A tribute to Syed Ali Hajveri – by Kashif Naseer

First published at: Kashif Naseer ka blog

زکر انکا جو سید علی کی آغوش میں سر رکھ کے سو جاتے تھے

دل کسی غم سے دکھا ہوا ہے، جگرکسی زخم سے چھلنی ہے اور اعصاب کسی سوچ کو سوچ سوچ کر شل ہوچکے ہیں کہ گویا آج میرا پورا وجود کوئی بجھی ہوئی شمع، کوئی توٹے ہوئے آئینے، کوئی رستے کے پتھر یا کوئی جلتے ہوئے انگارے کی مانند سیماب ہے۔ پچھلی شب انسانوں کے ہاتھوں انسانوں کے ایک اورہولناک شکار نے میرے احساسات اور جزبات کواس بری طرح مجروع کیا کہ پوری رات اپنی خواب گاہ میں خیالات کی کھرچیاں چنتا، سوچ کی گھرہوں کو کھولتا اور کسی صحیح نتیجے پر پہنچنے کی کوشش میں اور الجھتا رہا۔

جب بھی انکھیں بند کرتا تو سفید سنگ مرمر کے ٹھنڈے فرش پر نہتے مسلمانوں کا گرم خون میرے سامنے آجاتا اورمیں گھبرا کر اپنی انکھیں کھول لیتا، اسی کشمکش میں کب رات کی تاریکی نے صبح موہوم کی چادر اوڑھی کچھ پتہ ہی نہ چلا۔ والدہ محترمہ کی آواز پر بڑی مشکل سے بستر کو چھوڑ کر اٹھا اور وضو کرکے مسجد پہنچا، امام صاحب سورۃ بقرا کی تلاوت کرہے تھے، دوسری رکعت میں جب وہ “فکاانماقتل الناس جمیعا” اور “ومن اخیا ھا فکاانما احیاالناس” والی آیت پر پہنچے تو رات کی پوری کیفیت نے ایک ساتھ جمع ہوکر دوبارہ حملہ کیا، سو اس بار میں مقابلہ نہ کرسکا اورمیری اداس انکھوں سے بے قابو اشکوں کی لریاں کہاں تک گئی مجھے اندازہ نہیں ہوا ۔ مدتوں پہلے قرآن کریم کی اس آیت نے مجھے اسلام اور جہاد کے صحیح تصورسے آشنا کیا تھا اور آج پھرمیں اس آیت کو اس طرح سن رہا تھا۔ نماز ختم کر کررب کعبہ کے حضور ہاتھ پھیلایا تو جملہ دعاوں کے ساتھ امام صاحب کے روح پرور انداز میں لاہور کے نہتے شہدا کے مغفرت اور انکے اہل خانہ کے لئے صبر ،استقامت اور بھلائی کی دعاوں نے ایک اورسحر باندھ دیا۔

پچھلے چند سالوں میں پشاور کے قصہ خوانی بازار، لاہور کی مون مارکیٹ ، لکی مروت کی والی بال گراونڈ اور چار سدہ کی عید گاہ کے بعد یہ اگیارہویں بارہویں بڑی دہشت گردی کی نان اسٹیٹ کاروائی ہے جس میں بلکل عام اور نہتے شہری نشانہ بنے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ سارے ہی حملے خدکش اور فدائی ثابت ہوئے ہیں۔ شب جمع کو حضرت علی ہجویری کے مزار پر جوکچھ ہوا وہ پچھلے سب حملوں مین سب سے زیادہ بھیانک تھا کہ شہر کے ایک بیچو بیچ ایک بہت بڑے روحانی مرکز کو خون میں نہلا دیا گیا۔ تفرقات کے نام پر کشت و خون تو اورتکلیف دہ امر ہے لیکن علی ہجویری رحمہ اللہ کسی خاص مسلک یا فرقے کے نمائندہ تو نہ تھے ، وہ تو پورے اسلام کے سچے پکے مسلمان بزرگ تھے جو من و مٹی اوڑھے سو رہے ہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق اس کشت و خون میں اب تک 42 نہتے انسان جان کی بازی ہار چکے ہیں اور ان میں سے ناجانے کتنے تھے جو صرف خود ہی نہیں مرے بلکہ انکے ساتھ انکے اچھے بھلے خاندان بھی زندا درگور ہوگئے ہیں ۔ مرنے اور زخمی ہونے والوں میں بڑی تعداد میں ایسے مزدور اور محنت کش بھی شامل ہیں جن کا خاندان لاہور کے نواحی علاقوں میں آباد ہے اور وہ یہاں لاہور میں فکر روزگار میں پڑے تھے۔ دن بھرمحنت مزدوری کرتے ہیں اورشام جو اجرت ملتی جمع کرکے اپنے گھر بھیجوا دیتے۔ ہاں رات لنگر کا کھانا کھا کر علی بابا کے آغوش میں سر رکھ کر بے فکری کی نیند سو جاتے تھے۔ ظالموں نے کچھ کو ہمیشہ کی نیند سلا دیااور کچھ کو ہمیشہ کیلئے لنگڑا لولا اور اپہاج کردیا کہ اب ہمیشہ داتا کے در پڑے بھیک مانگتے رہیں گے۔

حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ سے مجھے خاص انسیت رہی ہے۔ وہ اولیا ء کرام کے سلسلہ میں اعلی درجے کے ایک بزرگ تھے جو افغانستان کے صوبہ غزنی سے اپنے پیرو مرشد شیخ ابولفضل کے حکم پر ہجرت کرکے لاہور آبسے تھے۔ روایت میں آتا ہے کہ جب انہیں شیخ نے لاہور کے کہ تم رخت سفر باندھ لو اور لاہور چلے جاو تو، وہاں پیاس کی شدت سے بھٹکتی خلق تمہاری راہ دیکھ رہی ہے تو فرقت کے تصور سے انکی انکھیں بھر آئیں اور ادب سےعرض کہ حضرت وہاں تو آپکے مرید کام حسن زنجانی پہلے سے موجود ہیں، انکی موجودگی میں میری زات سے لوگوں کو کیا فیض حاصل ہوگا۔ شیخ کے لہجے میں جلال نے انگڑائی لی، تو بولے حضرت فقط جدائی کے خوف سے آزردا ہوں۔ حضرت کے حکم پیادہ نکل پڑے اور دو ماہ میں لاہور پینچے۔ نواح لاہور میں پہنچے تو رات ہو چکی تھی، اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ داروغہ شہر، شہر کا دروازہ بند کرچکا تھا اسلئے رات شہر کے باہر دروازے پر گزاری اور صبح، زرا سورج اٹھا تو شہر میں داخل ہوئے۔ دیکھا کہ ایک ایک بہت بڑا جنازہ چلا آرہا ہے اور لوگ زاری کررہے ہیں، معلوم ہوا کہ قطب القطاب حضرت حسن زنجانی انتقال کرگئے ہیں۔ انکی انکھوں سے آنسوں جاری ہوئے اور یہ احساس بھی کہ وہ اپنے مرشد کی مصلحت کو نہ سمجھ پائے اور آنے تامل کیا۔ یہ وہ دور تھا جب لاہور پر ہندوں نے دوبارا قبضہ کرلیا تھا اور شہر میں مسلمانوں پر زندگی تنگ تھی، لوگوں کو زبردستی ہندو بنایا جارہا تھا اور مسلمانوں کے کشت و خون کا یہ عالم تھا کہ ایک ساتھ 2000 مسلمان قتل کردئے۔ حضرت کے آنے بعد کئی خوشگوار تبدلیاں آئیں۔ انہوں نے تین عشروں سے زاید تک یہاں خلق خدا کو روحانی فیض پہنچایا اور توحید کا علم بلند کیا، انکی کتاب کشف المجوف کومیں نے کئی بار پڑھی اور ہر بار مجھے توحید اور روحانیت کے کسی نئے گوشے سے اگاہی ملی۔ صاحب لاہور کی چکا چوند اور ثقافتی روشنیوں میں علی باباکا مزارمبارک ہی وہ پرسکون مقام تھا جہاں مجھ جیسے کئی بجھے دلوں کو کچھ دیر سستانے کاموقع مل جاتا تھا۔

آج سے کئی برس پہلے جب میں کالج میں تھا تو میرے کچھ دوست قابض آمریکی سامراج کا راستہ روکنے کےلئے افغانستان گئے تھے۔ دو سال پہلے ان میں سے ایک آک واپس آئے توانکی زبانی بہت سی نئی کہانیاں سنی جن میں صوبہ غزنی کے ایک پسماندہ قصبہ میں حضرت علی ہجویری رحمہ اللہ کے والد گرامی حضرت عثمان ہجویری کے مزار پر طالبان کے عقیدت و روحانیت کے واقعات بھی شامل تھے۔ میرے ایک دوست کا دعوا ہے کہ اس نے خود اپنی انکھوں سے ایک طالب کو حضرت عثمان ہجویری کے پہلو میں بیٹھے افغانوں کا قومی گیت گنگناتے، بری طرح روتے ہوئے اور شہادت کی تمنا کرتے ہوئے سنا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ طالبان کون تھے اور یہ مشتبہ طالبان کون ہیں جو داتاکے مزار پر آپھٹے۔

