جان آر بولٹن : مشرقی شام میں سلفی ریاست کے حامی مغربی مولویوں میں ایک اور اضافہ
شام کی مشرقی سرحد پر ترکی کی سرحد سے چار کلومیٹر دور ترک ایف 16 جیٹ نے روسی جنگی طیارے کو گرادیا اور یہ انتہائی اقدام وہ ہے جس کی نیٹو اور امریکہ نے بھی حمائت کی ہے جبکہ روسی صدر ولادیمر پیوٹن نے اس اقدام کو دھشت گردوں کے مددگاروں کی جانب سے دھشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والوں کے خلاف پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا اقدام قرار دیا ہے
نیویارک ٹائمز کی 25 نومبر ،2015ء کی اشاعت میں جان آر بولٹن کا ایک مضمون بعنوان
To defeat IS, Create Sunni state in Syria
جان آر بولٹن کا یہ مضمون مغرب کے اندر دائیں بازو کے نیو کانز کی اس خواہش کا آئینہ دار ہے جو مڈل ایسٹ کے اندر ‘ وہابی ازم ” کو امریکی مفادات کے آڑے آنے والی قوتوں کے خلاف ‘ ہلاکت خیز میشن ” کے طور پر استعمال کرنے یقین رکھتا ہے – یہ سلسلہ 2006ء میں شروع ہوا تھا جب امریکی بش انتظامیہ نے یہ فیصلہ کرلیا کہ شام کے اندر “بشار الاسد ” کی حکومت کو ہٹانے کے لئے شام کے اندر اکثریتی ” سنّی ” آبادی کے اندر فرقہ وارانہ جذبات کو پیدا کرکے اور ایران کا غیر معمولی خوف پیدا کرکے بے چینی کی فضا پیدا کی جائے گی اور اس مقصد کے لئے سعودیہ عرب ، مصر ، ترکی ، کویت وغیرہ کے فنڈز سے چلنے والے فرقہ وارنہ مشنز کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ، وکی لیکس نے اس حوالے سے امریکی خفیہ مراسلوں کو عیاں کیا ہے جس میں یہ ساری تفیصل درج ہے ،
جان آر بولٹن امریکی صدر اوبامہ کی داعش کے خاتمے کے لئے شام میں پالیسی کو ” سٹرٹیجک وژن ” سے خالی قرار دیتا ہے اور پھر یہ تجویز دیتا ہے کہ شام کے مشرقی علاقے میں ایک ” سلفی وہابی ” ریاست قائم کردی جائے ( میں نے جان آر بولٹن کی ٹرم ” سنّی ریاست ” استعمال کرنے سے دانستہ گریز کیا ہے کیونکہ ری پبلکن مڈل ایسٹ کے تناظر میں یہ ٹرم جب بھی استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد ” وہابی ، سلفی ، اخوانی وغیرہ ہوتے ہیں جن پر شیخ ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے نظریات غالب ہیں جن کو ” جمہور سنّی آبادی ” مسترد کردتی آئی ہے اور آج بھی مڈل ایسٹ کی 90 فیصد سنّی آبادی اس کو مسترد کرتی ہے ) جہاں پر ایک حصّہ پر داعش قابض ہے تو دوسرے علاقوں میں ” نصرہ فرنٹ اور احرار الشام ” جیسی وہابی خارجی دھشت گرد تنظیمیں قابض ہیں
جبکہ ترک کی سرحد سے ملحقہ کئی علاقوں میں اب کرد قوم پرستوں کی قائم کردہ عوامی کیمٹیوں کی عملداری قائم ہے – امریکی صدر اوبامہ کرد قوم پرستوں کے ساتھ ملکر داعش کے خلاف شام میں کاروائی کرنے پر زیادہ فوکس دئے ہوئے ہیں جبکہ امریکہ کے اتحادی سعودی عرب نے اپنا ہاتھ ” نصرہ فرنٹ اور احرارالشام ” پر رکھا ہوا ہے ، ترکی اگرچہ ” داعش ” کے خلاف زبانی بیان بازی کررہا ہے لیکن حقیقت میں وہ اب بھی مشرقی شام پر کردوں کے غلبے اور مشرقی شام کا کنٹرول ” کردستان ورکرز پارٹی ” کے بانی عبداللہ اوکلان کے خیالات سے متاثر وائی جے پی کے ہاتھوں میں جانے کا سخت محالف ہے –
