پارہ چنار کرم ایجنسی اور شیعہ۔سنّی لڑائی کا افسانہ – عامر حسینی

میں کرم ایجنسی اور خاص طور پہ اپر کرم ایجنسی ایریا بارے نکتہ نظر سجاگ میں ایک تفصیلی مضمون میں اس بات پہ روشنی ڈال چکا تھا کہ پارہ چنار میں بم دھماکوں کی وجوہات کیا ہیں۔لیکن اس دوران کچھ ایسے مضامین سامنے آئے ہیں جنھوں نے پارہ چنار کو مسلسل ٹارگٹ کئے جانے کی بنیادی وجہ کرم ایجنسی کے اندر پائے جانے والے فرقہ وارانہ تنازعوں میں تلاش کرنا شروع کردی ہیں اور اس حوالے سے انھوں نے تاریخی طور پہ کالونیل دور اور پوسٹ کالونیل دور میں ایک تو کالونیل اور پوسٹ کالونیل ریاستی پالیسیوں ، علاقائی و بین الاقوامی حالات کار کو ان فرقہ وارانہ اور قبائلی تنازعوں کی شکل بدل ڈالنے میں بنیادی کردار ادا کرنے اور صورت حال کو اپر کرم میں شیعہ پشتون مسلمانوں کی نسل کشی بلکہ ان کے وجود کے لئے خطرہ بننے والی ریڈیکل ، تکفیری ، جہادی دیوبندی انتہا پسندی کو غلط بائنریز سے کاؤنٹر کرنے کی شعوری اور لاشعوری کوشش کی ہے۔

ایسی تحریریں فرقہ وارانہ آگ کو بھڑکاتی ہیں۔ شیعہ اور سنّی آبادی کو ایک دوسرے سے الگ بلکہ ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی کرتی ہیں۔پشتون قوم پرست سیکولر دانشور جن کی اکثریت سنّی دیوبندی پس منظر کی حامل کی تحریروں کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان کی اکثریت کا یہ متفقہ نکتہ نظر ہے کہ کرم ایجنسی میں کالونیل دور میں برٹش سامراج کی پالیسی پشتون سامراج دشمن قوم پرستانہ لہر کو دبانے کے لئے متحارب قبیلوں میں نسلی تضادات اور تنازعات کی آگ بھڑکائی جاتی رہی اور ساتھ انہوں نے کرم ایجنسی جیسے علاقوں میں قبائل کے درمیان نسلی بنیادوں پہ پائے جانے والے تضاد کے ساتھ فرقہ وارانہ فرق کو بھی اپنی حکمرانی اور پالیسیوں کو برقرار رکھنے کے لئے استعمال کیا۔

برطانوی افسر ڈین زل ابیٹسن جس نے 1881ء میں پنجاب کے اندر سینس کی نگرانی کی تھی اس نے لکھا کہ ‘کالونیل ایجنسی ‘ نے کمیونٹیز کے درمیان سرحدوں کو گہرا کیا اور ان کے درمیان ‘مذہبی حریفانہ پن’ کو تیز کردیا۔اور یہی بات ہرجوٹ اوبرائی کہتا ہے کہ برٹش پنجاب ( جس میں پہلے آج کا خیبر پختون خوا بھی شامل تھا ) میں کالونیل ایجنسی نے اس خطے کے تکثریت پسند مقامی مذہب پہ بنیاد رکھنے والی کائنات کو اصلاح پسندی کی آڑ میں ٹکڑے ٹکڑے کردیا، سنگھ سبھا نے ‘خالصہ ‘ ،آریہ سماج نے ‘نئی ہندؤ شناخت ‘ اور ایسے ہی مسلمانوں میں دیوبند، ندوہ ، حمایت الاسلام وغیرہ نے ‘احیائیت پسند اسلام’ جس کے اندر ‘فرقہ وارانہ تقسیم کو نیا رنگ دینے ‘ کے جراثیم تھے کو جنم دیا۔

