General Musharraf (and his military establishment) killed Benazir Bhutto – by Hamid Mir


شہید بی بی کو اپنے قاتل کا پتہ تھا
قلم کمان …حامد میر

وہ نومبر 2007ء کی ایک خوشگوار صبح تھی لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کچھ افسردہ اور پریشان نظر آرہی تھیں۔

انہوں نے مجھے زرداری ہاؤس اسلام آباد میں صبح کے ناشتے پر مدعو کیا تھا لیکن ناشتے کا اہتمام گھر کے اندر ڈائننگ ٹیبل کی بجائے باہر صحن میں کیا گیا۔ میں سمجھ گیا کہ پلاسٹک کی چھوٹی سی میز او رپلاسٹک کی کُرسیوں پر بٹھاکر ناشتے کا اہتمام دراصل خفیہ اداروں کی دسترس سے بھاگنے کا ایک طریقہ ہے۔

یہ خاکسار محترمہ بے نظیر بھٹو کو بطور ایک صحافی 1987ء سے جانتا تھا اور اُن کے ساتھ 20 سالہ تعلق میں ایسا کئی مرتبہ ہوا کہ وہ کچھ اہم باتیں سرگوشیوں میں کرنے کے بجائے کاغذ کے ایک پُرزے پر لکھتیں اور اُسے پھاڑ دیتیں یا پھر اپنے دفتر یا ڈائننگ روم سے باہر نکل کر کر لان میں آکر تیں۔ اُنہیں ہمیشہ شک رہتا کہ بلاول ہاؤس کراچی اور زرداری ہاؤس اسلام آباد میں خفیہ اداروں نے ایسے آلات نصب کررکھے ہیں جن کے ذریعہ اُن کی گفتگو سُنی جاتی ہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو جب میرے قریب آکر پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھیں تو اُنہوں نے اپنا بیگ کمر کے پیچھے رکھ لیا۔ مجھے فوراً احساس ہوا کہ اُن کی کرسی آرام دہ نہیں ہے میں نے فوراً آس پاس نظر دوڑائی۔ میری نظریں ناہید خان کو تلاش کررہی تھیں لیکن خلاف معمول وہ دکھائی نہ دیں۔ فرحت الله بابر موجود تھے لیکن وہ کافی فاصلے پر بیٹھے تھے۔ بے نظیر صاحبہ نے میری پریشانی بھانپتے ہوئے کہا کہ گھبرایئے نہیں‘ میں بالکل ٹھیک ہوں اور اپنے بھاری بھرکم بیگ کو اکثر اپنی کمر کے پیچھے رکھ لیتی ہوں۔ مجھے یقین ہوچکا تھاکہ آج اُنہوں نے کوئی بہت اہم بات کرنی ہے۔ ایک دن پہلے اُنہوں نے اسلام آباد کی ججز کالونی میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ ملاقات کی کوشش کی تھی لیکن اجازت نہ ملنے پر انہوں نے اپنی گاڑی کے اندر بیٹھ کر میگا فون سے خطاب کیا اور کہا کہ افتخار محمدچوہدری میرا چیف جسٹس ہے اور میں اُس کے گھر پر دوبارہ پاکستان کا پرچم لہراؤں گی۔ اُن کا یہ بیان کئی اخبارات کی ہیڈ لائن تھی۔ میں نے محترمہ کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے کل ایک تاریخی تقریر کی اور انشاالله آپ کے الفاظ ضرور حقیقت بنیں گے۔ یہ سُن کر محترمہ بے نظیر بھٹو مسکرا دیں اور انہوں نے اپنے ایک ملازم سے کہا کہ میں نے آج کے اخبارات نہیں دیکھے پلیز اخبارات لاکر دیں۔
کچھ ہی لمحوں میں اخبارات محترمہ کے سامنے لاکر رکھ دیئے گئے۔ محترمہ نے سب سے اوپر پڑا ہوا انگریزی اخبار اٹھایا جس نے اُن کی تقریر کو ہیڈ لائن بنایا تھا۔

ہیڈ لائن دیکھ کر اُنہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہ پاکستان واپسی سے قبل مجھے اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان میں اتنی تبدیلی آچکی ہوگی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایک تبدیلی مثبت ہے اور دوسری منفی۔ مثبت تبدیلی یہ ہے کہ میڈیا اور سول سوسائٹی قانون کی بالادستی چاہتی ہے اور پرویز مشرف کی ایمرجنسی کو مسترد کررہی ہے لیکن منفی تبدیلی یہ ہے کہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں طالبانائزیشن اور بالکنائزیشن کا خطرہ ہے۔ یہ سُن کر میری زبان سے نکلا کہ بالکنائزیشن؟؟؟ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ جی ہاں بالکنائزیشن کا خطرہ بڑا واضح ہے‘ پاکستان ٹوٹ رہا ہے ہمیں اسے بچانا ہے۔ انہوں نے مجھے نواب خیر بخش مری کے ساتھ اپنی ملاقات اور کوئٹہ کے دورے کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور کہا کہ اکبر بگٹی کے قاتلوں کو انجام تک پہنچائے بغیر نفرتوں کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوگی۔

