A tribute to the rickshaw driver’s family – by Haroon-ur-Rashid

This post is a tribute to a family of six who consumed poisonous pills in a suicide attempt in Shahpur Kanjra, Lahore, in order to escape poverty. This tragic event took place a few days ago (on 15 June 2010).

Forty-year-old Muhammad Akbar Shah and three of his daughters died after consuming the poison. His wife and son survived the suicide attempt.

Akbar, a rickshaw driver, had been living with his family and his brother, Amjad Shah, in a two-room house in Shahpur Kanjra village for the past two years. Amjad told the police that Akbar was constantly stressed about his financial situation as he was the family’s sole breadwinner. Amjad said his brothers daily earnings had been decreasing daily, and the family lived on the brink of poverty. According to Amjad, Akbar fought with his family on Wednesday about financial issues and fled his home, only to return a while later with some pills. He dissolved the pills in water and gave the mixture to his family, consuming some himself. (Source)

Today, veteran columnist Haroon-ur-Rashid has written a touching column in Jang very rightly highlighting that a culture of justice, good governance and integrity can help Pakistan effectively fight the menace of poverty.

جب آخری کرن مر جاتی ہے….ناتمام…ہارون الرشید

بھوک خود کشی پرآمادہ کرنے والی صرف ایک بلا ہے ۔ اس سے زیادہ ناانصافی اور بے بسی کا احساس۔عام آدمی جب حکمرانوں، لیڈروں، دانشوروں اور علماء کو بے حس پاتا ہے ۔جب روح بلکنے لگتی ہے ۔جب کہیں سے مدد ملنے کی کوئی امید نہیں رہتی۔جب آخری کرن مر جاتی ہے۔

جرائم کے فروغ، شدید عوامی ناراضی اور خود کشیوں کا تعلق محض وسائل کی فراوانی اور کمی سے نہیں ہوتا ۔ اندازِ حکمرانی اور کرپشن کے ساتھ ، عوامی امنگوں کی شکست و ریخت کے علاوہ عقائد اور رجحانات کے ساتھ بھی ، جن کی جڑیں تاریخ میں ہوتی ہیں،جوحکمرانوں، سیاستدانوں، دانشوروں اور علماء کی پیروی میں بتدریج پروان چڑھتے ہیں۔ عربوں کا محاورہ یہ ہے: الناس علیٰ دین ملوکہم(عام لوگ بادشاہوں کی روش پر ہوتے ہیں)۔

سوڈان ایسے غریب ملک میں اس بڑے پیمانے پر خود کشی کے اتنے بہت سے واقعات کیوں نہیں ہوتے، جہاں غربت پاکستان سے زیادہ ہے ۔ سرحدوں پر غیر مسلم باغی قبائل اور حکومت کے درمیان جنگ برپا ہے ۔جو دنیا کے پانچ سب سے زیادہ غیر مستحکم ممالک کی فہرست میں شامل ہے اور جسے امریکہ کے شدید دباؤ کا بھی سامنا ہے ۔ کیا اس لیے کہ وہاں آصف علی زرداری، اسفند یار ولی خان ، یوسف رضا گیلانی ، مجّو سائیں، نواز شریف اور سلمان تاثیر ایسے لیڈر نہیں پائے جاتے؟ یا اس لیے کہ وہاں احسن اقبال قسم کے ہمنوا نہیں ہوتے ، کل جنہوں نے یہ حیران کن دعویٰ کیا کہ اگر 1999ء میں نواز شریف کی حکومت برقرار رہتی اور ان کے وژن 2010پر عمل ہوتا تو غربت ختم ہو چکی ہوتی۔ کیا نواز شریف کے دوسرے دورِ حکمرانی میں خود کشیوں کی ایسی ہی لہر نہ اٹھی تھی؟ کیا ایسی ہی المناک بدعنوانی اور مہنگائی نہ تھی؟

اکتوبر 1999ء کے اوائل میں ، میں نے خرطوم کا قصد کیا۔ طارق پیر زادہ نے جو اب اسلام آباد کے کمشنر ہیں ، یہ کہا تھا: اڑھائی کروڑ کی آبادی میں قتل کے صرف دو مقدمات ہیں۔ یقین ہی نہ آتا تھا ۔ سرکاری طور پر وہ مطالعاتی دورے سے لوٹے تھے اور کوئی دلیل نہ تھی کہ ان کی شہادت مسترد کر دی جائے۔

ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد تھا؛اگرچہ میں مدعو نہ تھا مگر کچھ دوستوں نے کہا کہ وہ روابط رکھتے ہیں اور اگر کسی طرح میں وہاں جا پہنچوں تو شریک ہونا ممکن ہوگا۔ ویزہ بہت مشکل سے ملا کہ تیسری دنیا کے ممالک میں اخبار نویسوں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔ جدّہ میں ، جہاں عمرے کے لیے رکا تھا، میں نے اپنے بھائی سے 500ڈالر قرض لئے اور نہیں جانتا تھا کہ دس بارہ دن کا یہ امتحان کس طرح طے ہو گا۔ گھبراہٹ کا عالم یہ تھا کہ پاسپورٹ اور بٹوہ کرنسی تبدیل کرنے والے کاؤنٹر پر چھوڑ گیا۔ ٹیکسیوں کی قطار کے سامنے حیران کھڑا تھا جب کسی نے میرا کندھا تھپتھپایا ۔ میرا پاسپورٹ میرے حوالے کیا “Welcome to Sudan”اس نے اپنائیت اور مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ دوسری بار وہ میرا بٹوہ اور تیسری بار قلم لے کر آیا۔ سوڈان کے ساتھ یہ میرا پہلا تعارف تھا ۔ طیارے میں سوار ایک مردِ شریف نے مجھے ایک ہوٹل کے بارے میں بتایا تھا، جہاں اس کا بھائی برسر کار تھا ۔ اس ہوٹل میں کوئی کمرہ خالی نہ تھا۔ بالاخر میں ملتان کے فرسودہ ہوٹلوں ایسے ایک کمرے میں جا پہنچا،ایک کہنہ سے کولر سے آراستہ۔۔۔ کرایہ البتہ صرف آٹھ ڈالر یومیہ۔

اگلے چند دنوں میں ، میں اپنی زندگی کے حیران کن تجربات سے گزرا۔ “سرکاری لوگ سرد مہر ہیں” میں نے سوچا “تو سرد مہر ہی سہی” میں عام لوگوں سے ملوں گا۔ سڑکوں ، بازاروں اور مارکیٹوں میں مٹر گشت کروں گا۔ اپنی شامیں دریائے نیل کے ساحل پر بتاؤں گا ، انگریزی اخبارات پڑھوں گا ، شہر میں پاکستانیوں کو تلاش کروں گا اور یہ سمجھنے کی کوشش کروں گا کہ زندگی یہاں کیسی ہے اور طرزِ احساس، ہم پاکستانیوں اور مغربیوں سے کتنامختلف۔

اجرتیں پاکستان سے آدھی تھیں اور قیمتیں لگ بھگ دو گنا۔اس کے باوجودجرائم، ہیجان اور نہ خودکشیاں۔ خاندان کے تمام افراد کولہو کے بیل کی طرح جتے رہتے۔ افلاس کا یہ عالم کہ دو وفاقی وزراء جزوقتی ملازم۔ عالمی شہرت یافتہ سکالر ، غیر معمولی اختیارات رکھنے والے سپیکر کا پختہ مکان ایک کچّی گلی میں واقع تھا ۔ صدر جنرل عمر البشیر کا مکان دیکھنے کی فرمائش کی توجواب ملا: ایسا ہی ایک دوسرا گھر ہے”پھرکنارِ نیل وہ محل کس کا ہے؟”بتایا گیا کہ صدر کا دفتر ہے ، کبھی قصرِ صدارت تھا۔یہ بھی کہ عمر البشیر کی اہلیہ ہمیشہ کار نہیں ، گاہے بس میں بھی سفر کرتی ہیں۔ دس ڈالر روزانہ پر ایک کے بعد دوسرے گائیڈ کا بندوبست کیا مگر دونوں نے اجرت قبول کرنے سے انکار کردیاکہ انہوں نے میرے ساتھ کھانا کھایا اور چائے پی ہے۔ ایک گائیڈ ہوٹل کی ڈیوڑھی میں کھڑا روتا رہا۔ اس کے چچا زاد نے جو یونیورسٹی کا طالب علم تھا ، میرا پہلا گائیڈ اور اسی ہوٹل کا ویٹر ، مجھے بتایا کہ ابراہیم کی والدہ نے اسے برا بھلا کہا اور روپے لوٹانے کا حکم دیا ہے کہ مہمان سے معاوضہ نہیں لیا جاتا۔

