تمدنی مکالمہ یا سوفسطائی حیلے ۔ آخری حصّہ – عامر حسینی
وجاہت مسعود نے اپنے اس انٹرویو میں بار بار یہ واضح کردیا کہ ان کی موقعہ پرستی ، انانیت اور خود پسندی نے ان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی سلب کرلی اور ایسے بیانات بھی انھوں نے داغ ڈالے جن سے کسی اوسط ذہانت کے مالک سے بھی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے یہ تاثر دیا جیسے ” یزید اور یزیدیت ” کو سیاست میں بطور استعارے استعمال نہیں کیا جاسکتا اور انہوں نے گویا یہ تاثر دیا کہ ” حسین اور حسینیت ” سیاسی استعارے ہی نہیں ہیں بلکہ کسی کسی خاص مسلک کے عقائد کا معاملہ ہے۔اور انہوں نے یہ کہنا یہ کہنے کی کوشش تھا کہ جب آپ یزید کہہ دیں تو مذاکرات کا راستہ بند ہوجاتا ہے اور سیاست ایسے کسی راستے سے واقف نہیں ہے۔
حسین اور حسینت حریت فکر کے عالمگیر سیاسی استعارے ہیں جیسے منصور حلاج کی مصلوبیت کا سوال صوفیا کے فرقے کا معاملہ نہیں رہا۔ یہ بھی حریت فکر کی خاطر جان دینے کے عالمگیر مزاحمتی استعارے بن چکے ہیں۔ ایسے ہی یزیدیت اور یزید ہونے کا سوال کوئی مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان مذہبی سیاسی تنازعہ نہیں رہا ہے بلکہ یہ عالمگیر طور پہ ظلم و جبر اور بے اصولی اور موقعہ پرستی کے استعارے ہیں اور جو بھی ظلم کرتا ہے، جبر سے کام لیتا ہے ، بے اصولی کرتا ہے اور موقعہ پرستی دکھاتا ہے اسے یزید اور اس کے فعل کو یزیدیت کہا جانے عام سی بات ہے۔جیسے ضیاء الحق کو کانا دجال ، یزید وقت کہا جاتا رہا ہے۔وجاہت کو یہ سب پتا ہے لیکن وہ جان بوجھ کر اس کی وہ تنگ نظر تعبیر کرنے پہ تل گئے جو یزید کو امیر المومنین بنانے اور اس کی حکومت کو ٹھیک قرار دینے کے لئے مذہبی مناقشے چھیڑتے ہیں اور اسی قبیلے کے ایک سردار کی پروجیکشن کے دفاع کا بیڑا انھوں نے اٹھالیا۔
وہ جھوٹی اور مغالطہ آميز مساوات پیدا کرنے کا سبب بھی بنے۔انھوں نے جان بوجھ کر محسن نقوی کے قتل بارے یہ کہنے کی کوشش کی کہ ان کے پاس بطور صحافی ایسی اطلاع ہیں کہ یہ کام کن کا تھا اور مطلب یہ تھا کہ محسن نقوی کا قتل شیعہ تنظیموں کے باہمی جھگڑوں کا نتیجہ تھا۔اس کا جواب تو شیعہ تنظیمیں اور اہل تشیع خود دیں گے لیکن اس زمانے میں روزنامہ جنگ، نوائے وقت ، ڈیلی ڈان ، دی نیوز انٹرنیشنل ، دی نیشن میں لاہور میں علامہ اقبال ٹاؤن جن کی کرائم بیٹ میں تھا ان رپورٹروں میں سے کسی ایک نے بھی اس حوالے سے کوئی ایسی افواہ تک اپنے فالو اپ میں شایع نہ کی تھی اور اس قتل کا پرچہ 96ء میں علامہ اقبال ٹاؤن تھانے میں جب درج ہوا تو اس میں مرکزی نامزد ملزم ریاض بسراء،اکرم لاہوری،اصغر معاویہ اور دیگر نامعلوم اور ساتھ ساتھ معاون اور منصوبہ بند لوگوں میں سپاہ صحابہ پاکستان کے مرکزی صدر مولانا اعظم طارق اور دیگر لوگوں کو لکھوایا گیا تھا۔
