RIP Shamshir-ul-Hyderi
Legendary Sindhi poet and intellectual Shamshir-ul-Hyderi, 80, passed away in Karachi on 10 August 2012. He was a famous scholar, drama writer and broadcaster of Pakistan. He served for ten years as secretary of Sindhi Literary Board for ten years, and oversaw editing and translation of more than 175 books. He was a founding member of the Sindhi Adabi Sangat, the largest association of Sindhi writers. He was amongst first Sindhi language anchors and broadcasters of Pakistan Television.
Unfortunately, Mr. Haider’s death has been ignored by Pakistan’s mainstream media, ruling PPPP and the so called civil society. While Pakistani media, civil society (dominated by Punjabi-Muhajir upper-middle-class) keeps manufacturing and celebrating fake heroes, real heroes of Pakistani society particularly those belonging to Sindhi, Baloch, Pashtun, Saraiki, Gilgiti, Hazara etc backgrounds remain ignored and uncelebrated.
We request Pakistan government to announce appropriate civil award for Mr. Hyderi in recognition of his services to Sindhi literature and journalism.
Death of Mr. Haidry is a great loss of Sindhi literature and journalism. We offer our condolences to his family members and millions of his fans in Pakistan, India and other countries.
Here is an apt tribute published on BBC Urdu, the only mainstream media which published an article on Mr. Hyderi’s death. Thanks to BBC Urdu and shame on Pakistani media!
شمشیر الحیدری انتقال کر گئے
انور سِن رائےپاکستان کے مشہور شاعر، صحافی، ڈرامہ نگار اور براڈ کاسٹر شمشیر الحیدری جمعہ کی صبح کراچی میں انتقال کر گئے ان کی عمر اسّی برس تھی۔
انھیں سندھ کے عظیم ادیب اور دانشور مرزا قلیچ بیگ کے بعد سب سے زیادہ کام کرنے والا ادیب سمجھا جاتا ہے۔ وہ دس سال تک سندھی ادبی بورڈ کے سیکرٹری رہے اور اس دوران انھوں نے پونے دو سو سے زائد کتابوں کی تدوین اور ترجمہ کرایا۔
انہیں اس لیے بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ وہ سندھ میں ادیبوں کی سب سے بڑی تنظیم سندھی ادبی سنگت کے بانی تھے۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان میں ٹیلی ویژن کے اولین سندھی اینکر اور سکرپٹ رائٹر اور ڈرامہ نگار بھی تھے۔
وہ اڑتیس سال تک پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے رہے اور انھوں نے ایک سو کے لگ بھگ سندھی اور اردو ڈرامے لکھے۔ ریڈیو اور ٹی وی کے دوسرے پروگراموں کے لیے لکھے جانے والے دوسرے سکرپٹ اس کے علاوہ ہیں۔
ان کے انتقال سے پاکستانی ادب اور خاص طور پر سندھی ادب ایک بڑے لکھنے والے سے محروم ہو گیا ہے۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ ’لاٹ‘ (دیے کی لو) پہلی بار انیس سو باسٹھ میں شائع ہوا۔ جس کی نئی اشاعت، چالیس سال بعد، اِسی سال دو ہزار بارہ میں ہوئی۔ ان کے لکھے ہوئے کئی گیت اور غزلیں انتہائی مقبول ہوئیں۔ اپنے شعری اسلوب کے مطابق وہ اردو سے بہت قریب تھے اور غالباً سندھی میں آزاد نظم لکھنے والے پہلے جدید شاعر بھی تھے۔
اس کے علاوہ ان کی آٹھ کتابیں سندھی اور اردو میں شائع ہوئیں جن میں شاعری، تنقید اور بچوں کے لیے کی جانے والی شاعری بھی شامل ہے۔ وہ ہمیشہ لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے تھے اور ان کا بہت سا کام اب تک غیر مطبوعہ ہے۔
