In rejection of politicians and in support of the military generals – by Haroon-ur-Rasheed
جو دل پہ گزرتی رہتی ہے….ناتمام…ہارون الرشید
صوفی نے کہا تھا جو رہنمائی کے منصب پر فائز ہو ، وہ دوسروں کو رعایت دے سکتا ہے ، اپنے آپ کو کبھی نہیں۔
چیخ و پکار کا نہیں، یہ غور و خوض کا وقت ہے۔ دلوں اور دماغوں کے دروازے مگر بند ہیں۔ کان بندہیں، آنکھیں بند ہیں اور صرف زبانیں کھلی ہیں جو زخم لگاتی ہیں۔ ہر واقعے میں ایک سبق ہوتا ہے۔ کسی معاشرے میں حادثے جب قطار اندر قطار ہوں، پے بہ پے بحران تو سبب یہ ہے کہ ملک اور معاشرہ سمت کھو چکا اور دانش سے محروم ہوگیا۔ رک جانا چاہئیے، اس وقت غور کرنا چاہئیے لیکن ہم تو چیخنے چلّانے میں لگے ہیں۔ چیلنج درپیش ہو تو دو طرح کے ردّعمل ہوتے ہیں۔ اوّل یہ کہ رو پیٹ کر، حالات، زمانے یا دوسروں کو موردِ الزام ٹہرا کر آدمی دل کا بوجھ ہلکا کرلے۔ دوسرا یہ کہ مسئلے کی نوعیت کا ادراک کرے اور ناخنِ تدبیر سے گرہ کھولنے کی کوشش کرے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے پہلی راہ اختیار کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔پنجاب اسمبلی کے ہنگامے کا دل پر بہت بوجھ تھا لیکن محترم و مکرّم جسٹس جواد ایس خواجہ کی زبان نے اس سے بڑا زخم لگایا۔ اعجاز الحق کو انہوں نے آمر کا فرزند کہا؛اگرچہ بعد میں حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے معذرت کر لی۔ اصولی طور پر تنازعہ تمام ہوا لیکن دیر تک وہ ضرب المثل یاد آتی رہی : زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ کاری ہوتا ہے۔ ایک مندمل ہو جاتا ہے ، دوسرا کبھی نہیں۔
اللہ کا شکر ہے کہ درباروں سے اس نے دور رکھا ۔ جنرل محمد ضیاء الحق سے کبھی کوئی تعلق نہ تھا ۔
جنرل کی شہادت کے بعد میں اپنے بڑے بھائی میاں محمد یٰسین کے ساتھ تعزیت کے لئے گیا تو اعجاز الحق اور ان کی والدہ محترمہ نے حیرت کا اظہار کیا۔ جنرل صاحب سے ظاہر ہے کہ کئی بار ملاقات ہوئی لیکن الحمد للہ کبھی ذکر تک نہ کیا کہ اس خاندان سے میرا تعلق ہے جسے وہ بہت عزیز رکھتے ہیں۔ اخبار نویس دوست گواہی دیں گے کہ فوجی اقتدار کے ان گیارہ برسوں میں زبان ہی بند نہ رکھی، اشارہ تک نہ کیا۔ کتنے ہی برس فاقہ مستی اور بے روزگاری میں گزار دئیے جب نیشنل پریس ٹرسٹ میں نوکریاں ریوڑیوں کی طرح بٹتی تھیں۔ اپنی ۔۔۔معمولی اخبار نویس کی حیثیت کو عزیزرکھنے کی اللہ نے توفیق دی۔ ایک لفظ کبھی فوجی حکمران کی حمایت میں لکھّا نہیں۔
دانشوروں اور لیڈروں کی روش پہ لیکن حیرت ہوتی ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اس معاشرے کی تمام تر خرابیوں کی ذمہ داری جنرل محمد ضیاء الحق پر عائد ہوتی ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے قصیدہ نگار اب دوسروں کے قصیدہ نگار ہیں کہ جن کا شعار یہ ہو ، اس کا کوئی رشتہ و تعلق نہیں ہوتا۔ فقط ضرورریات ، آرزوئیں اور تمنائیں ہوتی ہیں اور ایک سے دوسری دہلیز کی طرف دھکیلتی رہتی ہیں
ہوسِ لقمہ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی
چوہدریوں میں تو پھر بھی کچھ وضع داری ہے اور شاید بالاخر یہی انہیں بچا لے جائے، شریف خاندان اور جن دوسروں کو جنرل نے پالا پوسا ، جن کی سیاست اور رزق کا تمام تر انحصار اس ایک شخص پررہا ، وہ تاثر دیتے ہیں کہ کبھی کوئی تعلق تھا ہی نہیں۔ احسن اقبال فوجی آمریت کے خلاف گھن گرج کا مظاہرہ کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے اور ابن الوقتی کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے ۔ سیاستدانوں سے لوگ مایوس ہو جاتے ہیں تو فوج کی طرف دیکھتے ہیں ۔ بعض اب بھی دیکھ رہے ہیں۔
با ایں ہمہ فعال طبقات اور عوام کی اکثریت کو ادراک ہو چکا کہ عسکری اقتدار ، وقتی طور پر خواہ کتنی ہی آسانی پیدا کردے، بجائے خود ایک سنگین مسئلہ بن جا تا ہے۔ فوج کو اقتدار میں نہ آنا چاہئے۔ کبھی کسی حال میں نہیں ۔ اگریہ شفا کا نسخہ ہوتا تو دوسری اقوام بھی آزمایا کرتیں۔ عالم انسانیت کا اجتماعی تجربہ یہ کہتاہے کہ کار حکمرانی جنرلوں کے بس کی بات نہیں ۔
