عالمی شہرت یافتہ قوال امجد صابری شہید کے قاتل کون؟ از شفیق طوری
طبلہ نواز سلیم صابری جو امجد صابری شہید کیساتھ گاڑی میں موجود تھے نے کہا کہ امجد صابری نے قاتلوں سے پوچھ لیا کہ “مجھے کیوں قتل کررہے ہو، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں” قاتل کب روکنے والے تھے انہوں پہلے سائیڈ سے اور پھر سامنے سے فائرنگ کرکے امجد صابری کے مسحور کن آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کردیا۔ دنیا حمد و نعت اور ثناء خوان محمد و آلِ محمد ص کے ایک منفرد امتزاج کے حامل فرد سے محروم ہو گئی۔ گو کہ امجد صابری شہید نے زندگی کی صرف چالیس بہاریں دیکھیں لیکن انہوں نے قوالی کی دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا تھا اور قوالی جب تک سنی جاتی رہے گی امجد صابری شہید کا نام بھی زندہ رہے گا۔
امجد صابری شہید کے قتل کے تین اہم پہلو ہیں جس میں سرفہرست مذہبی اور دوسرا سیاسی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ امجد صابری کے قتل کے بعد دونوں متحرک بھی نظر آئے اور بعض نے الزامات لگائے تو بعض مذہبی منافرت میں میں اتنے پست چلے گئے کہ امجد صابری کو شہید کہنے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے نظر آئے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں عموماً اور کراچی میں خصوصاً سیاسی جماعتوں اور کالعدم تنظیموں سمیت شدت پسند تنظیموں سے گٹھ جوڑ کافی مضبوط ہے، لیکن میں ان دو قوتوں کے ساتھ ایک تیسرے قوت کو ذمہ ٹھراتا ہوں جنہوں بعض “نامعلوم” وجوہات کی بنا پر کرچی آپریشن کو صرف سیاسی قوتوں کے حد تک محدود کردیا ہے اور شدت پسند مذہبی گروپوں کے خلاف ابھی تک فیصلہ کن کارروائی کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے۔
اور پھر سیاسی و شدت پسند اور کالعدم جماعتوں کے گٹھ جوڑ پر سندھ پولیس اور رینجرز مکمل طور پر خاموش دکھائی دیتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ابھی تک قاتلوں کے سراغ لگانے میں ناکام رہے ہیں۔ تحریک طالبان حکیم اللہ محسود گروپ کے ترجمان قاری سیف اللہ نے ہمیشہ کی طرح خبر رساں اداروں کو فون کال کرکے ذمہ داری کر لی ۔ اور کرچی کے بعض سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے پر الزامات بھی لگائے ہیں جس پر پولیس اور رینجرز سمیت دیگر لا انفورسمنٹ اور سراغ رساں ادارے تحقیقات آگے بڑھا رہے ہیں اور بعض سینئیر پولیس اہلکاروں نے سیاسی پارٹی کی طرف اُنگلیاں بھی اُٹھائی ہیں۔
ویسے تو پاکستان کے تمام سیاسی جماعتیں کالعدم تنظیموں سے وقتاً فوقتاً سیاسی مفادات کی خاطر اتفاق و اتحاد کرتی رہی ہیں لیکن بعض سیاسی پارٹیاں کالعدم تنظیموں کو اپنی سیاسی ونگ کے طور پر بھی استعمال کرتی رہتی ہیں۔ لیکن کالعدم تنظیموں نے بھی اب طریقہ کار بدلا ہے، اپنی کارندوں کو نہایت ھوشیاری سے سیاسی پارٹیوں کے اندر شامل کروا کر اپنی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور سیاسی جماعتیں ان کالعدم جماعتوں سے بہت بڑے کام کرواتے ہیں۔ اسی طرح صحافتی تنظیمیں، لکھاری اور خبررساں ادارے بھی ہیں جہاں کالعدم تنظیموں کے کارندے بیٹھ گئے ہیں اور تکفیریوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
