کوئٹہ میں بس کمپنیوں کا ہزارہ شیعہ کمیونٹی کو بس ٹکٹ کی فروخت سے انکار،فیصلہ سیکورٹی حکام کے کہنے پہ کیا ۔ بس حکام کا موقف

کوئٹہ : ہزارہ ٹاؤن نام کے ایک فیس بک پیج پہ آنے والی پوسٹ کے مطابق کوئٹہ میں ملک کے مختلف حصوں میں جانے کے لئے چل رہی بس سروسز نے ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ٹکٹ دینے اور بس میں سوار کرانے سے انکار کردیا ہے۔فیس بک پیج کے مطابق اس بات کا انکشاف تب ہوا جب السیف بس کوچز سروس کے بکنگ سنٹر پہ ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی کراچی کے لئے بکنگ کرنے سے انکار کردیا گیا۔جب اس حوالے سے وجہ پوچھی گئی تو بکنگ کلرک نے بتایا کہ ان کے مالکان کو سیکورٹی فورسز نے کہا ہے کہ کسی ہزارہ کمیونٹی کے فرد کو ٹکٹ نہ دی جائے اور بسوں میں ان کو سوار نہ کرایا جائے۔

اس حوالے سے مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن کے رہائشی کئی ایک ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔تعمیر پاکستان نیوز ایجنسی نے جب کوئٹہ میں موجود کمشنر آفس سے رابطہ کیا تو وہاں سے کہا گیا کہ ان کے نوٹس میں ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے۔بلوچستان سیکرٹریٹ میں ہوم ڈیپارٹمنٹ کے معاملات دیکھنے والے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ بتایا کہ زبانی طور پہ سیکورٹی کے ذمہ دار لوگوں نے بس ٹرانسپورٹ سروسز کے مالکان کو کہا ہے کہ اول تو وہ کوشش کریں کہ ہزارہ ( شیعہ ) ان کی بسوں سے سفر ہی نہ کریں اور اگر ایسا ناگزیر ہوجائے تو پھر ان کو کہیں کہ پہلے وہ سیکورٹی کلئیرنس لیکر آئیں۔ایف سی بلوچستان کے میڈیا فوکل پرسن نے اس معاملے پہ کچھ بھی کہنے سے معذرت کرلی۔

‘ ہزارہ ٹاؤن اور مری آباد کے رہائشوں کے لئے ایف سی نے خصوصی بنوانے کا فصیلہ کیا ہے اور ان کو کہا جارہا ہے کہ اپنے علاقے میں آتے وقت اور یہاں سے جاتے وقت یہ خصوصی پاسز دکھائیں جائیں،یہ ہزارہ کمیونٹی کو محصور کرنے کا منصوبہ ہے اور باقاعدہ ان کے علاقوں کو گھیٹوز میں بدلا جارہا ہے’، جلیلہ حیدر ایڈوکیٹ ممبر نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق بلوجستان چیپٹر نے اپنی وال پہ یہ پوسٹ لگائی ہے جوکہ خود ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور معروف سماجی ورکر ہیں۔

ہزارہ شیعہ کمیونٹی کوئٹہ میں عرصہ دراز سے کالعدم دہشت گرد تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت/لشکر جھنگوی کی جانب سے حملوں کا نشانہ بن رہی ہے اور ان کی منظم نسل کشی کی جارہی ہے۔ابتک ہزاروں شیعہ ہزارہ ٹارگٹ کلنگ اور خودکش بم دھماکوں میں ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ہزارہ شیعہ کمیونٹی مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن کے اندر محصور ہوچکی ہے جبکہ درجنوں خاندان کوئٹہ سے ہجرت کرکے بیرون ملک جاچکے ہیں۔بلوچستان حکومت یا وفاقی حکومت وہ مذہبی بنیادوں پہ ہونے والی شیعہ ہزارہ کمیونٹی کی نسل کشی کے زمہ دارانہ تکفیری دیوبندی تنظیموں کو کام کرنے سے روکنے اور ان کے تربیتی کیمپوں کے خاتمے میں ناکام نظر آتی ہیں بلکہ کئی ایک حلقے یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ مستونگ میں جاوید مینگل کے مبینہ طور پہ تربیتی کیمپ موجود ہیں جو ہزارہ شیعہ کی نسل کشی میں ملوث ہیں اور ان کیمپوں کو مبینہ طور پہ ایف سی کی حمایت حاصل ہے۔

Comments

comments