آپریشن فرات شیلڈ : ترکی آگ سے کھیل رہا ہے – عامر حسینی
ترکی نے شام میں اپنی سرحد کے نزدیک داعش کے قبضے میں موجود علاقوں کو واگزار کرانے کے نام پہ باقاعدہ زمینی کاروائی کا آغاز کرڈالا ہے-ترکی نے شام میں اپنے نئے فوجی ایڈونچر کو ” آپریشن فرات شیلڈ ” کا نام دیا ہے-ترکی کی شام کے حوالے سے پالیسی کیا ہے؟ اس سوال پہ فارن پالیسی (امریکی جریدہ ) کی ویب سائٹ پہ تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے : انقرہ اپنے جنوبی سرحدی علاقون کے ساتھ شام کے اندر کرد فورسز کے پھیلتے ہوئے اثر کو روکنا ہے-
بدھ کے روز دن چڑھتے ہی جس آپریشن کا آغاز ترکی نے کیا اس آپریشن کا مقصد داعش کو شامی قصبے جرابلس سے نکالنا بتایا گیا-لیکن اس آپریشن کا وقت اور انقرہ حکام کے بیانات یہ بات واضح کرتے ہیں کہ ترکی کا اصل فوکس کرد جنگجوؤں کی پیش رفت سے پیدا خطرے پہ ہے نہ کہ داعش پہ جو 2014ء سے اس سرحدی قصبے پہ قابض ہے
–
آپریشن فرات شیلڈ کے لئے ایک درجن کے قریب لیپرڈ ٹینک ، ترک سیپشل آپریشن فورسز کا ایک دستہ مختص کیا گیا ہے-جبکہ کئی سو شامی باغی بھی اس آپریشن میں ترک فوج کے مددگار ہیں-اس زمینی آپریشن کو امریکی ایف-16، اے-10 جنگی طیاروں کی چھایا بھی حاصل ہے-ترک آفیشل نے اس آپریشن کے حوالے سے فوری ابتک کی پیش رفت بتانے کے لئے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی بنایا ہے
@EuphratesShield
جونہی ترک حمایت یافتہ شامی باغیوں نے قصبے پہ اپنا قبضہ مستحکم کیا تو اس ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کردمخالف بیانات پوسٹ ہونے کا سلسلہ تیزی سے شروع ہوگیا-اور اس اکاؤنٹ پہ دئے جانے والے ٹوئٹس کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ترک حکام کی کوشش ہے کہ امریکی حمایت یافتہ وائی پی جے کرد گوریلا تنظیم کو کردستان ورکرز پارٹی سے نتھی کیا جائے جسے خود امریکہ نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے-کردستان ورکرز پارٹی –پی کے کے ترکی سے 32 سالوں سے آزادی کی لڑائی لڑرہی ہے اور اس جنگ میں ابتک 40ہزار سے زیادہ جانیں جاچکی ہیں
EuphratesShield @EuphratesShield 1d1 day ago
Turkey-born #PKK members fighting against Turkish Military and FSA on #Jarablus – Manbij line.
پی کے کے کردستان ورکرز پارٹی کا مخفف ہے –پی کے کے 1970ء کے آخر میں ایک کرد مارکسی پارٹی کے طور پہ تشکیل پائی جس کا مقصد عراق، شام ، ایران اور ترکی کے زیر قبضہ کردعلاقوں پہ مشتمل کردستان آزاد ریاست کی تشکیل تھا-آزادی کی یہ جنگ 1990ء میں اپنے عروج پہ پہنچی جب ترک افواج نےسینکڑوں کرد آبادی کے گاؤں کے گاؤں ملیامیٹ کرڈالے اور لاکھوں کردوں کو ترکی سے یا تو فرار ہونا پڑا یا ان کو ترکی کے اندر ہی مختلف علاقوں میں چھپ چھپاکے زندگی گزارنا پڑی-
پھر 2014ء میں ترک حکومت اور کردستان ورکرز پارٹی کے درمیان سیزفائر ہوا اور ایک امن معاہدہ طے پاگیا-لیکن یہ امن معاہدہ دو سال سے زیادہ نہ چل سکا اور ختم ہوگیا-پی کے کے نے سیز فائر ختم ہونے اور ترک حکومت کی جانب سے کرد علاقوں میں آپریشن کرنے کی وجہ سے پولیس اسٹیشن اور فوجی اڈوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا-ترک حکومت نے اصل میں شام کے اندر سرحدی علاقوں میں شام کی جنگ کے شروع ہوتے ہی داعش ، القاعدہ ، جبہۃ النصرہ اور دیگر سلفی-دیوبندی تکفیری و جہادی دہشت گردوں کو داخل