میں اپنے باقی ہم نظریہ ساتھیوں کی طرح اس جھوٹے اور من ڈھرک راگ کو الاپ کر اپنے بے کل دل کو تسلی دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا کہ دہشت گردی کی یہ ساری کم بختیاں انڈیاکی خفیہ ایجنسی را یا بدنام زمانہ آمریکی پرائیوٹ سیکورٹی ایجنسی بلیک واٹر کا شاخسانہ ہے۔ صاحب مجھے اس بات اقرار کرتے ہوئے کوئی خس و پیش نہیں ان دہشت گردیوں کی موجود نان اسٹیٹ کاروائیوں میں سے اکثر میں جہاد اور اسلام کے جزبہ سے سرشار لوگ ہی ملوث ہوتے ہیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ یہ سب کام خلوص نیت سے ثواب و طاعت سمجھ کر کرتے ہیں اور میں یہ بھی نہیں مانتا کہ ان دہشت گردوں کو آمریکی یا انڈین حمایت یا مالی معانت حاصل ہے کہ انکے سخت گیر نظریا ت اور جہالت ہی انکے طرزعمل کے استدلال کے لئے کافی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ را ، موساد ، سی آئی اے دودھ میں دھلے ہوئے ہیں، نہیں صاحب انکا طریقہ وارادات بہت زیادہ مختلف ہے اور اسکا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ آپ طالبان، القاعدہ اور مین اسٹریم جہادی جماعتوں کو کوسنا شروع کردیں۔

مشکل یہ ہے کہ لبرل اور آزاد خیال سوچ رکھنے والے لوگ تمام مذہبی لوگوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں اور جہاد کی بات کرنے والا ہر شخص انہیں ایک ہی سخت گیر سوچ کا شکار نظر آتا ہے، لیکن اگر باریک بینی اور تعصب کی عینک اتار کر معاملے کو دیکھا جائے تو حالات اتنے سادہ نہیں جتنے نظر آرہے ہیں اورصحیح ادراک کے لئے ضروری ہے کہ اس پورے خطہ کی تاریخ،علاقوں کی رویات اور لوگوں کے طرز عمل کی فلاسفی کا تجزیہ غیر متعصبانہ رویہ کے ساتھ کیا جائے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ اور سابقہ حکومت کی آمریکہ نوازی اور جہاد کش پالیسیوں کی وجہ سے سچائی اور جھوٹ میں، حق اور باطل میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا۔ قبائلی علاقوں میں اس وقت اتنی زیادہ قوتیں سرگرم عمل ہیں کہ اس کا صحیح اندازہ خود قبائلیوں اور سچے پکے راست جہادیوں کو بھی نہیں ہے۔ ایک بڑا تنازعیہ9/11 کے بعد پیدا ہوا جب مشرف حکومت نے یکدم قبلہ اور سمت بدلنے کا فیصلہ کیا اوران مین اسٹریم جہادیوں اورمذہبی تنظیموں کے ساتھ جن کے قیام سے لے کرطعام و انتظام کی تمام تر ذمہ داری خود پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں نے اٹھا رکھی تھی کو بری طرح کچلنا شرور کردیا۔

