Why is Pakistani media ignoring the situation in the Indian Occupied Kashmir?
پاکستانی اخبارات کشمیر کوّریج کم
ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
کرفیو میں صحافیوں سمیت کسی کو بھی باہر آنے کی اجازت نہیں ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری احتجاج اور اس کے نتیجے میں کرفیو کو کئی روز ہو چکے لیکن آپ اگر آج کے اکثر پاکستانی اخبارات اٹھائیں تو بظاہر ان میں اس صورتحال پر کوئی زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ سب سے زیادہ قابل حیرت بات پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے شائع ہونے والے اخبارات ہیں کیونکہ انہوں نے بھی اس صورتِ حال کو اسی طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔
کلِک پاکستان: کشمیر میں صحافیوں کا احتجاج
سرینگر میں تو جمعرات آٹھ جولائی دو ہزار دس کو شاید پہلی مرتبہ کوئی اخبار شائع ہی نہیں ہو سکا لیکن پاکستان میں جمعرات کو شائع ہونے والے اکثر اخبارات نے سرینگر میں کشیدگی کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی ہے۔
اردو کے بڑے اخبارات میں سے ایک روزنامہ جنگ میں جعلی ڈگریاں اور چین کی جانب سے توانائی کے لیے دس ارب ڈالر کی امداد چھائی ہوئی ہیں۔ یہی حال جنگ گروپ کے انگریزی اخبار دی نیوز اور انگریزی کے ایک بڑے اخبار ڈان کے صفحہ اول کا بھی ہے۔
تاہم ڈان اخبار نے کشمیر کو اداریے کے لیے ضرور چنا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان اور اسلامی تنظیم اوآئی سی کی جانب سے اس کا نوٹس نہ لیا جانا ان کی سفارت کاری کی ناکامی ہے۔
اسلامی صحافت کے معمار ہونے کا دعویٰ کرنے والے اخبار ضرب مومن میں کشمیر کی خبر کو آٹھویں صفحے پر جگہ ملی ہے۔ اردو کے روزنامہ ایکسپریس اور پشاور کے روزنامہ مشرق میں بھی کمشیر سے متعلق خبریں کوئی زیادہ اہم جگہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
پاکستانی اخبارات میں نظر انداز کیا جانا تو قابل بحث بات ہو سکتی ہے لیکن پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دو مقامی اخبارات محاسب اور سیاست کے صفحہ اول پر بھی سرینگر کی خبروں کو جگہ نہیں مل پائی ہے۔ روزانامہ محاسب کے نیوز ایڈیٹر ممتاز ہمدانی سے اس بابت معلوم کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کل انہیں یہ خبر موصول نہیں ہوئی لہذا اس وجہ سے شاید شائع نہیں کر پائے۔ ان کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول کے اس جانب کی خبروں کی اشاعت ان کی ترجیع میں شامل ہوتی ہیں لیکن کل کسی طرح سے وہ شائع نہیں کر پائے ہیں۔
پاکستانی نظریات کی ترجمانی کرنے والا اخبار نوائے وقت وہ واحد اخبار ہے جس کا صفحہ اول سرینگر
کی خبروں سے بھرا پڑا ہے۔ کشمیری احتجاج کی تصاویر اور خبریں دونوں نمایاں تعداد میں موجود ہیں۔
Source: BBC Urdu
Deja vu in Kashmir
Soutik Biswas | 15:33 UK time, Thursday, 8 July 2010
Kashmir is on the boil again. Some 14 civilians, mostly teenagers and young men, have died in clashes with security forces since June. Most of the Muslim-majority valley has either been under a curfew or shut down, and soldiers have staged a flag march in the capital, Srinagar.
The usual, banal recriminations have begun. The governments – federal and state – blame “outside elements”, local separatists and opposition parties for stoking protests. The separatists and opposition parties point to a collapse of governance and failure to respect the pro-freedom sentiments of Kashmir’s people. Analysts say the mess is again a result of the government’s “failure of imagination” in moving forward on this restive region.
The truth may be more prosaic.
Look at the pattern of killings – they are grimly similar. Stone throwing protesters come out in hordes and security forces fire in “self defence.” A young man is killed and more protests follow. A shot is fired again, and another one dies. And so it goes on. Heart rending scenes mark the funerals and pictures of the dead young men evoke chilling responses. “Each passing day,” a Kashmiri girl writes on Facebook reacting to a picture of a blood stained boy killed in the firing, “any hope left dies just inside me, just withers away, just vapourises bit by bit, and when hope dies, nothing remains, nothing.” India cannot afford an alienated Kashmir.
Why are so many young people dying in demonstrations in Kashmir?
Security forces say they are forced to fire because the stone throwing mobs are often unpredictable and violent – one report suggests some 200 policemen and paramilitaries have been injured in the stone throwing in the past month. But stone throwing as a form of protest in Kashmir dates back to the 1930s – the present chief minister’s grandfather led such demonstrations against the region’s rulers. In central Srinagar – some call it Kashmir’s Gaza Strip – the tradition has endured.
Rights groups and many Kashmiri people say that using maximum force to subdue stone throwers is a brutal, exaggerated response. They say that security forces in Kashmir have fought militants for over two decades, and are not trained for civilian crowd control. A Kashmiri friend of mine says, “There are very few places in the world where civilian protests are controlled by men with live ammunition and AK-47s.”
The government has been making noises about raising a special force dealing in modern crowd control techniques – using water cannons, the malodorous and non-lethal “skunk” spray, noise machines, for example – but nothing has happened so far. In Kashmir even tear gas canisters and rubber bullets have killed protesters raising suspicions that security forces are not properly trained to use them.
Heavily armed police and paramilitaries taking on civilian protests can only heighten tensions in a region where sentiments remain fragile, and things can spiral out of control very fast. Surely, many ask, it does not take a lot of imagination to form a special crowd control force for the region.
Kashmir requires delicate handling, but governments appear to botch up whenever the going seems to be relatively good. The 2008 agitation was triggered off when the local government decided to transfer to a Hindu religious trust 100 acres of land, sparking off widespread protests among Muslims – the decision was later rescinded. Last summer the alleged murder of two women by security forces plunged the valley in unrest. This year, it began with the death of a young stone thrower in police firing. Most Kashmiri people I speak to wonder: Why don’t the authorities learn from past mistakes?
http://www.bbc.co.uk/blogs/thereporters/soutikbiswas/2010/07/kashmir_on_the_boil.html
Why is Pakistani media and Pakistan Peoples Party ignoring water-crisis in Sindh? Musharraf and PPP have done worst they could to Sindh.
Share
کشمیر۔ایک مسلسل جدوجہد ….ڈاکٹرملیحہ لودھی
کشمیر کے مسلسل المیے کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ یہاں پر ہونے والے وسیع اور بڑے عوامی احتجاج بہت کم بین الاقوامی توجہ حاصل کر پاتے ہیں اور اس سے بھی کہیں کم پوری دنیا کی حکومتوں کے خدشات یا اندیشوں کا سبب بنتے ہیں۔ بہرحال بے توجہی سے مسائل ختم نہیں ہوتے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں سے وادی کشمیر میں افراتفری کی فضا ہے۔ جس کی وجہ سری نگر میں 11جون کو ہونے والے احتجاجی مظاہرے کے دوران بلا اشتعال فائرنگ کے نتیجے میں سترہ سالہ غیر مسلح نوجوان کی ہلاکت ہے۔ اس احتجاج نے اس وقت شدت اختیار کر لی جب نوجوان احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے ، نیم فوجی ’’سینٹرل ریزرو پولیس فورس‘‘ کیساتھ ہونے والی جھڑپ اور اس کے نتیجے میں پر امن مظاہرین کی ہلاکت نے عوامی غصے میں مزید اضافہ کیا جس کے باعث ہنگاموں نے پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بعد ازاں 6 جولائی کو سری نگر میں ہنگامے کو دبانے کے لئے پولیس اور نیم فوجی دستوں کی کوششوں میں مزید 3 مظاہرین کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا اور بہت سے مظاہرین اس کریک ڈائون میں زخمی بھی ہوئے۔ بعد ازاں کشمیر کے زیادہ تر علاقوں میںکرفیو نافذ کر دیا گیا۔ جس کو یقینی بنانے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں بھارتی فوجیوں کو تعینات کیا گیا لیکن مظاہرین نے ان پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے بھارت کے خلاف اپنے احتجاج کو جاری رکھا جس کے باعث بھارتی فوج احتجاج کو روکنے میں ناکام رہی۔ دریں اثناء دارالحکومت میں فوج کوطلب کر لیا گیا۔ سیکورٹی لاک ڈائون اور ایک ماہ سے بھی مختصر مدت کے دوران 15 سے زائد شہریوں کی ہلاکتوں کے احتجاج میں عام ہڑتال کے اعلان پر کشمیر میں سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئیں۔ شہیدوں کی نماز جنازہ کے موقع پر مساجد، اسپتال، مختلف قصبوں اور گائوں اور عوامی ریلیوں میں بلند ہونے والے آزادی کے نعرے پوری وادی میں گونج رہے تھے۔ اس طرح کے احتجاج پہلے بھی گزشتہ سال اور 2008 میں مزید شدت کے ساتھ وقوع پذیر ہو چکے ہیں۔ بھارت کے خلاف ہونے والے یہ احتجاج نئی دہلی کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں کہ ’’حکومتی الیکشن نے کشمیر کا مسئلہ حل کردیا ہے‘‘۔
مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورت حال میں جاری یہ ہلچل تبدیلی اور تسلسل کے دونوں پہلوئوں کو نمایاں کرتی ہے۔ سب سے پہلا اور اہم پہلو تبدیلی کا یہ ہے کہ ان احتجاجی مظاہروں میں نوجوان سب سے آگے ہوتے ہیں۔ 2008 اور 2009 میں ہونے والے ہنگاموں میں نوجوان ہی شریک تھے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جنگی اور جابرانہ ماحول میں پرورش پانے والی کشمیریوں کی نئی نسل اب مزاحمتی تحریک کی خاکہ بندی کر رہی ہے ۔ کشمیر اب بھی دنیا کا سب سے زیادہ ہتھیاروں سے لیس خطہ ہے۔ وہ نسل جس نے روزانہ کی بنیادوں پر تصرف کی تذلیل کو سہا ہو۔ اب اپنے احتجاج کو ’’ایشیا کے فلسطین میں انتفادہ‘‘ کے نام سے منسوب کرنے لگی ہے۔ 2008 میں اون دھتی رائے لکھتی ہیں ’’مسلح کیمپوں، چیک پوائنٹس اور بنکرز پر پروان چڑھنے والی نئی نسل نے عوامی احتجاج کی طاقت کو جان لیا ہے۔ سیاسی شعور رکھنے والی نوجوان نسل معاشرتی تبدیلی اور احتجاج منعقد کروانے میں بڑھتی ہوئی صلاحیت کی ترجمانی کرتی ہیں۔
2010 میں ہونیوالے احتجاجی مظاہرے 2008 اور 2009 میں ہونے والے مظاہروں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ جہاں کشمیری رہنمائوں نے ان مظاہروں کی نمائندگی کرنے کے برعکس ان کے پیچھے چلنے کو ترجیح دی تھی۔ یہ ایک ایسی حقیقیت ہے جسے آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق ایک سے زائد بار تسلیم کر چکے ہیں۔ دیگر آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنمائوں کی طرح یاسین ملک اکثر خبردار کرتے آئے ہیں کہ اگر نوجوان نسل کو اپنے مطالبات کے جواب میں اطمینان بخش جمہوری حل نہیں ملا تو وہ انتہا پسندی کی جانب مائل ہو سکتے ہیں۔ یاسین ملک خبردار کرتے آئے ہیں کہ نوجوانوں کے درمیان مایوسی جس پر کوئی دھیان نہیں دے رہا، مستقبل میں پرتشدد اظہارکی شکل اختیار کر سکتی ہے) دوسرا عنصر جو تبدیلی کا باعث بنا ہے وہ یہ ہے کہ خودارادیت کی کشمیری جدوجہد میں احتجاج نے ایک نئے مرحلے کو تقویت دی ہے جس کا آغاز 2008 میں منعقد ہونے والے مشہور احتجاج سے ہوا تھا۔ اس امر میں جہاں عسکریت پسندوں کی کارروائیاں زوال پذیر ہو چکی ہیں۔ برسوں پرانی تحریک آزادی خود کو تیزی سے پرامن سول نافرمانی کی تحریک میں تبدیل کر رہی ہے۔ تین برسوں میں ہونے والے عوامی احتجاج نے اس حقیقت کی تصدیق کر دی ہے کہ کشمیری مزاحمت کافی سرعت سے ایک مقبول اور عدم تشدد کی تحریک کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے جس کے سبب بھارتی حکام کیلئے اس تحریک کوبلا جواز قرار دینا مشکل ہو گیا ہے حتیٰ کہ وہ اس شورش کا الزام عسکریت پسندوں یا پاکستان پر بھی نہیں ڈال سکتے۔ جب بھارتی وزیر داخلہ پی چدم برم نے حالیہ شورش کو لشکر طیبہ سے منسوب کرنے کی کوشش کی تو ان کے اس الزام نے بھارت میں بھی بہت کم توجہ حاصل کی۔ میر واعظ نے بھارتی وزیر خارجہ کے اس تبصرے کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ تبصرہ بھاری حکومت کی خود فریبی کی ذینیت کو ظاہر کرتا ہے جو کہ اب بھی حقیقت کو نظر انداز کرنا چاہتی ہے۔ وہ حقائق جو ماضی سے مماثلت ظاہر کرتے ہیں اور جنہیں حالیہ افراتفری سے مزید تقویت ملی ہے بالکل واضح ہیں جس میں نئی دہلی کی مسئلہ کشمیر کو سیاسی طور پر حل کرنے میں زبردست ناکامی کے ساتھ ساتھ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بھارتی حکومت بحران کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہی ہے، بھارتی حکومت نے ایک بار پھر یہ بتا دیا ہے کہ ان کے پاس صرف تشدد ہی کشمیریوں کے مطالبات کا جواب ہے ۔
