اداریہ تعمیر پاکستان: سعودی عرب کے وائسرائے نواز شریف نے پاکستان کو مڈل ایسٹ کی دلدل میں پھنسا ہی دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز سعودی عرب کی جانب سے نام نہاد مذھبی دہشت گردی کے خلاف بلائی جانے والی مسلم سربراہوں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعوی کیا کہ یہ خیر اور شر کے درمیان معرکہ ہے اور ان سب کو مذھب کے نام پہ ہونے والی دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

انتہائی جذباتی تقریر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں ایران کو مکمل طور پہ نشانہ بناتے ہوئے ایران پہ الزام عائد کیا کہ وہ فرقہ وارانہ تصادم اور دہشت گردی کی آگ کو ہوا دے رہا ہے اور اس کی یہ حرکت اسے عالمی سطح پہ تنہا کررہی ہے

امریکی صدر نے کہا کہ وہ دوستی، رجائیت اور محبت کا پیغام لیکر آئے ہیں اور مسلم ممالک کے سربراہان کو چاہئیے کہ وہ ایمانداری سے مذھبی انتہاپسندی کے بحران کا مقابلہ کریں۔

یہ بربریت اور تمام مذاہب کے امن پسندوں کے درمیان جنگ ہے۔بربریت کے دل دادہ مجرم انسانی زندگی کو ختم کرنے جبکہ امن پسند اس کی حفاظت کرنے کی کوشش کررہے ہیں

امریکی صدر نے حیرت انگیز طور پہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں بھارت کا نام لیکر ذکر کیا لیکن انھوں نے پاکستان کا بھولے سے بھی ذکر کرنا مناسب خیال نہ کیا۔

اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہونے والی سعودی عرب کی میزبانی میں اس کانفرنس میں پاکستان کے دہشت گردی بارے بیانیہ اور موقف کو اس کانفرنس میں کہاں تک اہمیت دی گئی ہے۔

پاکستانی وزیراعظم ملک کی بھاری اکثریت کی خواہشات کے برعکس اور مین سٹریم سیاسی و مذھبی جماعتوں کی جانب سے سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت کی زبردست مخالفت کے باوجود اس کانفرنس میں شریک ہوئے اور وہ ایک متنازعہ فوجی اتحاد میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ سابق آرمی چیف کو اس فوجی اتحاد کا سربراہ بننے کا این او سی بھی دے دیا۔ابتک حکومت اس فیصلے پہ تنقید کرنے والوں کو یہ بتانے سے قاصر رہی ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان کو عالمی سطح پہ کیا فوائد حاصل ہوں گے۔

امریکی صدر کے سعودیہ عرب کے دورے کے دوران امریکی صدر کے بیانات اور کانفرنس میں کی گئی تقریر جبکہ خود سعودی عرب کے بادشاہ سلمان ، وزیر دفاع محمد بن سلمان کے بیانات اور تقاریر سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سعودی۔امریکی اتحاد خطے میں داعش، القاعدہ وغیرہ کے خلاف نہیں بلکہ اصل میں یہ شام ، لبنان، عراق، ایران، روس اور دیگر ان ممالک کے خلاف ہے جو مڈل ایسٹ، شمالی افریقہ سمیت دنیا بھر میں سعودی وھابی ازم ، جہاد ازم اور تکفیر ازم کے نام پہ آل سعود کی قبضہ گیری اور امریکہ سمیت مغربی حکومتوں کا شام، یمن وغیرہ پہ جو موقف ہے اس کی مخالفت کرنے اور مزاحمت کرنے والے ممالک کے خلاف بنایا گیا ہے۔

امریکی صدر کو سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خطاب کی دعوت دیتے ہوئے ایران کو عالمی دہشت گردی کا سرپرست قرار دیا تو خود امریکی صدر نے مڈل ایسٹ میں دہشت گردی اور فرقہ واریت کا سارا الزام ایران کے سر پہ تھونپ دیا۔

لبنان سے عراق تک اور عراق سے میں تک ایران دہشت گردوں، مسلح گروہوں اور دوسرے انتہاپسندوں کو پیسے، اسلحہ اور تربیت دے رہا ہے جوکہ خطے میں افراتفری اور تباہی پھیلا رہے ہیں۔جب تک ایرانی رجیم تمام اقوام کے ساتھ ملکر امن کے لیے کام کرنے پہ رضامند نہیں ہوجاتا اس وقت تک کے لیے اسے الگ تھلگ اور تنہا کرنے پہ کام کیا جائے۔ساتھ ہی انہوں نے مسلم ممالک سے درخواست کی کہ دہشت گردوں کو ان کی سرزمین پہ پناہ نہیں ملنی چاھیے

امریکی صدر ٹرمپ نے امریکہ کی خارجہ پالیسی میں اوبامہ دور میں سعودی عرب اور گلف ریاستوں کی انسانی حقوق کی پامالی بارے اور وھابی ازم پہ مبنی دہشت گردی کو فنڈ کیے جانے بارے ہلکی سی تبدیلی پیدا کی تھی اور ایران بارے رویہ بدلے جانے کا جو اشارہ دیا تھا اس کو یکسر بدل دیا ہے۔

