تکفیری دہشتگرد اور ایک ضعیف باپ کی خرن میں ڈوبی عمر بھر کی کمائی
لاہور میں میرے ایک جاننے والے ہیں، بہت نیک، پرہیزگار، بے ضرر اور سفید پوش۔ سرکاری ملازم تھے، شاید اب ریٹائر ہوچکے۔ ان کا ایک بیٹا تھا، بہت ہونہار اور دیندار۔ وہ جو کچھ لڑکے اور بچے ہوتے ہیں نا، مسجد اور امام بارگاہ کے کاموں میں بہت آگے آگے، کبھی نمازِ جمعہ میں اور کبھی کسی دن باجماعت نماز میں باقاعدگی سے نظر آتے ہیں، بس کچھ ویسا ہی تھا۔ پڑھائی میں بہت زیادہ اچھا تھا۔ پھر اس کا داخلہ کراچی کے ایک مشہور کالج میں ہوگیا اور یہ کراچی چلا گیا۔ والد نے بڑی امیدوں کے ساتھ کراچی بھیجا تھا، چونکہ پڑھائی میں بہت اچھا تھا اس لئے والد کو اس سے اُمیدیں بھی بہت زیادہ تھیں۔ نوجوان لڑکا تو ویسے بھی والد کی عمر بھر کی کمائی کہلاتا ہے۔
بہرحال، اس عمر بھر کی کمائی کو کراچی میں سرراہ قتل کردیا گیا۔ وجہ بتانے کی ضرورت نہیں، جس طرح کراچی کے وادی حسینؑ قبرستان میں مدفون ان گنت سٹوڈنٹس، گول میڈلسٹس اور پروفشنلز کو قتل کیا گیا، لاہور کے اس بدقسمت نوجوان کو بھی اسی وجہ سے شہید کیا گیا۔ والد اور والدہ اُس دن کو یاد کرکے روتے تھے جب اُنہوں ںے اچھے مستقبل کی اُمید میں اپنے بچے کو لاہور سے کراچی بھیج دیا تھا، شاید سوچ رہے تھے کہ کیا کمی تھی لاہور میں اچھے تعلیمی اداروں کی جو اُسے کراچی کے مقتل بھیج دیا۔
میں اس نوجوان کے جنازے میں تو شریک نہیں ہوسکا تھا لیکن پتہ چلا تھا جنازے کے ساتھ سر جھکائے چلتے چلتے یہ ضعیف باپ، بار بار سڑک کنارے سر پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتا تھا۔ پھر کوئی آکر اِسے اُٹھاتا تھا اور یہ دوبارہ سر جھکائے روتے ہوئے چلنا شروع کردیتا تھا، غالبا، اس کا دل یہ قبول کرنے کو تیار ہی نہیں تھا کہ یہ اس کے بیٹے کا جنازہ ہے۔ جوان بیٹے کا یوں دنیا سے چلے جانا واقعی باپ کی کمر توڑ دیا کرتا ہے۔ بیٹا بھی وہ جس کے بہترین مستقبل کے خواب دیکھ رکھے ہوں۔
کل رات میں نے کوئٹہ کے جس شیعہ ہزارہ نوجوان کی تصویر شئیر کی تھی، اُس کی کہانی بھی لاہور کے جوان سے مختلف نہیں ہے۔ انباکس میں میرے ایک ہزارہ دوست نے بتایا ہے کہ اس نوجوان کا پورا نام کربلائی محمد مرتضی ہزارہ تھا، والد کا نام کیپٹن صفدر علی جو سپورٹس ٹرینر تھے۔ مالی تنگی کے باعث صرف اس وجہ سے ریٹائرمنٹ لی تھی تاکہ گریجویٹی میں ملنے والی رقم سے بیٹے کا داخلہ کسی اچھے کالج میں کروا سکیں۔ جوان بیٹے کی فکر بھی تھی اس لئے کوئٹہ کی کسی یونیورسٹی کی بجائے اُس کا داخلہ کراچی کے ایک اچھے کالج میں کروایا تھا۔ کون نہیں جانتا کہ اسی کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی میں یونیورسٹی بس پر خود کش حملہ ہوچکا ہے جس کا نشانہ ہزارہ سٹوڈنٹس تھے۔ سنا ہے سیکیورٹی کے پیشِ نظر ہزارہ سٹوڈنٹس کو کوئٹہ کے تعلیمی اداروں میں داخلے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اِسے کہتے ہیں نسل کشی کی اثرات۔
مرتضی چھٹیوں پر اپنے والدین سے ملنے کوئٹہ آیا تھا۔ والد نے اطمینان کے ساتھ رخصت کیا ہوگا کہ میری محنت رنگ لارہی ہے، کراچی میں بیٹا محفوظ بھی رہے گا اور پڑھائی بھی مکمل ہوجایگی۔ اپنی دانست میں اس باپ نے بیٹے کیلئے وہ سب حفاظتی تدابیر اختیار کرلی تھیں جو ایک فکرمند باپ اختیار کیا کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ اُس کی تمام تدابیر ناکام ہوگئیں۔ مرتضی کل مستونگ میں اُسی حملے کا نشانہ بن گیا جس میں ایک خاتون سمیت دو شیعہ ہزارہ جان سے گئے۔ ان میں سے ایک بدقسمت وہ بھی تھا جو علاج کیلئے کراچی جارہا تھا۔
مرتضی کا جنازہ ہوچکا ہوگا، اُسے غالبا بہشتِ زینبؑ قبرستان بھی سپردِ خاک کیا ہوگا، یوں کہیں کہ ایک باپ کی عمر بھر کی کمائی کو مٹی میں ملا دیا گیا ہوگا۔ میں نہ جنازے میں شریک تھا اور نہ ہی تدفین کی کوئی تصویر میں نے دیکھی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ لاہور کے اس نوجوان کے جنازے میں چلتے چلتے بار بار رک کر سڑک کنارے بیٹھ جانے والے باپ اور مرتضی کے باپ کی حالت میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ جوان بیٹے کا یوں چلے جانا کمر توڑ دیا کرتا ہے، بیٹا بھی وہ جس کے خوبصورت مستبقل کے بہت خواب دیکھ رکھے ہوں۔