ہونے کی جگہ فراہم کرنا شروع کردی تھی-جبکہ بشار الاسد کی افواج بھی وہاں سے ایک حکمت عملی کے تحت نکل گئی تھیں-ایسے میں ترکی اور شام کی سرحد پہ واقع شامی علاقے کرد اکثریت کے علاقے تھے وہاں پہ شامی کرد گوریلا فورس وائی پی جی نے داعش کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا اور کوبانی کو آزاد کراتے ہوئے دیگر علاقوں پر بھی داعش کے قبضے کے خلاف جدوجہد شروع کردی-وائی پی جی نے اپنے دیگر عرب ہم خیال نیشنلسٹ گروپوں سے ملکر نیشنل ڈیموکریٹک یونین بنائی –
ایف ایس ڈی جس نے ترک سرحد کے ساتھ ساتھ ایک ڈیفیکٹو شامی کرد ریاست قائم کرلی اور اس دوران ترک حمایت یافتہ سلفی-دیوبندی جہادیوں کے دانت کٹھے کئے-ترک صدر رجب طیب اردوان کی نام نہاد جہادی پالیسی کے وہی تباہ کن اثرات پیدا ہوئے جن کا مشاہدہ ہم نے پاکستان میں جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھی جرنیلوں کی طرف سے جہادی پراکسی اور تزویراتی گہرائی کی پالیسیوں سے پیدا ہونے والے نتائج و عواقب کے ساتھ کیا تھا-یاد رہے کہ افغان جہاد اور جہاد کشمیر کے منصوبوں نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروی کیا اور ابتک 84 ہزار سول و فوجی افراد اس دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں-
اور جرنیل شاہی کی اس سوچ نے پاکستان کی اپنی سلامتی کو ان گنت خطرات لاحق کرڈالے ہیں-پاکستان میں سندھ ، بلوچستان اور اب اردو بولنے والی مہاجر کمیونٹی کے اندر سے بھی علحیدگی پسند رجحانات کا ظہور ہورہا ہے-بلوچستان میں بلوچ قومی آزادی کی مسلح تحریک بھی چل رہی ہے-ترکی کا حال بھی پاکستان سے مختلف نہیں ہے-ترکی میں ایک طرف تو کرد آزادی کی تحریک پھر سے اٹھ کھڑی ہوئی ہے جبکہ ترکی کے اندر مذہبی تکفیری دہشت گردی ایک حقیقت بنکر سامنے آئی ہے-
ترکی کی حکومت اور پاکستانی ریاست کے درمیان یہ مشابہت ایک اور طریقے سے بھی دیکھے جانے کے قابل ہے-ترک حکومت بھی مذہبی دہشت گردی اور قومی سیاسی مزاحمتی تحریکوں کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہے اور وہ کرد اور مذہبی دہشت گردوں کو ایک ہی پلڑے میں رکھتی ہے-پاکستانی اسٹبلشمنٹ بھی سیاسی تشدد اور مذہبی دہشت گردی میں فرق تلاش کرنے سے قاصر ہے-وہ بلوچ ، مہاجر ، سندھی قوم پرستوں کی مزاحمت اور مذہبی دہشت گردوں کے درمیان فرق کرنے سے قاصر ہے اور قومی مزاحمتوں کا سیاسی حل تلاش کرنے سے عاری نظر آتی ہے-حال ہی میں واشنگٹن امریکہ میں نیشنل پریس کلب میں منعقدہ ایک سیمنار میں جینیوا میں جلاوطنی گزار رہے بلوچ آزادی پسند رہنماء اور سابق چیف منسٹر بلوچستان اکبّر بگٹی کے پوتے براہمداغ بگٹی نے ایک پاکستانی نژاد صحافی کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کبھی بھی بلوچ ایشو پہ پاکستانی حکام سے بات چیت سے انکار نہیں کیا لیکن پاکستان میں اس ایشو پہ باآختیار بات چیت کرنے کا حق کس کو حاصل ہے اس کا آج تک تعین ہی نہیں کیا جاسکا-
براہمداغ بگٹی نے اصل میں درپردہ پاکستان میں ملٹری اسٹبلشمنٹ کی بالادستی کی جانب اشارہ کیا اور یہ بھی پیغام دینے کی کوشش کی کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ سیاسی حل کو چنداں اہمیت نہیں دیتی اور طاقت سے مسئلہ کو حل کرنے پہ یقین رکھتی ہے-ایسا ہی رویہ ہمیں حال ہی میں ایم کیو ایم کے خلاف کاروائیوں سے بھی نظر آرہا ہے-جب ایم کیو ایم کی پاکستان میں موجود قیادت بار بار بات چیت پہ زور دے رہی ہے تو پھر بھی سیکورٹی فورسز ان کے خلاف کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس سے مہاجر کمیونٹی اور زیادہ بیگانہ ہوتی جارہی ہے