دو ہزار دس میں پشتون سنّی سکالر ڈاکٹر فرحت تاج نے انگریزی روزنامے ‘ٹرائبون ایکسپریس ‘ میں ایک آرٹیکل لکھا اور اس آرٹیکل میں ڈاکٹر فرحت تاج نے اپنے پڑھنے والوں کو پہلے تو یہ بتایا کہ کیسے کرم ایجنسی کے اندر کرم اسکاؤٹس کے کمانڈنٹ نے پولیٹکل ایجنسی کی سویلین ایڈمنسٹریشن اور پولیٹکل ایجنٹ کو بائی پاس کرتے ہوئے اپنے طور پہ ایک جرگہ بلوایا اور اس جرگے میں ابراہیم پراچہ جیسے لوگوں کو بھی بلالیا گیا جس پہ نہ تو شیعہ قبائل راضی تھے اور نہ ہی سنّی قبائل کے عمائدین کیونکہ دونوں کا خیال یہ تھا کہ کرم ایجنسی میں القاعدہ اور دیگر غیر مقامی دہشت گردوں کو پناہ دینے میں ابراہیم پراچہ کا بڑا کردار تھا اور ایسے ہی ابراہیم پراچہ کا کرم ایجنسی سے تعلق بھی نہیں بنتا تھا۔

پھر بعد میں کرم اسکاؤٹس کمانڈنٹ نے سنّی قبائل کے کئی لوگوں کو واپس پارہ چنار میں اور کچھ طوری شیعہ قبائلیوں کو سنٹرل کرم ایجنسی صدہ میں لیجانے کی کوشش کی یہ وہ سنّی اور شیعہ تھے جو 85ء میں شیعہ۔سنّی لڑائی کے نتیجے میں بالترتیب شیعہ اکثریت اور سنّی اکثریت کے علاقوں سے ہجرت کرگئے تھے۔سنّی اور شیعہ دونوں قبائل نے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس عمل سے ایک بار پھر شیعہ۔سنّی اختلاف کی آگ بھڑکے گی اور اس آڑ میں اس علاقے میں آپریشن کی راہ ہموار ہوگی اور قبائل کی خودمختاری کو اور زیادہ نقصان پہنچے گا۔ڈاکٹر فرحت تاج نے اس مضمون کے آخر میں یہ تجویز پیش کی تھی

The crisis in Kurram and the rest of Fata is beyond the capacity of the local commandants and political agents. Everything they do simply adds to the sufferings. The president of Pakistan should implement the Political Parties Act in the area so that disputes can be resolved through local political leadership. Intelligence agencies must stop using the area as a strategic space for its ‘great games’.

Published in the Express Tribune, June 6th, 2010.

کرم اور باقی ماندہ فاٹا میں جو بحران ہے اسے حل کرنے کی طاقت مقامی کمانڈنٹ اور پولیٹکل ایجنٹ میں نہیں ہے۔جو بھی وہ قدم اٹھاتے ہیں وہ مصائب میں اضافہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ان علاقوں میں پولیٹکل پارٹیز ایکٹ کا نفاذ صدر پاکستان کو کرنا چاہئیے تاکہ مقامی سیاسی قیادت کے زریعے سے مسائل کا حل سامنے آئے۔اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لئے ان علاقوں کو گریٹ گیم کی خاطر اسٹرٹیٹجک علاقے کے طور پہ استعمال کرنے کی کوششیں بند کرنا ہوں گی۔

لیکن 2010ء سے لیکر آج 2017ء کا درمیان آگیا ہے لیکن کرم ایجنسی سے لیکر باقی ماندہ فاٹا میں ابتک مقامی سیاسی قیادتوں کو بحرانوں کے حل کے لئے کوئی کردار ادا کرنے نہیں دیا جارہا اور نہ ہی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ان علاقوں میں تزویراتی کھیل کھیلنا بند کیا ہے۔

