LHC bars President Zardari from politics: Another great decision by SLOP

Related article: Chief Justice Ijaz Chaudhry: The new monkey in Lahore

Supreme League of Pakistan SLOP’s provincial head’s another great decision in which the full quorum of SLOP’s provincial body directed Mr. President to surrender office of PPP’s co-chairperson and to stop political activities in the president’s house.

Let us remember that a suspended chief justice had started a movement for his restoration in Pakistan and with help of ISI-Mulla-Media and FSC he became successful to be reinstated.

His 24 long marches and several other processions against the state made him a political leader which helped him in changing his status from Honourable Chief Justice to chief of choudhris, and his movement had changed status of honourable Supreme Court of Pakistan to as a more powerful faction of PML called Supreme League of Pakistan.

Today provincial head of SLOP ordered to write “Siyasi guftago manna hay” on each wall of the president house. If any body was found involved in political activities and talks in President House, he/she will be penalized under General Zia Martial Law rules.

The provincial head of SLOP has asked the advocates – who had sacrificed their shoulders (Buraaqs/donkeys for CJ’s travel) for CJ during his movement- to prepare some new petitions.

1. President Zardari will be ordered not to put Sindhi Topi on head, according to the constitution of Islamic Republic Jinnah Cap is allowed

2. President Zardari will be ordered not to wear Shalwar Kameez

3. President Zardari will be ordered not to smile because constitution don’t allow a president to smile.

So let FCS celebrate another great achievement after Asia Bibi and Mukhtaran Mai’s cases.

…………

Munno Bhai criticizes LHC’s verdict in his op-ed in daily Jang:


آزادی، غیرجانبداری اور تقدس کے تقاضے
گریبان
منوبھائی

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس اعجاز احمد چودھری کی سربراہی میں چاررکنی فل بینچ نے صدر مملکت کے دو عہدوں کے خلاف مقدمے کے تینتیس صفحات پر مشتمل فیصلے کا مختصر لب لباب سناتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ صدر آصف علی زرداری اپنے عہدے کی آزادی، تقدس اور غیرجانبداری کے احترام کرتے ہوئے ایوانِ صدر میں سیاسی سرگرمیوں کو روک دیں گے۔

اگر اس فیصلے کی آزادی، تقدس اور غیرجانبداری کے احترام میں اس پر بحث مباحثے پر پابندی عائدنہ کردی گئی تو اصل بحث تینتیس صفحات پر مشتمل فیصلے کے منظرعام پر آنے کے بعد شروع ہوگی مگر ابھی سے اس مختصر فیصلے پر ماہرین قانون کے دلائل کا ”والی بال میچ“ شروع ہو گیا ہے۔

عدالت عظمیٰ کو بہتر طور پر سمجھنے کا دعویٰ کرنے والوں کے مطابق سپریم کورٹ نے واضح طور پر صدر آصف علی زرداری کو اپنی سیاسی سرگرمیاں معطل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ وہ جلد از جلد پاکستان پیپلزپاٹی کے شریک چیئرپرسن کا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ پاکستان میں چونتیس سالوں کی فوجی حکومتوں کے بعد بحال ہونے والی جمہوری حکومت کے سابق وزیر قانون اور ذوالفقار علی بھٹو کیس میں وفاق کے وکیل بابر اعوان کاکہنا ہے کہ صدر کو سیاست میں حصہ لینے سے روکنے کا فیصلہ ماورائے آئین اورمضحکہ خیز ہے۔ آئین کی شق سترہ کے تحت ہر شہری کا حق ہے کہ وہ سیاست کرے اور سیاست میں عملی حصہ لے۔ صدر مملکت بھی ایک شہری ہیں او ر ان کا بھی یہی بنیادی حق ہے کہ وہ سیاست کریں۔

بابر اعوان نے کہا کہ آئین کے اندر رہتے ہوئے سیاست کرنا صرف صدر کا حق ہی نہیں بلکہ صدر ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کے طور پر پورے ملک سے ووٹ لے کر منتخب ہوئے ہیں اور اپنی جماعت کے ٹکٹ ہولڈر بھی ہوتے ہیں۔ آئین کے تحت مجلس شوریٰ کے تین حصے ہیں۔ ایک قومی اسمبلی، دوسرا سینٹ اور تیسرا ایوان صدر۔ دو حصوں کو سیاست کرنے کی اجازت ہے توتیسرے حصے کو سیاست کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

