Who will ask the negotiators and designers of NRO?
ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی، کرپشن کے خاتمہ، اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیۓ جب بھی احتساب کا عمل شروع کیا جاتا ہے، تو اس کا دائرہ پیپیلز پارٹی تک محدود رہتا ہے۔ اور عموما” فوجی ڈکٹیٹر اور ان کے پسندیدہ سیاسی مہرے احتساب سے محفوظ رہتے ہیں۔
این آر او سے مستفید ہونے والوں کی تعداد آٹھ ہزار سے زائد کی ہے۔ اس برائی کو جس کو آج آئین کی پامالی سے بھی ذیادہ اہمیت دی جارہی ہے، اسے قانونی شکل دینے میں جنرل پرویز مشرف کا مرکزی ہاتھ اوران کے فوجی اور سیاسی ساتھیوں کی تائید شامل تھی۔ یہ بھی حقیقت ہےکہ قومی مصالحتی آرڈیننس بنانے والوں کے لئے اپنی سیاسی بقاء کی لۓ اسں کی اہمیت ذیادہ تھی۔
جنرل مشرف کو اپنے سیاسی مستقبل بچانے کے لئے پیپلز پارٹی کی ضرورت تھی۔ اس وقت آئی ایس ائی کے سربراہ لیفٹٹنٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی جو اب چیف آف آرمی سٹاف ہیں ان کا مصالحتی کوششوں میں اہم کردار سب کو معلوم ہے۔ پھر سیکرٹری جنرل ق لیگ سینیٹر مشاہد حسین کے بقول چودھری شجاعت حسین نے قومی مصالحتی آرڈیننس کے خاکے پر پیپلز پارٹی سے مذاکرات کی قیادت کی’ ق لیگ وزیر اعظم کی دو بار سے زائد کی ترمیم کے خلاف تھی، لہذا قومی مصالحتی آرڈیننس کو بہتر جاناگیا۔ مشاہد حسین نے ایک پریس بریفنگ میں یہ بھی کہا کہ اس آرڈیننس سے انتقامی سیاست کا رجحان ختم ہوجائے گا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے اصرار پر این آر او کا اطلاق انیس سو اٹھاسی کے بجائے یکم جنوری انیس سو چھیاسی سے کرنے کا مطالبہ بھی تسلیم کرلیا گیا۔ سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز نے ایک سرکاری ہینڈ آؤٹ میں این آر او کو رواداری اور ہم آہنگی کی علامت قرار دیا۔ سابق وزیرِ اطلاعات محمد علی درانی نے کہا این آر او وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اور سابق وزیرِ مملکت برائے ریلوے شیخ رشید احمد ‘ جو آج ہر ٹی وی چینل پر بیٹھ کر جمہوریت کے خلاف سازش میں نمایاںہیں، انہوں نے کہا کہ قومی مصالحت تک پہنچنے کے لئے سیاستدانوں کو استثنیٰ دینے میں کوئی حرج نہیں۔
قومی مصالحتی آرڈیننس سے ہی چھ اکتوبر دو ہزار سات کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حاضر سروس گریڈ بائیس کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو منتخب
پارلیمنٹ نے دوسری بار صدر منتخب کرلیا۔
مگرافسوس آج این آر اوکو بنانے والوں، ثالثی کرنے والوں اور نافذ کرنے والے کو کوئ نہیں پوچھتا، اظہار وجوہ کا نوٹس جاری ہوتا ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی کے اور پاکستان کے منتخب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو، اور اس قانون کا بنیادی ہدف ہوتاہے آئینی طور پر منتخب صدرِ پاکستان آصف علی زرداری، جس کو آئین کی رو سے مکمل استثنٰی حاصل ہے اور جن کے خلاف مقدمات نہیں کھولے جاسکتے۔
اس سے قبل وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پیر کو قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ وہ چار سال میں کبھی طیش میں نہیں آئے لیکن جب بے انصافی ہوگی تو پھر طیش بھی آتا ہے۔ انہوں نے عدلیہ کا نام لیے بغیر کہا کہ ’این آر او‘ جاری کرنے والوں کے خلاف کیوں کارروائی نہیں ہوتی؟