–
ترک حکومت امریکہ جو کہ کرد وآئی پی جی کا سب سے بڑا حامی ہے یہ چاہتی ہے کہ وہ اس تنظیم کو بھی پی کے کے کی طرح دہشت گرد قرار دے ڈالے-لیکن امریکی حکومت ایسا کرتی نظر نہیں آتی –اس لئے دونوں ملکوں میں اس پہ تناؤ موجود ہے-مگر ترک فوج کا آپریشن فرات شیلڈ کم از کم یہ ضرور ظاہر کرتا ہے کہ نہ صرف امریکہ بلکہ روس ، ایران بھی اس بات پہ رضامند ہیں کہ شامی کرد فورسز کو جرابلس کی طرف پیش قدمی نہ کرنے دی جائے اور الباب کی جانب بھی شامی کردوں کی پیش قدمی روک دی جائے-فروری میں ترک صدر اردوان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا تھا کہ ان کا ملک شام میں ایک اور “قندیل ” ( ترک سرحد کے قریب عراقی سرزمین پہ قائم پہاڑی علاقہ جس میں پی کے کے کے بڑے مضبوط اڈے ہیں جہاں سے ترک کرد علاقے میں کردستان ورکرز پارٹی کے گوریلے حملے کرتے ہیں)بننے نہیں دیں گے-
اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ترک حکومت کے نزدیک بڑا خطرہ داعش یا دیگر نام نہاد جہادی نہیں ہیں حالانکہ داعش نے حالیہ دنوں میں ترکی کے اندر خون آشام کاروائیاں کی ہیں –بلکہ ترکی کے نزدیک سب سے بڑا خطرہ کرد ہیں جن کے ایک بڑے علاقے پہ ترکی نے عثمانی سلطنت کے دور سے قبضہ جمارکھا ہے اور ان کے بدترین قومی جبر ، استحصال کی زمہ دار ہے-پیٹرک کوک برن برطانوی صحافی نے اپنے حال ہی میں تازہ تجزیہ (یہ تجزیہ ترجمہ ہوکر پہلے اسی ویب سائٹ پہ چھپ چکا ہے )میں خبردار کیا ہے کہ شام میں متحارب فریقوں کی پشت پناہی کرنے والی عالمی طاقتوں اور علاقائی طاقتوں کے درمیان شام کے حوالے سے کچھ نئے معاہدے سامنے آئے ہیں-جن میں ترک حکومت سے روس ، ایران کی سرمہری کا خاتمہ ہوا ہے اور امریکی حکومت کے ساتھ بھی ترک حکومت ایک خاص نتیجے پہ پہنچ گئی ہے-
اور آپریشن فرات شیلڈ اسی نئی افہام و تفہیم کا نتیجہ بھی ہے-شام کی صورت حال پہ نظر رکھنے والے ماہرین کم از کم اس بات پہ اتفاق کررہے ہیں کہ علاقائی اور عالمی قوتیں ترکی کو یہ رعایت ضرور دے چکی ہیں کہ وہ شامی کردوں کی مزید پیش قدمی روکنے کے لئے کاروائی کرے اور اس کے بدلے جرابلس سمیت اپنی سرحد کے ساتھ وہ علاقے جو ابھی تک داعش کے قبضے میں ہیں ان کو خالی کرائے اور اپنے حمایت یافتہ شامی باغیوں کے حوالے کردے جبکہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ہی ترک زمینی افواج ان علاقوں میں رہیں گی یا واپس چلی جائیں گی-
ویسے مشکل لگتا ہے کہ ان افواج کی واپسی ہو-اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جو علاقے اس وقت شامی کردوں کے کنٹرول میں ہیں ان میں ترک کوئی پراکسی وار شروع نہیں کردیں گے ؟ اور یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ اس سے شام میں امن کا مستقبل اور تاریک ہوجائے گا –اس وقت سعودی عرب ، قطر اور ترکی شامی باغی کیمپ میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری جبھۃ النصرہ اور دیگر جہادی گروپوں پہ کررہے ہیں اور یہی جنگجو ہیں جو شامی باغی فوج میں اصل غالب قوت ہیں-اور اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ترکی شام میں آئیندہ کے سیاسی بندوبست کا کیسا خاکہ اپنے ذہن میں رکھتا ہے