وجاہت مسعود سے سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ وہ ، امتیاز عالم اور ابصار عالم نواز شریف کے بارے میں کوئی ایک لفظ بھی تنقید کا نہیں لکھتے جبکہ عمران خان کے خلاف ذرا ذرا سی بات پہ طالبان خان اور دیگر تنقید کی جاتی ہے تو وجاہت مسعود نے اس کے جواب میں جو بات کہی یقین کیجئے کہ مجھے اس پہ مسلم تاریخ کے اسماء الرجال کے علم کے ماہر حافظ ذہبی یاد آگئے جب مغیث حنبلی نام کے ایک ملّا نے یزید کے فضائل میں ایک کتاب لکھ ماری تو انہوں نے افسوس کرتے ہوئے لکھا،” کاش مغیث حنبلی یہ سب لکھتے ہی نا” اور آج وجاہت مسعود نے کیا جواب دیا،” میری شدید خواہش ہے نواز شریف پہ تنقید کروں،مگر اپریل 1993ء کے بعد نواز شریف نے ایسا کوئی موقعہ دیا ہی نہیں “۔
گویا وجاہت مسعود نواز شریف کے اپریل 1993ء کے بعد نہ تو ان کے آل سعود ، جہادی ، تکفیری ، فرقہ پرستوں سے تعلقات کو ایسا عمل سمجھتے ہیں کہ اس پہ تنقید کی جاسکتی ، نہ ان کو چودھویں ترمیم کے ساتھ خلیفہ بننے کی مشق یاد آئی، نیب کے جرائم سیف الرحمان کی قیادت میں یاد آئے، بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور دیگر لوگوں کے ساتھ کئے جانے والے جرائم یاد آئے۔وہ سعودی عرب کی نواز شریف کے ساتھ نوازشیں ، مشرف سے ڈیل، میمو گیٹ میں سپریم کورٹ جانا، تکفیری فاشسٹ دیوبندی تنظیم سے اتحاد اور اس کی سرپرستی سب بھول گئے۔اور یہ بھی بھول گئے کہ نواز شریف نے حال ہی میں سعودی قیادت میں ایک فرقہ پرستانہ فوجی اتحاد میں شمولیت کی اور راحیل شریف کو این او سی دیا ہے۔وہ یہ بھی بھول گئے کہ نواز شریف پہ پانامہ پیپرز کیس میں کیا باتیں سامنے آئی ہیں۔کچھ یاد نہیں رہا۔
مقصد نواز شریف کے بارے میں یہ ثابت کرنا ہے کہ نواز شریف اپریل 1993ء کے بعد سے ایک ترقی پسند، لبرل ، اینٹی اسٹبلشمنٹ سیکولر سیاست دان ہیں۔اور میں یہاں اپنے پڑھنے والوں کو بتادوں کہ وجاہت مسعود کے خیالات نواز شریف کے بارے میں اس وقت سے بنے ہیں جب سے انھوں نے جنگ گروپ میں شمولیت اختیار کی اور ان کو جنگ گروپ میں نواز شریف کی لبرل امیج بلڈنگ کے سالاروں نجم سیٹھی،امتیاز عالم، مظہر عباس، ابصار عالم، بینا سرور اور ان جیسے جیسے دیگر لوگوں کے کلب ميں شمولیت ہوئی ہے اور ہم نے یہ بات 2008ء سے ہی بتانا شروع کردی تھی کہ پاکستان کے اندر لبرل صحافیوں کا ایک گروپ نواز شریف کی امیج بلڈنگ کمرشل بنیادوں پہ کررہا ہے اور سول سوسائٹی کے رضاکاروں میں بھی ایسے لوگ شامل تھے جیسے ہم نے عاصمہ جہانگیر کی نصیر بھٹہ ایڈوکیٹ کے ذریعے سے نواز شریف کیمپ میں جانے کی پیشن گوئی کی تھی جو حرف بحرف درست ثابت ہوئی تھی۔