کچھ عرصے سے ان کی بینائی اس حد تک متاثر ہو چکی تھی کہ وہ پڑھ لکھ نہیں سکتے تھے۔
حال ہی میں کراچی آرٹس کونسل میں انھیں خراجِ تحسین پیش کلِک کرنے کے لیے ایک تقریبمنعقد کی گئی تھی، جس میں انھوں نے علالت کے باوجود شرکت کی۔ اس تقریب میں سندھ کے تمام بڑے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے انھیں زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔حال ہی میں کراچی آرٹس کونسل میں انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ایک تقریب منعقد کی گئی تھی، جس میں انھوں نے علالت کے باوجود شرکت کی۔
اسی جشن کے موقع پر ان کی دختر نسیم نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میری سب سے بڑی خواہش ہے کہ میرے با با ایک بار پھر پڑھنے لکھنے کے قابل ہو جائیں کیوں کے یہی ان کی اصل زندگی ہے‘۔
پہلے انھیں بدین میں سپردِ خاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن ان کی اہلیہ کے اصرار پر انھیں کراچی میں ہی سپردِ خاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور انھیں ان کی وصیعت کے مطابق کراچی کے چوکنڈی قبرستان میں سپردِ خاک کیا جائے گا۔
ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ’وہ (شمشیر الحیدری) کہا کرتے تھے کہ جب ان کا انتقال ہو تو انھیں کراچی ہی میں سپردِ خاک کیا جائے کیوں کہ یہیں انھوں نے اپنی زندگی کے ستر برس گزارے ہیں‘۔
شمشیر الحیدری پندرہ ستمبر انیس سو بتیس کو سندھ کے ضلع بدین میں کڈھن کے مقام پر پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم پہلے بدین گورنمنٹ سکول میں اور پھر کراچی میں سندھ کے قدیم تعلیمی ادارے سندھ مدرسۃ الاسلام میں حاصل کی۔
لکھنے اور عملی زندگی کی ابتدا انھوں نے انیس سو اکاون میں اپنے چچا ڈاکٹر نوید الحیدری ایڈیٹر ہفت روزہ ’عین الحق‘ کے ساتھ کام سے شروع کیا۔ اِسی ہفت روزہ میں انھوں نے اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کی اشاعت کی ابتدا بھی کی۔
اس کے بعد وہ انیس سو چون میں وہ حیدرآباد منتقل ہو گئے اور وہاں سے روزنامہ صحافت کی ابتدا کی۔ غالباً اسی دوران انھوں سندھ یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کیا اور انیس سو چھپن میں سرکاری ملازمت اختیار کر لی اور بالاخر انیس سو اکانوے میں میں وزارتِ اطلاعات سے گریڈ انیس کے افسر کے طور پر سبکدوش ہوئے۔
وہ ایک درویش منش انسان تھے، تمام زندگی شدید محنت اور لکھنے پڑھنے میں گذارنے کے باوجود وہ کراچی کے علاقے مارٹن روڈ پر پاکستان کوارٹرز میں رہتے تھے اور محدود مالی وسائل میں زندگی گذارتے تھے۔
وہ گذشتہ ڈھائی سال سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ چونکہ وہ حکمت سے دلچسپی رکھتے تھے اور انھوں نے باقاعدہ حکمت سیکھی تھی اسی وجہ سے اپنے کینسر کا علاج خود ہی کر رہے تھے۔ ان کا انتقال کراچی کے آغا خان ہسپتال میں جمعے کو صبح چھ بج کر دس منٹ پر ہوا۔
انہوں نے پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں اور پانچ بیٹے چھوڑے ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی شدید علیل ہیں اور اس وقت بھی آکسیجن کے ذریعے تنفس پر ہیں۔
Here is a Sindhi ghazal by Shamsheer-ul-Haideri beautifully sung by Shaman Ali Meerani.
Shamsheer-Ul-Hyderi’s message for Sindh, show your strength, assert your identity!