امریکی صدر اوبامہ کا بظاہر یہ خیال ہے کہ جس طرح شمالی عراق کے اندر کردستان کے قیام کا تجربہ امریکی مفادات کے لئے درست ثابت ہوا اسی طرح سے مشرقی شام کے اندر ” کردوں کے کنٹرول میں قائم ہونے والا علاقہ ” ایک بفر زون شامی رجیم – روس – ایران الائنس کے زیر کنٹرول شام اور ترکی کے درمیان کام کرے گا لیکن اس منصوبہ سے امریکہ کے اتحادی گلف ریاستیں اور خود ترکی بھی راضی دکھائی نہیں دیتے اور ری پبلکن کے اندر بھی اس کی مخالفت نظر آرہی ہے اور ایسا نظر آتا ہے کہ پینٹاگان کے اندر بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو مشرقی شام کے اندر بش انتظامیہ کے دور میں بننے والے شام کے اندر ایک ” سلفی وہابی ریاست ” کے قیام کے حامی نظر آتے ہیں
المانیٹر اخبار نے ترکی کے ایک کالمسٹ
Fahem Tastkien
کا ایک مضمون
Pakistan Warns Turkey: Don’t make our mistake
کے عنوان سے شایع کیا ہے ، اس کالم میں ترکی کے فاہیم تاسکتین نے بتایا ہے کہ امریکہ کے سابق جنرل مولن جو داعش کے خاتمے کے پروجیکٹ کا انچارج بن ہوا ہے ترکی میں 1500 سے 2000 نام نہاد اعتدال پسند باغی شامی فوج کی تربیت کرنے میں مصروف ہے اور یہ دو سال میں تیار ہوگی ، میں نے اسے نام نہاد ماڈریٹ فورس اس لئے کہا کہ اس کے جو سربراہ جنرل سالم ہیں وہ اپنے منہ سے ” نصرہ فرنٹ اور احرار الشام ” کی تعریف کررہے ہیں اور ان کے ساتھ اتحاد بھی بنائے ہوئے ہیں تو ایسی صورت حال میں نظر یہ آرہا ہے کہ مغربی حکومتیں ” داعش ” کی جگہ اپنی تابعدار ” سلفی وہابی ہلاکت خیز مشین ” کو بشار الاسد ہٹاؤ مہم میں ایک کارآمد پراکسی کے طور پر استعمال کرنے پر متفق ہیں جبکہ مڈل ایسٹ میں مغربی حکومتوں کے اتحادی سعودی عرب سمیت گلف ریاستیں اور ترکی و لبنان کی حکومتیں امریکہ کے اںدر ایسی لابنگ کرنے میں مصروف ہیں جس سے امریکی انتظامیہ مشرقی شام میں ایک سلفی سٹیٹ کے قیام پر راضی ہوجائے جو اس حظے میں وہی کردار ادا کرے جو سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے کرنے کے بعد آل سعود کی سربراہی میں قائم ہونے والی وہابی ریاست نے ادا کیا تھا
جان بولٹن نے اپنے مضمون میں اس مجوزہ ” وہابی ریاست ” کو سعودی عرب اور ترکی کی جانب سے فنانشل اور دیگر ضروری امداد پہنچانے کی تجویز دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ایسی ریاست امریکہ میں بابائے جمہوریت ” جیفری سن ” کے کی جمہوری ریاست کے تصور سے بالکل مختلف ہوگی ، یعنی اس کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ ریاست ایک آمرانہ اور غیر جمہوری ریاست ہوگی لیکن بشار ، پیوٹن ، روحانی کی حکومتوں کے اتحاد کو شکست دینے کے لئے یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا اور یہ مجوزہ فرقہ پرست ریاست شام ، لبنان میں درپیش امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو چیلنچز سے نبردآزما ہونے میں مدد دے گی
سامراجی طاقتیں ، ترکی ، سعودی عرب اور دیگر گلف ریاستیں شام ، عراق کی سنّی آبادی بشمول کردوں کو یہ فریب دینے کی کوششیں کررہی ہیں کہ وہ بشار الاسد کے خلاف ان کی آزادی کی جنگ لڑرہی ہیں جبکہ اس سے پہلے انھوں نے یہ فریب عراق کی شیعہ آبادی کو بھی دیا تھا کہ صدام کے خلاف ان کا سامراجی حملہ ان کو نجات دلادے گا اور مڈل ایسٹ میں انھوں نے سیکولر خیال کی قوتوں کو یہ فریب بھی دیا تھا کہ ان کا ” جمہوریت لانے ” کا پروگرام ان کو آمریتوں سے نجات اور ان کی شہری آزادیوں کی ضمانت لیکر آئے گا مگر ہوا اس کے بالکل برعکس ، مڈل