A comment on Hamid Mir and Safdar Mehmood’s backhanded condemnation of Shia genocide
روزنامہ جنگ کے شکریہ کے ساتھ حامد میر کا یہ مضمون شایع کر رہے ہیں – ہم مضمون کے بنیادی متن سے متفق ہیں البتہ اس چیز سے اختلاف کرتے ہیں کہ کوئی سنی، شیعہ ، احمدی ، مسیحی تمام پاکستانیوں کا محبوب رہنما نہیں ہو سکتا – حامد میر نے اس مضمون میں زور اس بات پر صرف کیا ہے کہ قاید اعظم کا شیعہ فرقہ سے بس برائے نام تعلق تھا اسی لیے ان کی تمام مسلمان تحسین کرتے ہیں ہم اس سوچ سے اختلاف رکھتے ہیں – تمام پاکستانی ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سے محبت کرتے ہیں اس محبت کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ اقبال سنی مسلمان تھے یا دیوبندی – اسی طرح پاکستانیوں کی غالب اکثریت ڈاکٹر عبدالسلام سے محبت کرتی ہے جو کہ مذھب پر عمل کرنے والے احمدی تھے – اسی طرح سیسل چودھری اور دیگر مسیحی اور ہندو ہیرو ہیں جن سے ہم سب محبت کرتے ہیں – کسی سے محبت کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ یہ ثابت کیا جائے کے وہ شخصیت اپنے عقیدے پر عمل کرتی تھی یا نہیں – قائد اعظم ایک شیعہ اثنا عشری مسلمان تھے اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنے اور شیعوں کو مساوی مسلمان سمجھنے کی ضرورت ہے – سٹنلے والپرٹ ، عائشہ جلال، مبارک علی، عائشہ صدیقه جیسے غیر جانبدار مورخین کی ضرورت ہے اس قوم کو، عرفان صدیقی، صفدر محمود اور نسیم حجازی جیسے جنرل ضیاء الحق برانڈ تاریخ دان تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو جاتے ہیں
ابن سينا نے کہا تھا کہ دنيا ميں دو قسم کے لوگ ہوتے ہيں۔ ايک وہ جن کے پاس عقل ہے اور مذہب نہيں، دوسرے وہ جن کے پاس مذہب ہے مگر عقل نہيں۔ ايسا لگتا ہے کہ پاکستان ميں دوسری قسم کے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جنرل ضياءالحق کے دور ميں مذہب کے نام پر غير عقلی فيصلے کئے گئے،پھر جنرل پرويز مشرف کا دور آيا۔ انہوں نے روشن خيال اعتدال پسندی اور لبرل ازم کے نام پر فاشسٹ پاليسی اختيار کی۔
انہوں نے جنوبی وزيرستان ميں فوجی آپريشن کيلئے اکثريتی فرقے کے عسکريت پسندوں کے خلاف اقليتی فرقے کے قبائلی سرداروں کی زبردستی مدد حاصل کی اور قبائلی عوام کو اندر سے تقسيم کر ڈالا اور پھر يہ فرقہ وارانہ تقسيم صرف اورکزئی ايجنسی اور کرم تک محدود نہ رہی بلکہ پشاور، لاہور اور کراچی سے ہوتی ہوئی کوئٹہ تک پہنچ گئي۔
2003
ء ميں کوئٹہ ميں ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے اہل تشيع پر حملے شروع ہوئے، جو آج تک جاری ہيں۔ ويسے تو آج پاکستان ميں کوئی بھی محفوظ نہيں اور پچھلے دس سال کے دوران بم دھماکوں، ڈرون حملوں اور فوجی آپريشنوں کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ميں مارے جانے والے 40 ہزار سے زائد پاکستانيوں کو مختلف فرقوں ميں تقسيم نہيں کيا جا سکتا، ليکن پچھلے چار سال کے دوران کوئٹہ اور گلگت بلتستان کے علاوہ کراچی ميں اہل تشيع پر مسلسل حملے ہر محب وطن پاکستانی کے لئے باعث تشويش ہيں۔ کوئٹہ ميں صورتحال يہ ہے کہ شہر ميں صرف ہزارہ شيعہ دہشت گردی کا نشانہ نہيں بن رہے، بلکہ سني علماء کی بھی ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے، ليکن حکومت مکمل طور پر بےبس نظر آتی ہے۔
حکومت کی اتحادی جماعت ايم کيو ايم کے قائد الطاف حسين نے کوئٹہ اور کراچی ميں اہل تشيع پر حملوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھاتے ہوئے پاکستانی قوم کو ياد دلايا ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بھی اثناء عشری شيعہ تھے۔ الطاف حسين صاحب کی اس ياد دہانی کا مقصد يہ نظر آتا ہے کہ قائداعظم کے نام پر پاکستانی قوم کو فرقہ وارانہ تقسيم سے بچايا جا سکے۔ تاريخی لحاظ سے يہ دعویٰ درست نظر آتا ہے کہ قائداعظم اثناء عشري شيعہ تھے، ليکن يہ بھی درست ہے کہ قائداعظم کے حاميوں اور جانثاروں کی اکثريت شيعہ نہيں تھی۔
تحريک پاکستان کے حامی قائداعظم کو صرف ايک مسلمان سمجھتے تھے اور اسی لئے مسلمانوں کی اکثريت نے قائداعظم کی قيادت پر اتفاق کيا۔ برصغير کے مسلمانوں کی يہ خوش قسمتی تھی کہ پاکستان کا خواب ديکھنے والے شاعر علامہ محمد اقبال ايک سنی خاندان ميں پيدا ہوئے، ليکن وہ شاعر اہل سنت نہيں کہلوائے، بلکہ شاعر مشرق کہلوائے اور آج بھی ان کا فارسی کلام پاکستان سے زيادہ ايران ميں مقبول ہے۔
کچھ سياسی معاملات ايسے تھے، جن پر علامہ محمد اقبال اور قائداعظم کے درميان اختلاف پيدا ہوا۔ اقبال مسلمانوں کے لئے جداگانہ طرز انتخاب کے حامی تھے اور قائداعظم نے دہلی مسلم تجاويز کے ذريعہ مخلوط طرز انتخاب پر مشروط آمادگی ظاہر کی۔ سائمن کميشن اور نہرو رپورٹ پر بھی اقبال اور قائداعظم ميں سياسی اختلافات تھے، ليکن 1935ء ميں مسجد شہيد گنج لاہور کے تنازع پر مسلمانوں اور سکھوں ميں کشيدگی پيدا ہوئی تو قائداعظم کے جرأت مندانہ کردار پر علامہ محمد اقبال ان کے معترف ہوگئے۔
اقبال نے ايک بيان ميں قائداعظم کو بطل جليل قرار ديا۔ قائداعظم پر کچھ مولويوں نے کفر کے فتوے لگائے تو اقبال نے ان کا دفاع کيا۔ 1937ء ميں ايک ايسا واقعہ پيش آيا، جس نے قائداعظم کو مسلمانوں کے تمام فرقوں کے ايک متفقہ ليڈر کے طور پر اُبھارا۔ سنٹرل ليجسليٹو اسمبلی آف انڈيا ميں ايک سنی مسلمان رکن حافظ محمد عبداللہ نے مسلم پرسنل لاء (شريعت) بل پيش کيا، جس ميں کہا گيا تھا کہ مسلمانوں کے انتقال جائيداد کے مقدمات کا فيصلہ اسلامی قوانين کے مطابق ہونا چاہئے اور عورتوں کو بھی جائيداد ميں حصہ ملنا چاہئے۔
اسمبلی ميں ايک بڑے جاگيردار سر محمد يامين خان نے کہا کہ شيعہ اس شريعت بل کو نہيں مانيں گے۔ قائداعظم نے انہيں سمجھايا کہ اس قانون کے تحت مقدمات کے فيصلے مسلمان جج کريں گے اور فيصلہ درخواست دہندہ کے مسلک کے مطابق ہوگا، ليکن سر محمد يامين خان نے ميجر نواب احمد نواز خان اور کيپٹن سردار شير محمد خان کو بھی اپنے ساتھ ملا ليا۔ اس موقع پر مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، مولوی محمد عبدالغنی، قاضی محمد احمد کاظمی اور شيخ فضل حق پراچہ سميت کئی مسلمان ارکان اسمبلی نے قائداعظم کو اس شريعت بل پر بحث کيلئے متفقہ طور پر اپنا نمائندہ مقرر کر ديا۔
اور آخر کار طويل بحث کے بعد سر محمد يامين خان نے بھی اس بل کی حمائت کر دی اور 16 ستمبر 1937ء کو يہ بل سنٹرل اسمبلی نے منظور کر ديا۔ بل کی منظوری اہل سنت کی نہيں، اہل اسلام کی کاميابی بنی۔ قائداعظم نے ہميشہ اپنی ذات کو شيعہ سنی اختلافات سے دور رکھا، بلکہ وہ شيعہ سنی اتحاد کی علامت تھے۔ ايک دفعہ قائداعظم سے پوچھا گيا کہ آپ شيعہ ہيں يا سنی؟ قائداعظم نے سوال پوچھنے والے سے کہا کہ يہ بتاؤ پيغمبر اسلام حضرت محمد (ص) کيا تھے؟ سوال پوچھنے والے نے کہا کہ وہ مسلمان تھے۔ جواب ميں قائداعظم نے کہا کہ ميں بھی مسلمان ہوں۔
قائداعظم ايسی مذہبی محفلوں ميں شرکت کرتے تھے جہاں شيعہ سنی اختلاف نظر نہيں آتا تھا۔ وہ عيد کی نماز عام مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی مسجد ميں ادا کر ليتے تھے۔ عيد ميلاد النبی (ص) کے جلسوں ميں بھی شرکت کرتے، ليکن کسی مخصوص فرقے کی مجلس ميں شرکت نہيں کرتے تھے۔ پشاور اور کوئٹہ ميں اہل تشيع کے علماء نے قائداعظم کو اپنی محافل ميں مدعو کيا، ليکن قائداعظم نے معذرت کر لی۔
قائداعظم نے اپنی زندگی ميں وصيت کر دی تھی کہ مولانا شبير احمد عثمانی ان کی نماز جنازہ پڑھائيں گے، ان کی نماز جنازہ ميں سر ظفر اللہ خان کے سوا تمام مسلمانوں نے فرقہ وارانہ تفريق سے بالاتر ہو کر شرکت کی۔ 1968ء ميں محترمہ فاطمہ جناح کی وفات کے بعد ان کی بہن شيريں بائی نے سندھ ہائيکورٹ ميں ايک درخواست دائر کی کہ فاطمہ جناح کی جائيداد کا فيصلہ شيعہ وراثتی قانون کے مطابق کيا جائے۔
20 اکتوبر 1970ء کو حسين علی گانجی والجی نے کورٹ ميں شيريں بائی کی درخواست کو چيلنج کرتے ہوئے کہا کہ فاطمہ جناح شيعہ نہيں سنی تھيں۔ درخواست گزار رشتے ميں قائداعظم کے چچا تھے لہذا ان کی درخواست پر سماعت شروع ہوگئی۔ سماعت کے دوران شريف الدين پيرزادہ نے عدالت کو بتايا کہ قائداعظم نے 1901ء ميں اسماعيلی عقيدہ چھوڑ ديا تھا، کيونکہ ان کی دو بہنوں رحمت بائی اور مريم بائی کی شادی سنی خاندانوں ميں ہوئی، تاہم قائداعظم نے خود کو کبھی شيعہ يا سنی نہيں کہا تھا۔ شيريں بائی کی شادی اسماعيلی خاندان ميں ہوئی، ليکن بعد ميں وہ بھی شيعہ ہو گئيں۔
عدالت ميں آئی ايچ اصفہانی نے کہا کہ وہ 1936ء ميں قائداعظم کے پرائيويٹ سيکرٹري تھے اور انہيں قائداعظم نے بتايا تھا کہ انہوں نے اسماعيلی عقيدہ چھوڑ کر شيعہ عقيدہ اختيار کيا۔ ايک اور گواہ سيد انيس الحسنين نے عدالت ميں کہا کہ انہوں نے فاطمہ جناح کی ہدايت پر قائداعظم کو شيعہ روايات کے مطابق غسل ديا، ليکن وہ يہ انکار نہ کرسکے کہ قائداعظم کی وصيت کے مطابق ان کی نماز جنازہ مولانا شبير احمد عثمانی نے پڑھائی تھی۔
