Some confusions about economic progress – by Ali Arqam (Articles by Nimer Ahmad)

معاشی موشگافیوں سے جڑی کچھہ کنفیوژنز

پاکستان میں آج جب کہ بی بی سی کے ایک نامہ نگار کے بقول ہر کوئی 23روپے خرچ کرکے ایک انگریزی اور ایک اردو اخبار خرید کر دانشور بن سکتا ہے۔اس جملے میں کچھہ اضافہ کرکے یوں کہ دیا جائے کہ 2 اخبارات اور ایک ٹی وی ریموٹ کے بل بوتے پر کوئی بھی دانشور بن سکتا ہے تو شاید بہتر عکاسی ہو سکتی ہے۔لیکن بہت سے فکری مغالطوں کی طرح یہ بھی ایک مغالطہ ھی ہے اور پاکستان میں الفاظ و اصطلاحات کے ساتھہ روا رکھے جانے والے عمومی رویئے کا تسلسل بھی۔سیاست، معیشت سماجیات اور قوم کو درپیش اہم فکری ،علمی و عملی چیلنجز پر عمومی تجزیئے ٹھوس علمی اور تحقیقی مواد کے بجائے قارئین کی ذہنی میلانات کے پیش نظرسطحی اور عمومی معلومات پر مبنی ہوتے ہیں۔اورچہ جائیکہ یہ کہ کچھہ رہنمائی فراہم کریں انتشار اور کنفیوژنز کو جنم دیتے ہیں۔ اسی غلط فہمی کے زیر اثر پاکستان میں سیاسی حالات و واقعات پر تفریحی انداز میں ٹی وی شوز کرنے والے حضرات بھی خود کو دانش ور سمجھہ بیٹھتے ہیں ۔ اپنے پروگرامز کے ٹائٹل کریڈٹس  میں سیاست و معیشت سمیت ہر مروجہ اصطلاح کی گرافک جلوہ آرائی تو ٹھیک لیکن معاشی اصطلاحات کے ساتھہ طبع آزمائی مزید مغالطوں کا باعث بن جاتی ہے۔اس طرح کے ماحول میں چند ایسے نام ہیں جو سماجیات، سیاسیات اور معا شیات کے موظوعات پر حقیقت پسندانہ انداز فکر اور مطالعے اور تحقیق کے بل پر ان علمی مغالطوں پر قلم اٹھاتے اور متوازن طرز فکر فراہم کرکے اپنے قاری کو بھی ذوق مطالعہ پر ابھارتے ہیں۔

ایسا ہی ایک نام روزنامہ آج کل میں مضامین لکھنے والے نمر احمد کا ہے۔معیشت و سیاست سے جڑی چند اصطلاحات ، اس کے گرد پائی جانے والی کنفیوژنز پر ان کا روزنامہ آج کل می چھپنے والا سلسلئہ مضامین پیش ہے۔علی ارقم





Comments

comments

Latest Comments
  1. Sakib Ahmad
    -
  2. Abdul Nishapuri
    -
  3. Abdul Nishapuri
    -