سہیون درگاہ پہ بم دھماکہ : پاکستان کا جعلی لبرل مافیا جھوٹ پہ مبنی غم و غصّہ ابھارنے کا ماہر ہے تحریر : ریاض ملک ترجمہ : عامر حسینی
“Some (probably most) of the media characterisations during the Sehwan terrorist attack may have been exaggerations”
“سہیون پہ دہشت گرد حملے کی بعض میڈیا کی کردار نگاری (بلکہ اکثر ) مبالغہ آرائی پہ مبنی ہوسکتی ہے “
یہ فقرہ ملیحہ حامد صدیقی کے فیچر ” رپورٹر کی نوٹ بک ” سے لیا گیا ہے جو کہ انگریزی اخبار ڈیلی ڈان کی آفیشل ویب سائٹ پہ موجود ہے۔
لال شہباز قلندرپہ المناک حملے کے فوری بعد وہ جن کا ایجنڈا حقائق کو مسخ کرنا،اصل زمے داروں سے توجہ ہٹانا اور دہشت گردوں کی شناخت کو چھپانا ہی ہے متحرک ہوگئے۔اصل ذمے دار یعنی دیوبندی دہشت گرد گروت جماعت الاحراربارے توجہ مرکوز رکھنے کے انھوں نے آسان ہدف کو نشانہ بنایا جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت تھی۔جماعت الاحرار اور ان کا سعودی فنڈڈ دیوبندی مدارس کے ساتھ کیا رشتہ ہوسکتا ہے اسے نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ اسے پس پشت ڈال دیا گیا۔
پاکستان کے اپنے تئیں فیس بک کے جو میلکم ایکس ٹائپ ایکٹوسٹ اور غم و غصّے کو ابھارنے کے ماہر ہیں انھوں نے سینکڑوں زخمیوں کے لئے میڈیکل کی سہولتوں کی کمی کو الزام دینا شروع کردیا۔اس کے لئے انہوں نے الزام کو آسان ہدف پی پی پی کی صوبائی حکومت تک محدود کردیا جبکہ مسلم لیگ نواز کی وفاقی حکومت کے زکر سے گریز کیا جس کے رہنماء اور تجربہ کار وزراء بشمول چوہدری نثار علی خان کھلے عام دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں جنھوں نے پاکستان، افغانستان اور ہندوستان میں بڑے پیمانے پہ ظلم ڈھائے ہیں۔
بلاشبہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے جمعیت علمائے اسلام کی سرپرستی میں چلنے والے مدرسے جو نفرت پھیلانے کے کارخانے ہیں سے اغماض برتا ہے اور اس لئے اسے الزام سے مکمل طور پہ بری نہیں کیا جاسکتا۔تاہم ایسی محدود اور منتخب قسم کی الزام بازی جس کا نشانہ پی پی پی اور بعض اوات پی ٹی آئی بنتی ہے کے حاملین کی زبانیں بند رہتی ہیں جب پاکستان مسلم لیگ نواز کی باری آتی ہے۔یا معاملہ اسٹبلشمنٹ و جوڈیشری اور ميڈیا کا ہوتا ہے جو تکفیری گند کو ملکر پھیلاتے چلے آرہے ہیں۔پاکستان کے ( اکثر بھاری تنخواہوں پہ رکھے گئے ) غم و غصّہ ابھارنے والے پیشہ ور سوشل میڈیا پہ سرگرم ایکٹوسٹ فریب دینے اور انتہائی شدید قسم کے عدم توازن کی بیماری کو پھیلانے کو پھیلانے میں استادانہ مہارت رکھتے ہیں۔
اکثر و بیشتر یہ فیس بک میلکم ایکس اور غم وغصہ ابھارنے کے ماہر جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔اکٹر لوگ ان کا محاسبہ نہیں کرتے لیکن ہمیں اپنے حصّے کا کام کرنا ہے۔ڈیلی ڈان کی ویب سائٹ پہ موجود ملیحہ حامد صدیقی کی رپورٹ ” رپورٹر کی نوٹ بک: دھماکے کے بعد ” جو 5 مارچ 2017ء کو شایع ہوئی اس جھوٹ کو بے نقاب کرتی ہے جو کہ جبران ناصر جیسے ماہر ایکٹوسٹ نے بولا اور پھر وہاں سے یہ پورے سوشل میڈیا پہ پھیل گیا۔
پاکستان کے جعلی لبرل مافیا کی عہد شکنی کو ماپنے میں جو دلچسپی رکھتے ہیں ان کو اس رپورٹ کے نیچے دئے گئے اقتباسات پڑھنے کی ضرورت ہے۔یہ رپورٹ ان کے لئے ہے جو پاکستان کھوکھلے،فرقہ پرست اور حقائق پہ پردہ ڈالنے والے جعلی لبرل مافیا کے جھوٹے تجزیوں سے آگے دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔یہ جعلی لبرل مسلم تاریخ میں بھی ایسی ہی ڈنڈی مارتے ہیں جب معاملہ حضرت علی ابن ابی طالب اور صوفی روایات کی تعریف کا آتا ہے۔
ان کے پاکستان میں ہونے والے واقعات پہ شرمناک حد تک محدود طرز کے غم وغصے کو ابھارنے سے لیکر نیو لبرل کے یمن،شام،عراق اور لیبیا پہ کٹے پھٹے القاعدہ نواز بیانیوں تک ان کی بددیانتی کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
“Dr Moona Soomro shudders at the memory of February 16. “It was the day of judgement,” she says. On duty that night, she thought a transformer had exploded. “A few minutes later ambulances started bringing in dead bodies, women with torn clothes and injured toddlers.”
