Independence Day Poem نذر فیض – by Zulifqar Ali
نذر فیض
نہ داغ داغ اجالہ، نہ شب گزیدہ سحر
نہ دل پسند مگر، اب تو وہ سحر بھی نھیں
شب گزیدہ سھی، بھت سا نور تھا اس میں
تھی داغ داغ مگر، تھی تو اک سحر پھر بھی
آس باندھ کہ ، یاروں کے قافلے جو چلے
تم جانتے ھو ، دامن پہ کتنے ھاتھ پڑے
کھیں پہ تھا جو نظریہ’ ، تو تھا کھیں شب خوں
پکارتی رھی پھانسی ، قلعے بلاتے رھے
کسی امید پہ دیوانے آتے جاتے رھے
تھے راھزن جو بھت ، تم سے رھبربھی تو تھے
کھیں نو روز سا پیر، کھیں ناصر سا جواں
کٹھن تھی راھ مگر، قافلاء یاراں تھا رواں
کبھی کبھی تو لگا ، اب پھر کارواں ٹوٹا
ایک اور زخم پہ یہ شیشہ ء جاں بھی گیا
تمھیں نے د یکھا مگر، اک تمھارا یار آیا
غم بہ دل ، شکر بہ لب ، مستاں رقصاں
بہ ذوق فیض ، وہ دیوانہ سر دار آیا
دل یوں دھڑکا ، نھیں سنبھلا تب سے
اسی کے خوں سے جو ا ٹھی ایک لوء
اندھیری رات میں پروانے پر جلاتے رھے
انھین کے نور سے رستے سراغ پاتے رھے
صبا نے پھر دل درداں پہ آ کے دی دستک
خوش بدن ،خوش عقل، گل بدست
گل بہ گلو گلاب ، وہ میر کارواں جو چلا
اسی ھی شھر میں اس کو انھیں نے لوٹ لیا
دل تو دھڑکا ھی نھیں، ابکہ بس ٹوٹ گیا
وھی حشر کے ایواں میں ھیں اھل ھوس
وھی منصف ، وھی دعوی ھے مختاری کا
دست تہ سنگ ھیں ، اور زنجیر بہ پا
وھی صیاد ھیں، نھیں کچھ صورت شنوای
صوفی یہ بتا ! کیا اب بھی ھے وھی حکم ترا ؟
“چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نھیں آی”
2012 اگست 14
Marvellous poem.
Na dagh dagh ujala, na shab guzida seher