وجاہت مسعود کمرشل لبرل مافیا کے گروپ میں ذرا دیر سے شامل ہوئے۔ اس سے پہلے یہ پاکستان پیپلزپارٹی کے کلب میں شامل ہونے کی کوشش کرتے رہے مگر وہاں جگہ نہ ملی۔اور بقول حیدر جاوید سید اس کلب تک وہ بعذریعہ مجیب شامی پہنچے ہیں اور کمرشل لبرل مافیا اور دائیں بازو کے شامی جیسوں کا باہمی کیا رشتہ و تعلق بنتا ہے سوائے نواز شریف کے دستر خوان پہ اکٹھے بیٹھے ہونے کے۔
وجاہت مسعود نے گفتگو کے آخر میں مادری زبانوں میں تعلیم کو لازم بنانے بارے جس حقارت کا اظہار کیا اور اپنی مادری زبان پنجابی سے جیسے خود کو الگ گیا مجھے ان پنجابی قوم پرستوں پہ بہت رحم آیا جو ان کی پنجابی شاعری پہ صفحے کالے کرتے رہے۔وجاہت مسعود پاکستان میں قومی سوال سے انکاری ہوئے اور مجھے پروفیسر سندھ یوینورسٹی عرفانہ ملاح نے بتایا کہ ان سے گفتگو کے دوران سندھی قومی سوال کا سرے سے ہی انکار کرڈالا تھا۔مہر جان کے نام سے ایک بلوچ دانشور سوشل ميڈیا پہ موجود ہے اس کا کہنا ہے وجاہت نے بلوچ قومی سوال پہ ان کا نکتہ نظر چھاپنے سے انکار کردیا تھا۔
وجاہت مسعود اصل میں اس ملک میں مذہب کی بنیاد پہ ہونے والی دہشت گردی کے مظلوم شیعہ کمیونٹی اور نسلی بنیادوں پہ نسل کشی کا شکار بلوچ قوم کے خلاف جن لوگوں نے سنگین جرائم کئے ہیں ان کے اصل چہروں کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ مظلوم و محکوم نسلی و مذہبی گروہوں کے خلاف برسر پیکار جابروں، ظالموں ، دہشت گردوں، تکفیریوں ، ریاستی بدمعاشوں کو امن کاسفیر ، ان کو بھیڑ کی کھال پہنانا چاہتے ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ ظالم و جابر و انتہا پسند کو ظالم ، جابر،انتہا پسند نہ کہا جائے۔
وہ شیعہ نسل کشی کو شیعہ بمقابلہ تکفیر ازم کی مساوات کی بچائے شیعہ۔سنّی یا شیعہ۔سنّی دیوبندی اور ایسے ہی ایران۔سعودی عرب جنگ بناکر دکھانا چاہتے ہیں اور ایسے وہ مظلوم اور ظالم ، مجبور اور جابر کی مساوات کی بجائے ظلم اور جبر کو سرے سے غائب کرکے دو کمیونٹیز کو باہم دست وگریباں دکھانا اور ایک خانہ جنگی کا مفروضہ لیکر چل رہے ہیں اور یہ تنگ نظر فرقہ وارانہ تعبیر ہے ایک ایسی یک طرفہ منظم تکفیری فاشسٹ جنگ کی جو اس ملک کے اہل تشیع،صوفی اہلسنت ، اعتدال پسند دیوبندی و اہلحدیث ، کرسچن، ہندؤ، احمدی سب پہ مسلط کی گئی ہے اور مسلط کرنے والے وہ ہیں جن کو ہم ٹی ٹی پی، جماعت احرار، القاعدہ، داعش ، لشکر جھنگوی ، جیش العدل وغیرہ کے نام سے جانتے ہیں اور ان کے نظریہ ساز جماعت کو سپاہ صحابہ پاکستان /اہلسنت والجماعت ، لال مسجد بریگیڈ اور فلاں فلاں کے نام سے جانتے ہیں۔اور وجاہت مسعود اور اس کا قبیلہ ظالموں اور جابروں کی شناخت پہ پردہ ڈال کر مظلوموں اور مجبوروں سے محبت کا دعوی کرتے ہیں تو سینے پہ چھریاں سی چل جاتی ہیں۔