ایک سوال البتہ باقی رہتا ہے :کیا یہ تاجروں کا کا م ہے؟ فوجی اقتدار سے بچنے کے لئے کیا ہم زرداری ، شریف اور چوہدری خاندان کو گوارا کر لیں۔ اے این پی، ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمٰن کو؟ کیا ہمیشہ کے لئے ایسے ہی لوگ ہمارے مقدر میں لکھے ہیں جو خلق خدا کو کبھی انصاف نہ دیں گے ، ہمیشہ اس کے راستے میں رکاوٹ بنے رہیں گے۔ نعرے بیچیں گے۔ کھانے ، پینے، پہننے ، اوڑھنے اور خواب دیکھنے کے لئے بھی قوم کو نعرے ہی عطا کریں گے۔
جنرل محمد ضیاء الحق ناکام ہوئے کہ وہ عوامی احساسات کی قوت سے نابلد تھے اورخفیہ منصوبہ بندی کے قائل ۔ دوسرے فوجی حکمران بھی۔ اب اگر قوم اس فیصلے پر قائم رہے کہ کبھی فوج کا اقتدار گوارا نہ کرے گی تو وہ سرخرو ہوگی لیکن ایک دوسری شرط بھی ہے ۔ فریب کار سیاسی رہنماؤں سے بھی اسے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ جمہوری اور آئینی جدوجہد سے ان لوگوں کو گھر کی راہ دکھانا ہوگی، جن میں سے بعض مجرموں کے سرپرست ہیں۔ ناجائز طور پر جنہوں نے اربوں روپے کمائے اور بیرون ملک بھیج دئیے۔ جن کے ادوار میں ملک امن ، آزادی ، انصاف، سیاسی استحکام اور آبرومندی سے محروم رہا۔ کیا صرف اس لئے انہیں گوارا کر لیا جائے کہ وہ فوج کو گالی دیتے ہیں؟ بے شک فوج نے بعض بدترین حکمران ہم پر مسلّط کئے اور بے شک اس کی پس پردہ کارروائیوں نے بہت سی خرابیاں پیدا کیں۔ تجزیہ کرنے والے مگر اندھے کیوں ہو جاتے ہیں۔ وہ سیاست اور تاریخ کے اس سبق سے نابلد کیوں ہیں کہ سیاست میں خلا کبھی باقی نہیں رہتا۔ جب حکمران ٹولہ بدنام اور اس کے نتیجے میں غیر موثر ہوجائے تو کوئی دوسرا اس خلا کو پر کرے گا۔۔۔ حبس آندھی کو دعوت دیتا ہے۔
ایک سوال اور بھی ہے۔ اقتصادی ترقی ہمیشہ عسکری اقتدار میں کیوں ہوئی؟ فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں، جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں ؟ ظاہر ہے، اس لئے کہ قدرے استحکام آجاتا ہے ۔ اگر یہ ادوار نہ آئے ہوتے توملک اقتصادی اور فوجی اعتبار سے کتنا مفلس اور بدحال ہوتا۔ ایک گزارش یہ بھی کہ ذاتی زندگی میں جنرل محمد ضیا ء الحق بہت اجلے تھے، اکثر سیاسی لیڈروں سے بدرجہا بہتر اور افضل۔ سبق یہ نہیں کہ فوجی حکومت اچھی ہوتی ہے ، بلکہ یہ کہ سیاسی رہنماؤں کی اوّلین ترجیح استحکام ہونا چاہئیے۔ حسنِ سلوک، رواداری ، آگہی کی فضا اور قوم کو اعتماد میں لینے کی روش ۔ کیا ہمارے سیاسی لیڈروں نے یہی کیا؟ بالکل برعکس وہ روپیہ بٹورنے اور مخالفین کی زندگیاں عذاب کرنے میں لگے رہے۔ ہاں ذوالفقار علی بھٹو بدعنوان نہ تھے لیکن حریف کیا، حلیفوں پر بھی کوڑے کی طرح برستے رہے۔ زخم لگانے والی زبان۔ کاش ان کے حامی غور کریں کہ صدر زرداری نے ججوں کی بحالی پر ، اگر قوم کو متصادم نہ کردیا ہوتا تو صورتِ حال کتنی مختلف ہوتی۔ اگر وہ دہشت گردی کے خاتمے، امن اور انصاف کے حصول ، مفلسی کے ماروں کی مدد اور استعمار سے نجات کے لئے قومی اتفاق رائے کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے؟ وہ تو مگر استعمار کی گود میں جا کر بیٹھ گئے اور قومی امنگوں کی مزاحمت کرنے لگے۔
طعنہ زنی اور جملہ بازی نہیں، نعرے اور وعدے نہیں، خودترحمی اور کتھارسس نہیں ، غور و فکر کی ضرورت ہے۔ تعصبات سے اوپر اٹھنے اور ایک کم از کم قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ۔ صوفی نے کہا تھا جو رہنمائی کے منصب پر فائز ہو، وہ دوسروں کو رعایت دے سکتا ہے ، اپنے آپ کو کبھی نہیں۔
جو دل پہ گزرتی رہتی ہے، کہتے ہیں غزل کے لہجے میں
پس تحریر: لندن روانہ ہونے سے پہلے نواز شریف نے پوچھا: کیا بڑے پیمانے پر بدعنوانی نہ ہوئی؟ کیا روپیہ بیرون ملک نہ بھیجا گیا۔ جی ہاں ، بالکل ہوئی، بالکل بھیجا گیا اور خود آپ بھی اس”کارِ خیر” میں شامل ہیں۔یا للعجب ،نواز شریف نے یہ سوال اس طرح اٹھایا گویا وہ سیّد منور حسن یا عمران خان ہوں۔
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ
Source: Jang, 10 July 2010