ایسٹ ” وہابی تکفیری فاشزم ” کے شعلوں میں جل رہا ہے ، مصر ، تیونس ، شام اور یمن کی بہار عرب خزاں رسیدگی کا شکار ہوئی ہے اور فرقہ واریت کی قوتیں غالب آگئی ہیں اور ” سنّیوں ” کی نجات کا نعوہ دینے والوں نے ” سنّی آبادی ” کو داعش ، القائدہ ، نصرہ فرنٹ ، اور احرارالشام ” کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور اب جو داعش کے خلاف امریکہ ، نیٹو ، سعودی اتحاد اور ترکی کی فضائی کاروائیآں ہیں اس نے داعش کو نقصان کم پہنچایا وہاں کی سنّی ، شیعہ ، کرد ، عیسائی سویلین آبادی کی تباہی زیادہ کی ہے
رجب طیب اردوغان جن کی پروجیکشن کرنے میں پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ، پنجاب کے وزیراعلی میاں محمد شہباز شریف تو آگے آگے ہیں ہی جبکہ ” جماعت اسلامی ” کا حلقہ بھی اپنے پاکستانی حلقہ اثر میں رجب طیب اردوغان کی پروجیکشن کرنے اور اسے عالم اسلام کا ” ہیرو ” بناکر پيش کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے ، اپنے پاکستانی حلقہ اثر کو یہ بتانے کی زرا کوشش نہیں کرتا کہ اردوغان نے ” داعش ” کی سپلائی لائن ترکی کو بنایا اور آج داعش شام میں جتنی طاقتور ہے اس میں رجب طیب اردوغان کا بڑا ہاتھ ہے اور ایک عرصہ کے بعد پھر سے کردوں کی جو نسل کشی ہورہی ہے اس میں طیب اردوغان کا بہت بڑا ہاتھ ہے ، پاکستان میں دائیں بازو کے جماعتی ، کئی ایک سلفی اور دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اسلامسٹ خود کو امریکی سامراج اور ان کے پاکستان و افغانستان میں حامیوں کا سب سے بڑا دشمن کہتے ہیں وہ رجب طیب اردوغان کی امریکی کیمپ اور نیٹو سے وابستگی اور ژڈل ایسٹ میں امریکی سامراج سے سٹریٹجک اتحاد پر ” پراسرار خاموشی ” اختیار کئے ہوئے ہيں اور شام و عراق و یمن کے سوال پر ان کی پوزیشن ” فرقہ وارانہ ” ہی نہیں بلکہ امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور نیٹو اتحاد سے مختلف نہیں ہے ، یہ دوغلی پالیسی ان کی ” نظریاتی نعرے ” بازی کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتی ہے ، کیا جماعت اسلامی کو نہیں معلوم کہ مڈل ایسٹ مين تکفیری فاشزم اور اس کے بطن سے جنم لینے والی داعش کی تخلیق کے زمہ داران مغربی حکومتوں کے ساتھ ساتھ گلف ریاستوں ، ترکی ، اردن ، لبنان وغیرہ کی حکومتیں نہیں ہیں جنھوں نے اپنی حکومتوں اور اقتدار کو باقی رکھنے کے لئے ” بہار عرب ” کو فرقہ پرستی کی تیز دھاری تلوار سے کاٹا ہے
رجب طیب اردوغان ترکی کے کالمسٹ فاہیم کے مطابق طرح شام ، عراق ، لبنان سمیت مڈل ایسٹ تک ترکی ریاست کے اثر کو پھیلانے اور ” نئے عثمانی ازم ” کا علمبردار ہے اور وہ ترکی کا نام نہاد ” مرد مومن ” بننے کی کوشش کررہا ہے ، جیسے ضیاء الحق افغانستان اور سنٹرل ایشیا تک کا ” ان داتا ” بننے کی کوشش کررہا تھا اور اس نے امریکی فنڈڈ ” جہاد افغانستان ” پروجیکٹ کے زیر سایہ ” تزویراتی گہرائی ” کی پالیسی تخلیق کی اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ پہلے گلبدین حکمت یار نے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے افغانستان کے کئی علاقے بشمول جلال آباد و کابل کو کھنڈرات میں بدلا اور جب وہ مطلوبہ ہدف نہ پاسکا تو اس کی جگہ ” طالبان ” تخلیق ہوئے اور پھر اس پورے خطے ميں علاقائی طاقتوں نے اپنے ” طالبان ” جنم دینے شروع کرڈالے اور پاکستان اس آگ ميں جلا اور ایک لاکھ کے قریب پاکستانی اس نام نہاد ” جہاد ” کی نذر ہوگئے