24 فروري 1970ء کو سندھ ہائيکورٹ نے اپنے فيصلے ميں فاطمہ جناح کی جائيداد پر شيريں بائی کے حق کو قائم رکھا، ليکن اپنے فيصلے ميں يہ بھی کہا کہ قائداعظم نہ شيعہ تھے نہ سنی تھے بلکہ وہ ايک سادہ مسلمان تھے۔ سندھ ہائيکورٹ کا يہ فيصلہ قائداعظم کو اس جگہ لے آيا، جہاں قائداعظم ہميشہ خود کھڑے رہے۔ وہ خاندانی طور پر شيعہ ضرور تھے، ليکن عملی زندگی ميں خود کو صرف مسلمان کہلوانا پسند کرتے تھے۔
جو لوگ آج اہل تشيع پر کفر کے فتوے لگاتے ہيں، وہ مولانا شبير احمد عثماني کے بارے ميں کيا کہيں گے، جنہوں نے قائداعظم کی نماز جنازہ پڑھائی۔؟ حقيقت يہ ہے کہ شيعہ اور سنی ايک قرآن اور ايک نبی (ص) پر متفق ہيں۔ اسلئے انہيں علامہ اقبال اور قائداعظم کے راستے پر چلتے ہوئے شيعہ سنی اتحاد کی مثال قائم کرنی چاہئے اور اس کا بہترين راستہ يہ ہے کہ تمام اہم سياسی و دينی جماعتوں کی قيادت کوئٹہ اور کراچی ميں اکٹھے ہو کر فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کرے۔ جس طرح اقبال اور قائداعظم ايک تھے، ہميں بھي ايک دوسرے کي مساجد اور امام بارگاہوں ميں جا کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
——–
Two Jang-brand bigots (Safdar Mahmood and Hamid Mir) are interested in proving that Quaid-e-Azam was just a plain Muslim, not a Shia. This means if a person is a Shia, Sunni, Ahmadi, Christian etc, he can’t be a hero or leader of the Pakistani nation? Nonsense. In order to prove someone as our national hero, we don’t really have to prove that he or she was a non-practising Barelvi, non-practising Shia or non-practising Ahmadis. Why can’t we wholeheartedly accept that yes, Jinnah was a Shia, and he is still our national hero, as are our other heroes (Abdus Salaam – an Ahmadi, Allama Iqbal – a Sunni, Middlecoat – a Christian etc).
By the way, I have seen no picture in which Jinnah is offering in a Sunni manner. In fact there are plenty of pictures in which Pakistan’s current president Zardari is offering prayers with folded hands (in Sunni style). What does that prove? A politician can do wonders. General Zia visited several Buddhist and Hindu temples, offered respect, rang holy bells there, what does that prove?
وہ تصوير ديکھو
صبح بخير
ڈاکٹر صفدر محمود
يہ کوئي کليہ? قاعدہ تو نہيں ليکن مشاہدہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ عام طور پر سياستدانوں کے بيانات اور ”اقوال زريں“ کے پس پردہ کوئي نہ کوئي محرک يا مقصد ہوتا ہے? سياستدان ہوا ميں بھي تير چلائيں تو ذہن ميں کوئي نہ کوئي نشانہ ہوتا ہے? ميں نہيں سمجھ سکا کہ موجودہ حالات ميں اور قيام پاکستان کے 65 برس بعد قائداعظم کے مذہبي مسلک يا عقيدے کو اچھالنے کا کيا مقصد ہے؟ اگر مقصد اتحاد بين المسلمين اور قوم کو متحد کرنا ہے تو قائداعظم? قومي اتحاد کے رول ماڈل تھے اور ہماري تاريخ ميں يہ انہي کا اعجاز اور کرامت تھي کہ انہوں نے مذہب و مسلک، رنگ و نسل اور علاقائيت کے حوالے سے منقسم قوم کو اپني قيادت ميں متحد کر کے تاريخي کارنامہ سرانجام دے ديا? قائداعظم? نہ کوئي مذہبي شخصيت تھے اور نہ ہي ان کے مسلک نے قومي اتحاد کے قيام اور حصول ميں کوئي کردار سرانجام ديا? اگر ايسا ہوتا تو مسلمان کبھي اتحاد کي بلنديوں پر نہ پہنچ سکتے? اگر مقصد يہ بتانا ہے کہ قائداعظم اثناء عشري شيعہ تھے اس لئے مسلک کي بنياد پر مسلمانوں اور پاکستانيوں کا خون بہانا بند کر دو تو مقصد بلاشبہ نيک ہے ليکن ياد رکھيئے کہ ان جنوني قاتلوں، دہشت گردوں اور مذہب کے نام پر خون بہانے والوں کو قائداعظم سے کوئي غرض نہيں اور نہ ہي قائداعظم کا شيعہ ہونا ان کے عزائم کي راہ ميں ديوار بن سکتا ہے? البتہ قائداعظم? جو زندگي بھر مذہبي مسلک کے جھگڑے سے بلند و بالا ہو کر اپنے آپ کو صرف مسلمان ثابت کرتے رہے، اس مہم جوئي سے ناخوش ہوں گے? انہيں قومي اتحاد کے رول ماڈل کے اعلي? مقام سے اتحاد کو فرقے بندي ميں الجھانا نہ قائداعظم? کي خدمت ہے اور نہ ہي پاکستان کي? سمجھنے کي بات فقط اتني سي ہے کہ اسلامي تعليمات کے مطابق انسان کا قتل انسانيت کا قتل ہے اور مسلمانوں کا قاتل يقينا جہنمي ہے? ڈاکٹر طاہر القادري تو اس موضوع پر فتوي? ديتے ہوئے ضخيم کتاب لکھ چکے ہيں? تقريباً سبھي معتبر اور نامور پاکستاني علماء اور سعودي علماء نے بار بار دہشت گردي کے خلاف فتوے ديئے ہيں? اس حوالے سے قرآن حکيم کا فيصلہ نہايت واضح ہے? اگر قرآن اور حديث ان قاتلوں کي راہ نہيں روک سکتے تو کيا قائداعظم? کا مسلک ان کے ظالم ہاتھوں سے کلاشنکوفيں چھين سکے گا؟ تجربہ بتاتا ہے اور ہماري حاليہ تاريخ اس تلخ حقيقت کي تصديق کر چکي ہے کہ سنگدل قاتلوں کو فتوؤں اور واعظوں سے نہ بدلاجا سکتا ہے نہ روکا جا سکتا ہے? ان پتھر دلوں پر کلام نرم و نازک اثر نہيں کرتي? ان سے آہني ہاتھوں، سخت گير اقدامات، قانون کے شکنجے اور نہايت اہل انتظاميہ کے ذريعے ہي نپٹا جا سکتا ہے? جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي بات نہيں مانتے، کيا آپ انہيں فتوؤں اور واعظوں کے ذريعے روک سکتے ہيں؟
ميرا رب جانتا ہے کہ جب کوئٹہ، کراچي، گلگت، بلتستان يا پاکستان کے کسي شہر ميں کسي شخص کو عقيدے کي بناء پر نشانہ بنايا جاتا ہے تو ميرا دل غم کے سمندر ميں ڈوب جاتا ہے اور ميں اندر سے لہولہان ہو جاتا ہوں? صورتحال اس قدر اندوہناک اور خطرناک ہو چکي ہے کہ سارے ملک ميں ہزاروں شہري دہشت گردي کا نشانہ بن چکے ہيں اور حکومت پوري طرح ناکام ہو چکي ہے? حکومت کي اپني بے بسي کا يہ عالم ہے کہ ہر واردات پر وزيراعظم صاحب، صدر صاحب اور وزير اعلي? صاحب بيانات جاري کر کے اپني حفاظت گاہوں ميں چلے جاتے ہيں اور بيانات کي سياہي خشک ہونے سے قبل دوسرا الميہ خون بہا ديتا ہے? جو حکومت اپنے کارکنوں کي حفاظت نہيں کر سکتي وہ دوسرے شہريوں کي کيا حفاظت کرے گي? چند روز قبل سندھ حکومت اور پي پي پي کے ايک اعلي? عہدے دار نے بيان ديا کہ سندھ ميں پي پي پي کے 150 کارکن مارے جا چکے ہيں اور اس کي ذمہ داري ہمارے اتحادي پر عائد ہوتي ہے? اس سے زيادہ بے بسي اور نا اہلي اور عبرت کا مقام کيا ہو گا؟
