NRO, drone attacks, Rehman Malik’s pardon and guard of honour – by Khalid Wasti

این آراو ، ڈرون حملے ، رحمان ملک کی معافی اور گارڈ آف آنر

دیگر بے شمار بدقسمتیوں میں سے ہماری ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہم اپنے طرز عمل کی بدولت مجموعی طور پر ایک سچی اور دیانتدار قوم کہلانے کے مستحق نہیں ہیں – انفرادی طور پر یقیناً قابل رشک شخصیات بھی موجود ہیں لیکن ان کی مثالیں خال خال ہیں – بے شمار لوگ ایسے ہیں کہ رات دن غلط بیانیاں کر کر کے جھوٹ بولنا ان کی عادت ثانیہ بن چکا ہےاور بعض مقامات تو ایسے بھی آتے ہیں جہاں پروہ اپنی اس عادت سے مجبور ہو نے کے باعث جھوٹ بول کر نقصان اٹھا لیتے ہیں حالانکہ اس مقام پر وہ سچ بول کر فائدہ حاصل کر سکتے تھے –

اس پس منظر میں حکمرانوں اور سیاسی اکابرین سے متعلق چار واقعات پر غور کیجیئے – اللہ بہتر جانتا ہے کہ میرے زاویہ ء نگاہ میں کس قدر سچائی ہے لیکن یہ تو بہرحال طے ہے کہ سرکاری سطح پر ان معاملات کی جو توجیہات بھی پیش کی گئیں ، عوام ان سے مطمئن بھی نہیں ہوئے اور انہیں خلاف حقیقت بھی سمجھا


پہلا واقعہ این آر او کا ہے – بے نظیر اور نواز شریف دونوں مل کر بھی اتنے طاقتور نہیں تھے کہ ایک حاضرسروس جرنیل کو بزور بازو اقتدار سے الگ کر دیتے –  اقتدار سے الگ کرنا تو کجا یہ تو اپنے ملک میں قدم نہیں رکھ سکتے تھے -” مرد آہن” نواز شریف نے اپنی سی کوشش کر دیکھی لیکن ” شیر پنجاب” طیارے سے باہر نہیں نکل سکے اور انہیں اسلام آباد ایئر پورٹ سے ہی اپنے سعودی میزبانوں کے پاس واپس جانا پڑنا – بے نظیر نے گفت و شنید کے ذریعے ایک ایسی فضا تیار کی کہ نہ صرف ان کا پاکستان آنا ممکن ہوا بلکہ نواز شریف کے لیئے بھی ملک واپسی کا راستہ ہموار ہو گیا اور اس بار انہیں ایئر پورٹ سے واپس نہیں جانا پڑا – اس بار ان کے ساتھ توپ وتفنگ ، ٹینک شکن میزائل اور ایٹم بم تو نہیں تھے کہ افواج پاکستان کا سربراہ ان سے خوفزدہ ہو گیا تھا بلکہ یہ مشرف بےنظیر مذاکرات ہی کا نتیجہ تھا کہ دونوں پاپولر لیڈروں کی وطن واپسی ممکن ہوسکی

پھر اس کے بعد جس طرح ایک فوجی آمر کی رخصتی ہوئی اور سول ادارے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے جس عمل سے گزر رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے –  یہ ہے این آر او کی کہانی جس میں مشرف اپنی مار پر تھا کہ بے نظیر اور نواز شریف کے بغیر الیکشن کروا کے ق لیگ کی “مستحکم”حکومت بنوا کر آئیندہ پانچ سال کے لیئے بے فکری حاصل کی جائے اور بے نظیر اپنا سیاسی حربہ استعمال کر رہی تھی  کہ کسی طرح ایک بار رنگ کے اندر داخل ہونا ممکن ہو سکے  اور مشرف کے جن کی جان وردی کے جس طوطے میں ہے اسے کیسے قابو کیا جائے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ بے نظیر اپنی جان کا نذرانہ تو دے گئی لیکن اس کے ساتھ ہی اپنی قوم کو ایک فوجی آمر سے چھٹکارا دلا کر جمہوریت کے راستے پر ڈال گئی