کالمسٹ فاہیم کہتا ہے کہ المانیٹر نے جب اسلام آباد میں سینٹر مشاہد حسین سے پوچھا تو اس نے کہا کہ انھوں نے ترکی کے وزیراعظم کو تنبیہ کی تھی کہ وہ مڈل ایسٹ میں وہ غلطی نہ دوھرائے جو پاکستان نے افغان وار کے دوران کی تھی اور رجب طیب اردوغان کو “دوسرا ضیاء الحق ” بننے سے منع کیا تھا ، لیکن صاف نظر آتا ہے کہ رجب طیب اردوغان اس نصحیت پر عمل کرنے سے دور نظر آرہے ہیں
پیرس حملوں کے بعد روس ، ترکی ، فرانس کے درمیان فاصلے کم ہونے کی جو امید پیدا ہوئی تھی وہ ترکی کے روسی طیارہ مارگرانے سے ختم ہوگئی ہے اور امریکی میڈیا اور گلف ميڈیا سے مڈل ایسٹ میں ” نئی سردجنگ ” کی شروعات سے تعبیر کررہا ہے اور مجھے کارل مارکس کی بات یاد آرہی ہے جو اس نے ” لوئی بونا پارٹ کی اٹھارویں برومیئر ” کے آغاز میں لکھی تھی کہ
ہیگل نے کہا تھا کہ تاريخ اپنے آپ کو دوھراتی ہے مگر میں کہتا ہوں کہ تاریخ اپنے آپ کو دوھراتی تو ضرور ہے مگر پہلے وہ ” ٹریجڈی ” یعنی المیہ ہوتی ہے اور دوھرائی کے وقت وہ ” کامیڈی ” یعنی ” طربیہ ” ہوا کرتی ہے – تاریخ ترکی اور رجب طیب اردوغان کے باب میں ” نیو عثمانی ازم ” کے نعرے کی شکل میں دوھرانے کے دوران سوائے ” مضحکہ خیزی ” کے کچھ بھی نہیں ہے اور جسے ‘ سرد جنگ دوئم ” کہا جارہا ہے وہ بھی ” طربیہ ” ہے –مڈل ایسٹ میں برسرپیکار طاقتوں نے اپنی اپنی تاریخ کے سورماؤں / ہیروز کے کاسٹیوم پہن رکھے ہیں اور وہ اپنی عوام کو ” نجات دھندہ ” بناکر پیش کررہے ہیں –
شام کی عوام کو نجاہت دلانے کا امریکہ ، برطانیہ ، سعودی عرب ، ترکی اور دیگر ملکوں کی حکومتوں کا ایجنڈا ڈھائی لاکھ شامیوں کی بلی لے چکا ہے اور دس لاکھ سے زیادہ شامیوں کو مہاجر کیمپوں میں لاکر پھینک چکا ہے اور جو شام کےکنفلکٹ زون ” میں ہیں ان پر جنگی جہازوں کی بمباری کا عذاب اترا ہوا ہے اور یہ بم اگر ان کو نہ ماریں تو داعش کے جلادوں کی چھری ان کو ذبح کرڈالتی ہے ، یمن کو نجات دلانے کا سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کا حملہ یمن کے سارے انفراسٹرکچر کی تباہی کا سبب بن گیا ہے ، عام عرب ، کرد سب کے سب بس مر رہے ہیں یا ” مہاجر ” ہونے پر مجبور ہیں –نجات کا یہ خوفناک تصور ہے جو ری پبلکن نے پہلے افغانستان پر اور پھر عراق پر حملے کے دور سے متعارف کرایا تھا اور اس کے مقابلے میں نجات کا دوسرا تصور نام نہاد جہادیوں نے متعارف کرایا جس کی خوفناک تعبیر کا خمیازہ سنّی ، شیعہ ، کرسچن ، یزیدی ، کرد سب نے بھگتا ہے اور اب یہ مشرقی شام کے اندر ” سلفی ریاست ” کے قیام کو ” نجات ” کا ” صائب راستہ ” بتلانے پر تلے بیٹھے ہیں اور مسلم معاشروں میں درندوں نے کہیں محمد بن عبدالوہاب ، کہیں شیخ ابن تیمیہ ، کہیں مختار ثقفی ، کسی نے صلاح الدین ایوبی تو کسی نے نورالدین زنگی ، کسی نے مسلم بن عقبہ کا کاسٹیوم پہن رکھا اور کوئی سنّیوں کی نجات کی دھائی دیتا ہے تو کوئی شیعہ کی ، کوئی خود کو یزیدیوں کے غم میں گھلا بتلاتا ہے تو کوئی کردوں کے اور سب کی اصل ” سامراج اور اس کے اتحادیوں ” کی پراکسی سے زیادہ کچھ نہیں ہے
http://www.al-monitor.com/pulse/originals/2015/03/turkey-pakistan-friendly-warning-mistakes.html#
Source: