Shaheed Shahbaz BHUTTO! – by Danial Lakhnavi

Related articles: LUBP Archive on Punjabi Taliban

وزیر اعلی پنجاب کو “پنجابی طالبان” کی اصطلاح بہت ناگوار گزری ہے اور یہ ناراضگی بجا بھی ہے کہ ہماری سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے میڈیایی تجاوزات اور پنشن یافتہ دفاعی تجزیہ کاروں کو ان تزویراتی اثاثوں کا پاکستان میں پھیلی صوباییت کی لعنت سے آلودہ ہونا گوارا نہیں ہے. ہاں قومی مفاد کے عنوان سے مزین خارجہ حکمت عملی میں یا اسی عنوان کے تحت سیاست میں طالبان اور پشتونوں کو باہم متبادل الفاظ یا مترادف قرار دینے میں کویی مضایقہ نہیں.

درحقیقت سعودی عرب سے نودرآمد شدہ مذہبی افکاروریال،خلیجی درہم ودینار اور امریکی سی آیی کے افغان جہاد پراجیکٹ کے دوران مختلف ممالک سے خریدے گیے روسی ساختہ اسلحہ سے لیس ملیشیا، پاکستان میں بسنے والی تمام اقوام( ماسوایے بلوچوںکے) کے افراد پر مشتمل اپنے مسلم امہ کے تصوراتی ہیولےاور “اک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے” کے مقدس مشن کے علمبرداروں کو کسی خاص قومی و تہذیبی اکایی سے جوڑنا درست نہیں. مگرکیا کیا جایے کہ پاکستان میں الفاظ واصطلاحات کے معانی محل وقوع سے متعین ہوتے ہیں.

شھباز بھٹی کی المناک شھادت پر اس کے قاتلوں کو پنجابی طالبان قرار دینے کے علاوہ بعض افراد کا ان کو شھید قرار دینا بھی ناگوار گزرا ہے. لیکن ان سے کیا شکوہ کہ شہید سلمان تاثیر کے خاندان کی ملکیت اور ان کےفرزندارجمندجناب شہریار علی تاثیر کے زیر ادارت چلنے والے اخبار “آج کل” میں سلمان تاثیر کے بعد اب شہباز بھٹی کو بھی ھلاک کردیا گیا” کے عنوان سے اداریہ چھا پا گیا.ستم ظریفی حالات ہے کیا کہیے.یاشاید دیگر نشریاتی اداروں اور میڈیا ہاوسز کی طرح اردو اخبار کو پاپولسٹ ٹرینڈ کی پیروی کرنی پڑگیی ہےیوں بھی ہمارے فیشن ایبل لبرلز کو کیا خبر کہ اردو میں کیا چھپ رہا ہے، چاہے وہ اخبار تاثیر فیملی کا ہی کیوں نہ ہو.

ہمارے ایک بلاگر دوست نے گوجرہ کے المناک واقعات (جب مذہبی جنونیوں نے لوکل سیاسی جھتوں کی سرپرستی میں مسیحی آبادی پر دھاوا بول دیا تھا اور بچوں اور خواتین سمیت لوگوں کو زندہ جلادیا تھا) پر مسلسل لکھتے ہویے کہا تھا کہ گوجرہ کے المناک سانحے کی دلخراش یادوں کو دھندلا نے مت دینا، قوموں اور ریاستوں کے اجتماعی حافظے سے ایسے سانحات مدتوں چمٹے رہتے ہیں جو ایسے حوادث کے دہرایے جانے کے خلاف بھرپور مزاحمت کی تحریک فراہم کرتے ہیں. لیکن لگتا ہے ہمارے قومی احساس کولاحق سلیکٹیوایمنزیا کے عارضےکے باعث وہ تمام واقعات حرف غلط کی طرح مٹ چکے ہیں۔.

اورکیوں نہ مٹتے کہ گوجرہ میں زندہ جلائے جانے والے عورتوں اور بچوں کا تعلق ریاست پاکستان کے دوسرے درجے کے شہریوں سے تھا. وہ تو بھلا ہو سلمان تاثیر کا کہ اس نے اس طبقے کی ایک بیٹی آسیہ کے سر پہ ہاتھ رکھا. اور اس جرم کی پاداش میں شہادت کوگلے بھی لگا لیا مگر اس حادثے نے ہماری ایلیٹس کے شعور کو کسی حد تک جھنجھوڑضرور دیا ہے. یا آپ سمجھیں کہ میں اوور ریٹنگ کررہا ہوں. کیوں کہ سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی میں شہادت کے علاوہ اک قدر مشترک ان کا سیاسی کردار بھی ہے..

لیکن ہمارے فیشن ایبل لبرلز یہ اعتراف نہیں کرتے کہ بندوق والے قطع نظر اس کےکہ وہ یونیفارم پہنے ہیں یا نہیں ان کا نشانہ سیاسی قوتیں ہی ہیں، کیوں کہ سیاسی قوتیں ہی کسی بامعنی تبدیلی کی بنیاد بن سکتی ہیں.

سول سوسایٹی کی سرگرمیوں کی نوعیت علامتی تو ہوسکتی ہے لیکن اگر ان کو لوگوں کو انگیج کرنا ہے تو اس کے لیے کویی غیر سیاسی میدان کبھی کارگر نہیں ہوگا.

شہریارعلی نے ایک مرتبہ طارق علی کی بی بی اور پیپلز پارٹی پر تنقید کے جواب میں لکھا تھا.

“Comrade when you were resisting the empire in westminister with Hollywood celebrities Bhutto’s were being murdered along with the working class workers of the party . That’s what made them leaders . So that you can write novels about them and make films on them and earn millions and than falsify facts.”

ایک دوست نے لکھا تھا کہ پیبلز پارٹی کی ڈی بھٹو فیکیشن ہونی چاہیے..ہوا یہ کہ پیپلز پارٹی کی ڈی بھٹو فیکیشن تو نہ ہوئی بھٹو فیکیشن کی توسیع ہوگئی ہے. اور ہزاروں کارکنوں عبداللہ مراد، منور سہروردی اور دیگر شہداء کی طرح سلمان تاثیر اور شہباز بھٹی نے بھی اس “ھال آف فیم” کو جائن کر لیا ہے

Comments

comments

Latest Comments
  1. Raza
    -
  2. Ali Arqam
    -
  3. Zalaan
    -
  4. Abdul Nishapuri
    -
  5. Abdul Nishapuri
    -
  6. Humza Ikram
    -
  7. aslam arain
    -
  8. Muhammad Nayak
    -