دوسرا ایشو ڈرون حملوں کا ہے – ڈرون حملےامریکہ القاعدہ کے خلاف پاکستان کی رضا مندی سے کر رہا ہے –  پاکستان کی رضامندی اس لیئے کہ القاعدہ سے امریکہ اور پاکستان دونوں کو خطرہ ہے – امریکہ کے وسائل انتہائی وسیع ہیں اور پاکستان کو محض زندہ رہنے کے لیئے  بھی غیر ملکوں سے مالی امداد کی ضرورت ہے – پاکستان کی اتنی استطاعت نہیں کہ وہ ایک مہینہ تو کجا ، ایک ہفتے کی جنگ کے اخراجات ہی برداشت کر سکے – القاعدہ کے لوگ بھاگ کر مقامی قبائلیوں کے پاس پناہ لیتے ہیں – مقامی آبادیاں ان سے نظریاتی ہم آہنگی رکھتی ہیں ، مالی مفادات حاصل کرتی ہیں ، خوف زدہ ہیں یا اپنی قبائلی روایات کو نباہتے ہو ئے مہمان نوازی کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں ، یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ڈرون حملوں میں یہ بے گناہ بھی مارے جارہے ہیں

اس کہانی کو وہ لوگ بھی بخوبی سمجھتے ہیں جو اسلام آباد ، لاہور اور کراچی میں بیٹھ کر ڈھول پیٹے ہیں ورنہ مخلص ہوتے تو ان بے گناہوں کو جاکر سمجھاتے کہ گنہگاروں کو پناہ مت دو ورنہ ہو سکتا ہے کہ ان کے ساتھ تم بھی مارے جاؤ – ڈرون حملوں کی حمایت کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ اس میں پاکستان کے اندر تخریب کاری اور دہشت گردی کرنے والوں کو ختم کیا جا رہا ہے – ان حملوں میں بے گناہوں کے مارے جانے کا پاکستان کو ہی ا فسوس نہیں بلکہ امریکہ کو بھی اس میں کچھ فائدہ نہیں نہ ہی یہ بے گناہ اس کا ہدف ہوتے ہیں لیکن یہ گنہگاروں کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ انہیں شیلڈ کے طور پر استعمال کریں


تیسرا مسئلہ رحمان ملک کی معافی کا ہے – کچھ لوگوں کی خواہش اور سازش تھی کہ رحمان ملک کو ایک دفعہ ہتھکڑی لگوا کر اپنی حیوانی جبلت کی تسکین کی جائے اور حکومت کے لیئے سبکی کا ماحول پیدا کیا جائے- اس کی تصدیق کرنےکے لیئے ڈاکٹر شاہد مسعود کے جیو ٹی وی سے نشر ہونے والے”میرے مطابق ” سیریز کے متعدد پروگرام دیکھے جاسکتے ہیں – عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ لاہور ہائیکورٹ نے رحمان ملک کو غیر حاضری میں ملنے والی سزا بحال کی

مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ چار سال کی جیل کاٹےکیونکہ ہائیکورٹ کے اس فیصلے میں جان تو تھی ہی نہیں اور سپریم کورٹ میں اپیل کی پہلی پیشی پر ہی رحمان ملک نے بری ہو جانا تھا – مقصد یہ تھا کہ وہ فیصلہ سننے کے لیئے جب ہائیکورٹ میں آئے تو اسے وہیں پر  ہتھکڑی لگا کر گرفتار کر لیا جائے –  جیسا کہ نواز شریف نے پنجاب کی وزارت اعلی کے دوران ہمایوں اختر کی فیکٹری پر چھاپہ مارنے والے ایف آئی اے کے افسروں کو گرفتار کر لیا تھا – رحمان ملک اس کھیل کو سمجھ رہا تھا اس لیئے وہ ہائی کورٹ میں پیش ہی نہیں ہوا – اب اندیشہ اس بات کا تھا کہ جب وہ ضمانت کے لیئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے جائے تو ایسا نہ ہو کہ اسے رستے میں ہی گرفتار کر کے ہتھکڑی لگا دی جائے – اس سازش کا یہی توڑ تھا کہ صدر اپنے آئینی اختیارات استعمال کرکے اس کی سزا معاف کر دے اور اس کا مقصد صرف اسی قدر تھا کہ رحمان ملک کو سپریم کورٹ تک جانے کا محفوظ راستہ دیا جائے – چنانچہ بعد کے واقعات سے تصدیق ہو گئی جب رحمان ملک نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی


چوتھا مسئلہ یہ الزام ہے کہ پیپلز پارٹی نے پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر ملک سے رخصت کیا – سچی بات یہ ہے کہ پرویز مشرف نے ایک معاہدے اور انڈرسٹینڈنگ کی بنیاد پر اقتدار چھوڑا تھا جس کی گارنٹی پاک فوج اور برادر اسلامی ملکوں نے دی تھی اور نواز شریف اس تمام پیش رفت سے بخوبی آگاہ تھے کہ پرویز مشرف کو کس حکمت عملی کے تحت نکالا جا رہا ہے – گارڈ آف آنر پارلیمینٹ نے نہیں بلکہ فوج نے دیا تھا اور اس لیئے دیا تھا کہ فوج چاہتی تھی کہ اس کے ایک سابقہ سربراہ کو عزت اور وقار سے رخصت کیا جائے – چنانچہ ایسا ہی ہوا  مسلم لیگ گارڈ آف آنر والے دن مستعفی کیوں نہیں ہوگئی تھی ؟

کم از کم بطور احتجاج کابینہ سے ہی علیحدہ ہو جاتے یا اسمبلی کے اندر اس کی مذمت کی قرار داد ہی پیش کر دیتے – یہی آرٹیکل چھ کا سکینڈل ہے – مسلم لیگ قطعاً یہ قرار داد اسمبلی میں پیش نہیں کرے گی کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بلیک میلنگ اور عوام کوبھڑکانے کی خاطر یہ شور بھی مچاتی رہے گی کہ حکومت مشرف کے خلاف کاروائی نہیں کر رہی – آپ نے قراردار ہی پیش کی ہوتی جس کی بنیاد پر کم از کم یہ تو کہہ سکتے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا اب کاروائی کی ذمہ دار حکومت ہے – لیکن مسلم لیگ ایسا کبھی نہیں کرے گی کیونکہ اسے معلوم ہے کہ کیانی کی بغل میں بھی و ہی چھڑی ہے جو وحید کاکڑ کے ہاتھوں میں تھی جو اس نے ایوان صدر میں غلام اسحاق خان اور نواز شریف دونوں کی موجودگی میں بغل سے نکال کر دائیں ہاتھ میں پکڑی تھی اور ایوان صدر کے فرش پر بچھے قالین کو نہایت آہستگی کے ساتھ بس  دو دفعہ چھوا — — اور دونوں کو جانا پڑا

درج بالا معروضات کا مقصد معاشرے کے ہر فرد سے عموماً اور ارباب بسط و کشاد سے خصوصاً یہ درخوست کرنا ہے کہ جب آپ خلاف واقعہ کوئی توجیہ یا تاویل پیش کرتے ہیں تو کیا پاکستان کے اٹھارہ کروڑ کے اٹھارہ کروڑ عوام مطمئن ہو جاتے ہیں ؟ نہیں اور قطعاً نہیں – تو پھر آپ سچ جیسا کہ ہے ویسا ہی کیوں بیان نہیں کرتے – آزمائش کے طور پر کر کے تو دیکھیئے ، اس خواہش کے ساتھ کہ یقیناً اس سے بہتر اثرات نکلیں گے

Comments

comments