اس پورے دور میں مین اسڑیم کی جہادی جماعتیں جیسے حرکت المجاہدین ، جیش محمد، لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین کو طرح طرح سے اشتعال دلایا گیا لیکن سلام ہے ان تمام تنظیموں کے رہنماوں کو کسی ایک نے بھی پاکستان کو محاز جنگ بننے نہیں دیا اور پچھلے نو سالوں میں مکمل طور پر پرامن اور خاموش ہیں البتہ ایک غلطی جو ان لوگوں سے ہوئی کہ وہ اپنی دوسری اور تیسرے درجے کے کئی جزباتی کارکنوں کوسمجھا بجھا کر اپنے ساتھ نہ رکھ سکے اور بڑی مین اسٹریم جماعتوں سے کئی چھوٹے چھوٹے گروہ اپنی قیادت پر عدم اعتماد کے باعث علیحدہ ہونے لگے۔ علیحدہ ہونے والے ان چھوٹے گروہوں نے حکومت اور سیکورٹی ایجنسیوں کے خلاف اپنے طور پر کاروائیاں شروع کیں۔ سب سے پہلے علیحدہ ہونے والا چھ سات جہادیوں کا ایک چھوٹا سا گروپ حرکت المجاہدین العالمی تھا جو حرکت المجاہدین سے مولانا فضل الرحمن خلیل کو فوج اور آمریکہ کا ایجنٹ قرار دے کر الگ ہو گیا تھا۔ اس گروپ نے سابق صدر پرویز مشرف پر حملے کے علاوہ آمریکی کانسلٹ خانے پر بھی ایک ناکام حملہ کیا تھا۔ اس کے بعد جیش محمد سے علیحدہ ہونے والے اسی طرح کے ایک چھوٹے گروہ نے اپنے طور پر پاکستان نیوی کے سیب میرین پراجیکٹ پر کام کرنے والے فرانسیسی انجینئرز کو نشانہ بنایا تھا۔ ٹوٹ پھوٹ کا یہ سلسلہ تمام بڑی اور مین اسٹریم جہادی قوتوں میں ہوا، کچھ لوگ لشکر جھنگوی جیسی سخت گیرانتہا پسند جماعت کے ساتھ ہولئے اور کچھ چھوٹے چھوٹے گروہ کی شکل میں علیحدہ علیحدہ کام کرنے لگے اور آمریکہ نواز اور مسلم کش حکومتی پالیسیوں سے ایسے چھوٹے چھوٹے جنونی گروہوں کو جو سخت گیر، جزباتی ، قرآن و سنت کی تعلیمات سے یک قلم نابلد اور معاملہ فہمی سے یکسر ناآشنا ہیں کو مزید تقویت اور اکسیجن گیس ملتی گئی۔

بعد میں جب حکومت نے محب وطن قبائلیوں کو آمریکی اشارے پر ناراض کرکے انکے خلاف ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ شروع کیا تو وہاں شروع ہوئی خانہ جنگی اور عدم استحکام نے جہاں ان چھوٹے چھوٹے گروہوں کو ایک آزاد پناہ گاہ فراہم کی وہیں 18جون2004 کو نیک محمد جیسے سلجھے ہوئے معاملا فہم جہادی رہنماء کی ڈرون حملے میں شہادت کے بعد قبائل میں بھی چھوٹے چھوٹے متشدد قبائلی گروہ وجود میں آئے اور خیبر و کرم ایجنسی میں صدیوں پرانی فرقہ واریت کو بھی نئی جلا ملی ۔ یہ پنجابی و قبائلی جہادیوں کے چھوٹے چھوٹے خود مختارخارجی گروہ ابتداء میں صرف سیکورٹی فوسز پر حملے کرتے تھے۔ لیکن لال مسجد آپریشن ، ڈرون حملوں کی حکومتی پشت پناہی، ریاستی دہشت گردی نے اور میڈیا کی آمریکہ نواز خبررسانی نے ان لوگون کے سخت گیر روئے کو اورزیادہ سخت کیا کہ اب یہ سیاسی رہنماوں اور مخالف فرقوں پر بھی حملہ آور ہونے لگے ہیں۔ جہاں لشکر جھنگوی کے مسخروں نے ان میں نفرت کی آگ لگائی وہان بدقسمتی سے پاکستان کے دیگر مسالک اور مکاتب فکر کے چیدہ چیدہ لوگ جیسے، فضل کریم، ثروت اعجاز و دیگرکی فائدہ اٹھاو پالیسی اس طرز عمل نے جلتی پر تیل کا کام دیا اور پہلے سے فرقہ واریت کی نفرت میں جلتے ، جزبات کے انگاروں پر لوٹتے، جہالت کی کال کوٹھریوں میں ناچتے ان چھوٹے چھوٹے خارجی گروپوں نے اپنے تئے اپنے مخالفین کو مزا چکھا نے کا سلسلہ شروع کردیا۔

