خدارا علماء آگے آئیں – کاشف نصیر

Maulana Hasan Jan was killed by Takfiri terrorists

تصویر کا دوسرا رخ

Source: Kashif’s blog

اب وقت آگیا کہ پڑھے لکھے مذہبی طبقے کے درمیان کچھ ایسے موضوعات پر سنجیدہ گفتگو اور ڈائیلاگ کا سلسلہ شروع ہو جن پر دانستہ خاموشی اور چشم پوشی اختیار کرلی گئی ہے، مذہبی طبقے کا یہ رویہ عام اور کم پڑھے لکھے اسلام پسندوں کے لئے جہاں غلط فہمی اور گمراہی کا سبب بن رہا ہے وہیں ہمارے معاشرے کو مزید تقسیم، تشدد اور عدم برداشت کی طرف دھکیل رہا ہے۔ جی ہاں، توہین مذہب و رسالت ، قتل واجب، خروج ،تکفیر، فتوا ، فدائی حملے ایسے موضوعات۔آپ حیران ہونگے اور اکثر معترض بھی کہ میں ان موضوعات پر بحث کیوں چھیڑنا چاہتا ہوں جو اپنے تئے حل شدہ تصور کرلئے گئے ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ میں پاکستانی معاشرے سے اکتا چکا ہوں اور مجھے اپنے ارد گر موجود “ثواب” پسندی،کج فہمی، کم علمی، عدم برداشت، جزباتیت اور پرتشدد رجہانات سے وحشت ہونے لگی ہے اور ان حالات میں میرے پاس دو ہی راستے کہ خود کو اس معاشرے سے بے نیاز کرلوں یا خود احتسابی کے عمل میں شامل ہوجاوں سو میں نے خود احتسابی کا راستہ چنا ہے، میں ایک ایسے معاشرے کا متلاشی ہوں جہاں علم، تحقیق، بردباری، حکمت، دلیل اور انصاف کا بول بالا ہو نا کہ جذبات، منافقت، ہوس، عدم برداشت، بے حودگی اور مسخرے بازی کا ۔

میری یہ حیثیت اور مرتبہ نہیں کہ میں علماء کرام پر تنقید کروں لیکن انہیں خود اس بات کا اندازہ کرنا چاہئے کہ ایک عالم کی ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ وہ قرآن و سنت کے روایتی درس و تبلیغ میں مصروف عمل رکھے بلکہ حالات و واقعات کا ٹھیک ٹھیک علم رکھنا اور ان پر شرعی رائے دینا بھی ان ہی کا کام ہے اگر وہ امور سے صرف نظر برتے گے اور عوام کی درست کی سمت پر رہنمائی نہیں کریں گے تو مذہب پر عمل کرنا مشکل ہوتا جائے گا اور لوگ مذہب سے بدذن ہوکر بے دین اوربددین ہونے لگیں گے۔ توہین مذہب، توہین قرآن ، توہین صحابہ، توہین رسالت ، قتل واجب، خروج ،تکفیر، فتوا ، فدائی حملے ایسے موضوعات پر اگر علماء نے دلیل اور منطقی انداز میں بحث نہیں کی تو تجدد پسند مفکرین کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا رہے گا۔ اور یہ موقع کیوں نہ ملے کہ جب سلمان تاثیر کو گستاخ رسول اور کافر قرار دیکر قتل کردیا جائے اور علماء خاموش رہیں، قرآن کی مبینہ بے حرمتی پر کسی دیوانے کو زندا جلایا جائے اور علماء خاموش رہیں، شیعوں کو بلا تخصیص بسوں سے اتار کر قتل کیا جائے اور علماء خاموش رہیں، لوگ حدود اور تعزیر اپنے ہاتھ میں لے لیں اور قاضی بن کر حدجاری کریں اور علماء خاموش رہیں ، کسی کو قرآن ، حدیث، فقہ یاد نہ آئےتو اور کیا توقع کی جائے جاسکتی ہے۔یہ کیسی مروت ہے کہ کل کے کچھ بچے اپنی نہ سمجھی میں مجاہدین کے صف میں شامل ہوکر خارجیوں کی سنت کو زندا کریں ، مار دھاڑ اور تکفیر بازیں کریں اور علماء کے سکوت کو اپنی ہم نوائی یا انکی کمزوری سمجھ کر شدت اور تشدد میں بڑھتے جائیں۔ خدارا علماء آگے آئیں، سازش سازش کی رٹ لگانے کے بجائے ان موضوعات پر کام کریں اور کم علم اور جذباتی جنگجوں کو جہاد کی تعلیم دیں۔ آخر علماء کیوں نہیں کہ فقہ حنفی میں سوائے گستا خ رسول اور مرتد کے کسی کو واجب القتل قرار نہیں دیا جاسکتا اور یہ کہ سوائے لعین اور شقی گستاخ رسول کے ہر ایک کو توبہ کا موقع دیا جانا چاہئے اور یہ کہ قتل واجب حد نہیں تعزیر کے حکم میں ہے اور یہ کہ حد اور تعزیر دونوں شرعی حاکم اور شرعی قاضی کے اختیار میں ہیں نہ کے ہر عام و خاص کے تصرف میں۔

