پانی ، حر حرکیات اور نوشتہ دیوار
یہ رگڑ بھی بڑی بری چیز ہے، جہاں بھی دو وجود ٹکراتے ہیں رگڑ کا ہونا لازمی ہے، رگڑ کے رگڑے سے کوئی نہیں بچ پاتا اور اگر کوئی بچنا چاہے تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے، کیونکہ سائنس یہ کہتی ہے کہ جب بھی دو اشیا ٹکرائیں گی تو رگڑ لازمی ہوگی، اسی لیے تو ہماری سیاست میں اتنا رگڑا دیکھنے کو ملتا ہے, جس کو دیکھو مخالف کو رگڑنے کے چکر میں ہے اور رگڑے رگڑے میں کیا کیا پول نہیں کھل جاتے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے، نہلے پہ دہلا اور دھلے پہ اکا اور یکے پہ ترپ ، خوب رگڑ رگڑ کے پتے پیسے جا رہے ہیں اور چالیں جاری ہیں. وہ تو بھلا ہو عوام کا کے ان کو اور نہ جانے کتنے رگڑوں کا سامنا ہے کہ ان کا ساری سمجھ بوجھ رگڑا گئی ہے اور ہمارے قومی اثاثے اندھوں میں بانٹی جانے والی ریوڑیاں بن کر رہ گۓ ہیں. خیر بات ہو رہی تھی کہ سائنس یہ کہتی ہے کہ جب بھی دو اشیا ٹکرائیں گی تو رگڑ لازمی ہوگی، اور ایسی کوئی مشین بنانا ممکن نہیں کہ جس کے پرزوں کی کارکردگی میں رگڑ کی وجہ سے کمی نہ آئے، اسی لئے ہم آپ عموما مشینوں میں تیل کا استمعال عام کرتے ہیں اور ضرروری ہوتا ہے کہ تیل بدلا جائے ورنہ پرزے گھس جاتے ہیں. ایسی کوئی مشین جس میں رگڑ کا عنصر نہ ہو، بنانا ممکن نہیں ہے. اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا. اس وجہ سے ہر مشین کو چلانے کے لیے کسی اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے مستقل حرکت میں رکھے، ایندھن اسی مقصد کے لیئے استعمال ہوتا ہے یا بجلی بھی. ہمارے ہاں تو مشیر داخلہ کے فرائض میں بھی یہ شامل ہے کہ رگڑ کم کر کے رکھیں تاکہ حکومتی مشینری چلتی رہے،ہم کو فخر ہونا چاہیے کہ ہماری سیاست بھی سائنس کے اصولوں پر چلتی ہے.
سائنس اسی طرح کئی اور قوانین کی بات بھی کرتی ہے، جیسا کہ حر حرکیات کے اصول جن میں سے ایک یہ ہے کہ جتنی حرارت کسی نظام کو ملے گی، اتنا ہی کام اس سے لیا جا سکے گا اور اس عمل میں توانائی کا انتقال ہو گا یعنی یہ کہ توانائی پیدا نہیں کی جا سکتی بلکہ محض منتقل ہوتی ہے، اس لئے کوئی بھی جسم جب حرکت میں آتا ہے تو اس کو توانائی کے کسی زریعے کی ضرورت ہوتی ہے، ایسا ممکن نہیں کہ کوئی شے خود توانائی بھی خارج کرے، اسے استعمال میں بھی لائے اور چلتے رہنے کے لئے مزید اتنی ہی توانائی بھی پیدا کرتی رہے جو اس کے کام کے لیے ضروری ہے . یہ بالکل ایسا ہے کہ جیسے ہم زندہ رہنے کے لیے خود کو کھانا شروع کر دیں, یعنی ایک بے معنی اور احمقانہ بات. ایک اور اصول یہ ہے کہ جب حرارت کی متقلی کا عمل شروع ہوتا ہے کہ توانائی کو استعمال میں لیا جائے تو مکمل توانائی استعمال میں نہیں آتی ، یعنی توانائی اپنی مقدار نہیں کھوتی مگر اس کا اثر کم ہو جاتا ہے یعنی توانائی کی کچھ مقدار ایسی ہے جو کسی بھی مشین میں استعمال میں نہیں آ سکتی
اب اگر کوئی آپ سے کہے کہ ایک ایسا نظام ہے جو خود ہی توانائی کا ذریعہ بھی ہے اور اس کو استعمال میں لا کر اپنا مطلوبہ کام بھی کر رہا ہے اور ایسا مستقل کرتا جا رہا ہے تو یہ سائنس کے متذکرہ بالا قوانین کے تحت تو ممکن نہیں ہے، اور ایسا نہیں کہ یہ کوئی چھوٹے موٹے قوانین ہیں، ہماری کائنات کے مستقل پھیلتے جانے کی وجوہات ان قوانین کی بنیاد پر بیان کی جاتی ہیں، بلکہ خود کائنات کے آغاز کا مسئلہ بھی ان قوانین سے جڑا ہے, یعنی کبھی نہ کبھی ایک ایسا وقت ضرور رہا ہوگا جب کائنات کی پوری توانائی ایک نقطے پر مرکوز ہوگی اور وہیں سے وجود کا آغاز ہوا ہوگا اور یہ کہ کائنات پھیلتے پھیلتے اپنی توانائی کھو بیٹھے گی.