Shamsheer ul Hyderi talking about poetry on the occasion of a book launching ceremony on June 29, 2010 in Badin
Amar Pirzado’s tribute to Shamsher Ul Haidri in Arts Council Karachi
Imdad Husaini’s tribute
شمشیر الحیدری دوبارہ پیدا نہیں ہوگا
انور سِن رائے
کراچی آرٹس کونسل میں سندھی کے 80 سالہ ادیب، شاعر اور دانشور شمشیر الحیدری کو ادیبوں اور دانشوروں نے لیجنڈ اور سندھ کا آئیکون قرار دیا ہے۔
سندھی کے ادیب، شاعر، ڈرامہ نگار، براڈ کاسٹر اور ٹیلی کاسٹر شمشیر الحیدری نے کہا ہے کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا، ان سے جو کچھ کرایا ہے محبت نے کرایا ہے۔
کراچی آرٹس کونسل میں اپنے اعزاز میں ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اتنے سارے لوگوں کو اتنی دیر تک بیٹھے اور ایک ہی آدمی کے بارے میں کئی گھنٹے سے جاری باتیں سُنتے دیکھ کر انہیں یقین ہو گیا ہے کہ محبت سے محبت کرنے اور اس پر یقین رکھنے والے ختم نہیں ہوئے اور وہ سفر کے اکیلے مسافر نہیں ہیں۔
شمشیر الحیدری کے خطاب سے قبل آڈیٹوریم میں بھرے ہوئے لوگوں نے کئی منٹ تک کھڑے ہو کر اور تالیاں بجا کر شمشیر الحیدری سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔
لوک ورثہ کمیٹی اور پاکستان آرٹس کونسل کراچی کے اشتراک سے ہونے والی اس تقریب میں امداد حسینی، یوسف شاہین، محمد احمد شاہ، غلام نبی مغل، ڈاکٹر سلمان شیخ، شازیہ مری، غزالہ رحمٰن رفیق، عبدالغفار تبسم، جی این مغل، جامی چانڈیو، رفیق احمد بروڑو، سلطانہ صدیقی، مہتاب اکبر راشدی اور محمد ایوب شیخ نے شمشیر الحیدری کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر امر پیر زادہ نے شعری خراج پیش کیا۔ جب کہ شمشیر الحیدرری کی دختر نسیم نے ان پر ایک بیٹی ہونے کے حوالے سے گفتگو کی۔
تقریب کی میزبانی کے فرائض ریڈیو پاکستان حیدر آباد کے ڈائریکٹر نصیر مرزا نے ادا کیے۔
بائیں سے دائیں: جی این مغل، محمد احمد شاہ، ڈاکٹر سلمان شیخ، یوسف شاہین، شمشیر الحیدری، شازیہ مری، مہتاب اکبر راشدی، غزالہ رحمٰن رفیق، امداد حسینی، غلام نبی مغل، اور جامی چانڈیو
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سندھی کے ممتاز شاعر اور دانشور امداد حسینی نے کہا شمشیر نے کبھی کسی کی پیروی نہیں کی، یہ وہ واحد آدمی ہے جس کی پیروی پورے سندھ نے کی ہے۔ جو اس نے لکھا ہے اور جس طرح لکھا ہے اس میں پہلے سے موجود زبان کار آمد نہیں تھی اس لیے اس اپنی زبان ایجاد کی۔ ہم اس کی زبان کو نہ تو دیہی کہہ سکتے ہیں اور نہ شہری۔
ان سے قبل روزنامہ برسات کے یوسف شاہین نے کہا کہ سندھ نے جو نمایاں شخصیتیں پیدا کی ہیں ان میں شمشیر الحیدری کا نام نمایاں ہے اور رہے گا۔ وہ نہ صرف خود بڑی شخصیت ہیں بلکہ انہوں نے بڑے شاعروں، فکشن نگاروں ہی کو نہیں شخصیتوں کو بھی بنایا ہے۔
سندھ کی وزیر اطلاعات شازیہ بلوچ مری نے کہا کہ شمشیر الحیدری ہمارے سندھی ادب کے لیجنڈ ہیں۔ وہ ایک ایسے صحافی اور دانشور ہیں جنہوں نے ہمیشہ کوگوں کی آزادی اور جمہوریت کے لیے کام کیا ہے۔
