“ اور” جناح اور طالبان“ ایک دوسرے کے ساتھ کوئی مناسبت رکھتے ہیں؟کیا ایک سرزمین پر ان کا گزارہ ہے ؟
اگر شمالی وزیرستان میں آپریشن فوجی حکمت عملی، نتائج و عواقب اور وسائل کی وجہ سے التوا کا شکار ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ان معاملات پر غور کربھی رہے ہیں یا پھر ․․․”ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر ِ فردا“ ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم فیصلہ کرلیں کہ کیا ہم ایک بدحواس قوم ہیں جو کوئی بھی واضح پالیسی بنانے کی اہل نہیں ، یا پھر ہم نے ایک نارمل ملک کے طور پر مستقبل میں قدم رکھنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری اعلیٰ قیادت مسٹر جناح کے نظریات پر عمل کرتے ہوئے ضیاء اور اُس کے بعد کے دور میں سرائیت کرجانے والی تاریکی سے جان چھڑائے، اسٹرٹیجک گہرائی(خدا جانے اس نے ہمارے راستے میں مزید کتنے کنویں کھودنے ہیں؟)پر مٹی ڈالیں اور ہمسایوں سے الجھنے کی بجائے اپنی پوری توانائی داخلی مسائل سے نبر د آزما ہونے میں صرف کریں۔
اپنے گھر کے معاملات کو درست کرنا، معیشت کو بہتر بنانا اور طاقتور دفاعی نظام قائم کرنا ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔ جہادی سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمارے سامنے سب سے اہم مسئلہ بلوچستان کا ہے۔ اس کا حل تلاش کرنا کشمیر آزاد کرانے اور افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
اس بات کی تفہیم کے لیے ہمیں مزید کتنے عشرے درکار ہیں کہ پاکستان کی اسٹرٹیجک گہرائی کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس جنرل نے بھی یہ تصور پیش کیا تھا اُس سے باز پرس ہونی چاہیے ․․․ یہاں نہیں توکسی اگلی دنیا میں۔
ہماری اسٹرٹیجک گہرائی بلوچستان ہے۔ اگر (خدا نخواستہ ) یہ پاکستان سے الگ ہوجائے تو ہماری تمام تانیں ہواہو جائیں گی․․․ باقی پاکستان شمال سے جنوب تک آبادی سے کھچا کھچ بھرا ایک خطہ ہے۔ اگر پاکستان کے لیے کوئی چیز ناگزیر ہے تو یہ بلوچستان ہے۔
یہ معاملہ اتنا ہی واضح ہے جتنا سورج کا مشرق سے طلوع ہونا․․․ اس سے کوئی کور چشم ہی نابلد ہو سکتا ہے۔جہاں تک ممکن ہو سکے بلوچ بھائیوں کے ساتھ بات کرنی چاہیے․․․ چاہے وہ علیحدگی کی باتیں کیوں نہ کررہے ہوں۔ بات چیت کا دروازہ بند نہیں ہونے دینا۔
دوسری طرف طالبان کے ساتھ کوئی بات نہیں کرنی کیونکہ ان کے قدیم نظریات پر مبنی مملکت کا پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ چاہیں تو افغانستان فتح کرلیں، چیچینا میں اپنا نظام کرلیں، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ہم اُن کو پاکستان میں من مانی نہیں کرنے دیں گے۔ جو نظریات گزشتہ تیس برس سے ہمارے ہاں رچ بس گئے ہیں، ہم نے اُن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ اب پاکستان اُن کے لیے محفوظ جنت ثابت نہیں ہوگا۔ دوسری طرف امریکہ کی جنگ سے بھی ہمیں کنارہ کشی اختیار کرنی ہے․․ ․ اُس کا جتنا جی چاہے وہ دنیا میں جنگیں کرتا پھرے۔
تاہم ہمیں اس بات میں بھی کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے ہاں پھیلے ہوئے انتہا پسندی کے کینسر کا امریکہ کی افغانستان میں موجودگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر امریکہ وہاں سے چلا جائے تو کیا طالبان روشن خیال ہوجائیں گے؟ہرگز نہیں، وہ اپنے نظریات سے واپس نہیں پھر سکتے ہیں، ہمیں اُن سے جنگ لڑنا پڑے گی۔ اگر پاکستان کو بچاناہے تو اس جنگ کو ہم التوا میں ڈال سکتے ہیں ، اس سے بچ نہیں سکتے۔
حالات خاصے گمبھیر ہیں مگر مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ منظم معاشروں کو نامساعد حالات سے گزرنا پڑتا ہے اور وہ راہ ِ عمل میں کنفیوژن کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ ذرا یاد کریں کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران فرانس میں رائے عامہ کس طرح منقسم تھی۔ اس کی وجہ سے جرمن افواج غالب آگئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جرمن حملے سے پہلے ہی فرانسیسی سوچ افراتفری کا شکار تھی۔ دوسری طرف برطانیہ میں یہ بات سوچی جارہی تھی کہ ہٹلر سے نمٹنے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے ۔ اُن کے ہاں بھی ”عمران خان “ تھے اور وہ ہٹلر کے ساتھ بات چیت کرکے کوئی حل نکالنا چاہتے تھے مگر جلد ہی جرمن فورسز نے ان کی غلط فہمی دور کر دی(ہماری پتا نہیں کب ہو گی)۔ مسٹر چرچل کا شروع سے یہ کہنا تھا کہ ہٹلرکے ساتھ بات چیت نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ اس کے مقاصد کا مذاکراتی حل ممکن ہی نہیں ہے۔ تاریخ نے ثابت کیا کہ چرچل ٹھیک کہتے تھے۔
