When Bhutto Comes to mind- by Hasan Mujtaba

بھٹو کہاں سے آئے

حسن مجتییٰ

پتہ نہیں کیوں، جب دریاؤں اور آنسوؤں کے بند ٹوٹ جاتے ہیں تو پاکستان کے اکثر لوگوں کو ذوالفقعار علی بھٹو یاد آتے ہیں۔۔۔

انیس سو بہتر کے سُپر سیلابوں میں ماؤ کیپ پہنے فضا سے ہیلی کاپٹروں کے شیشوں سے غم کی تصویر بنے بھٹو، پانیوں میں دور دراز خس و خاشاک ہوتی بستیوں میں انسانوں کو بچانے کے مشن میں خود زمین پر متاثر لوگوں کے درمیاں دن رات موجود بھٹو۔ جیسا کہ سفید لمبے بالوں والا یہ شخص کوئی خواجہ خضر ہو جس کا کام لوگوں کو مصائب و موت سے نکالنا ہو۔ کم از کم انیس سو بہتر کے سپر سیلابوں میں تو بھٹو نے یہی کیا تھا۔

اطالوی صحافی اوریانا فلاسی نے تب انہیں دیکھ کر لکھا تھا: ‘میں نے بھٹو کو سیلابوں کے مارے ہوئے لوگوں کی مصائب پر روتے دیکھا’۔

اور اب جب پاکستان میں سُپر فلڈ آئے ہوئے ہیں جس سے تقریباً دس لاکھ لوگ متاثر ہوئے اور سینکڑوں پانیوں میں تنکوں کی طرح بہہ گئے۔ پختون خواہ میں نوشہرہ سے لے کر بلوچستان میں نوشکی تک اور پنجاب میں لودھراں سے لے کر سندھ تک انسانی دہشت گردی کے مارے ہوئے لوگ اب قدرت کی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ بستیاں کھلونوں کی طرح اور انسان و جانور گھاس کوڑے کی طرح بہتے جا رہے ہیں تو حمکران ‘پتلی گلی’ کی تلاش میں ہیں۔

انہیں خود جان کے لالے پڑے ہیں تو وہ بھٹو کیسے بنیں گے۔ وہ اپنے ارد گرد حفاظتی بند مضبوط کریں یا دریاؤں کے گرد؟ اب بھٹو کا نظریہ نہیں، ‘جان بچاؤ مال بناؤ’ کا اصول چلتا ہے۔

سندھ میں تو حکومت نے کچے کے علاقوں میں پھنسے لوگوں کو نکالنے سے معذرت کرلی کہ لوگ ‘اپنی مدد آپ کے تحت’ خود نکل آئيں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ بچاؤ بند پر گۓ تو پر ایسے کہ ‘کیجو نظارہ دور دور سے’۔

اس ملک کے لیے کیا کہا جا سکتا ہے جہاں زلزلے کے متاثرین کے لیے آنے والے کمبل ‘راجہ بازار’ میں پہلے پہنچ جاتے ہوں۔

Source; BBC Urdu

Comments

comments

Latest Comments
  1. aliarqam
    -
  2. Truth-Seeker
    -