نماز کا وقت ہوا تو ہوٹل میں اذان کی آواز گونجی ۔ تیسری منزل کے صحن میں پنجاب کی کسی دیہاتی مسجد ایسی ٹونٹیاں نصب تھیں اور ویسی ہی صفیں۔ مالکی فقہ کے ماننے والے رکوع کے بعد طویل دعا پڑھتے ہیں۔ امامت مجھے زیبا تھی اور نہ کوئی تجربہ لیکن چونکہ میرے بال زیادہ سفید تھے؛چنانچہ دھکیل کرانہوں نے مجھے مصلّے پرکھڑا کردیا۔ ہوٹل کے عملے میں ساٹھ فیصد کے لگ بھگ خواتین تھیں۔ مسافر بھوک کا بہت کچّا تھا۔ پینے کا پانی بہت ٹھنڈا ہونا چاہئیے اور اگر بوتل بند نہیں تو ابلا ہوا۔ خرطوم کا پیہم پسینہ بہانے والا حبس اور بھی پریشان کرتا۔ لڑکے اور لڑکیاں خوش دلی سے ہنستے اور ان میں سے کوئی انگریزی یا عربی میں اکثر یہ کہتا “شیخ عجلت پسند بہت ہیں”ہر گزرتے دن کے ساتھ لیکن ان کا روّیہ زیادہ خوشگوار ہوتا گیا۔ ایک پاکستانی طالب علم شام کو کسی دوست کی گاڑی مانگ لاتا وگرنہ اکثر میں بس یا رکشا میں سفر کرتا، کبھی کبھار ٹیکسی میں ۔ پورے شہر میں صرف ایک خاتون کو چہرے پر نقاب پہنے دیکھا لیکن سبھی کا لباس نہایت باوقار اور گہرے گندمی چہرے ایرانیوں کی طرح کھلے ہوئے۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے خواتین کو لفٹ مانگتے دیکھا، یارب ایسی شائستگی، اس قدر احساسِ تحفظ؟ بتایا گیا کہ سوڈان کی افواج میں خواتین کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔

شب گیارہ بجے شہر میں یکایک خاموشی چھا جاتی اور کلبوں میں ٹیپ ریکارڈر بند کر دئیے جاتے جہاں لوگ قہوہ اور خوشبودار شیشہ پینے جاتے۔سڈول پیکر، سادہ لباس، چہروں پر نجابت اور لہجوں میں نرمی ۔ گفتگو میں اپنائیت اور بے ساختگی۔ آخری دن ایک وفاقی وزیر سے ملاقات ہوئی ۔ پہلے اس نے گرم پانی کو فوراً اور ٹھنڈے پانی کو گھنٹہ بھر میں آتشیں سرخ رنگ عطا کرنے والی “کرکدے”سے میرے لیے شربت بنایا اور پھر چائے، مغرب میں جسے
“Red Arabian Tea”
کہا جاتاہے ۔ پھرا س نے پوچھا : ہمارے لوگوں کو آپ نے کیسا پایا؟ “سادہ، سچّے اور اکثر بہت کاہل”میں نے جواب دیا۔ طویل قامت آدمی ہنسا اور اس نے تصدیق کی۔ کاہلی اور لاتعلقی جبر اور استعمار کا ورثہ ہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ ملک صدیوں اس کاشکار رہا۔

سوڈان میں جرائم اتنے کم کیوں ہیں اور خود کشی کے واقعات کیوں نہیں ہوتے؟ واپس پہنچ کر میں نے جرم و سزا کے ماہرین سے طویل بحثیں کیں کہ جرم اور غربت کا باہمی رشتہ کیا ہے۔ میں کم علم کچھ زیادہ نہ سیکھ سکا لیکن اتنی سی بات کہ بھوک صرف ایک بلا ہے ۔ اس سے زیادہ ناانصافی اور بے بسی کا احساس۔عام آدمی جب حکمرانوں، رہنماؤں، دانشوروں اور علماء کو بے حس پاتا ہے ۔ جب آدم زاد کی روح بلکنے لگتی ہے اور کہیں سے مدد ملنے کی کوئی امید نہیں رہتی۔ روشنی کی آخری کرن جب مر جاتی ہے۔ جب کوئی چارہ ساز اور غمگسار نہیں ہوتا۔تب بے بس اور لاچار آدمی سب سے بڑا احتجاج کرتا ہے ۔ وہ خود کو مار ڈالتا ہے اور حتیٰ کہ اپنی اولاد کو بھی ،آدمی کو جس سے زیادہ کبھی کوئی عزیز نہ تھا۔ کوئی جائے اور جا کر یہ بات سیاسی لیڈروں کو بتائے ، کرپشن سے توبہ کرنے کی بجائے جو ہمیشہ اس کے لیے جواز پیش کیا کرتے ہیں۔رک جاؤ، خدا کے لیے اب تو رک جاؤ۔

Source: Jang, 18 June 2010

Comments

comments

Latest Comments
  1. Farhan Q
    -
  2. anjum
    -
  3. Farhad Ahmed Jarral
    -
  4. Abdul Nishapuri
    -
  5. Hajra Ahmed
    -