ہٹلر نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی اپنے نظریات کا اظہار Mein Kampf میں کر دیا تھا۔ ہمارے ہاں طالبان کے بارے میں غلط فہمی دور ہونے کے لیے مزید کتنا خون بہنا باقی ہے ؟یہ بات ہمیں کب سمجھ آئے گی کہ اُن کے نظریات پاکستانی معاشرے کے لیے قابل ِ قبول نہیں ہیں؟اس مسئلے نے ہمیں موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اپنے نظریات پر غور کر لیں․․․ ان میں سے ایک نظریئہ پاکستان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک ہندوستان میں ایک الگ ریاست کے قیام کے لیے ایک نظریے کی ضرورت تھی مگر آج کے معروضی حالات میں اس کی کیا ضرورت ہے ؟ کیا یہ بلوچستان کے مسئلے کا حل پیش کر سکتا ہے؟ کیا اس سے طالبان نرم خو ہو سکتے ہیں؟
آج تاریخ ہمارے سامنے اس کا متبادل لیے کھڑی ہے اورہمیں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ آج پاکستان کو نسبتاً ایک معتدل اور رواداری پر مبنی نظریے کی ضرورت ہے۔ اس کو جو بھی نام دیں لیں، میں لفظ سیکولر استعمال کر نا چاہتا تھا مگر اس کا نام سن کر بہت سے افراد کا چہرہ غصے سے سرخ ہوجاتا ہے۔
http://search.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=31466
Monuments to confusion
Ayaz Amir
October 19, 2012
Islamabad diary
So Malala deserved to die. “We targeted her because she would speak against the Taliban while sitting with shameless strangers and idealised the biggest enemy of Islam, Barack Obama.” Thus the warriors of the faith, trying to justify the unjustifiable. What was the bigger crime, sitting with shameless strangers or idealising Obama?
Wonders will never cease. The Taliban stung by criticism? This is something new. Inured to drone attacks and military action – things which they could fathom and in a way deal with – but grinding their teeth in helpless anger at this disaster of their own making, and not knowing how to get back at the growing body of criticism created by their action. So words have the power to hurt?
But the Taliban retain the power to shock, first by the attack on the young girl and then by delivering, in the manner of religious injunctions, mind-blowing justifications. The attempted murder of a young girl justified in such terms? And there are people in our society, no shortage of them, with whom such reasoning resonates…if such warped thoughts can be given the name of reasoning.
“Shariah says that even a child can be killed if it is propagating against Islam”…this again from the Taliban. Which Shariah and whose Islam? Forget so-called religious leaders. No point in exposing their contradictions. Come hail or sunshine expect them not to deviate from their chosen script, their path to bread and butter in this world and to heaven in the next. But what about other bright souls, no shortage of them either, who hold it as a self-evident truth that we should negotiate with the Taliban? Imran Khan would not be able to survive a day under the Taliban but it is fascinating watching him as he gets worked up about engaging with the Taliban.
Malala’s ordeal has helped concentrate minds like nothing else. But to prove once more that we live in an imperfect world, it has also exposed our mixed up thinking…not so much the thinking of common people, less given to fanciful flights of logic, as of religious firebrands and political redeemers. Hand it to them for confusing the issue the moment they open their mouths, bringing in the United States, Afghanistan and jihad even as they denounce the attempt on the girl’s life.
And whoever has seen fit to drag the possibility of a military operation in North Waziristan into the ongoing debate and outcry has done little to clear the mist. An operation there is for the army to decide, not the political government which has little say or even interest in the matter. And it should be decided or not decided on its merits, after cool calculation. An army is not worth much if it is pitch-forked into action by emotional pressure, whether coming from outside or generated inwardly by something like Malala’s shooting.