مجھے يہاں پہ ماروی سرمد کا ڈیلی ٹائمز میں تین اپریل 2017ء کا چھپا ہوا ایک آرٹیکل بھی یاد آرہا ہے جس میں ماروی سرمد نے پارہ چنار کے دہشت گردی کا گرم ترین مرکز بننے کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ پارہ چنار پہ شدید ترین حملوں کی ایک بنیادی وجہ جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات کے دوران ٹی ٹی پی اور دوسرے دیوبندی انتہا پسند نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کا شمالی وزیرستان کی جانب فرار تھا جس کی سرحد پارہ چنار سے ملتی تھی اور پھر جب شمالی وزیرستان پہ ڈرون حملے شروع ہوئے تو وہاں سے دہشت گردوں نے کرم ایجنسی کے راستے پکتیکا اور ننگر ہار کے افغان صوبوں میں منتقل ہونا چاہا جس میں ان کو اپر کرم ایجنسی کی شیعہ آبادی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا تھا اور یہ آسان کام نہ تھا تو انہوں نے پارہ چنار پہ حملے شروع کردئے اور یہ 2013ء سے 2016ء تک بہت تیزی سے ہوئے۔2013ء میں چھے ماہ کے اندر اندر آٹھ حملے ہوئے۔

جبکہ اس دوران سنٹرل کرم ایجنسی جس کا صدر مقام صدہ ہے وہاں پہ لشکر جھنگوی، جماعت احرار، ٹی ٹی پی کے مقامی گروہوں کا اجتماع شروع ہوگیا تھا اور جب شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تو اس کے بعد ٹی ٹی پی کے دھڑے، جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی وغیرہ ننگر ہار،خوست، پکتیکا افغان صوبوں کی جانب گئے جبکہ اس دوران حقانی نیٹ ورک کی کرم ایجنسی اور اس کے اردگرد منتقل ہونے کی خبریں آنے لگیں۔پارہ چنار کے ایک طرف افغان صوبوں میں ٹی ٹی پی ، جماعت الاحرار،لشکر جھنگوی ، دولت اسلامیہ خراسان و پاکستان ۔۔۔۔داعش کا اجتماع ہے تو سنٹرل کرم ایجنسی میں لشکر جھنگوی اور داعش سے مل جانے والے گروپ ہیں جبکہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی بھی شیعہ دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور ان سب کا ہدف پارہ چنار اور اس کی شیعہ آبادی ہے۔ماروی سرمد نے لکھا تھا کہ پارہ چنار کے شیعہ افغان صوبوں میں ابھرتی داعش ، جماعت الاحرار،ٹی ٹی پی اور ادھر پاکستان میں موجود لشکر جھنگوی ، جیش محمد اور پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے حمایت یافتہ حقانی نیٹ ورک و دیگر نام نہاد اچھے طالبان کی کاروائیوں کے درمیان سینڈوچ بنے ہوئے ہیں۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان میں لبرل دانشوروں کا ایک اچھا خاصا حلقہ (بدقسمتی سے اس کا تعلق پاکستان کی اربن چیٹرنگ کلاس سے ہے ) اور دیوبندی و سلفی پس منظر رکھنے والے تجزیہ کار کرم ایجنسی کی شیعہ پشتون آبادی کے لئے دیوبندی انتہا پسندی کو ان کے وجود کے بنیادی خطرہ تسلیم کرنے کی بجائے پارہ چنار میں شیعہ نسل کشی اور شیعہ اکثریت کے علاقوں پہ ہونے والے حملوں میں پارہ چنار کے شیعہ قبائل اور شیعہ اکثریت آبادی کے اندر موجود عسکریت پسند رجحان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور اسے ایک تو کرم ایجنسی کے سنّی قبائل کے وجود کے لئے خوامخواہ بہت بڑا خطرہ بناکر پیش کرتے ہیں بلکہ وہ اپر کرم ایجنسی کی شیعہ اکثریتی آبادی کو شام، عراق کے اندر جاری جنگ میں سنّی آبادی کی مفروضہ نسل کشی کا سب سے بڑا ذمہ دار بناکر پیش کررہے ہیں۔