پاکستان کے دفاعی اداروں نے جب کشمیر اور افغانستان میں جہادیوں کا استعمال شروع کیا وہاں سے ان اداروں میں شدت پسندوں کو اثر و نفوذ بڑھتا چلا گیا اور اب جنرل راحیل شریف اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش تو کررہے ہیں لیکن یہ لابی مختلف شکلوں میں ملک کے ان مقتدر اداروں پر اثر انداز رہی ہیں اور حال ہی میں دفاع پاکستان کونسل اس کی واضح مثال ہے اسلئے حکومت کراچی میں خودکش حملوں میں ملوث مدارس اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث کالعدم تنظیموں پر ہاتھ اُٹھانے سے قاصر رہی ہیں۔
مسلمانوں کا ایک گروہ منظم طور پر دنیا بھر میں دہشتگردی میں ملوث رہا ہے۔ القاعدہ، داعش، بوکو حرام، الشباب، طالبان سمیت سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور والجماعت جیسے ہزاروں تکفیری دہشتگرد گروپوں نے پوری دنیا کو جہنم بنا دیا ہے۔ لیبیا، شام، یمن، نائجیریا سے لے کر افغانستان اور پاکستان تک منظم دہشتگردی میں یہی تکفیری دہشتگرد گروپ ملوث ہیں اور ان ممالک میں حالات آپ سب کے سامنے ہیں۔
تکفیری دہشتگردی کی جڑیں نہایت مظبوط ہیں اور ان کے تعلقات عالی سامراجی اسٹیبلشمنٹ سے اس طرح اسطوار ہیں کہ انہیں جب بھی اور جہاں بھی ضرورت پڑے آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں اور افریقہ کے مختلف ممالک میں سفارتخانوں پر دہشتگرد حملے، امریکہ کے مشہور 9/11 سے لیکر لندن کے 7/7 دہشتگرد حملے، اسپین کے ریل دھماکے، پیرس، فرانس میں دہشتگردی کے کئی حملوں سمیت پاکستان کے جی ایج کیو پر حملے اور بے نظیر بھٹو کے قتل سمیت ہزاروں دہشتگردی کے واقعات میں یہی تکفیری دہشتگرد ملوث پائے گئے ہیں۔
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے بہت سے وارداتوں کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں اور سب میں تقریباً ایک ہی ٹرینڈ نظر آتا ہے، سیاسی جماعتیں اور کالعدم تنظیمیں اکثر واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں اور بعض واقعات میں سیاسی جماعتوں اور کالعدم جماعتوں کا گٹھ جوڑ نظر آتا ہے۔
سندھ کے سابق گورنر اور ہمدرد لیبارٹریز کے حکیم محمد سعید سے لیکر اٹھارہ اکتوبر 2007 کو بے نظیر بھٹو شہید کے قافلے پر حملے تک اور پھر سبین محمود، پروین رحمان، استاد سبط جعفر، زھرا حسین، پروفیسر شکیل اوج، سید باقر امام، علی اکبر کمیلی، مولانا حسن ترابی اور بہت سارے کیسز ہمارے سامنے ہیں۔ دا سیکنڈ فلور کے سبین محمود کے قاتل سعد عزیز جو صفورا قتل عام کے بھی ماسٹر مائینڈ تھے تکفیری تنظیم القاعدہ سے متاثر تھے، اور اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم رحیم سواتی کا تعلق کالعدم تکفیری گروپ طالبان سے تھا۔ پروفیسر سبط جعفر کو سیاسی جماعت نے کالعدم تکفیری لشکر جھنگوی کے ذریعے قتل کیا۔ پروفیسر شکیل اوج، علی اکبر کمیلی، اور ایم پی اے باقر امام کے قتل میں ملوث افراد کا تعلق کالعدم اور تکفیری دہشتگرد تنظیموں سے ہی تھا۔
اب اس سارے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ مملکت خدادِ پاکستان کے مقتدر عسکری ادارے کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریش نہیں کریں گے تو امجد صابری جیسے لوگ شہید ہوتے رہیں گے۔ سیاسی جماعتیں اپنی مفادات کی خاطر کالعدم تنظیموں اور افراد سے روابط استوار رکھیں گے، تو کالعدم تنظیمیں بأثر ہوں گی دندناتے پھریں گے اور ملک میں ٹارگٹ کلنگ روکنے والا نہیں۔ وہ مدارس جو دہشتگردی میں ملوث پائے گئے ہیں انہیں ختم نہیں کیا جاتا تو مذہبی منافرت بڑھتی جائے گی اور فرقہ ورانہ قتل و غارت گری بھی نہیں روکے گی۔ اور امجد صابری کے قتل میں مذکورہ بالا سیاسی جماعتوں و مذہبی اور کالعدم تنظیموں کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنے والوں کی نااہلی اور چشم پوشی بھی شامل ہے۔
Source