نئی دہلی کا آئے دن کا شور کہ وہ حریت رہنمائوں سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے حقیقت کے مترادف ہے؟؟ درحقیقت، بھارت اپنی شرائط کے علاوہ نہ تو پاکستان اور نہ ہی کشمیری رہنمائوں سے مذاکرات کرنے پر تیار ہے۔ حالات سے نبٹنے کے لئے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے بھارتی حکومت تشدد کے طریقے پر کاربند ہے تاہم کشمیری منظر نامے کا سب سے اہم عنصر یہ ہے کہ ہمیشہ سے عوامی احتجاج کو روکنے کے لئے ظلم و جبر سے کام لیا جاتا ہے اور کشمیر میں جاری حالیہ جدوجہد کا بھی اسی طرح جواب دیا جا رہا ہے اور طاقت کا بے دریغ استعمال ، کرفیو، کریک ڈائون، گھر گھر تلاشی اور نظر آتے ہی گولی مار دینے کے سبب مزید جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔
بھارتی تصرف کے بعد سے اب تک ظلم و تشدد کے کلچر میں کمی واقع نہیں ہوئی حالانکہ بھارتی حکام کے مطابق 1989 میں شروع ہونے والی بغاوت کے بعد اس وقت عسکری کارروائیاں نہایت محدود ہو گئی ہیں مگر اب بھی بھارتی فوج احتجاج روکنے کیلئے بے دریغ طاقت کا استعمال کرتی ہے جبکہ عوام کے پاس سوائے پتھروں کے اور کوئی ہتھیار نہیں ہوتا۔ بہر حال ’’سی آر پی ایف CRPF کے سربراہ کا یہ کہنا کہ پتھر مارنا بغیر اسلحہ کے ایک نئی دہشت گردی ہے‘‘ ایک بے معنی سی بات لگتی ہے۔ اور جس کا جواب نہ دینا زیادہ مناسب ہے۔ بھارتی فوج کو ’’آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ‘‘ کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ جو گولی مارنے، گرفتار کرنے، وارنٹ کے بغیر سرچ کرنے اور شک کی بنیاد پر قتل کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم جابرانہ حکومت اور استحصال کے اس ماحول کواس وقت تک تبدیلی نہیں کیا جا سکتا جب تک اس حوالے سے کشمیری قائدین کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے جن میں ’’اے ایف ایس پی اے‘‘ کی منسوخی، زبردستی نظر بند کرنا، سرچ اور گھیرائو آپریشن کو ختم کرنا، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی ،ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی پامالی کو بند کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔
اب کشمیری نوجوانوں نے استصواب رائے کے عزم ظاہر کیا ہے اور وہ بھارتی قبضے کو ختم کرنے کے مطالبے میں بھی شدت لائے ہیں دنیا نے اس صورت حال کو انسانی حقوق کی تنظیموں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ بھارتی افواج کی ظالمانہ حکمت عملی پر اپنے خدشات ظاہر کریں۔ تاہم گزشتہ ہفتے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکام سے تمام ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ دریں اثناء پاک بھارت تعلقات پھر سے ایک دوسرے سے گریز کرنے کی سطح پر آگئے ہیں۔ جہاں جنگ اورنہ ہی امن کا کوئی عنصر موجود ہوتا ہے اعتماد کے قیام کا عمل اختلافات حل کرنے کے بجائے ان سب سے بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہا ہے جس کے باعث کشمیری عوام کی ابتر حالت یا ملک میں جاری ہلچل میں کوئی کمی پیدا نہیں ہو رہی ۔ تاہم قیام امن کی کوششوں میں معطلی اور بین الاقوامی بے توجہی، پہلے سے شورش زدہ خطے میں عدم استحکام کے خطرے کو کم کرنے کے برعکس اسکو بڑھانے کا سبب بنے گی۔ یہ حالیہ احتجاج کوئی اتفاقی واقعات نہیں بلکہ یہ عوام کی آزادی حاصل کرنے کی آرزو کی ترجمانی کرتے ہیں۔ حالیہ تاریخ کو صرف شدید خطرے کے عوض ہی نظر انداز کیا جا سکتا ہے دو عشرے پہلے بھارتی حکمرانوں کے خلاف پرامن احتجاج پر یہ ایک ظالمانہ جبر ہے جس نے مزاحمت کو جنم دیا تاہم اگر تاریخ نے خود کو دہرایا تو اس میں ناقابل بیان خطرات موجود ہیں۔
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=449598