کیا نسل کشی سے مراد صرف قتل ہے؟
اقوام متحدہ نسل کشی کی جو تعریف بیان کرتی ہے، اُسکے مطابق نسل کشی اُس متواتر عمل کو کہا جاتا ہے جو کسی بھی قومی، لسانی، نسلی یا مذہبی کمیونٹی کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کیلئے منصوبہ بندی کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ اِس کمیونٹی یا گروپ کے افراد کا قتل، اُنہیں ذہنی یا جسمانی نقصان پہنچانا یا عمدا ایسے حالات پیدا کرنا جس سے اِس کمیونٹی کی زندگیوں پر براہ راست تباہ کن اثرات مرتب ہوں۔
گویا نسل کشی صرف قتل تک محدود نہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے، ایسا عمل جس کی رفتار کم اور زیادہ تو ہوتی رہے لیکن یہ رکے نہیں۔ پاکستان میں جب شیعہ نسل کشی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو بعض حضرات تو اِسے یکسر رد کردیتے ہیں، بعض مختلف موازنوں کے ذرئعے اِسے مبہم بنانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ بعض مقتول کی شناخت کو اُسکے قتل کی وجہ ماننے سے انکار کرکے اِسے ایک انسان اور پاکستانی کا قتل قرار دے دیتے ہیں۔
آپ صرف چند مثالوں کو اوپر بیان کردہ نسل کشی کی تعریف کے ذرئعے پرکھ لیں، حقیقیت خود بخود واضح ہوجایگی اور یہ بھی واضح ہوجایگا کہ جسمانی اور نفسیاتی نقصان پہنچانے کا یہ متواتر عمل جاری ہے۔ کوئیٹہ کی شیعہ ہزارہ براداری کی مثال ہمارے سامنے ہے، اِس کمیونٹی کو علاقہ چھوڑنے کی دھمکی دی گئی، ان کی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا، انکے طالب علموں کی کالج بسوں پر حملے ہوئے اور حد تو یہ ہے کہ انکی خواتین کو بھی شناخت کرکے قتل کیا گیا۔ ہزارہ برادری کے ساتھ کم و بیش یہی صورتحال افغانستان میں بھی ہے۔ آج بھی یہ برادری ایک خوف کے سائے میں زندگی گزار رہی ہے، کیونکہ وہ عناصر جو انکی نسل کشی میں ملوث ہیں، وہ سب بلوچستان میں آزاد ہیں۔
پاکستان میں اگر نوے کی دہائی سے اب تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو ایک ہزار سے زائد شیعہ ڈاکٹرز کو مختلف شہروں میں قتل کیا جا چکا ہے۔ اِن میں لاہور کے مایہ ناز ماہرِ چشم ڈاکٹر علی حیدر بھی شامل ہیں۔ جبکہ شیعہ ڈاکٹرز کی ایک بہت بڑی تعداد قتل کی دھمکیوں کے باعث ملک چھوڑنے پر مجبور ہوچکی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی اذیت کا معاملہ ہے کہ آپ ہر دن اس خوف میں گزاریں کہ آپ پر کسی بھی وقت حملہ ہوسکتا ہے۔ یہی حال تعلیم و تدریس، وکالت اور دیگر پروفیشنز سے تعلق رکھنے والے شیعہ حضرات کا ہے۔ کتنے ہی قتل کر دئے گئے اور کتنے ملک چھوڑ گئے۔
میں صرف کراچی کی مثال دیتا ہوں۔ کراچی کا ایک علاقہ ہے انچولی، بنیادی طور پر ایک شیعہ اکثریتی آبادی ہے۔ میں اِسے کراچی کا موچی دروازہ کہا کرتا تھا۔ دیکھنے میں چاہے مختلف ہو لیکن محرم کے حوالے سے یہاں ویسا ہی ماحول دیکھنے کوملتا تھا جیسے لاہور میں موچی دروازہ (اپنی اپنی روایت کے حساب سے)۔ گزشتہ دس برسوں میں بالخصوص جب بھی انچولی جانا ہوا تو یہاں امام بارگاہ والی سڑک پر لاتعداد تصویریں سڑک کے دونوں جانب آویزاں نظر آئیں جن میں اکثریت جوان لڑکوں کی تھی۔ یہ سب شیعہ نسل کشی کا شکار ہوئے اور وادی حسین میں دفن ہوئے۔