دو سال پہلے حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار پر ہوئے خود کش حملے پر میں نے چند خطروں کی طرف نشاندہی کی تھی اور بدقسمتی سے میرے خدشات درست نکلے۔ مدرسے کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر جہاد کا راستہ اختیار کرنے والے طلبہ اپنے ناپختہ خیالات، فرقہ وارانہ پس منظر، کم علمی اور جذباتی ہجان کے باعث شدت پسندی کی طرف مائل ہوتے گئے اور کیونکہ علماء نے کسی نے سرزشت نہیں کی اس لئے زور آور اور زور دست ہوتے چلے گئے یہاں تک جب کچھ علماء (بیرونی مداخلت کا فلسفہ ترک کرکے) گویا ہوئے تو انکے لئے مولانا حسن جان (دیوبندی) اور مفتی سرفراز نعیمی (بریلوی) کی مثالیں قائم کردی گئیں۔ آج تقی عثمانی، رفیع عثمانی، عبدالرحمان اشرفی، قاری حنیف جالندھری اور مفتی زاہد الراشدی کے لئے درباری علماء جیسے القابات سہولت سے استعمال کئے جارہے ہیں اور اسکی وجہ بڑی وجہ یہ ہے کہ شدت پسند نظریات لشکر جھنگوی اور لشکر جھنگوی العالمی کی صورت میں جنوبی پنجاب سے قبائلی علاقوں کی طرف اور جند اللہ کی شکل میں ایرانی بلوچستان سے پاکستانی بلوچستانی کی طرف برآمد کی جارہی ہے اور واضع رہے کہ تمام گروہ علماء سے سخت عداوت رکھتے ہیں۔ ڈیڑھ سال پہلے میں نے ایک گروہ کی طرف سے سلمان تاثیر کی تکفیر، قتل کے فتووں اور بعد ازاں انکے قتل پر بھی سدا احتجاج بلند کیا تھی اور انہی دنوں میں نے مسئلہ تکفیر پر بھی لکھا اور شیعوں کی تکفیر سے متعلق علمائےاہل سنت کے نام نہاد اجماع کو بھی فریب ثابت کیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حقائق کو مزید شدت کے ساتھ پھلانے کی ضرورت ہے لیکن افسوس کے علماء کی طرف سے بحث نہیں کی جارہی ہیں اور کم پڑھے لکھے مسلمان اسے خاموش تائید سمجھ رہے ہیں۔ کوئی ثواب فیکڑی کا حصہ ہے، کوئی شیعوں کے قتل پر مبارکبادی کے ایس ایم ایس بھیج رہا ہے، کوئی بارہ سالہ مسیحی لڑکی کے خلاف تحریک چلا رہا ہے، کوئی برما کے مسلمانوں پر بیتے حالات کو اجاگر کرنے کے لئے جعلی تصاویر ایڈ کررہا ہے اور کہیں ہزاروں کا بے نمازی اور تارک القرآن مجمع قرآن کی بے حرمتی کے نام پر خبط الحواس شخص کو زندا جلارہا ہے۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ ناصرف کم پڑھے لکھے مذہبی نوجوان بلکہ اکثر اعلی تعلیم یافتہ اور سنجید ہ مذہبی لوگ بھی دلیل اور منطق سے ہٹ کر سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھاتے ہیں، اور حق تحقیق ادا نہیں کرتے۔کسی قانون کی مخالفت کرتے ہوئے اسے پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی، کسی مدمقابل پر تنقید کرتے ہوئے اسے جاننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور کسی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے سیاق و ثباق کو سمجھنے اور خبروں کے ہر رخ کو دیکھنے کی جسارت نہیں کرتے۔اکثر مذہب کے دفاع کی کوشش میں بے تکی توجیہات پیش کرتے ہیں، غیر ضروری استدلال ،جھوٹی تعبیرات اورمن ڈھرک واقعات۔ سیدھی اور سچی باتوں سے پرہیز کرتے ہوئے کبھی کسی کے ختنوں، کبھی کسی کی بسلیٹ اور کبھی کسی ریمنڈ ڈیوس کے پیچھے چھپتے ہیں ۔ نتیجے کے طور ناصرف خود مزاق بنتے ہیں بلکہ مذہب کا بھی مزاق اڑواتے ہیں۔ نیل کے ساحل سے کاشغر کے فلسفے کا ترانے گاتے ہیں لیکن جب بھی موقع ملتا ہے، فرقہ وارانہ اور فروعی بحث و مباحثہ میں الجھتے ہیں اور یہاں تک فروعات کو اٹھنا بیٹھنا بنا لیتے ہیں اس لئے کبھی مسلک کی سطح سے اوپر اور اور جماعت کی سطح سے بالا نہیں ہو پاتے۔