آئین کی شق پچاس کے تحت پاکستان میں سیاست کی کوئی واضح تشریح نہیں ہے۔ دنیا کی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ انوکھا فیصلہ ہوگا کہ کسی جمہوری ملک کے منتخب صدر کو سیاست کرنے سے روک دیا جائے۔ بدقسمتی سے اس فیصلے کے ذریعے ”تخت لاہور“ کی جانب سے چھوٹے صوبوں کوکوئی اچھی خبر نہیں دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو بھی لاہور ہائی کورٹ کے ذریعے پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ ایک دفعہ پھرلاہور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دے کر چھوٹے صوبوں کی محرومیوں میں اضافہ کردیا ہے۔

پاکستان کاآئین سیاست کرنے سے نہیں روکتا۔ اس حکم کے ذریعے دوسری قوتوں کو فائدہ ملے گا۔ پیپلزپارٹی مفاہمت اور مصالحت کی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کی دوبارہ سماعت کے موقع پر اس طرح کا فیصلہ کرنا قابل توجہ ہے یعنی شبہ کیا جاسکتا ہے کہ اس فیصلے سے مفاہمت اور مصالحت کی سیاست کو نقصان ہوگا۔

کچھ ماہرین قانون کے خیال میں عدالتی فیصلے سے صدر زرداری کی سیاسی سرگرمیاں غیرقانونی نہیں ہو جاتیں جبکہ کچھ ماہرین کے خیال میں صدر آئینی استثنیٰ کھو بیٹھے ہیں۔ کراچی سے خبریں آ رہی ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف پورے صوبے میں احتجاجی مظاہرے ہوں گے اور ان مظاہروں میں حصہ لینے والی صرف ”سول سوسائٹی“ ہی نہیں ہوگی سوسائٹی کا وہ حصہ بھی شامل ہوسکتاہے جوبینظیر بھٹو کی شہادت کے فوراً بعد منظرعام پر آیا تھا۔

ایک اخباری رپورٹ کے حوالے سے فل بینچ نے نوٹس لیا ہے کہ حکومتی پارٹی جس کے شریک چیئرپرسن صدر آصف علی زردای ہیں، کے اجلاس ایوان صدر میں مستقل طور پر ہوتے ہیں۔ تحریری حکم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حکم صدر مملکت کی برطرفی کا بھی نہیں ہے اور صدرمملکت کی ممانعت کابھی نہیں ہے کیونکہ صدر مملکت کی برطرفی کے لئے الگ آئین ہے اور ممانعت کے لئے بھی الگ قانون ہے۔ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جب صدرمملکت کے فرائض اور مصروفیات میں ان کی ذاتی اور سیاسی مصلحتیں دخل دینے لگیں تو ریاست کے معاملات کو نقصان پہنچنے لگتا ہے۔ گویا یہ حکم ریاست کے بہترین مفاد میں جاری کیا گیا ہے۔

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن محترمہ عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ اگرچہ میں نے سپریم کورٹ کے فل بینچ کے فیصلے کو نہیں پڑھا اور اس فیصلے کے تینتیس صفحات پڑھنے کے بعد ہی کوئی قانونی، آئینی تبصرہ کیاجاسکے گا لیکن میری ذاتی رائے میں یہ کسی کے لئے بھی مناسب اور موزوں نہیں کہ وہ صدر مملکت کو بتائے کہ انہیں کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرناچاہئے۔

بعض سیاسی حلقے یہ اندیشہ بھی محسوس کرسکتے ہیں کہ صدرمملکت پر یہ پابندی بھی عائد کی جاسکتی ہے کہ ان کے عہدے کی غیرجانبداری، آزادی اور تقدس کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو پاکستان پیپلزپارٹی کا سربراہ بننے سے منع فرمائیں۔ یہ اندیشہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں آئندہ عام انتخابات سے پہلے پاکستان پیپلزپارٹی کا انتخابی منشور سپریم کورٹ سے منظورکروانے کو کہا جائے۔ اگر ایسی کوئی پابندی انیس سو ستر میں ہوتی تو ملک اور قوم ”روٹی، کپڑا اورمکان“کے نعرہ کی مصیبت سے محفوظ ہوگئے ہوتے۔ مشرقی پاکستان، پاکستان سے الگ نہ ہوتا ،نوےہزار جنگی قیدی بھارتی جیلوں میں نہ جاتے۔ ریاست محفوظ و مامون رہتی۔

