شیعہ نسل کشی : متاثرین کے نکتہ نظر سے تکفیریت کا جائزہ

 

نوٹ:میں 8 سال سے شیعہ نسل کشی اور اس کے تکفیریت سے باہمی رشتے کا باقاعدہ طور پہ جائزہ لیتا آرہا ہوں ۔ اس دوران مجھے صرف پاکستانی لبرل اسٹبلشمنٹ اور انتہا پسند مذہبی دایاں بازو سے نبرد آزما نہیں ہونا پڑا بلکہ خود اپنے نظریاتی کیمپ ‘ بائیں بازو’ کے ایک بڑے حلقے کو بھی یہ بتانے اور سمجھانے میں انتہائی دقت کا سامنا رہا ہے کہ شیعہ نسل کشی اور تکفیریت کے مابین رشتہ داری کو خود اس کے متاثرہ لوگوں کے نکتہ نگاہ سے دیکھنے کا سوال نہ تو کوئی مذہبی سوال ہے اور نہ ہی یہ کوئی فرقہ واریت ہے بلکہ ‘ شیعہ سوال ‘ یا ‘شیعہ برادری کی تکفیری گروہوں کے ہاتھوں جاری

Slow Genocide Campaign

سے جڑا سوال ہے۔

اور سب سے زیادہ افسوس ناک صورت حال خود شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایکٹوسٹ اور لکھاریوں کی ہے جو اس سوال کو جانے انجانے میں مسلم تاریخ کی فرقہ وارانہ تعبیروں میں تلاش کرنے کی کوشش بار بار کرتے ہیں اور تکفیریت کے دعوے کی تائید کرنے کا سبب بن جاتے ہیں کہ یہ واقعی ایک فرقہ وارانہ اور دو مسالک کے باہمی جھگڑوں کا شاخسانہ ہے۔ جیسے آر ایس ایس اپنے اینٹی مسلم فاشزم کو ‘ہندؤ-مسلم’ لڑائی یا صہونیت ‘ اسلام بمقابلہ یہودیت’ یا مغرب کے الٹرا رائٹ فاشسٹ ‘مغربی ثقافتی کلچر ‘ کو ‘مسیحی ثقافت ‘ قرار دیکر مسلم کلچر یا اسلام کو اس کے لیے خطرہ بتاتے ہیں اور پھر ‘ کرسچن تہذیب بمقابلہ مسلم تہذیب’ کی بائنری بناکر اپنا چورن بیچتے ہیں۔

پاکستان میں شیعہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ منظم طور پہ 90ء سے شروع ہوا اور یہ تب سے ابتک جاری و ساری ہے۔

اس دوران شیعہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں،مذہبی تقریبات، عاشورہ محرم و مجالس کو نشانہ بنایا گیا۔

ابتک کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق قریب قریب 22 ہزار شیعہ ٹارگٹ کلنگ، خود کش بم دھماکوں کا نشانہ بنے ہیں اور یہ 22 ہزار ہلاکتیں وہ ہیں جو شیعہ شناخت کے سبب تکفیریت کی علمبردار تنظیموں سپاہ صحابہ پاکستان/ اہلسنت والجماعت، لشکر جھنگوی، جماعت الاحرار، ٹی ٹی پی اور داعش خراسان وغیرہ نے کی ہیں ۔

 ریاست بھی اس دوران شیعہ برادری کے خلاف جاری مذہبی منافرت کی مہم سے دباؤ میں آکر ان کے خلاف ایسے اقدامات کرنے کی طرف جھکی دکھائی جس میں ان کی صدیوں سے چلی آرہی روایتی مجالس عزا، جلوس ہائے عزاداری و جلوس ہائے علم وغیرہ کے انعقاد کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔

 اس عمل کو پروفیسر عباس زیدی ‘ آہستہ رو نسل کشی’ قرار دیتے ہیں۔ جیسے پروفیسر امرتا سین نے میانمار میں رکھائن اسٹیٹ کے مسلمانوں کے خلاف برمی حکومت کے اقدامات کو ‘ سلو جینوسائیڈ’ کا نام دیا۔

 پاکستان میں شیعہ برادری کی نسل کشی اور ان کو کمتر بنائے جانے کے پروسس کے پس پردہ سپاہ صحابہ پاکستان جیسی تنظیموں کی آئیڈیالوجی ملوث ہے جسے عرف عام میں تکفیریت کہا جاتا ہے۔