ڈاکٹر مونا سومرو 16 فروری کے دن کو یاد کرکے کانپ جاتی ہیں: یہ شاید قیامت کا دن تھا۔میری رات کی ڈیوٹی تھی،میں نے سمجھا شاید ٹرانسفارمر پھٹ گیا ہے۔چند منٹ بعد ایمبولینسوں نے مرجانے والوں کی لاشیں،پھٹے کپڑوں کے عورتوں اور زخمی چھوٹے بچوں کو لانا شروع کردیا”
But television channels reported there were no ambulances and they had to be called for from other cities, I ask. “That is untrue. Our hospital’s ambulances rushed at the site. Other private hospitals and NGOs also sent their ambulances. Doctors and paramedical personnel of entire Sehwan also came to help,” she replies.
لیکن ٹی وی چینلز اس وقت اپنے دیکھنے والوں کو یہ بتارہے تھے کہ وہاں ایمبولین نہ تھیں تو ان کو دوسرے شہروں سے ان کو بلانا پڑا،میں نے ان سے پوچھا، ” یہ سچ نہیں ہے”۔ہمارے ہسپتال کی ایمبولنس دھماکے کی جگہ کی طرف دوڑیں۔دوسرے پرائیویٹ ہسپتال اور این جی اوز نے بھی اپنی ایمبولینس بھیجیں۔ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف سارے سہیون سے مدد کے لئے امنڈ آیا۔”انہوں نے جواب دیا۔
Looking forward to meet the injured victims of the blast, we are told they have been discharged. The ones with serious injuries have been shifted to hospitals in Nawabshah, Jamshoro and Karachi.”
“بلاسٹ میں زخمی ہونے والوں سے ملنے کے لئے ہم آگے بڑھے تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ سب ڈسچارج ہوگئے ہیں۔جبکہ جو بہت زیادہ زخمی تھے ان کو نوابشاہ، جامشورو اور کراچی شفٹ کردیا گیا ہے۔”
“To the relief of my friends, the shrine musicians have survived the attack. A group of men surround the tomb beating their chests, chanting in praise of Hazrat Ali and Lal Shahbaz Qalandar.”
“میرے دوستوں کے لئے سکون کا باعث یہ بات تھی کہ درگاہ کے میں موسیقار حملے میں بچ گئے تھے۔مدروں کے ایک گروپ نے مقبرے کے گرد اکٹھ کیا ہوا تھا اور ان کی سنگت حصرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور لال شہباز قلندر کی مدح کرتے ہوئے عزاداری میں مصروف تھی”
“Our first stopover is the Taluka hospital. The hospital was much maligned on television channels for its incapability to handle the blast victims and the absence of ambulances. The criticism was particularly harsh since Sehwan is the constituency of the current chief minister of Sindh. Entering the arched entrance of the renamed taluka hospital, Sayed Abdullah Shah Institute of Medical Science Sehwan (SAIMSS), I am surprised to see the large premises. I had imagined a small healthcare facility.”
“ہمارا پہلا پڑاؤ تعلقہ ہسپتال تھا۔اس ہسپتال میں ایمبولینس نہ ہونے بارے ٹی وی چینلز کی جانب سے بہت شور مچایا گیا تھا اور اسے خوب بدمنام کیا گیا تھا۔تنقید اس لئے بھی بہت زیادہ تھی کہ سہیون چیف منسٹر مراد علی شاہ کا حلقہ انتخاب ہے۔تعلقہ ہسپتال کے اندر داخل ہوتے ہوئے جس کا نام سید عبداللہ شاہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس سہیون رکھا گیا ہے میں اس کے وسیع و عریض زمین پہ پھیلے ہونے کو دیکھ کر حیران رہ گئی،میں تو چھوٹے سے صحت کی سہولت کے مرکز ہونے کا تصور کرتی رہی تھی۔
نوٹ: ملیحہ حامد صدیقی کا پورا فیچر پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پہ کلک کریں
https://www.dawn.com/authors/700/maleeha-hamid-siddiqui