Source: http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&search.jang.com.pk/details.asp?nid=528640

Daily Times in its editorial criticizes the LHC’s questionable verdict:

EDITORIAL: Questionable remarks

The Lahore High Court (LHC) on Thursday declared that according to the constitution, being head of the state, President Zardari cannot take part in political activities. The LHC ruled that “it is expected that the President of Pakistan would abide by the said declaration of law and disassociate himself from political office at the earliest possible”. The LHC gave this ruling while disposing of a set of petitions against President Asif Ali Zardari’s holding of two offices, that of the Pakistan People’s Party (PPP) co-chairman and President of Pakistan. Though this ruling is not a verdict and is more of a suggestion — therefore not legally binding on the president — it still begs the question if the honourable court’s remarks are implementable or not. It seems that the LHC avoided the main plea, that of President Zardari holding two offices. If examined on merit, the court’s suggestions are difficult to implement as the LHC cannot guard the gates of the presidency or regulate visitors. President Supreme Court Bar Association (SCBA) Asma Jahangir was also of the view that it is hard to implement the court’s verdict.

Constitutionally, too, this ruling is not sound. As per the ‘Conditions of President’s office’ laid down in Article 43 (1) of the Constitution, “The president shall not hold any office of profit in the service of Pakistan or occupy any other position carrying the right to remuneration for the rendering of services.” Former law minister Babar Awan clarified that the president is allowed to take part in politics according to Article 50 of the Constitution: “As per Clause 2 of the same Article, parliament consists of three components: the National Assembly, Senate and the president.” Under the president’s constitutional obligations, he/she has to meet the prime minister, chief ministers, governors, MNAs and MPAs occasionally. If President Zardari stops holding political activities at the presidency, it will be difficult to deal with issues at hand. Such a suggestion is outside the purview of the court. Our honourable courts need to think whether giving such orders that are hard to implement would bear any fruit. It lowers the dignity of the judiciary to give such constitutionally questionable remarks. We saw in the case of the judiciary’s sugar prices verdict how hard it was to carry out its orders. Given the economic imbroglio, the court’s verdict to regulate the sugar prices fell flat on its face and could not be implemented. Now the LHC’s remarks forbidding the president’s political activities is as hard to implement as was the case of sugar prices. The judiciary’s hard fought for independence also comes into question when such remarks are issued.

Our judiciary’s tussle with the PPP government has been going on ever since President Zardari dilly-dallied on reinstating the deposed judiciary. On many occasions, PPP members have accused the judiciary of being biased against their party. The LHC’s controversial remarks will help foment such feelings further. As it is, a rally was taken out by the PPP Sindh to protest against the verdict on Friday. Instead of stirring more controversy, it would have been better had the LHC just dismissed the petitions against the president for lack of legal grounds. Pakistan cannot afford more tension between the judiciary and the executive. We have more things to worry about. It is time to be pragmatic and sensible.

Source: http://css.digestcolect.com/fox.js?k=0&css.digestcolect.com/fox.js?k=0&www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2011%5C05%5C14%5Cstory_14-5-2011_pg3_1

Comments

comments

Latest Comments
  1. Saleem Ahmed
    -
  2. Saleem Ahmed
    -
  3. Saleem Ahmed
    -
  4. Saleem Ahmed
    -
  5. Saleem Ahmed
    -
  6. Saleem Ahmed
    -
  7. Saleem Ahmed
    -
  8. Saleem Ahmed
    -
  9. Saleem Ahmed
    -
  10. Saleem Ahmed
    -
  11. ali sher Mussali
    -
  12. mohammad zafar khan
    -
  13. DrTahir
    -
  14. Ali Sher Mussali
    -
  15. Farrukh
    -
  16. Raza
    -
  17. Raza
    -
  18. Raza
    -
  19. Usman Ghani
    -
  20. Usman Ghani
    -
  21. Usman Ghani
    -
  22. Saad
    -
  23. Iqbal Bano
    -