 تکفیریت کے اصطلاحی معنی کسی مسلمان کمیونٹی کو مرتد قرار دیکر اس کے قتل کا جواز تلاش کیا جانا بنتا ہے۔ اور تکفیریت ایک طرح کا فاشزم ہے جس کا مقصد شیعہ برادری کا آہستہ رو قتل اور اس کے نتیجے میں ان کو گھیٹوز میں محدود کرنا اور ان کو داخلی و خارجی ہجرت کا شکار بنانا اور اس قدر خوف پیدا کرنا کہ وہ اپنی شناخت سے ہی دست بردار ہوجائیں۔

پاکستان میں شیعہ کو کمتر بنائے جانے اور ان کی ٹارگٹ کلنگ کا ایشو دو ایسے مسائل ہیں جن کو پاکستان کی لبرل انٹیلی جینٹیسیا ‘شیعہ نسل کشی’ ماننے کو تیار نہیں ہے۔

 یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے سبب جو دانشور اور انسانی حقوق کے رضاکار شیعہ مسلمانوں کے لیے آواز اٹھاتے ہیں ان کو کہا جاتا ہے کہ وہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار اور کمتر بنائے جانے کی منظم مہم کا شکار ہونے والوں کی ‘شیعہ شناخت’ کو کیوں اجاگر کرتے ہیں۔ دوسرا وہ ٹارگٹ کلنگ اور کمتر بنائے جانے کی مہم چلانے والی تنظیموں اور افراد کی جو نظریاتی شناخت ہے اسے کیوں اجاگر کرتے ہیں؟

کئی ایک تو اس عمل کو ‘فرقہ واریت’ قرار دینا شروع ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں شیعہ برادری کے انسانی حقوق کی پامالی کی منظم مہم کے خلاف کام کرنے والے سرگرم دانشوروں اور رضاکاروں کو سماجی طور پہ اسی چیلنج کا سامنا ہے جو یورپ اور امریکہ میں فلسطینی عوام کے حقوق اور ان فلسطین کے سوال پہ کام کرنے والے دانشوروں کو کرنا پڑتا تھا۔

میں نے 2016ء میں’ شیعہ نسل کشی’ اور ‘عقیدے کے نام پہ دہشت گردی’ کے نام سے دو کتابیں مرتب کیں ۔ پھر شیعہ نسل کشی کتاب کو ‘ شیعہ نسل کشی: افواہ یا حقیقت’ کا نام دیا اور 2017ء میں اس کا ڈرافٹ تیار کیا اور اب 2018ء میں اس کا ڈرافٹ تیار کیا ۔ لیکن مجھے ان کی اشاعت کے لیے کوئی ناشر تیار نہیں ملا ۔ کوئی ان کو شایع کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس سے پہلے ‘کوفہ: فوجی چھاؤنی سے سیاسی سماجی تحریکوں کا مرکز بننے تک’ کتاب کو کوئی ناشر نہیں ملا تھا ۔ تھک ہار کر میں نے خود ہی اسے شایع کردیا۔

میں جب یہ سب لکھ رہا تھا تو مجھے ایڈورڈ سعید اور ان کی کتاب ‘مسئلہ فلسطین’ کی یاد آئی ۔

ایڈورڈ سعید جب کتاب ‘ مسئلہ فلسطین’ 1978ء میں مکمل کرلی تو ناشروں کو یہ کتاب بہت اشتعال انگیز لگی ۔ بیکن پریس اور پینتھیون بکس نے اس کتاب کے مسودے کو رد کردیا ۔ جب ایک بیروت کے ناشر نے اس کا عربی ایڈیشن شایع کرنے کی پیشکش کی تو اس نے اس میں سے سعودی عرب اور شام پہ کی گئی تنقید کو نکالنے کو کہا گیا۔ کہیں

ایک سال بعد جاکر اس کتاب کو ٹائم بکس نے شایع کیا۔

‘شیعہ نسل کشی/ شیعہ کلنگ ‘ پہ بات کرتے ہوئے جیسے ہی آپ ‘ تکفیریت’ جیسی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور اس آئیڈیالوجی اور تاریخی پس منظر پہ روشنی ڈالتے ہیں تو بالکل ویسے ہی پاکستان میں لوگوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں، جیسے صہونیت کی تاریخ اور نظریہ پہ ایڈورڈ سعید کی تحقیق پہ کھڑے ہوگئے تھے۔