انہوں نے کہا ’میں ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی نشست پر بیٹھا ہوں، انہوں نے جمہوریت کی خاطر جان دی، میں بھی جمہوریت کا دفاع کروں گا۔‘
زوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کے ایک اور منتخب وزیر اعظم کو عدالت میں پیش ہونا ہوگا۔
مگر اب’یہ نہیں ہوسکتا عدلیہ یا فوج نظام کو ختم کردیں
پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھاری اکثریت سے منظور کردہ قرارداد میں کہا ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کریں اور عوام کی خوشحالی جمہوری عمل کے تسلسل میں ہے۔
حکمران اتحاد کی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کی جانب سے پیش کردہ قرارداد پیر کی رات دیر تک جاری رہنے والے اجلاس میں بھاری کثرت رائے سے منظور کی گئی۔
اسی قومی مصالحتی آرڈیننس کی حقیقت کو وسعت اللہ خان اپنے بی بی سی اردو میں شائع ‘انہیں کون پوچھے گا?‘ آرٹیکل میں بیان کررہے ہیں۔
انہیں کون پوچھے گا
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
بلاشبہ قومی مصالحتی آرڈیننس مجریہ دو ہزار سات پاکستان میں نافذ ہونے والے سیاہ قوانین میں ایک نمایاں قانون تھا۔اسی لئے سپریم کورٹ کی جانب سے اسے کالعدم قرار دینے کو سب نے ہی اعلانیہ یا خاموشی سے سراہا یا برداشت کیا۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ اس قانون کی آڑ میں کن آٹھ ہزار سے زائد لوگوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کی۔ لیکن یہ کتنے لوگ جانتے ہیں کہ اس برائی کو قانونی شکل دینے میں کس کس کا ہاتھ یا تائید شامل تھی۔ اور قومی مصالحتی آرڈیننس بنانے والوں کے لئے زیادہ ضروری تھا یافائدہ اٹھانے والوں کے لئے؟
سال دو ہزار سات ہے۔
صدرِ مملکت ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف (حال چیئرمین آل پاکستان مسلم لیگ ) چین کی بنسی بجا رہے ہیں۔ ان کے وزیرِ اعظم شوکت عزیز کی حکومت بظاہر مستحکم ہے۔ ملک کے اقتصادی اعشاریے اوپر جا رہے ہیں۔
مبصرین کی اکثریت سمجھتی ہے کہ مشرف، عزیز، شجاعت تکون کو اگلے پانچ برس کے لیے بھی کوئی سیاسی چیلنج درپیش نہیں گا کہ اچانک نو مارچ کو جنرل پرویز مشرف چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو برطرف کرکے اپنے سر پر بیٹھے بٹھائے پتھر مار لیتے ہیں۔
ان کے اوپر جاتے ستارے نیچے کی جانب سفر شروع کردیتے ہیں۔مگر شوقِ طوالتِ اقتدار ہے کہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اکتوبر میں مدتِ صدارت اور نومبر کے وسط میں مدتِ پارلیمان ختم ہو رہی ہے۔ وکلا اور عوام سڑکوں پر ہیں۔ اسلام آباد کی لال مسجد گلے پڑ چکی ہے۔ نواز شریف سے ہاتھ ملانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
رہ گئیں بینظیر بھٹو تو ان سے مشرف کا کوئی ذاتی جھگڑا یا انا کی لڑائی نہیں ہے۔ مشرف بھی اعتدال پسندی کے دعویدار ہیں۔ بینظیر بھٹو بھی دھشتگردی کے خلاف جنگ میں ان کی نظریاتی ہم پلہ ہیں۔ مشرف کو اپنی کشتی بچانے کے لئے پیپلز پارٹی کی ضرورت ہے اور پیپلز پارٹی کو پاکستان کے سیاسی و انتخابی تھیٹر میں باوقار انٹری درکار ہے۔ عالمی و علاقائی حالات کے تناظر میں امریکہ ، برطانیہ اور دوست خلیجی ممالک بھی دونوں قوتوں کی یکجائی کے حق میں ہیں۔