ان کے خیال میں پارہ چنار کے شیعہ قبآئل سے ہزاروں لوگ شام اور عراق میں موجود ہیں اور پاکستان واپس آنے والوں کی تعداد بھی بڑھا چڑھا کر پیش کی جارہی ہے اور اس سب کا مقصد پارہ چنار کی شیعہ آبادی کو سنّی مسلمانوں کے وجود کے لئے خطرہ بناکر پیش کرنا ہے۔اور ان کی نسل کشی کا جواز فراہم کرنا ہے۔یہ الزامات ہزارہ شیعہ کمیونٹی ، کراچی ،ڈیرہ اسماعیل خان میں بسنے والی شیعہ کمیونٹی پہ بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔جبکہ پارہ چنار کرم ایجنسی کے شیعہ کے باب میں یہ تاریخ کا خون کرنے کے مترادف ہے۔جنرل ضیاء الحق کے دور سے کرم ایجنسی کے شیعہ اکثریتی علاقوں سے شیعہ قبائل کی جبری بے دخلی اور وہاں پہ جبری طور پہ سنّی افغان و پاکستانی پشتون دیوبندیوں کو بسائے جانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور سنٹرل کرم ایجنسی کی سنّی اکثریت کے علاقوں میں اینٹی شیعہ تکفیری دیوبندی تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان کو کھلے عام کام کرنے اور یہاں پہ اعتدال پسند سنّی دیوبندی آبادی کو ریڈیکل کرنے کا منظم پروسس شروع کیا گیا تھا جو آج تک بند نہیں ہوا ہے۔

ریاست کی جانب سے شیعہ اکثریت کے کرم ایجنسی کے علاقوں میں کرم ملیشیا میں خاص طور پہ منگل قبائل کے دیوبندی سنّی عناصر کی تعیناتی،طوری اور بنگش قبائل کے لوگوں کو کرم ملیشیآ میں پیچھے ہٹانے اور یہاں کے لوگوں کو غیر مسلح کرنے جیسے ریاستی اقدامات اور ایف سی کے کرم ایجنسی کے شیعہ علاقوں میں متعصب دیوبندی افسران کی تعیناتی جیسے ایف سی کمانڈنٹ کرنل عمر ملک ہے ایسے اقدامات ہیں جنھوں نے فرقہ وارانہ کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ کیا ہے۔

ایک بات بہرحال طے کہ پاکستان کی شیعہ اکثریتی آبادی یہاں کی سنّی اکثریتی آبادی بشمول دیوبندی اور سلفی کے لئے جوہری اور وجودی خطرہ نہیں ہیں اور نہ ہی یہاں کی مین سٹریم سنّی آبادی شیعہ کے لئے کسی وجودی خطرے کا سبب ہے لیکن دیوبندی۔سلفی جہادی تکفیری وہابی نیٹ ورک نہ صرف شیعہ آبادی کے وجود کے لئے خطرہ ہے بلکہ یہ اس ملک کے اکثریتی رجحان صوفی سنّی آبادی کو مکمل طور پہ بدل ڈالنے اور ان کے شعائر و شناخت کو مٹاڈالنے والا بدترین خطرہ ہے۔جو اس بارے ابہام پھیلاتا ہے یا اس خطرے کے لئے جواز تلاش کرتا ہے وہ دہشت گردی کی براہ راست یا بالواسطہ حمایت ضرور کرتا ہے۔اور وہ شیعہ۔سنّی باہمی اتحاد کی بجائے ان میں مبینہ مفروضوں کے تحت خانہ جنگی دیکھنے کا خواہش مند ہے۔

Comments

comments