اب آپ اگر سوچ رہے ہونگے کہ کہاں ایک معمولی سی پانی سے کار کا انجن چلانے کی کٹ اور کہاں کائنات، یہ تو بیچارے موجد کے ساتھ زیادتی ہے. مگر آپ کو بھی تو ایسے موجدوں سے متعلق سوچنا چاہیے جو پوری کائنات کے قوانین کو غلط ثابت کرنے کا جگر رکھتے ہوں یا با الفاظ دگر اتنے سادہ ہوں کہ ان کو پتا ہی نہ ہو کہ معامله کیا ہے ، ایسے دیدہ وروں کے لیے اتنا ہی مشوره ہے کہ آپ اس قوم کو رگڑیں جیسا کے سب رگڑ رہے ہیں مگر اتنا بھی نہ گھسیں کہ برداشت سے باہر ہو. ویسے تو ہمارے رد عمل نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہم میں رگڑے جانے اور گھسے جانے کی بے انتہا صلاحیت موجود ہے مگر قدرت محض ہماری صلاحیت ہی تو نہیں دیکھتی، قدرت کے کئی اور قوانین بھی ہیں اور وہ قوانین کمزور اور ناعاقبت اندیشوں کے لئے ذرہ برابر بھی نرم نہیں پڑتے، دیوار کا لکھا تو سمجھ آنا ہی چاہیے
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں پتا ہوتا ہے کہ کوئی چیز بنانا ممکن ہے مگر اس پر اٹھنے والے اخراجات اگر اس سے ہونے والے فائدے سے زیادہ ہوں تو ایسی ایجاد پر کام کو آگے نہیں بڑھایا جاتا، ایسی لا تعداد مثالیں موجود ہیں کہ امکانات کا جائزہ لے کر محض کاغذی کاروائی کر کے کسی منصوبے کو چھوڑ دیا گیا، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی اہم دریافت یا پیش رفت کی وجہ سے اچانک اگر ہونے والے اخراجات میں کمی آ جاۓ تو پھر کام کا آغاز ہو سکتا ہے. اسی طرح سائنس میں ہونے والی پیش رفت، بلکہ نہ صرف سائنس بلکہ کسی بھی علمی کام پر بحث ہوتی ہے، جب بھی کوئی نظریہ پیش کیا جاتا ہے تو ضروری سمجھا جاتا ہے کہ ماہرین اور اہل علم اس کا جائزہ لیں، بحث کریں، تنقید کریں، تجربے اور علم کی کسوٹی پر پرکھے جانے کے بعد ہی کسی نظریہ کو اثبات کا درجہ ملتا ہے، اور ایجادات کا بھی عموماً یہ قاعدہ ہے کہ ان کو موجد کے نام پر درج کیا جاتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر ایسے ادارے ہیں جو یہ کام کرتے ہیں. یہ سب ہونے کے بعد ہی کوئی ایجاد یا نظریہ عوام تک پنہچتا ہے. ہمارے ہاں شاید ایسا بھی کسی قائدے کے تحت نہیں ہو رہا، نتیجہ یہ کہ ہا ہا کار اور شور شرابے میں اچھے کام کا بھی بیڑا غرق ہو سکتا ہے , مخلص افراد کی دل شکنی بھی ہو سکتی ہے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اچھا کام سامنے ہی نہ آئے اور اہل افراد کو کبھی موقع ہی نہ ملے یا ہمت ہی نہ ہو کہ اپنی بات آگے بڑھا سکیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اعتدال کا راستہ بہتر اور ہنگامے کی نسبت سکون اچھے اور تعمیری مقاصد کے لئے ضروری ہے. ہیرو نہ ایک دن میں پیدا ہوتے ہیں نہ ہی جھاگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں بلکہ وقت کی کسوٹی پر خود کو ثابت کر کے ہمیشہ کے لئے امر ہو جاتے ہیں.
Ha Ha really nice writing