چنانچہ بلاواسطہ رابطہ کاری شروع ہو جاتی ہے۔ کبھی ریٹائرڈ بریگیڈیر نیاز نامی ایلچی کا نام میڈیا میں آتا ہے۔ کبھی آئی ایس ائی کے سربراہ لیفٹٹنٹ جنرل اشفاق پرویز کیانی (حال چیف آف آرمی سٹاف) کی خاموش مصالحتی کوششوں کے چرچے سنائی دیتے ہیں۔
فیصلہ کن موڑ ستمبر میں آتا ہے۔جب نواز شریف کا لاہور میں اترنے والا طیارہ جبراً سعودی عرب بھیج دیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو اندازہ ہوچکا ہے کہ مشرف کا اونٹ پہاڑ تلے آچکا ہے۔ لہذا مطالبہ ہوتا ہے کہ پہلے مقدمات ختم کرو، وردی اتارنے کی تاریخ دو ، تیسری دفعہ وزیر اعظم نہ بننے کی شرط ہٹاؤ تب شراکتِ اقتدار پر غور ہوگا۔
مشرف کو اس بات کی جلدی ہے کہ پارلیمنٹ کی مدت ختم ہونے سے پہلے پہلے خود کو منتخب کرانے کے لئے اگر بازو بھی کاٹ کر دینا پڑے تو سودا مہنگا نہیں ۔
سیکرٹری جنرل ق لیگ سینیٹر مشاہد حسین کے بقول چودھری شجاعت حسین نے قومی مصالحتی آرڈیننس کے خاکے پر پیپلز پارٹی سے مذاکرات کی قیادت کی۔ سرکاری ٹیم میں مشاہد حسین، پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر کے چیئرمین حامد ناصر چٹھہ ، وزیرِ قانون حامد زاہد ( حال مسلم لیگ نواز ) اور وزیرِ اطلاعات محمد علی درانی ( حال بہاولپور صوبہ تحریک) شامل تھے۔ اس ٹیم نے چوبیس سے چھبیس ستمبر تک پیپلز پارٹی کی ٹیم سے لگ بھگ بارہ گھنٹے بات چیت کی۔ پیپلز پارٹی کی ٹیم میں مخدوم امین فہیم ( حال وزیرِ تجارت) ، راجہ پرویز اشرف ، سینیٹر صفدر عباسی اور سینیٹر فاروق نائیک (حال چیرمین سینٹ ) شامل تھے۔ مشاہد حسین نے ایک پریس بریفنگ میں یہ بھی کہا کہ اس آرڈیننس سے انتقامی سیاست کا رجحان ختم ہوجائے گا۔
این آر او کے حتمی مسودے کو شکل دینے کے لئے چار اکتوبر کی صبح تین بجے تک صدر مشرف ، وزیرِ اعظم شوکت عزیز اور اٹارنی جنرل ملک قیوم کی پیپلز پارٹی کی جانب سے رحمان ملک ، محذوم امین فہیم اور فاروق نائیک سے بات چیت ہوتی رہی۔
متحدہ قومی موومنٹ کے اصرار پر این آر او کا اطلاق انیس سو اٹھاسی کے بجائے یکم جنوری انیس سو چھیاسی سے کرنے کا مطالبہ تسلیم کرلیا گیا۔اسی شام ایم کیو ایم نے اعلان کیا کہ وہ چھ اکتوبر کے صدارتی انتخابات میں پرویز مشرف کو ووٹ دے گی۔
چار اکتوبر کی شام لندن میں بینظیر بھٹو نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ قومی مصالحتی آرڈیننس غالباً آج رات تک نافذ ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی حکومت سے ایک برس تک بات چیت ہوتی رہی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ارکان آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے ارکان کی طرح پارلیمنٹ سے استعفیٰ نہیں دیں گے۔ اس پریس کانفرنس میں محترمہ کے ایک جانب سیکرٹری اطلاعات شیری رحمان ( حال سفیرِ پاکستان برائے امریکہ) اور دوسری جانب پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر شاہ محمود قریشی ( حال نائب صدر تحریکِ انصاف) تشریف فرما تھے۔