یہ سوچ صرف ہماری نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں خود مغربی اور ایشیائی مین سٹریم میڈیا کی جانب سے بھی اسی رائے کا اظہار کیا جارہا ہے۔مثال کے طور پہ پاکستانی انگریزی میڈیا کا معتبر نام ڈان میڈیا گروپ کی انگریزی ویب سائٹ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب کی رپورٹ اے ایف پی اور دیگر خبررساں ایجنسیوں کے ذریعے سے جو شایع کی اس میں بتایا کہ وائٹ ہاءوس نے سابق صدر اوبامہ کے دورہ سعودی عرب سے ٹرمپ کے دورے کو الگ رکھنے کے لیے جو لائحہ عمل اختیار کیا اس میں اوبامہ کی طرح مسلم عرب بادشاہوں کو اپنے ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال بہتر بنانے کا لیکچر اور نصیحت شامل نہیں ہے جیسے صدر اوبامہ نے کی تھی۔اور یہاں تک کہ صدر اوبامہ نے گلف ممالک کو ایران بارے نرم رویہ اختیار کرنے تک کی نصیحت کرڈالی تھی۔

اس کانفرنس نے سعودی عرب کے عزائم کو بہت ہی زیادہ واضح کردیا ہے۔اس سے پہلے نام نہاد مسلم نیٹو بارے اگر کوئی ابہام موجود بھی تھا اس کانفرنس نے اسے ہٹادیا ہے۔سعودی عرب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آشیرباد سے اور ایک طاقتور فوجی اتحاد کے ذریعے سے ایک طرف تو خود سعودی عرب میں آل سعود کے خلاف پھیلنے والی مزاحمت کو کچلنا اور خاص طور پہ سعودی عرب کے مشرقی صوبے عوامیہ میں شیعہ اکثریت کی تحریک کو ختم کرنا ہے۔یہ فوجی اتحاد مشرقی صوبے عوامیہ ، بحرین میں چل رہی بڑی عوامی جمہوری تحریک ، یمن میں آل سعود کی غلام کٹھ پتلی حکومت کے خلاف حوثی ، صالح عبداللہ کے اتحاد کی مزاحمت ، شام میں تکفیری سلفی گروپوں کے خلاف موجود مزاحمت کو کچل ڈالنے کا عزم رکھتا ہے۔اور ظاہر سی بات ہے کہ سعودی عرب یہ سب کام ایک طرف تو امریکی صدر کی حمائت اور دوسری طرف مسلم ممالک کی افواج کے دستوں کے ذریعے سے کروانا چاہتا ہے۔

یہ بہت واضح ایسا فرقہ وارانہ ایجنڈا ہے جس کی مسلم ممالک میں نہ تو جمہور اہل سنت اور نہ ہی جمہور اہل تشیع اجازت دے سکتے ہیں کیونکہ یہ جمہور اہلسنت کی فکری و ثقافتی زندگی کے لیے بھی کسی بڑے خطرے سے کم نہیں ہے۔اور سعودی فوجی اتحاد نہ صرف مڈل ایسٹ میں تکثریت پسندی کا دشمن ثابت ہوگا بلکہ یہ پورے عالم اسلام میں تکفیر ازم ، جہاد ازم اور مذھبی فاشزم کو ایک معیاری قدر کے طور پہ مسلط کردے گا۔

پاکستان کو اس اتحاد میں شمولیت کا فائدہ کیا ہے ؟ فائدہ صرف و صرف نواز شریف خاندان اور سابق آرمی چیف سمیت چند ان ایجنٹوں کو ہوتا نظر آرہا ہے جن کی جیبیں حق خدمت کے عوض سعودی عرب کا حکمران خاندان بھرے گا۔جبکہ اس اتحاد میں شمولیت کے بعد سعودی نواز مذھبی انتہاپسند قوتوں کو اس ملک کے صوفی سنی اور اہل تشیع کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور نفرت کو مزید گہرا کرنے کا موقعہ بھی میسر آجائے گا۔یہ فوجی و سیاسی اتحاد پاکستان کی عالمی سطح پہ بھارت کے خلاف موقف کو بھی کچھ مدد فراہم نہیں کرسکے گا۔کیونکہ سعودی عرب سمیت اس اتحاد میں شامل کوئی ملک بھارت کو ناراض کرنے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتا۔پاکستان کا رفیق حریری نواز شریف پاکستان کو مڈل ایسٹ کی فرقہ وارانہ دلدل میں ڈبودینے کی کوشش کررہا ہے اور اس کے اقدامات سے پاکستان میں خانہ جنگی کا خدشہ بڑھتا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں شیعہ نسل کشی میں شدت آنے اور دیگر اقلیتوں پہ مظالم بڑھ جانے کا بھی اندیشہ موجود ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیکولر مین سٹریم جماعتوں کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر نواز حکومت کے سعودی اتحاد میں شمولیت کے معاملے پہ سخت مزاحمت کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی صوفی سنی اور اہل تشیع کی نمائندگی کرنے والی مذھبی و سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی موجودہ روش پہ غور کرنے کی ضرورت ہے اور ان کو نواز حکومت کے اس فیصلے کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے اور زبردست عوامی دباءو پیدا کرنے والا پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو مذھبی بنیادوں پہ کسی قسم کی افراتفری ، بحران اور خدانخواستہ کسی مذھبی بنیادوں پہ خانہ جنگی کا شکار ہونے سے بچایا جاسکے۔ آل سعود کا وائسرائے پاکستان کو لبنان جیسی صورت حال سے دوچار کرنا چاہتا ہے جس کے خلاف مزاحمت بہت ضروری ہے

Comments

comments