ہم سازشی نظریوں میں خود الجھا کر اگر وقت بربا د کرنے کے بجائے مسائل کو سنجیدہ اور حقیقی بنیادوں پر حل کرنا چاہیں تو یہ اتنا مشکل کام نہیں ہوگا۔ حکومت اور لبرل حلقہ جو تمام جہادیوں کو ایک ہی چھری سے ہانکتا ہے اگر اچھے جہادیوں اور مٹھی بھر برے خارجی جہادیوں کے درمیان تمیز کریں ۔ حکومت اور سیکورٹی ایجنسیاں ملکی مفاد مین اسٹریم جہادی جماعتوں کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لائیں، آمریکہ نوازی اور اسلام کش پالیسیاں ترک کرےں، تمام ترریاستی دہشت گردی بند کی جائیں۔ بریلوی اور اہل تشیع مکاتب فکر کے کچھ لوگ جو پوری صورت حال کو دیوبندی مکتبہ فکر کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور ریاستی دہشت گردی کی حمایت کررہے ہیں۔ وہ بھی بعض آجائیں اور قبائلی مجاہدین اورغیرملکی مہمان مجاہدین کے کچھ اصولی اور جائز مطالبات تسلیم کرلئے جائیں تو پھر جہالت کی کال کوڑھیوں میں بند ان چھوٹے چھوٹے خارجی گروہوں کی دہشت گردیوں کو لگام دینا اور انہیں دودہ سے مکھی کی طرح علیحدہ کرکے سبق سیکھانا بہت آسان ہوجائیگا۔ دوسری صورت میں یہ خارجی گروہ کینسر کی طرح پورے ملک میں پھیل جائے گیں۔ آپ ایک جگہ اگر کسی پورے کے پورے گروہ کو پکڑکر بے نقاب کربھی لیں تو دوسری جگہ ایک بلکل نیا اور مختلف گروپ ایک بلکل نئے انداز میں حملہ آور ہوگا۔

میرے خیال میں کچھ ذمہ داریاں البتہ جید علماء پر بھی عائد ہوتی ہیں جو دنیا اور حال دنیا سے بے نیاز اپنے اپنے ہجروں میں تقوا و زہد کا چلا کاٹ رہیں۔ حضرات کرام بہت ادب و احترم سے کے ساتھ التجا ہے کہ باہر آئیں، آگے بڑھیں اور اس ملک میں ایک پرامن انقلابی تحریک کی بنیاد رکھیں کہ تشدد ختم ہو اور تمام مزاحمت کاروں کو بہتر اور ٹھیک ٹھیک سیراۃ مستقیم نظر آئے۔ مین اسٹریم جہادیوں جماعتوں کی بھی اس موقع پر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سب ساتھ ملکر ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر کے خلاف اپنی پوزیشن واضع کریں اور شدت پسندی کی مذمت کریں، جب کہ قبائل میں سرگرم ناراض قبائل کے بڑے بڑے نامی گرامی گروپس پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افغان طالبان کی طرز پر اپنا ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دیں جس پر سختی سے عمل کیا جائے اور نہتے شہریوںپر چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، منافق ہوں یا مرتد ، زانی ہویا شرابی حملوں کو یک قلم ناجائز اور ناقابل قبول قرار دیں۔یہ ان لوگوں کی ذمہ داری اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اللہ کے دربار میں پیشی کے وقت بھی جواب دہ ہوگے اور اس دنیا میں بھی خوار اور بدنام۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Farhan Q
    -
  2. Aamir Mughal
    -
  3. Aamir Mughal
    -
  4. Aamir Mughal
    -
  5. Aamir Mughal
    -
  6. Aamir Mughal
    -
  7. Zul-Jinnah
    -
  8. Aamir Mughal
    -
  9. Aamir Mughal
    -
  10. Aamir Mughal
    -
  11. Aamir Mughal
    -
  12. کاشف نصیر
    -
  13. Sarah Khan
    -
  14. کاشف نصیر
    -
  15. Sarah Khan
    -
  16. Aamir Mughal
    -
  17. Aamir Mughal
    -
  18. Aamir Mughal
    -
  19. Aamir Mughal
    -
  20. کاشف نصیر
    -
  21. کاشف نصیر
    -
  22. Aamir Mughal
    -
  23. کاشف نصیر
    -
  24. Aamir Mughal
    -
  25. Zul-Jinnah
    -
  26. Aamir Mughal
    -
  27. Ali Arqam Durrani
    -
  28. Emrun
    -
  29. Zul-Jinnah
    -
  30. Aamir Mughal
    -
  31. Aamir Mughal
    -
  32. Aamir Mughal
    -
  33. Aamir Mughal
    -
  34. Aamir Mughal
    -
  35. Aamir Mughal
    -
  36. Oops
    -
  37. Imran
    -
  38. Aamir Mughal
    -
  39. کاشف نصیر
    -
  40. Justine Amano
    -