گفتگو سمیٹنے ہوئے یہ حقیقت بھی بیان کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں لاقانونیت، عدم برداشت اور تشدد مذہب پسندوں سے خاص نہیں ہے، کیونکہ معاشرے کےدیگر طبقات مذہب پسندوں سے کہیں زیادہ ان بیماریوں کا شکار ہیں ، کراچی کی مثال لی جاسکتی ہے جہاں ہر روز درجنوں جانیں لسانیت کی نظر ہوتی ہیں، دیہی علاقوں کی مثال لی جاسکتی ہے جہاں آج بھی کاری کمینوں کے ساتھ وڈیروں کا سلوک غیر انسانی ہے، بلوچستان کی مثال کی جاسکتی ہے جہاں ارکان اسمبلی بھی خواتین کو زندا درگور کرنے کے حامی پائے جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی ، اے این پی اور ایم کیو ایم کی مثال لی جاسکتی ہے جو ایک طرف سیکولر نظریات کی علمبردار ہیں تو دوسری طرف پرتشدد سیاست میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں، بلوچ لبرشن آرمی کی مثال لی جاسکتی ہے جو اپنے لئے تو حقوق مانگ رہی ہے لیکن غیر بلوچوں کو بلوچستان میں رہنے کا حق دینے کے لئے تیار نہیں چاہے انہیں اسکے لئے بسوں سے اتار کر بے کس لوگوں کو ہی کیوں نہ مارنا پڑے۔ روشن خیالوں کی مثال لی جاسکتی ہے جو دلیل، منطق اور بردباری کو پس پشت ڈال کر مذہبی انتہاپسندوں کا تمسخر اڑاتے نہیں تھکتے، جو تیس سال امریکہ کو کوسنے کے بعد اب اسے امن کا ہار ڈالنے، تہذیب کا تمغہ پہنانے اور علم و دانش کے علم پکڑانے میں کوئی شرم، کوئی حس اور کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ اور جنہیں خود اپنے بنائے ہوئے اصولوں کا بھی پاس نہیں رہتا۔

گویا، کیا رو شن خیال ، کیا اعتدال پسند اور کیا مذہب پرست کج فہمی، کم علمی، عدم برداشت، جزباتیت اور پرتشدد رجہانات ہمارے پورے معاشرے میں سرائیت کرچکی ہے۔ جب ایٹمی سائنس دان صوفیا کے متنازعہ قصے سنائیں، جب جیو ٹی وی چینل مائیکل جیکسن اور نیل آرمسٹرانگ سے کلمہ پڑھاوالیں، جب کامران خان دنیا کے “سب سے پہلے” قرآنی سافٹ وئر کی اشتہار سازی کریں، جب حامد میر پانی سے گاڑی چلو ائیں اور جب ثنا بچہ اصلی رمشا مسیح کے جعلی تصویر کودکھائیں تو عام معاشرے کا یہی حال ہونا ہے جو ہو رہا ہے، یعنی کوئی چین سے پانچ روپے فی مکان کے حساب سے بجلی خرید رہا تو کوئی موبائل فون ہیکر سے ڈرا رہا ہے اور کوئی قریب آتی کسی بھی ایمبولینس سے۔

یہاں تک کہ علم و دانش کی درسگاہوں، صحافتی اور خبر رساں کے اداروں اور علماء و دانش وروں کی محفلوں میں بھی تحقیق کی روش اٹھ چکی ہے اورسنی سنائی بات ردعمل ہوتا ہے ۔

ان حالات میں میرے پاس دو ہی راستے کہ خود کو اس معاشرے سے بے نیاز کرلوں یا پھر خود احتسابی کے عمل میں شامل ہوجاوں سو میں نے خود احتسابی کا راستہ چنا ہے، میں ایک ایسے معاشرے کا متلاشی ہوں جہاں علم، تحقیق، بردباری، حکمت، دلیل اور انصاف کا بول بالا ہو نا کہ جذبات، منافقت، ہوس، عدم برداشت، اور مسخرے بازی کا ۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Malik
    -
  2. Abdul Nishapuri
    -
  3. Malik
    -