But having said this, isn’t it high time we cleared the cobwebs from our minds and realised that regardless of whether the Americans are in Afghanistan or are getting out in a year or two, the mindset of the Taliban, their narrow interpretation of Islam, is a threat to us all…that what they stand for, the ideas they propagate, and for which they are not above targeting a 14-year-old school girl, are antithetical to the very idea of Pakistan as articulated by its founding fathers. Iqbal and Al-Qaeda, Jinnah and the Taliban…is it possible even to think on these lines?
If an operation in North Waziristan is a matter of tactics and timing, of weighing the pros and cons, getting our thinking straight, realising the enormity of the danger we face, is something far bigger. Are we ready for this? Is this republic to remain a monument to confused and divisive policies or are we finally prepared to live like a normal country?
Normality means the army high command reaffirming its loyalty to the ideas of Jinnah, begging forgiveness for the aberrations of the Zia and subsequent years. It means abandoning the false notions of strategic depth and throwing all the weight of our not inconsiderable energies on domestic problems. Setting our house in order, developing a sound economy and maintaining a valid defence…these should be our priorities. And settling the problems of Balochistan – we must take these seriously – and seeing to it that we have nothing to do with the politics of jihad, whether dedicated to the liberation of Kashmir or the winning of influence in Afghanistan.
Pakistan’s strategic depth lies not in Afghanistan. Whoever gave us this idea? The generals responsible for this philosophy deserve an extended stay in purgatory. Our strategic depth is Balochistan. Take that away and what remains of Pakistan? Just an over-populated corridor running from north to south. Our so-called strategic location is because of that province.
The choice is clear and should leave no room for confusion. Talking to the Baloch, yes, by all means…even if they have begun talking the language of independence. Talking to the Taliban, no, because the mediaeval kingdom they believe in has nothing to do with Pakistan. Let them conquer Afghanistan. Let them conquer Chechnya. We should be rid of the false ideas we have been nurturing these past 30 years if not more. Pakistan should not be any kind of safe haven for them. And then let America fight its own wars. And good luck to it.
But let us not be under the illusion that our internal cancer, that of religious extremism and the nationwide network sustaining it, is dependent on or connected to America’s presence in Afghanistan. America may leave tomorrow yet this cancer will remain. We will still have to figure out how to fight it. The fight can be postponed, not abandoned if Pakistan is to be rescued.
But no reason to despair. Better-organised societies have been beset by confusion at different times in their history. Recall the divided psyche of France on the eve of the Second World War. The Wehrmacht came as conquering heroes later. Defeat lay in the mind of France before the onset of hostilities. As for Britain, in the long run-up to the war opinion there was divided about the best course to adopt towards Hitler. There were those who advocated a policy of engagement, eventually turning into the bitter leaves of appeasement. Munich exposed the hollowness of their thinking. Churchill’s was the lone voice from early on which said that there could be no talking to Hitler because Hitler’s goals were not amenable to negotiations.
Hitler revealed himself in Mein Kampf, much before he came to power. How many more self-confessions from the Taliban before a divided and confused nation can finally agree that they and their goals stand fully revealed and that there is no halfway house with them?
It won’t hurt us if at this juncture we also started thinking about the larger problem besetting us. Isn’t it time we rethought the idea of Pakistan? The two-nation theory was good enough, indeed essential, for separate statehood. But haven’t events overtaken it? Proclaiming our Muslimhood is no answer to the problems of Balochistan. It helps us achieve little clarity about the threat posed by the Taliban. So what is the answer?
History itself is throwing up the alternative, the need to recast the idea of Pakistan on what I can only call ‘modern’ lines, shying away as I do, for obvious reasons, from the word secular, turned into a red rag by the ideologues standing guard over the flickering flame called the ideology of Pakistan.
http://www.thenews.com.pk/Todays-News-9-138294-Monuments-to-confusion
Tweet –
Campaign against #Malala is NOT the voice of the ppl of #Pakistan. It’s a deliberate effort to sabotage what she stands for, counter support
We need to say this at all forums and in as many ways as possible.
Malala’s event was an important window of opportunity for Pakistan which will soon be wasted at the hand of conspiracy mongers. This is important incident, because through this event, our government, military, mullah and politicians incestuous relationships highly skewed priorities have come out in the open and they are caught off guard, i.e., it is being serially proven that for them for now Haqqani network in North Waziristan is more important than education/life of youth of Pakistan. The blood of our youth is cheaper than that of those cowards hiding in the jungles amid mountains.
Mind you, this is a very important and a very notable choice that that these institutions have made, this deliberate act of preferring to preserve the brokers of strategic depth in Post American Afghanistan over youth of Pakistan is a dangerous and bloody trade that is being done and it will have historically grave and deleterious consequences on our youth which generations will have to pay through their life blood. The (government, military and mullahs) are guilty of making this choice! and they know that the choice they have made is like stabbing this country on its back in one silent night and now they are trying to cover this shameless act by spewing conspiracies before our media find it another sensationalist item to brush their guilt or our masses wakes up.