اب میرا انچولی یا کراچی میں کسی بھی علاقے میں جانا ہوتا ہے تو پیدل چلتے ہوئے ایک انجانا خوف محسوس ہوتا ہے۔ پیچھے سے موٹر سائکل کی آواز آئے تو ایک لمحے کیلئے چونک کر سائیڈ پر ہوجاتا ہوں۔ ایک دو بار تو ایسا ہوا کہ خود بھی شرمندہ ہوگیا اور موٹر سائکل سوار بھی۔ شاید وہ بھی سمجھ گیا تھا کہ یا تو یہ موبائل چھینے والا سمجھا ہے اور یا قتل کرنے والا۔ یہ وہ نفسیاتی دباو ہے جس کا سامنا آپ کو کرنا پڑتا ہے۔ یہ نسل کشی کا ہی ایک پہلو ہے۔
لوگ دفتر جانے کیلئے مختلف راستے بدل بدل کر سفر کرتے ہیں۔ ایک دوست سے پوچھا کہ اِس کی کیا وجہ ہے؟ تو اُس نے بتایا کہ کیا معلوم کون ریکی کر رہا ہو بھائی۔ بس اِسی لئے احتیاط کرتے ہیں۔
پاکستان میں چوبیس ہزار سے کچھ زائد شیعہ قتل ہوچکے ہیں۔ اگر یہ تعداد نسل کشی کی مطلوبہ تعداد پر پورا نہیں اترتی تو چلیں ہم صرف اُن نفسیاتی پہلووں پر ہی غور کر لیتے ہیں جن کا سامنا ایک شیعہ کو روز مرہ کی بنیاد پر کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی قوم کیلئے، چاہے وہ کوئٹہ کی شیعہ ہزارہ برادری ہو یا باقی پاکستان میں موجود شیعہ، یہ بات انتہائی تشویش اور کوفت کا باعث ہوتی ہے کہ ایک گروہ جو کھلم کھلا اُن سے انتہائی نفرت کا اظہار کرتاہو، اُنکی تکفیر کرتا ہو، اُنکی تکفیر کے قانون بنانے کی بات کرتا ہو اور اُن کے قتل میں براہ راست ملوث رہا ہو، ایسا گروہ نہ صرف یہ کہ آزاد ہو بلکہ حکومتی ایوانوں تک اُسکی رسائی ہو۔ جو قتل ہوچکے وہ تو چلے گئے لیکن جو زندہ ہیں اُن کے ذہنوں پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے، اُسے انگریزی کے ایک لفظ Frustration یا Helpless سے سمجھا جاسکتا ہے۔
یہاں پر آپ اِں چوبیس ہزار مقتولین کے ورثاء کو بھی مت بھولیں۔ ایک شخص کے قتل ہوجانے سے فیملی یونٹ تباہ ہوجاتا ہے اور یہاں ایسے گھر بھی ہیں جہاں پورے کے پورے فیملی یونٹ ہی قتل ہوگئے۔ ابھی اسی محرم میں تین سگے بھائیوں کو ایک ساتھ قتل کردیا گیا تھا، تینوں انتہائی سینئیر پروفیشنلز تھے۔ اِن تینوں کو انکے گھر والوں کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا تھا لہذا اُنکی باقی عمر کس ذہنی حالت میں گزرے گی، اس کا اندازہ ہم میں سے کوئی نہیں کر سکتا۔ قتل کرنے والے خاندان کے ایک فرد کر قتل کرتے ہیں اور باقی سب کو تمام عمر کیلئے ذہنی کرب میں مبتلا کرجاتے ہیں
پچھلے پانچ دنوں کے دوران پاکستان میں ۳۰ شیعہ قتل ہوچکے ہیں۔ پارہ چنار میں معصوم بچوں سمیت ۲۷ افراد اور کراچی میں ایک شیعہ عالم قاری کاظم شاکری صاحب سمیت دو نواجوان جان سے گئے۔ چوبیس ہزار شیعہ مقتولین کی طرح اگر یہ تیس شیعہ بھی ہمیں اِس بات پر قائل نہ کر سکیں کہ پاکستان میں شیعہ نسل کشی حقیقیت ہے یا نہیں تو آئیں پارہ چنار کے سانحے مٰیں شہید ہونے والے اُس نو سالہ زین حیدر کی ماں کے پاس چلتے ہیں جس نے زین کو صبح زبردستی نیند سے اُٹھا کر سبزی منڈی بھیجا تھا، تاکہ وہ گری ہوئی سبزیاں چُن کر لاسکے اور رات کے کھانے کا بندوبست ہوسکے۔ معلوم نہیں زین حیدر کے گھر آج رات کیا کھانا بنے گا۔