پلواشاہ کو کون پوچھے گا؟

 


جہاں بڑے بڑے حادثے ایسے گزر جاتے ہوں کہ جیسے کچھ نہیں ہوا وہاں پلوا شاہ کو کون پوچھے گا؟ خبر کے مطابق بیس سالہ پلوا شاہ سکھر شہر میں ایک گزرتی  بارات سے ہونے والی فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئی، ایسے ہی چند دن پہلے انیس سالہ مرید شیخ حیدرآباد میں ہلاک ہو گیا تھا. آپ اور میں جو اپنے گھروں میں سکون سے ہیں ہم کو کیا فرق پڑتا ہے اگر کوئی جان سے چلا جاتا ہے، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے کہ جن آنکھوں میں نہ جانے کتنے خواب ہونگے ان کو پتھرا دیا گیا ، جس دل میں کتنی ہی امنگیں ہونگی اس کو گولی سے چھید دیا گیا، کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم تو عادی ہیں، ہم کو کیا فرق پڑتا ہے کہ اگر چند پاگل کتے اپنی خوشی اور طاقت کے نشے میں چور کسی بھی ایرے غیرے کو اپنی جہالت کا نشانہ بنا دیں، اسلحہ لے کر چلنا ہر طاقتور کی مجبوری ہے ورنہ اس کو طاقتور کون جانے گا، اور جانوروں کی طرح اپنی طاقت کا اظہار بھی ضروری ٹھہرا ورنہ لوگ خوفزدہ کیسے رہیں گے

 ہم شکایت کریں بھی تو کیوں، اسلحہ ہمارے خوابوں کی تعبیر کا حصّہ جو ہے، جاگیرداری اور قبائلی معاشرے میں اسلحے کے بغیر عزت کا تصور محال ہے، ہر مجاہد جو ظلم و استبداد سے لڑے اس کا تصور تک  بغیر اسلحے کے نہیں ہو سکتا، ہماری  سرحدوں کی حفاظت بھی صرف اسلحے اور طاقت کے رہین منت ہے، ہمارے انقلابی بھی اسلحے اور تشدد کے بغیر ادھورے ہیں، ہم اوپر سے نیچے تک کسی نہ کسی بہانے اسی جنون کا شکار ہیں، اپنے بچوں کو ایسے کھلونے شوق سے دلواتے ہیں جو تلوار،  پستول، رائفل جیسے ہوں. ہم ان کو ایسی کہانیاں سناتے اور دکھاتے ہیں جن میں مجاہد کشتوں کے پشتے لگاتے ہیں، جہاں غیرت مند اپنی عزت کا بدلہ خون بہا کر لیتے ہیں، جہاں ہر ظلم اور زیادتی کو کسی نہ کسی طرح صرف اور صرف طاقت سے ختم ہوتے بتایا جاتا ہے. ہمارے رہنما  بھی اپنی شخصیت اوراثر کو بڑھانے کے لئے طاقت کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں،راستوں پر ہوں یا جلسوں میں اسلحہ بردار محافظ آگے پیچھے دکھائی دیتے ہیں، ایسے ظاہری دکھاووں کو اپنی قوت سمجھنے والے کوتاہ نظر یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ بندوق بری ظالم شے ہے، جو اس کا عادی ہو جائے وہ ہر مسلئے کا حل اسی کو سمجھتا ہے، جب شیر کے منہ کو انسانی خون لگ جائے تو پھر آدم خور کسی کو نہیں چھوڑتا، بندوق اپنا پرایا کب جانتی ہے، آج کا شکاری کل کا شکار، کون جانے کب توپ کا رخ پھر کر آپ کی طرف ہو جائے

ہمارے سماج میں اسلحہ کتنی بڑی برائی ہے اور در پردہ کتنے ہی مسائل ایسے ہیں جن کا بلواسطہ یا بلا واسطہ ہمارے اس جنون سے کتنا گہرا رشتہ ہے اس کا ادراک ہی نہیں کیا جاتا، بھائی ایک دوسرے کو معمولی تنازعات پر بھون دیتے ہیں، عورتیں مختلف بہانوں سے مار ڈالی جاتی ہیں، خاندان کے خاندان ختم کر دیے جاتے ہیں. ہمارے اخبار اس طرح کی خبروں سے بھرے رہتے ہیں، روزانہ نہ جانے کتنے افراد ملک بھر میں اس لئے موت کے گھاٹ اتار دئے جاتے ہیں کہ اسلحہ تک رسائی بے انتہا آسان ہے. اسلحہ مرض کی اصل وجہ نہ صحیح مگر ایک بہت بڑا حصّے دار ہے اور کوئی بھی اس کے خلاف آواز اٹھاتا نہیں دکھتا کہ یہ ہمارے سماج، ہمارے جاگیرداری رکھ رکھاؤ، عزت و غیرت کی سوچ، ، طبقاتی تقسیم کا ایک بنیادی حصّہ ہے. کیا کسی ایک بھی سیاسی جماعت نے کبھی ملک سے اسلحے کے بلا امتیاز خاتمے کو کوئی اہمیت دی ہے؟ کیا کوئی پریشر گروپ کبھی بھی کوئی موثر تحریک چلا سکا ہے؟ نہیں،  اس لئے کہ جو لوگ خود اپنے دکھاوے کے لئے اس لعنت کے محتاج ہوں وہ کیا بول سکتے ہیں

ہمیں سیکھنا ہوگا کہ اسلحہ صرف نقصان پہنچا سکتا ہے، عام  روز مرّہ  زندگی میں اسلحے کی نمائش اور استعمال پر پابندی لگنی چاہیے، بھاری جرمانے اور سخت سزائیں قانون کا حصّہ ہونا چاہییں، ہمارے رہنما بھی اس لعنت اور نمود و نمائش سے دور ہٹیں، ہم اپنے بچوں کو اور بہت سے اچھے متبادل دے سکتے ہیں، کتاب اور علم کی طاقت  ہزار کلاشنکوفوں سے کہیں زیادہ ہے کہ علم زندگی دیتا ہے، انسانیت احترام سکھاتی ہے، اور بغیر انسانیت اور علم کے انسان جانوروں سے بھی بدتر ہے جو محض اپنی ہوس کے لیے معصوم زندگیوں سے کھیل جاتا ہے

 

Comments

comments