پانچ اکتوبر کو شوکت عزیز کابینہ نے این آر او کی منظوری دے دی۔اس کابینہ میں وزیرِ دفاع راؤ سکندر اقبال ( مرحوم) ، وزیرِ تجارت ہمایوں اختر خان ، وزیر تعلیم جنرل ریٹائرڈ جاوید اشرف قاضی، وزیرِ ماحولیات فیصل صالح حیات ( حال وزیرِ ہاؤسنگ) ، وزیرِ زراعت سکندر بوسن ، وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری ( حال تحریکِ انصاف) ، وزیرِ صنعت جہانگیر ترین ( حال تحریکِ انصاف )، وزیرِ انفارمیشن ٹیکنالوجی اویس احمد لغاری ( حال تحریکِ انصاف) ، وزیرِ داخلہ آفتاب شیرپاؤ ، وزیرِ صوبائی رابطہ سلیم سیف اللہ خان ، وزیرِ محنت غلام سرور خان ( حال تحریک انصاف) اور وزیرِ مذہبی امور اعجاز الحق سمیت بیس وفاقی وزرا شامل تھے۔
اسی کابینہ میں وزیرِ مملکت برائے اقتصادی امور حنا ربانی کھر ( حال وزیرِ خارجہ ) ، وزیرِ مملکت برائے سمندر پار پاکستانی رضا حیات ہراج ( حال وزیرِ مملکت برائے ہاؤسنگ)، وزیرِ مملکت برائے اطلاعات طارق عظیم ، وزیرِ مملکت برائے مواصلات اسحاق خاکوانی ( حال تحریکِ انصاف) ، وزیرِ مملکت برائے داخلہ ظفر اقبال وڑائچ ( حال تحریکِ انصاف) ، وزیرِ مملکت برائے قانون شاہد اکرم بھنڈر ( حال تحریکِ انصاف) ، وزیرِ مملکت برائے پارلیمانی امور کامل علی آغا ، وزیرِ مملکت برائے نارکوٹکس کنٹرول غوث بخش مہر ( حال وفاقی وزیرِ برائے نجکاری ) ، وزیرِ مملکت برائے پٹرولیم امان اللہ جدون ، وزیر مملکت برائے سیاسی امور امیر مقام ، وزیرِ آبادی چوہدری شہباز حسین ( حال مشرف مسلم لیگ) ، وزیرِ مملکت برائے جہاز رانی بابر غوری ( ایم کیو ایم ) ، وزیرِ نجکاری وصی ظفر ، وزیرِ مملکت برائے سرحدی امور سردار یار محمد رند ( حال قائدِ حزبِ اختلاف بلوچستان اسمبلی ) اور وزیرِ مملکت برائے پانی و بجلی لیاقت جتوئی سمیت چھتیس وزرائے مملکت شامل تھے۔
مسلم لیگ ق کے صرف چار ارکانِ اسمبلی ایسے تھے جنہوں نے کھل کر این آر او پر اپنے تحفظات ظاہر کیے۔ ان میں تسنیم نواز گردیزی ( حال نواز لیگ) ، علی اکبر وینس ، صفدر شاکر اور کیپٹن حلیم صدیقی شامل ہیں۔
وزیرِ اعظم شوکت عزیز نے ایک سرکاری ہینڈ آؤٹ میں این آر او کو رواداری اور ہم آہنگی کی علامت قرار دیا۔
وزیرِ اطلاعات محمد علی درانی نے کہا این آر او وقت کی اہم ضرورت ہے۔
وزیرِ مملکت برائے ریلوے شیخ رشید احمد ( حال صدر عوامی مسلم لیگ) نے کہا کہ قومی مصالحت تک پہنچنے کے لئے سیاستدانوں کو استثنیٰ دینے میں کوئی حرج نہیں۔
چھ اکتوبر دو ہزار سات کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حاضر سروس گریڈ بائیس کے چیف آف آرمی سٹاف کو منتخب پارلیمنٹ نے دوسری بار صدر منتخب کرلیا۔
پیپلز پارٹی نے اپنے صدارتی امیدوار مخدوم امین فہیم سمیت ووٹنگ سے غیر حاضری اختیار کی۔اور صدارتی امیدوار جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کو پانچ ووٹ ملے۔این آر او نافذ کرنے والے بھی خوش فائدہ اٹھانے والے بھی خوش۔
ایک حدیث ہے کہ رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ اس اصول کے تحت جنہوں نے این آر او کا قانون منظور اور نافذ کیا انہیں کوئی کیا ، کیوں ، کب اور کون پوچھے گا ؟
Kiyani is also a culprit. Why is CS so much in his favour? Your wish is my command said Iftikhar Chaudhary to Kiyani.
*CS = SC
Bohat khoob likha hai
Nice Piece Excellent Post !