ملک بھر کے مختلف مسالک کے علماء کو اکٹھا کرنا اور اتحاد بين المسلمين کي کوششيں کرنا نہ ہي صرف ديني اور قومي خدمت ہے بلکہ وقت کا اہم تقاضا بھي ہے? علماء کو متحد ہو کر ملک و قوم کو اس سانحے سے بچانے کے لئے اور مذہب کے نام پر قتل و غارت کے پھيلتے سلسلے کو روکنے کے لئے اپني تمام تر توانائياں اور وسائل استعمال کرنے چاہئيں ليکن اصل مسئلہ انتظاميہ کي ناکامي اور نا اہلي ہے? يہ گلہ بھي بجا کہ جن دہشت گردوں کو عدالتوں کے کٹہرے ميں لايا جاتا ہے وہ وہاں سے رہائي پا جاتے ہيں ليکن مت بھولئے کہ اس رہائي ميں بھي نامکمل تفتيش اور پوليس کي بدنيتي يا نااہلي ثابت ہوتي ہے? صدر اور وزيراعظم کے رسمي اور ”اشک شوئي“ بيانات اور وزير اعلي? بلوچستان کا واويلا کہ اس قتل و غارت ميں بيروني ہاتھ کام کر رہا ہے محض حکومتي ڈھانچے کي نااہلي اور ناکامي کا اعتراف ہيں? جو حکومت اپنے شہريوں کو احساس تحفظ فراہم نہيں کر سکتي اسے لوگوں پر مسلط رہنے کا کوئي حق نہيں? يہ غريب ملک اربوں روپے خفيہ ايجنسيوں پر صرف کرتا ہے جن کا کام ہي ايسي کمين گاہوں اور خطرات کا کھوج لگانا ہے جہاں ايسي وارداتوں کي منصوبہ بندي ہوتي ہے? آخر يہ نصف درجن خفيہ ايجنسياں کيا کر رہي ہيں؟ انتظاميہ اور حکومتي مشينري کا اولين فرض شہريوں کي حفاظت ہے اور اگر حکومتي مشينري اپنے فرائض سرانجام نہيں دے سکتي تو اس ميں تبديلياں کر کے اسے اہل بنانا اور متحرک کرنا حکومت کا فرض ہے? اگر حکومت ايسا نہيں کر سکتي تو جمہوريت کي روح کا تقاضا ہے کہ وہ اقتدار سے الگ ہو جائے? آخر خون بہنے اور معصوم شہريوں کے قتل و غارت کا سلسلہ کب بند ہو گا اور کيسے بند ہو گا؟ جب موجودہ سياسي ڈھانچہ ساڑھے چار سال کے دور حکومت ميں اس مرض کا علاج نہيں کر سکا تو مستقبل ميں ان حاکموں سے کيا اميد رکھي جائے
صدر صاحب يہ کہتے نہيں تھکتے کہ جمہوريت بہترين انتقام ہے اور وہ لوگ جو خدا بنے بيٹھے تھے آج بيرون ملک خوار ہو رہے ہيں? بلاشبہ يہ دنياوي خدا کا يہي انجام ہوتا ہے اور يہ ميرے رب کي منشا ہے ليکن جناب صدر جمہوريت کا اصل انتقام جوابدہي کا اصول ہے ورنہ آمر اور دنياوي خدا تو اپنے آپ کو جوابدہي سے بالا تر سمجھتے ہيں? جوابدہي کے فلسفے کي روح يہ ہے کہ اگر حکومت شہريوں کو احساس تحفظ نہ دے سکے تو وہ خود حکومت سے کنارہ کش ہو جائے جس کے طريقے آئين ميں موجود ہيں? يہي جمہوريت کا اصل انتقام ہے? جمہوريت کا انتقام جوابدہي کے اصول سے پھوٹتا ہے جمہوريت کا انتقام جس کا راگ حکمران ہر وقت الاپتے ہيں تقاضا کرتا ہے کہ حکومت اپني ناکامي کا اعتراف کرے اور مجرموں کي سرکوبي کے لئے موثر اقدامات کرے? وزير داخلہ کي اداکاري، وزيراعظم اور صدر مملکت کا محض اظہار ہمدردي ان خاندانوں کے دکھ کا مداوا نہيں کر سکتا جو اس دہشت گردي کے سبب ويران ہو چکے ہيں? اس گھمبير صورتحال سے گھبرا کر ملک ٹوٹنے کي پشين گوئياں کرنے والے بھي ذرا احتياط سے کام ليں اور بھڑکتي آگ پر تيل نہ ڈاليں? قوم کو مايوسي کا پيغام دے کر وہ نادانستہ طور پر دشمن کے ارادوں کو کامياب کر رہے ہيں
بات چلي تھي قائداعظم? کے مسلک سے اور پھر شب ہجراں کي مانند طويل ہوتي چلي گئي? سندھ ہائيکورٹ پہلے ہي فيصلہ دے چکي ہے کہ قائداعظم? عملي طور پر سادہ مسلمان تھے اور ان کا تعلق کسي فرقے يا مسلک سے نہيں تھا? قائداعظم? کي بہن شيريں بائي کے اس مقدمے ميں ہائيکورٹ نے قائداعظم? کے ساتھيوں، ذاتي سٹاف اور قريبي لوگوں کے بيانات قلمبند کئے، تاريخي مواد کھنگالا اور عرق ريزي کرنے کے بعد يہ فيصلہ ديا جس کے بعد يہ بحث ختم ہو جاني چاہئے تھي ليکن ايم کيو ايم کے قائد جناب الطاف حسين نے اسے پھر زندہ کر ديا ہے? جس مذہبي تبديلي کا وہ ذکر کرتے ہيں اس کا ذکر قائداعظم? کے ايک ساتھي نے سندھ ہائيکورٹ کے سامنے بھي کيا تھا اور بتايا تھا کہ محمد علي جناح نے آغا خاني مسلک ترک کر کے اثناء عشري مسلک قبول کر ليا تھا? اسے سندھ ہائيکورٹ نے قبول نہيں کيا تھا اور فيصلہ ميں لکھا تھا کہ وہ سادہ مسلمان تھے اور مذہبي فرقہ بندي سے بالاتر تھے? ان سے جب بھي پوچھا گيا کہ آپ کا مذہبي مسلک کيا ہے تو جواب ملا کہ نبي آخر الزمان صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا مسلک کيا تھا? ان کے عملي رويئے پر نگاہ ڈاليں تو سندھ ہائيکورٹ کے فيصلے کي تصديق ہوتي ہے
قائداعظم محمد علي جناح نے جب 1918ء ميں رتي ڈنشا سے شادي کا فيصلہ کيا تو اسے مشرف بہ اسلام کرنے کے لئے بمبئي کي جامع مسجد کے امام مولانا نذير صديقي کے پاس لے گئے? نام مريم رکھا? مريم نے مولانا صديقي کے ہاتھ پر اسلام قبول کيا اور مولانا نذير صديقي نے ہي قائداعظم کا مريم سے نکاح پڑھايا? بھلا مولانا نذير صديقي کون تھے؟ مولانا صديقي مولانا شاہ احمد نوراني کے سگے تايا تھے? ان کا مذہبي مسلک واضح اور عياں ہے اور مولانا صديقي کا کہنا ہے کہ قائداعظم مذہبي راہنمائي کے لئے اکثر ان کے پاس آتے تھے، ان سے متاثر تھے? کيا بمبئي ميں شيعہ علماء کي کمي تھي؟نہيں ہرگز نہيں? قائداعظم کے نکاح کے گواہوں ميں شيعہ بھي ہيں اور سني بھي کيونکہ وہ فرقہ بندي اور مسالک کے خلاف تھے
ياد آيا ايک روز ميں نے بريگيڈيئر نور حسين سابق اے ڈي سي گورنر جنرل قائداعظم محمد علي جناح سے پوچھا کہ قائداعظم کا مسلک کيا تھا؟ جواب ملا کيا آپ نے وہ تصوير ديکھي ہے جس ميں گورنر جنرل قائداعظم محمد علي جناح نماز عيد کے لئے پہلي صف ميں کھڑے ہيں? ميں نے جواب ديا کہ وہ تصوير تقريباً ہر کتاب ميں موجود ہے? کہنے لگے وہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہيں يا ہاتھ چھوڑ کر؟ ميں خاموش ہو گيا? قائداعظم? کے عملي مسلک کو سمجھنا ہے تو وہ تصوير ديکھو? اور ہاں يہ تصوير 1947ء کي ہے
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=19650
@Abdul Nishapuri! I liked your reply.
well done
Can we have English translations for the above 2 articles? Sorry cant read urdu! Thanks!