ہم جب شیعہ نسل کشی کے تکفیریت سے تعلق اور اس کے روابط خطے میں 80 کی دہائی میں شروع ہونے والے سی آئی اے- سعودی فنڈڈ افغان جہاد اور سعودی عرب کی وہابیت پھیلاؤ مہم کے ساتھ جوڑتے ہیں اور سعودی فنڈنگ سے دیوبندی فرقے کے اندر ایک سیکشن کی ماہیت میں بدلآؤ آنے کا ذکر کرتے ہیں تو اس تاریخی تناظر کو ایسے لبرل اور نان لبرل  دانش جھٹلانے کی کوشش کرتی ہے جو شیعہ نسل کشی کو دو فرقوں کی باہمی لڑائی، یا مسلم تاریخ کے قدیم ترین شیعہ-سنّی تناظر میں دیکھتی ہے یا اسے محض سعودی-ایرانی پراکسی وار بتانے پہ اصرار کرتی ہے۔

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ یہ اعتراض اٹھانے والے لبرل و نان لبرل دانش اور تکفیریت کی طرف معذرت خوا رجحان رکھنے والے فار رائٹ دیوبندی گروپوں سے تعلق رکھنے والے نظریہ سازوں میں اس رائے پہ اشتراک پایا جاتا ہے؟

کیا اتفاق ہے ایڈورڈ سعید نے جب ‘ صہونیت اور مغربی کالونیل ازم’ کے درمیان یک گونہ تعلق کا بیان کیا تو اس پہ کئی ایک یہودی ناقدوں نے ایسے ہی اعتراضات اٹھائے تھے۔اور مغربی سماج کی لبرل اسٹبلشمنٹ نے ان اعتراضات کو وقعت دی اور ایڈورڈ کے نکتہ نظر کی تردید کرنے کی کوشش کی۔

:ایڈورڈ سعید نے صہونیت بارے لکھا تھا

“There is an unmistakable coincidence between the experiences of Arab Palestinians at the hands of Zionism and the experiences of those black, yellow, and brown people who were described as inferior and subhuman by nineteenth-century imperialists.”

‘عرب فلسطینیوں کو صہیونیت کے ہاتھوں جو تجربات ہوئے ان میں اور سیاہ،زرد اور خاکستری رنگ کے عوام کو جو تجربات ہوئے جن کو 19 ویں صدی کے سامراجی اپنے سے کمتر بیان کرتے تھے کے درمیان بلا شبہ یک گونہ مشابہت موجود ہے۔’

ایک طرف کئی ایک یہودی ناقد تھے جو ‘صہونیت اور یورپی کالونیل ازم’ کے درمیان ربط کی تردید کرتے تو دوسری طرف خود فلسطینیوں میں ایسے لوگ موجود تھے جن کا خیال تھا کہ ایڈورڈ سعید نے صہونیت اور نوآبادیاتی نظام کے درمیان ربط کی نشاندہی کرتے ہوئے کچھ زیادہ ہی کہہ ڈالا ہے۔

یہاں تکفیریت، عقیدے کی بنیاد پہ رونما ہونے والے عسکریت پسندی اور وائلنس کا ربط شیعہ نسل کشی اور ان کا تاریخی ربط سرد جنگ کے دوران افغان جہاد، مڈل ایسٹ میں امریکی سامراجیت کے مفادات میں سعودی ریاست کو وہابیت کو پھیلانے کی اجازت دینے جیسے اقدامات سے جوڑنے پہ کچھ ایسے ہی ردعمل کا سامنا ہوا۔

ایڈورڈ سعید نے صہونیت اور اس کا فلسطینی عربوں سے ربط کا جائزہ لیتے ہوئے

Zionism from the Standpoint of Its Victims

صہونیت اس کے متاثرین کی نظر سے

کی اصطلاح استعمال کی تھی اور کہا تھا

 

Palestinians have become a crucial part of Zionism’s history.

فلسطینی صہونیت کی تاریخ کا اہم جزو بنے گئے ہیں۔

“Just as no Jew in the last hundred or so has been untouched by Zionism, so too no Palestinian has been unmarked by it. Yet it must not be forgotten, that the Palestinian was not simply a function of Zionism. His life, culture and politics have their own dynamic and ultimately their own authenticity.”

 

جیسے گزشتہ سو سالہ تاریخ میں  ایک بھی یہودی ایسا نہیں ہے جو صہونیت سے بالکل الگ تھلگ رہا ہو تو بالکل ایسے ہی کوئی ایک فلسطینی ایسا نہیں ہے جو اس کی زد میں نہ آیا ہو۔ پھر یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ فلسطینی صہونیت کا محض معمول نہیں ہے بلکہ اس کی زندگی، ثقافت اور سیات کی اپنی حرکیات، اور لامحالہ اپنا مستند پن ہے۔’

 

ایڈورڈ سعید کا کہنا تھا صہونیت کو تاریخی اعتبار سے دو طریقوں سے پرکھنے کی ضرورت ہے

 

  • Genealogically in order that their provenance, their kinship and descent, their affiliation both with other ideas and with political institutions may be demonstrated;
  • (2) as practical systems for accumulation (of power, land, ideological legitimacy) and displacement ( of people, other ideas, prior legitimacy).