اس دوران ناشتہ آچکا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے گرم پانی میں لیموں اور شہد ملایا اور اس کے ساتھ اخروٹ کھانے لگیں جب کہ میں نے انڈے کے ساتھ ٹوسٹ لیا۔ اس دوران ایک فون آگیا۔ انہوں نے فون سنا اور پھر مجھے پوچھا کہ آپ کو میں نے بہت سال پہلے پاکستان کا سب سے باخبر صحافی قرار دیا تھا یہ بتایئے کہ 17 اکتوبر کو کراچی میں میرے جلوس پر حملہ کس نے کرایا؟ سوال بڑا سیدھا اور سادہ تھا۔ میں نے ٹشو پیپر کے ساتھ اپنے ہاتھ اور منہ صاف کیا اور بڑی سادگی سے کہا کہ یہ حملہ اُنہی قوتوں نے کرایا جن کے ساتھ معاہدہ کرکے آپ پاکستان واپس آئی ہیں۔ محترمہ میرے جواب سے اثبات میں سرہلاکر اتفاق کررہی تھیں لیکن مزید تفصیلات جاننا چاہتی تھیں۔ اس سے پہلے کہ میں تفصیلات میں جاتا فرمانے لگیں کہ یہ سب پرویز مشرف کی مرضی سے ہوا ہے اور اس میں خودکش حملہ آور استعمال نہیں کیا گیا بلکہ یہ ریموٹ کنٹرول بم تھے۔

میں نے پوچھا کہ مشرف آپ کو کیوں مارنا چاہتا ہے؟ محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ 17 اکتوبر کو اُس نے مجھے صرف ڈرایا ہے وہ چاہتا ہے میں پاکستان سے واپس چلی جاؤں اور انتخابات کے بعد واپس آؤں اور اگر میں واپس نہ گئی تو وہ مجھے مروادے گا۔ یہ سُن کر میرے منہ سے نکلا… ”جی کیا کہا بی بی آپ نے ؟“۔ انہوں نے اپنے الفاظ دہرائے اور کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر اُس نے مجھے قتل کروا دیا تو آپ میرے قاتل کو بے نقاب ضرور کریں گے۔ محترمہ بے نظیر بھٹونے کہا کہ میں اپنی کتاب تیزی سے مکمل کررہی ہوں جو شائد میری زندگی میں شائع نہ ہو لیکن اس کتاب میں وہ وجوہات موجود ہوں گی جن کی وجہ سے میں مشرف کے لئے ناقابل برداشت ہوں۔ اس ملاقات کے چند ہفتے بعد 27 دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا تو موقع پر موجود زخمی کارکنوں نے اپنے ساتھیوں کی لاشیں کندھوں پر اُٹھا کر جو پہلا نعرہ لگایا وہ نعرہ تھا ”قاتل قاتل مشرف قاتل“۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں صرف میرے سامنے مشرف کو اپنا ممکنہ قاتل قرار نہیں دیا بلکہ مارک سیگل اور امریکی صحافی وولف بلٹنرر کے نام لکھی جانے والی ای میل میں بھی مشرف کو قاتل قرار دیا۔ 13 نومبر 2007ء کو لاہور میں لطیف کھوسہ کے گھر نظر بندی سے قبل اُنہوں نے عامر میر کے ساتھ ایک ون ٹو ون ملاقات کی جس میں کہا کہ اگر وہ ماری جائیں تو پرویز مشرف کو اُن کا قاتل قرار دیا جائے۔ اُنہوں نے عامر میر سے بھی یہ کہا کہ 17 اکتوبر کو کراچی میں اُن پر حملہ بھی مشرف نے کرایا۔ عامر میر نے یہ ساری تفصیل اپنی نئی کتاب ”دی بھٹو مرڈر ٹریل۔ وزیرستان ٹو جی ایچ کیو“ میں بڑی تفصیل سے بیان کردی ہے۔

افسوس کہ آج پیپلزپارٹی کی قیادت کو مشرف کی باقیات نے غیر ضروری بحثوں میں اُلجھا دیا ہے۔بجائے کہ اس پر غور کریں کہ شہید بی بی نے اپنی زندگی میں اپنا قاتل کسے نامزد کیا تھا یہ بحث کی جارہی ہے کہ 27 دسمبر کو اُن کی گاڑی کی چھت کا لیور کس نے کھولا۔ اس غیر اہم بحث کا فائدہ اُس قاتل کو ملے گا جس کا ذکر محترمہ بے نظیر بھٹو کی کتاب ” اسلام، ڈیموکریسی اینڈ ویسٹ“ میں بھی بار بار آیا جو اُن کی شہادت کے بعد شائع ہوئی۔

سہیل وڑائچ کی کتاب ”قاتل کون؟“ میں کہا گیا ہے کہ ایک دن آصف زرداری نے رحمان ملک سے کہا کہ بی بی کی موت کے ذمہ دار تم ہو؟ یہ سُن کر رحمان ملک نے زور زور سے رونا شروع کردیا اور کہا کہ نہیں میں نہیں ناہید خان ذمہ دار ہے۔ بہتر ہوگا کہ شہید بی بی کے ساتھی ایک دوسرے پر الزام لگانے کی بجائے مل جُل کر اُس قاتل کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوشش کریں جسے محترمہ بے نظیر بھٹو نے خود اپنا قاتل نامزد کیا اور آج وہ لندن میں بیٹھا پیپلزپارٹی پر مسکرا رہا ہے۔

Comments

comments

Latest Comments
  1. Naeem
    -
  2. ABUBAKER KHAN
    -
  3. imran
    -
  4. Shahzado Bhutto.Doha-Qatar
    -
  5. Saleem Ahmed
    -