شہید شجاع خانزادہ کی یاد میں
پنجاب کے سابق وزیرداخلہ کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ کی ہلاکت سے چند ماہ قبل ان سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔ بی بی سی کی ایک سٹوری کے لیے اچانک ان کا انٹرویو کرنا پڑا۔ جب انھوں نے ملاقات کے لیے سول سیکریٹریٹ بلوایا تو ذہن میں درجنوں سوالوں کا ایک ہیجان سا برپا تھا۔
سوچا ان سے پولیس کی اصلاحات پر بات کروں گی، مدرسوں کی نگرانی پر سوال اٹھاوں گی، کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کی نشاندہی کروں گی، فرقہ وارانہ منافرت اور نفرت آمیز تقریروں اور تحریروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا تذکرہ کروں گی۔
میں نے اپنے انٹرویو میں تمام سوال اٹھائے بھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ سیاست دانوں کی طرح سوالوں کو ٹالنے اور اپنی معلومات اور سوچ کو محتاط اور نپے تلے انداز میں بیان کرنے کے بجائے انھوں نے ایک کھرے اور سیدھے سادھے فوجی کی طرح میری ہر بات کا دو ٹوک جواب دیا۔
مجھے اندازہ ہوا کہ دہشت گردی سے متعلق قومی لائحہ عمل سے متعلق ہونے والی ہر پیش رفت ان کی انگلیوں پر تھی۔
شجاع خانزادہ نے مجھے بتایا کہ پنجاب میں 14 کالعدم تنظمیں متحرک ہیں۔ ان تنظیموں کے خلاف پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ثبوت موجود ہیں۔ جہاں جہاں ان تنظیموں کی سرگرمیاں قانون کے دائرے سے باہر نکلتی ہیں وہاں وہاں ان کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔
’ہر طرح کی شدت پسندی اور تشدد کے خلاف صفر برداشت کی پالیسی ہے۔ ہم نے ’گڈ‘ اور ’بیڈ‘ کی تفریق ختم کر دی ہے کیونکہ اسی تفریق نے ہی تو 14 سال ہمیں تباہ کیا ہے۔ اب قانون سب کے خلاف ہی حرکت میں آ رہا ہے۔‘
اس سے پہلے بھی شجاع خانزادہ نے ایک مرتبہ ہم سب صحافیوں کو حیران کیا تھا۔ جب وہ گذشتہ برس جولائی میں رائےونڈ میں دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے آپریشن کے دوران خود موقعے پر پہنچ گئے تھے، اور جب تک قانون نافذ کرنے والے اداروں نے وہ علاقہ کلئیر قرار نہیں دیا وزیر داخلہ مسلسل وہیں موجود رہے تھے۔
پھر وہ مناظر بھی مجھے بالکل واضح طور پر یاد ہیں جب 16 اگست کو لندن میں علی الصبح ٹوئٹر پر مجھے پنجاب کے وزیرداخلہ کے ڈیرے پر حملے کی اطلاع ملی۔ خبر سن کر بے چینی تو بہت ہوئی لیکن حیرانی بالکل نہیں۔
پاکستان میں شدت پسندی کے خلاف موثر آواز اٹھانے والوں کے ساتھ ایسا ہی تو ہوا کرتا ہے، اور کہیں نہ کہیں شجاع خانزادہ سے انٹرویو کے بعد میرے ذہن میں ان کی سکیورٹی سے متعلق خدشات موجود ضرور تھے۔
کئی ہفتوں بعد میں اپنے لیپ ٹاپ پر لائیو سڑیمنگ کے ذریعے گھنٹوں پاکستانی چینلوں کی نشریات دیکھتی رہی۔ شادی خان میں تین کمروں اور ایک برآمدے پر مشتمل صوبائی وزیر کے ڈیرے کی پرانی عمارت ایک ملبے کا ڈھیر بن چکی تھی۔
چھت پوری طرح سے زمین بوس تھی۔ حملے کے وقت شجاع خانزادہ کھلی کچہری میں اپنے حلقے کے عوام کے مسائل سن رہے تھے۔ ریسکیو اہلکار گھنٹوں ملبہ ہٹانے اور شجاع خانزادہ تک پہنچنے کی کوشیش کرتے رہے، لیکن جب انھیں نکالا گیا تو وہ ہلاک ہو چکے تھے۔
پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ دو خودکش حملہ آور ان کے ڈیرے پر حملہ آور ہوئے تھے۔ ایک نے خود کو دروازے میں جبکہ دوسرے نے خود کو شجاع خانزادہ کے عین سامنے کھڑے ہو کر دھماکے سے اڑایا تھا۔
شجاع خانزادہ پنجاب میں پشاور سکول حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن کا سب سے اہم چہرہ تھے۔ انھیں اپنی سخت حکمت عملی کے باعث کالعدم تنطیموں خاص کر لشکر جھنگوی سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔
شجاع خانزادہ کے صاحبزادے جہانگیر خانزادہ نے، جو ان کی وفات کے بعد اپنے والد کی نشست پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں، ہمیں بتایا:
’اتنی بھاری ذمے داری کے باوجود میں نے اپنے والد کے چہرے پر کبھی گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نہیں دیکھے تھے۔ انھیں دھمکیاں مل رہیں تھیں لیکن جو ان کا عہدہ تھا اس کے ساتھ اس طرح کے خطرات منسلک ہوتے ہیں۔اس کا تذکرہ میڈیا میں بھی ہوا لیکن انھوں نے دھمکیوں کی پروا نہیں کی بلکہ وہ کیا جو ملکی مفاد کے لیےضروری تھا۔‘
لشکر جھنگوی نے بعد میں شجاع خانزادہ پر حملے کی ذمےداری قبول بھی کی اور اسے اپنے سربراہ ملک اسحاق کی ہلاکت کا بدلہ قرار دیا۔ ملک اسحاق جولائی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مبینہ جھڑپ میں ہلاک ہوگئے تھے۔
شجاع خانزادہ سابق فوجی تھے۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے عملی سیاست میں حصہ لیا اور تین مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
اکتوبر سنہ 2014 میں انھیں پنجاب کے محکمہ داخلہ کا قلمدان سونپا گیا۔
شجاع خانزادہ نے دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل پر عمل درآمد کے حوالے سے پنجاب میں کئی اہم اقدامات کیے۔ ان میں محکمہ انسداد دہشت گردی اور اینٹی ٹیررازم فورس کا قیام خاص طور پر نمایاں ہے۔
جنوبی اور وسطی پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے خلاف بلا امتیاز آپریشن بھی شجاع خانزادہ کے کارناموں سے ایک اہم کارنامہ ہے۔
Source:
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/12/151230_shuja_khanzada_profile_zh