الف: نسبی شجر کے اعتبار سے تاکہ اس کی اصل، ان کی قبیل داری ، اس کی وراثت اور ان دوسرے خیالات اور سیاسی اداروں سے تعلق داری کا پتا چلایا جاسکے۔

ب:  نافذ کیے جانے والے ايسے نظام جن میں پاور، زمین اور نظریاتی جواز سب کا ارتکاز ہو اور یہ لوگوں کی اور دوسرے خیالات کی جواز سے پہلے بے دخلی کو ممکن بناتا ہو کے طور پہ جائزہ لیا جاسکے۔

 

ایڈورڈ سعید اس کے ساتھ ہی یہ فیصلہ سناتے ہیں

 

Zionism in the postindustrial West has acquired for itself an almost unchallenged hegemony in liberal “establishment” discourse.

صہونیت پوسٹ انڈسٹریل مغرب کے اندر لبرل اسٹبلشمنٹ ڈسکورس میں چیلنج نہ کیے جانے والے غالب خیال کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

 

پاکستان میں امریکی سامراج اور سعودی عرب کے اثر ونفوز اور ضیاء الحق کے 11 سالہ دور آمریت اور اس کے بعد اس کی باقیات کے زیر اثر شیعہ کلنگ اور شیعہ کی نسل کشی کو نہ صرف دائیں بازو کے دانشورانہ ڈسکورس میں

 

False binary of Saudi Vs Iranian or False Binary of Shia-Sunni old historical dispute

 

ایک غالب ڈسکورس کی حثیت اختیار کرگیا ہے بلکہ خود لبرل اسٹبلشمنٹ ڈسکورس میں بھی یہی چیز غالب ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں لبرل دانشور، صحافی اور ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ ‘ شیعہ نسل کشی’ جیسی اصطلاح کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے اور نہ ان کی اکثریت یہ مانتی ہے کہ شیعہ کلنگ شیعہ-سنّی تاریخی تضاد کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی اصل تاریخی بنیادوں میں گڑی ہوئی ہے اور وہ تاریخی بنیاد سرد جنگ کی سامراجی حکمت عملی اور اس کے نتیجے میں ابھرنے والی وہابی ازم اور اس کے دیوبندی ازم کے اندر سرایت کرجانے والی تکفیریت ہے۔

 

:بلکہ شیعہ نسل کشی اور اس کے ذمہ داروں کی شناخت کے باب میں لبرل اسٹبلشمنٹ کا ڈسکورس تین رجحانات رکھتا ہے

 

ابہام

Obfuscation

انکار

Denial

جواز/ عذر خواہی

Justification or Apologetic

 

کیا پاکستانی لبرل اسٹبلشمنٹ ‘شیعہ سوال’ کو زیر بحث لاتے ہوئے تکفیریت کو اس کے سب سے بڑے متاثرین یعنی شیعہ کے نکتہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہے؟

 

:یعنی ایڈورڈ سعید کے طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے کیا ہم بھی اسے یوں بیان کرسکتے ہیں

 

Takfirism from the standpoint of its victims:

Shia victims have become a crucial part of ‘Takfirism’ history. Just as noSalafi or Deobandi in the last three decade or so has been untouched by Takfirism, so too no Shia has been unmarked by it. Yet it must not be forgotten, that the Shia was not simply a function of Takfirism. His life, culture and politics have their own dynamic and ultimately their own authenticity.”

“تکفیریت اس کے متاثرین کے نکتہ نظر سے: شیعہ متاثرین تکفیریت کی تاریخ کا اہم جزو بن گئے ہیں۔ گزشتہ تین عشروں میں کم وبیش کوئی سلفی یا دیوبندی ایسا نہیں ہے جسے تکفیر ازم سے پالا نہ پڑا ہو اور ایسے ہی کوئی شیعہ ایسا نہیں ہے جسے اس نے متاثر نہ کیا ہو۔ پھر یہ بھی نہیں بھولنا کہ شیعہ تکفیریت کا ثمر نہیں ہیں بلکہ ان کی زندگی، ثقافت اور سیاست کی اپنی حرکیات اور لامحالہ ان کی اپنی ایک ساکھ ہے۔

Source:

شیعہ نسل کشی : متاثرین کے نکتہ نظر سے تکفیریت کا جائزہ

Comments

comments