آرٹس کونسل کے صدر محمد احمد شاہ نے کہا کہ آرٹس کونسل کراچی میں شمشیر الحیدری کے اعزاز میں تقریب کا ہونے سے کسی اور کے نہیں خود آرٹس کونسل کے وقار میں اضافہ ہے۔ یہ تقریب کا انعقاد کرنے والوں کی عزت افزائی ہے۔
شخصیتوں کو بھی بنایا
“سندھ نے جو نمایاں شخصیتیں پیدا کی ہیں ان میں شمشیر الحیدری کا نام نمایاں ہے اور رہے گا۔ وہ نہ صرف خود بڑی شخصیت ہیں بلکہ انہوں نے بڑے شاعروں، فکشن نگاروں ہی کو نہیں شخصیتوں کو بھی بنایا ہے”
یوسف شاہین
ناول نویس غلام نبی مغل نے بتایا کہ شمشیر الحیدری کس طرح نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور تربیت کیا کرتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ شمشیر واحد ادیب اور ودانشور ہیں جن کا کسی لابی سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شمشیر میں وہ ساری خوبیاں ہیں جو ایک عظیم آدمی میں ہوتی ہیں۔
سندھی دانشور ڈاکٹر سلمان شیخ کا کہنا تھا کہ شمشیر الحیدری پر بات کرنا ان کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے کیوں کہ وہ انہیں 1960 سے جانتے ہیں اور تب سے وہ اس آدمی کو جس کی ہم سب عظمتیں گنوا رہے ہیں ایک کوارٹر میں رہتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ یہ آدمی کئی اخباروں کا مدیر رہا۔ کئی اداروں کا سربراہ رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ شمشیر الحیدری کے سندھی قوم پر بڑے احسانات ہیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے غزالہ رفیق نے کہا کہ شمشیر ادیب بھی ہیں اور شاعر بھی ان کی شاعری میں سندھ کی مہک ہے۔ اصل میں تو ان کی شخصیت ہی ایسی ہے کہ جس نفرت نام کو نہیں صرف محبت، محبت، محبت اور صرف محبت ہے۔ یہی محبت انہیں سندھی زبان سے بھی ہے۔
منشی عبدالوہاب نے کہا کہ شمشیر الحیدری نے سندھی میں بچوں کے لیے جو کچھ لکھا ہے وہی اتنا اہم ہے کہ اگر انہوں نے اور کچھ نہ بھی کیا ہوتا تو بھی ان کا نام ہمیشہ زندہ رہتا۔ ان کا کہنا تھا کہ شمشیر سندھ کے آئیکون ہیں۔
عبدالغفار نتبسم نے کہا کہ شمشیر کے بارے ہم نے اب تک جتنی باتیں کی ہیں وہ ان ساری باتوں سے بلند ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں ایک صاحبِ کردار آدمی ہیں اور ان سا کوئی اور نہیں ہے۔
ممتاز صحافی جی این مغل نے کہا کہ صحافت میں شمشیر الحیدری نے جو کردار ادا کیا ہے اس کے وجہ سے انہیں ہمشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ کبھی بھی مصلحت کوشی کے شکار نہیں ہوئے۔
تقریب سے جامی چانڈیو، رفیق احمد برڑو، ٹی وی ’ہم‘ کی سلطانہ صدیقی، مہتاب اکبر راشدی، پی ٹی وی کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر مصطفٰی مندوخیل نے بھی خطاب کیا اور بتایا کہ شمشیر سندھی کہ پہلے اینکر، سندھی کے پہلے ّیوی ڈرامہ نگار اور سندھی کہ پہلے سکریٹ رائٹر ہیں۔
تقریب کے آخر میں موسیقی کا پروگرام پیش کیا گیا جس میں شمشیر الحیدری کا کلام پیش کیا گیا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/2012/05/120519_writer_journalist_zz.shtml
http://e.jang.com.pk/pic.asp?npic=08-14-2012/Lahore/images/07_05.gif